پاکستانی امام مسجد کی پادری پوتی کا کینیڈا میں انٹرویو : بہت ہی جاندار تجزیہ کیساتھ
اکتوبر 31, 2025
پاکستانی مسجد امام کی عیسائی پوتی: پاکستان مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو سو ملین سے زیادہ ہے، جہاں 1.2فیصد مسیحی ہیں۔ان کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، اکثر اوقات انہیں وہ مواقع نہیں ملتے جو اکثریت کو حاصل ہیں۔ میرا دادا ایک مسلمان امام تھا، مذہبی پیشوا۔ پھر خدا نے بہت چھوٹی عمر میں انکے دل میں تبدیلی پیدا کر دی، وہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان مناظرے کرتے تھے اور مسیحیوں کو اسلام قبول کرانے کی کوشش کرتے۔ خدا نے انکے دل میں بیج بویا،اسکے بعد وہ پادری بن گئے پھر سیاست میں بھی آئے۔یوں دونوں صلاحیتوں کو ساتھ رکھا، بہت لوگوں کو مسیحیت کی طرف لائے۔
میزبان: واقعی غیر معمولی ورثہ آپ کو ملا ہے۔ آج کے دور میں اسلام سے مسیحیت اختیار کرنا بہت دشوار ہے، بعض جگہوں پر اسے موت کی سزا کے قابل جرم سمجھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے دادا کے وقت میں یہ اور بھی خطرناک ہوگا۔
مسجد امام کی پوتی: جی ہاں!
سوال: اس فیصلے نے آپ کے والد پر اثر ڈالا۔ آپ کے والدین کی خدماتِ کلیسا میں تھیں۔ اس بارے میں بتائیں۔
جواب: میں تیسری نسل کی مسیحی ہوں۔ میرے دادا بہت کم عمر میں انتقال کر گئے، وہ45 کے لگ بھگ تھے۔ پھر میرے والد نے اس وراثت کو سنبھالا۔ اس نے کم عمری کی زندگی میں یسوع کو قبول کیا اور جان لیا کہ انہیں پادری بننا ہے۔ اس نے بائبل کو سیکھا اور اٹھارہ برس کی عمر میں اپنی پہلی کتاب لکھی، جو آج پاکستان کی جامعات اور اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ یعنی بہت جلد اپنی صلاحیت پہچان لی اور یہ بھی جان لیا کہ اپنے والد کی چھوڑی ہوئی میراث کو آگے بڑھانا ہے۔ پھر امی اور ابو کی شادی ہوئی اور وہ لاہور منتقل ہو گئے، جو پاکستان کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور وہیں سے انہوں نے اپنی خدمت کا آغاز کیا۔ پاکستان میں واقعی بہت سا جبر اور ایذا رسانی ہے، اسلئے میرے دادا اور والد کا یہ قدم بڑا جری اور بے خوف تھا کہ انہوں نے مسیح کا پیچھا کیا اور وہی بنے جو خدا نے انہیں بنایا تھا۔
سوال: کیا انہوں نے اس راہ کی کوئی خاص قیمت ادا کی ہے، یا زیادہ تر سماجی ردعمل اور دبا کی نوعیت کی بات تھی؟۔
جواب: سماجی ردعمل بہت زیادہ تھا، میرے دادا کیساتھ تو یہ ہوا کہ ان کا اپنا گھرانہ انہیں چھوڑ گیا، ان کے والد نے انہیں قبول نہ کیا، لہٰذا انہیں الگ رہنا پڑا، انہیں اپنے ہی خاندان نے عاق کر دیا۔ میرے والد کے معاملے میں چونکہ پورا قریبی خاندان مسیحی تھا، اسلئے خاندان میں ایسی اذیت نہیں ملی، لیکن معاشرے کی طرف سے بہت اذیت تھی، خاص طور پر جب ہم کھلے عام اپنے اجتماعات کرتے، تو لوگ، سیاست دان، حتی کہ ہمارے کچھ قریبی لوگ بھی ہمارے خلاف ہو جاتے۔
سوال: پاکستان میں اکثر سننے میں آتا ہے کہ لوگوں پر مذہب تبدیل کرنے کیخلاف قوانین کے تحت مقدمے بنا دیے جاتے ہیں، یا انہیں آگ لگا کر مار دیا جاتا ہے، افواہیں اڑتی ہیں اور پھر ہجوم قتل کر دیتا ہے۔ اس طرح کے خطرات دیکھ کر بھی آپ کے دل میں یہ بات جاگی کہ ضرور یسوع میں کچھ ایسا ہے جس کیلئے لوگ جان تک کا خطرہ مول لے لیتے ہیں۔
جواب: سب سے پہلے تو میں اپنے والدین کی وہ جرأت دیکھتی تھی کہ ہر اتوار کو، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کلیسا کے باہر فائرنگ ہو سکتی ہے، ایذا رسانی ہو سکتی ہے، لوگ انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں، پھر بھی بغیر کسی رکاوٹ کے اتوار کی عبادت کرتے۔ وہ ہمیں ہر اتوار صبح تیار کرتے اور کہتے کہ ہم کلیسا جائیں گے اور خدا کیلئے اپنی زندگیاں پیش کریں گے، چاہے کچھ بھی ہو۔ یہی بات میرے دل میں بیج بن کر پڑ گئی کہ میں اپنے ایمان سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ پاکستانی مسیحیوں کا وہ جوش بھی میں نے دیکھا کہ وہ ہر قیمت دینے کو تیار ہیں۔ میرے والد ایک واقعہ سنایا کرتے ہیں کہ ایک خاتون دلہن کے لباس میں کلیسا آئیں اور کہا کہ اگر ابھی میری موت بھی ہو جائے تو میں یسوع، اپنے دولہا، کے پاس سیدھی جاؤں گی۔ ایسی باتوں نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو گہرائی سے چھوا اور ہم نے ٹھان لیا کہ اگر یہ لوگ ایسا کر سکتے ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔
سوال: آپ تیسری نسل کی مسیحی ہو کر پروان چڑھیں۔ گھر پر خدمتِ کلیسا کا ماحول تھا، پادری آپ کے ہاں ٹھہرتے تھے، آپ سب کچھ دیکھتی تھیں، مگر آپ کے دل میں کہیں نہ کہیں وہ بات پوری طرح نہیں اتر رہی تھی، جیسا کہ شاید آپ کے والدین چاہتے تھے۔ آپ کے اندر کیا چل رہا تھا؟
جواب: جب میرے والدین پاکستان میں اپنا کلیسا تعمیر کر رہے تھے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی کلیساؤں میں سے ایک تھا۔ اب کلیسا کے30 ہزار ارکان اور 47 شاخیں ہیں۔ خدا Church of Pentecost کو بہت برکت دے رہا ہے۔ مگر اسی ماحول میں بہت اذیت تھی، لوگ آپ کے خاندان کو نشانہ بناتے ہیں۔ والدین نے ہمیں تحفظ کیلئے ایک طرح کے حجاب میں بہت محفوظ رکھا۔ اس سب کے درمیان میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں انکے پیشے کو اختیار نہیں کرنا چاہتی۔ اس وقت میرے لیے یہ بس پیشہ تھا۔ میں ایسی زندگی چاہتی تھی جس میں آزادی ہو، جو میں چاہوں وہ کر سکوں، چار دیواری میں مقید نہ رہوں، اسکول جاؤں تو سکیورٹی گارڈز کے ساتھ نہ جانا پڑے، اور یہ خوف نہ ہو کہ شاید واپس نہ آ سکوں۔ یہی باتیں ایک عرصہ تک مجھے دور دھکیلتی رہیں۔
سوال: آپ 2018میں کینیڈا آئیں۔ کلیسا جوائن کیا مگر بزنس اسکول میں داخلہ لیا، CEOبننے کیلئے آپ کے کلیسا نے انٹرن شپ کی پیشکش کی۔ اس کا بتائیں۔
جواب: یہ ہمارا مقامی کلیسا Lake Mount Worship Center ہے جو Grimsby میں ہے۔ میں کینیڈا آئی تو گریڈ 12تھا، یونیورسٹی دیکھ رہی تھی۔ میں کاروباری تعلیم چاہتی تھی اسلئے میں نے Toronto Metropolitan منتخب کیا تاکہ اچھی تعلیم لے سکوں، صحیح لوگوں سے جڑ سکوں اورتعلیم کے بعد اپنا بزنس شروع کروں۔ پھر COVIDآگیا، اور مجھے وہاں منتقل ہونے کا موقع نہ ملا، تمام کلاسیں آن لائن ہو گئیں۔ اس دوران والدین نے دیکھا کہ ہم نئے ملک میں تنہا ہو گئے ، کوئی کمیونٹی نہیں بنی، کمرے میں اسکرین کے سامنے رہتے ہیں۔ پھر میرے والد کی Lake Mount Worship Center سے شراکت شروع ہوئی۔ لیڈ پادری Pastor Matt Tapley ہیں ، انہوں نے والد کو انٹرن شپ پروگرام کے بارے میں بتایا۔ یہ گہرا discipleship پروگرام ہے، کردار سازی اور discipleship کیساتھ بائبل اسکول کورسز شامل ہیں، میں نے سمجھا کہ یہ paid internship ہوگی اور میں کما بھی لوں گی، یعنی سی ای او والے کیریئر کی سمت قدم ہوگا۔ مگر جب میں نے انٹرن شپ لیڈر Pastor Lisa سے باتیں کیں تو معلوم ہوا کہ آپ اپنا وقت اور خدمت کلیسا کو دیتے ہیں۔ میں نے والدین کی اطاعت میں اسے شروع کیا۔ ایک ہفتہ، پھر دوسرا ہفتہ، بہت overwhelming تھا، مگر اسی بے آرامی کے بیچ خدا نے میرادل بدل دیا اور میں نے جان لیا کہ مجھے یہی کرنا ہے۔ یہ تبدیلی بتدریج آئی۔ میں خود کو ضدی کہتی ہوں، اب اسے عزم کہتی ہوں، مگر اس وقت وہ ضد مجھے سب سے دور دھکیل رہی تھی۔ اس کے باوجود میں والدین کی عزت کرتی رہی اور خدا کی مرضی کا احترام کیا۔
سوال: تو بتائیں دل میں کیا تبدیلی آئی، آپ کی سوچ کیوں بدلی، کیا چیز بدل رہی تھی؟۔
جواب: ان لمحات میں مجھے ایک طرح کی تنہائی ملی جس میں میں نے جانا کہ مسیحیت یا خدا سے وفاداری کوئی ایسی بات نہیں جو مجھے صرف اسلئے کرنی ہے کہ میرے والدین اسکے پیرو ہیں۔ اسلئے مسیحی نہیں ہونا کہ والدین مسیحی ہیں، نہ اسلئے پادری بننا ہے کہ والدین پادری ہیں۔ یہ ایمان کی تلاش کا سفر تھا۔ میں چیزیں خود دریافت کرنا پسند کرتی ہوں، سو میں نے کہا کہ میں خود سمجھوں۔ جب خود سمجھنے نکلی تو خدا نے نہایت خوبصورتی سے میرا دل نرم کر دیا۔ میں نے اپنی ضد چھوڑ دی اور اسے اختیار دے دیا کہ وہ میری زندگی میں جو چاہے کرے۔ میں مزاحمت کر رہی تھی، دل میں بڑی دیواریں تھیں، مگر خدا خدا ہے، وہ اپنا راستہ بنانا جانتا ہے، سو اس نے سب کچھ بدل دیا۔
سوال آپ اسکوurrendered obedience کہتی ہیں۔ یہ ایک بار ہونے والی بات نہیں ہوتی، ہے نا؟۔
جواب: ہرگز نہیں۔ خدا کے آگے سر جھکا دینا یہ ہے کہ اپنی خواہشات چھوڑ دوں، CEO بننے، بہت پیسہ کمانے ،5 سالہ منصوبے کا خواب چھوڑ دوں، کیونکہ وہ سب زورِ بازو اور مرضی پر بھروسہ تھا۔ سچا سرنڈر یہ ہے کہ دل ومرضی خدا کے سپرد کر دیں اور کہیں کہ تیری تلاش ہی میری تلاش ہوگی۔ میں نے یہی کیا اور کرتی آ رہی ہوںکیونکہ اسکے راستے بہتر ہیںہمیشہ بہتر۔
سوال: پھر جب آپ نے وہ خواب چھوڑے اور وہ کرنے لگیں جو خدا نے آپ کیلئے رکھا تھا، یعنی (مسیحیت کیلئے خدمت) ministry، تو وہ کیسا تجربہ رہا؟۔
جواب: جب میں اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی تو دل میں خوف تھا، گھبراہٹ تھی، کوئی سکون نہ تھا۔ لیکن جب میں نے انہیں چھوڑ کر خدا کو مختار کیا تو غیر معمولی سکون، خوشی اور طمانیت ملی۔ یوں لگا جیسے کوئی پھل چکھا اور کہا کہ یہ تو ہمیشہ سے کہاں تھا۔ یہ ایسی تسکین تھی جس نے مجھے بھر دیا۔ تب میں نے کہا کہ میں اس میں اور گہرائی تک جانا چاہتی ہوں، جاننا چاہتی ہوں کہ یہ یسوع کون ہے جس نے میرا دل جیت لیا ہے۔
میزبان: یہ ہم سب جیسے ہیں کہ ہم اسی چیز سے لڑتے ہیں جو ہمیں خوشی دینے والی ہوتی ہے، مگر ہمیں خبر نہیں ہوتی۔
پاکستانی مسجد کے امام کی پوتی: بالکل۔
سوال: آپ کلیسا میں Alphaپروگرام میں مددگار تھی، جو لوگوں کو مسیحیت سے بغیر دھمکائے انداز میں روشناس کراتا ہے۔ ایک کتابچہ پاکستانی زبان اردو میں دیکھا۔ اس نے آپ کے دل میں کیا چنگاری بھڑکائی، وہاں سے کیا شروع ہوا؟۔
جواب: انٹرن شپ میں ایک انٹرن پادری سے جوڑا جاتا ہے تاکہ آپ ان کی خدمت کے شعبے کو قریب سے دیکھیں۔ میرا جوڑ Pastor Heatherسے ہوا جو Alphaکی پادری ہیں۔ میں انکے زیرِ سایہ Alpha کی مدد کر رہی تھی۔ اس وقت Alpha کا کچھ معلوم نہ تھاکہ کیا مدد کر رہی ہوں۔ وہ باورچی خانے میں کتابچہ دیکھ رہی تھیں۔ اسی زمانے میں Lake Mount میں بھی Alpha شروع ہو رہا تھا۔ وہ سمجھا رہی تھیں کہ Alpha کیا ہے، ہم سب اسے بہترین طریقے سے چلانے کا سوچ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ یہ کتابچہ اردو میں ترجمہ شدہ تھا، یہی بات میرے سامنے چمک اٹھی، میں اسے بھلا نہ سکی۔ میں گھر گئی اور والد کو بتایا کہ Lake Mountمیں Alpha پروگرام ہے ۔ میرے دل میں تھا کہ خدا ہمیں یہ پاکستان میں کرنے کو کہہ رہا ہے۔ انٹرن شپ میں میرا دل بہت نرم ہو گیا، خاص طور پر پاکستان کیلئے۔ چونکہ وہاں مسیحیوں کیساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک ہوتا ہے، بہت نوجوان صرف اسلئے ایمان چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں اپنی کمیونٹی میں عزت اور مواقع نہیں ملتے۔ خواہشوں کی خاطر مذہب تبدیل کر تے ہیں۔ یہ بات میرے دل کو توڑتی تھی کیونکہ میں نے اپنی خواہشیں چھوڑ کر خدا کی دی ہوئی راہ پکڑی اور مجھے سچی تسکین ملی۔ میں نے کہا خدایا اگر تو نے یہ میرے اندر کیا تو یہ وطن کے نوجوانوں میں بھی ہو۔ پھر Church of Pentecost اور Lake Mount کی قیادت نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم اسے پاکستان میں کریں گے۔میں اس وقت 19برس کی تھی۔
سوال: آپ نے Alpha Pakistanشروع کرنے میں مدد دی۔کتنے لوگ پروگرام سے گزر چکے ہیں؟۔
جواب: 18 ہزار۔ جی ہاں، تین سال ہوئے ہیں۔
میزبان:3 سال! کمال ہے۔ اور آپ یہیں نہیں رکیں۔ مجھے آپ کی یہ بات پسند ہے کہ لوگ عموما آپ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی عمر، کبھی جنس، کبھی نسل یا زبان کی بنیاد پر، کہ یہ نہ کرو۔ آپ نے یقین کیسے کیا کہ آپ کر سکتی ہیں؟۔
جواب: مجھے معلوم تھا کہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا ساتھ ہے۔ میں خدا کو نہیں کہہ سکتی کہ نہیں، میں اسکے ساتھ ضد نہیں کر سکتی۔ کم عمری میں ہی میں نے جان لیا کہ جب یسوع کے پیچھے چلتی ہوں تو مجھے نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ اس کی آواز بہت واضح تھی کہ یہ کرنا ہے۔ والدین اور خاندان کی پشت پناہی بھی تھی جو کہتے تھے ہم جانتے ہیں تم کر سکتی ہو۔ Alpha کو پاکستان لے گئے، سخت اذیت کے خطرات تھے اور انجام معلوم نہ تھا۔ کلیسا میں بہترین رہنما اور پادری ساتھ تھے جو ہمیں سنوار رہے تھے۔ اچھے لوگوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مجھے لگا تھا شاید یہ ایک چھوٹا سا کام ہوگا، دس پندرہ لوگ بیٹھ کر Alpha کریں گے۔ میرے ذہن میں بس یہی منظر تھا۔
سوال: آپ نے نہایت اہم نکتہ چھیڑا ہے۔ بائبل میں لوگ خدا سے کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کر سکتا، میں اچھا نہیں بولتا، میں قابل نہیں، تو خدا صرف یہ کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ تم بہت اچھے ہو، بلکہ یہ کہ میری معیت کافی ہے۔ آپ نے بھی یہی کیا، جو بہت دانائی کی بات ہے۔ اب آپ Wycliffe Bible Translators کیساتھ شراکت بھی رکھتی ہیں۔ اس کے بارے میں بتائیں۔
جواب: پاکستان میں بہت سی زبانیں ہیں۔کئی میں بائبل کا ترجمہ نہیں ہوا، جو حیرت کی بات ہے۔ بہت سے نوجوان اور عام لوگ اپنی مادری زبان میں بائبل پڑھ ہی نہیں پاتے اور یوں خدا سے جڑ نہیں پاتے۔ ہم نے کلیسا کے طور پر جانا کہ اس پہ کام ضروری ہے، اس لیے ہم نے Wycliffe کے ساتھ شراکت کی اور مختلف بولیوں میں بائبل کا ترجمہ کیا۔ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بھی خاصی ہے، اس لیے ہمیں معلوم تھا کہ بہت سے لوگ پڑھ بھی نہ پائیں گے۔ چنانچہ ہم نے اسے زبانی یعنی oral ترجمے کی صورت دی، جو نہایت خوبصورت بات تھی۔ مترجمین پورے پاکستان کے مختلف قبائل اور علاقوں سے آئے، ہم نے ان کے ساتھ تربیت کی، Wycliffe کی ٹیم ہمارے ساتھ تھی، انہوں نے ہمیں اچھی طرح سکھایا۔ پھر ہم بائبل کو پاکستان کے مختلف علاقوں تک لے گئے، جو بہت مبارک قدم تھا کیونکہ ہمارے ہاں یہی ضرورت ہے۔
میزبان: جن لوگوں کے پاس ہمیشہ سے مادری زبان میں بائبل رہی ہے، وہ شاید اس کے اثر کی قدر نہ جانتے ہوں۔ اپنی دل کی زبان میں اسے پڑھنے کی قوت کیا ہے؟۔
جواب: جب آپ زخمی یا روتے ہیں تو اپنی مادری زبان میں بولتے ہیں، والدین سے بات کرتے ہیں تو بھی مادری زبان میں۔ خدا سے جڑنے کیلئے سچا اور اصل ہونا ضروری ہے، اسلئے اپنی مادری زبان میں بائبل جاننا نہایت اہم ہے۔ ہمارا دل یہی تھا کہ ہر شخص، ہر نوجوان کو یسوع تک اپنی زبان میں رسائی ہو۔ انہیں انگریزی یا قومی زبان اردو سیکھنے کی مجبوری نہ ہو، بلکہ جس طرح چاہیں یسوع سے جڑ سکیں۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ زبان ان کے اور خدا کے بیچ رکاوٹ بنے۔
میزبان: یہ محبت اور عزت دینے والا عمل ہے۔ آپ کے دل میں خواب ہے کہ کل کے رہنما نوجوانوں کو تیار کیا جائے اور انہیں مشن فیلڈ میں بھیجا جائے۔ اس بارے میں بتائیں۔
مسیحی خاتون: انٹرن شپ کے دوران میرے دل میں تبدیلی آئی تو میں چار سال کی انٹرن شپ کر چکی ہوں اور مختلف پادریوں کے زیرِ سایہ خدمت کر چکی ہوں۔ تیسرے سال میں میں Pastor Becky کے زیرِ سایہ تھی جو Lake Mount میں ہماری missions pastor ہیں۔ ان کے ساتھ رہ کر میں نے دیکھا کہ خدا دنیا بھر میں کیا کر رہا ہے، اس نے میرا دل بدل دیا۔ مجھے مشنز کیلئے دل ملا اور ساتھ ہی ایسے نوجوان قائدین کیلئے جو صلاحیت اور بلاہٹ رکھتے ہیں کہ دنیا میں جیسے ممکن ہو انجیل سنائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ خدا مجھے انہیں ابھارنے، ان کیساتھ چلنے اور ان کی شناخت مسیح میں یاد دلانے کیلئے پکار رہا ہے۔ شناختی بحران نوجوانوں کا بڑا مسئلہ ہے۔ دنیا کی ثقافت ایک سمت، جبکہ بائبل کی ثقافت دوسری۔ لہٰذا کوئی تو ہو جو انہیں بتائے کہ وہ مسیحی کون ہیں۔ اسی لیے ہم نے نوجوانوں اور ینگ ایڈلٹس کی کانفرنسیں شروع کیں تاکہ انہیں بااختیار بنایا جائے ، بتایا جائے کہ وہ مسیحی کون ہیں۔
سوال: جب آپ یہ پیغام نوجوانوں تک لے کر جاتی ہیں، خاص طور پر جب انہوں نے پہلے یہ سنا ہو کہ ابھی انتظار کرو یا تم تیار نہیں، تو ان کا ردِعمل کیسا ہوتا ہے؟۔
جواب: پاکستان میں جب یہ پیغام ایک خاتون کی طرف سے آئے تو یہ خود بہت خوبصورت بات ہوتی ہے کیونکہ خواتین کو کم مواقع ملتے ہیں،جب یہ آواز ایک کم عمر خاتون سے آئے تو اثر اور بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں اکثر سمجھا جاتا ہے کہ پادری بڑے اور نہایت تجربہ کار ہوتے ہیں۔ مجھے لگا کہ کوئی ایسا بھی ہو جو ان سے مربوط ہو سکے۔ علم الکلام کی زبان نہیں، بلکہ دل سے دل کی بات۔ میں جانتی تھی کہ خدا نے یہ میرے اندر کیا اور یہ کسی بڑے شوروغل سے نہیں، بلکہ چھوٹی سی ملاقات سے شروع ہوا۔ میں نے عورتوں کو یہ کہتے سناکہ اگر وہ کر سکتی ہے تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔ ہم نے صرف نداسے بیشمار نجاتیں دیکھی ہیں۔ خواتین کو ہم نے کلیسا میں خدامت کرتے دیکھا۔ مرد بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم مرد ہیں مگر آپ ہمیں متاثر کرتی ہیں، جو خدا نے آپ میں کیا وہ ہم میں بھی کر سکتا ہے۔
میزبان: یہ بہت خوبصورت ہے، اور آپ تو ابھی آغاز ہی پر ہیں۔ آپ کی عمر 24 ہے۔ ابھی منگنی ہوئی ، مبارک ہو۔ آگے وہ کون سی باتیں ہیں جو خدا آپ کے دل میں ڈال رہا ہے، جو آپ دنیا میں اپنے وسیلے سے دیکھنا چاہتی ہیں؟۔
جواب: یہ تو گویا5 سالہ منصوبے کا سوال ہے۔ بہرحال، میں خود کو خدمتِ کلیسا میں ہی دیکھتی ہوں، خواہشات کے پیچھے نہیں دوڑنا چاہتی۔ اگر میں مستقبل کی طرف دیکھوں تو وہ وہی خدمت ہوگی جس کیلئے خدا نے مجھے بلایا ہے۔ میری تمنا ہے کہ نوجوان اور ینگ ایڈلٹس یسوع کو جانیں، خواہ منادی کے ذریعے، خواہ کلیسا کی خدمت کے ذریعے۔ وزارت صرف اسٹیج پر کھڑے ہو کر بولنے کا نام نہیں، بلکہ سب سے پہلے اپنی زندگی سپرد کرنا ہے کہ خدا تمہیں بدلے اور وہی اختیار سنبھالے۔ میرا پیغام نوجوانوں کیلئے یہی ہے کہ اس پر بھروسہ کرو، اور یہی پیغام میں دنیا کے ہر شخص تک، خاص طور پر ان علاقوں تک پہنچانا چاہتی ہوں جہاں مسیحیوں پر جبر ہے، جہاں نوجوان لڑکیاں زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کی جاتی ہیں، جن کے پاس آگاہی نہیں، جن کا کوئی محافظ نہیں۔ وہاں ایک آواز کی ضرورت ہے۔
میزبان: مسیحیت کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یسوع ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم اسے چنیں، وہ ہمیں مجبور نہیں کرتا، نہ کنجِ دیوار میں لاتا ہے، فیصلہ ہمیں کرنا ہوتا ہے۔ جب میں دنیا بھر میں آپ کے اثرات دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ بہت سے لوگ کلیسا جاتے ہیں، ہم یسوع پر ایمان رکھتے ہیں، اپنے ایمان کے پابند ہیں، مگر آپ میں تبدیلی لانے کی آگ ہے، اور یہ ایک مختلف بات ہے۔ جو لوگ خود کو معمول پر آتا ہوا محسوس کرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ خدا ان سے کچھ بڑا کام لے، وہ اس آگ کو کیسے پائیں؟
جواب: میں خود کو بار بار یاد دلاتی ہوں کہ خدا نے میری زندگی کیلئے ایک مقصد اور منصوبہ لکھ رکھا ہے جو میری پیدائش سے پہلے لکھا گیا۔ پھر میری زندگی کی آیت یہ ہے کہ میں مسیح میں سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے قوت دیتا ہے۔ مجھے انسان پر بھروسہ نہیں کرنا، اپنی توقعات کسی اور میں نہیں رکھنی، بلکہ نگاہیں سیدھی اس پر رکھنی ہیں کہ وہ میری زندگی کا قائد ہو، وہی میرے لیے سی ای او ہو، اور وہی مجھے لے چلے، تب سب ٹھیک ہوگا۔ بس اسے ہاں کہو۔ اس کے راستے بہتر ہیں۔ اس کی تلاش کو اپنی تلاش بنا لو، اس کی ہاں کو اپنی ہاں بنا لو، اس کے آگے جھکنے پر آمادہ ہو جا، پھر خدا وہ کرے گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ عجب بات یہ ہے کہ اس کے منصوبے میں زیادہ تسکین ہے، زیادہ سکون ہے، زیادہ خوشی ہے۔ جب تم دوسری طرف پہنچتے ہو تو کہتے ہو اوہ، یہیں تھا جو مجھے چاہیے تھا، اور مجھے خبر نہ تھی۔ میری خواہش ہے کہ سب یہ جانیں کہ نجات میں خوبصورتی ہے، اور اپنے دل میں اسے آنے دینے اور اپنی زندگی اس کے سپرد کرنے میں بے پناہ حسن ہے۔
میزبان: کیا کبھی آپ کو ڈر لگتا ہے جب وہ آپ کو آپ کے کمفرٹ زون سے باہر کچھ کرنے کو کہتا ہے، آپ ہزاروں کے سامنے منادی کر چکی ہیں، تو کیا دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں کیا کر رہی ہوں؟۔
جواب: ایسا بھی ہوا ہے، میں یہ نہیں کہوں گی کہ کبھی خوف نہ آیا ہو۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہے۔ جب بھی میں ہزاروں لوگوں یا نوجوانوں کے سامنے بولنے جاتی ہوں، میں خود بھی صرف چوبیس برس کی ہوں۔ دل میں آتا ہے کہ اگر لوگ مجھے جانچیں گے تو کیا ہوگا، اگر میں ان کی نظر میں کافی کول نہ ہوئی تو، اگر میری زبان ٹھیک نہ رہی تو، اگر میری بات انکے دل سے نہ لگی تو یہ سب ذہن میں آتے ہیں۔ مگر میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ میرا کام بس وہ کرنا ہے جو خدا نے مجھے کہا ہے، اس کے بعد روح القدس کو اختیار دینا ہے کہ وہ کام کرے۔ میں اپنی قوت سے کچھ نہیں کر سکتی۔ میں خود کو ایک خالی برتن سمجھتی ہوں اور خدا کو اپنے اندر سے بہنے دیتی ہوں، اور یہی مجھے زندگی کے سارے خوف اور اضطراب پر غالب آنے کی قوت دیتا ہے، خواہ ہزاروں کے سامنے منادی ہو یا کسی غیر ایمان والے کے سامنے اپنے ایمان کی بات کرنا۔
ــــــــــ
امام مسجد کی پادری پوتی : تجزیہ!
اس انٹرویو میں چند اہم نکات ہیں جو نوٹ کرنا چاہیے۔
1: اس لڑکی نے بچپن میں سمجھا تھا کہ والدین کا یہ ایک پیشہ ہے جو خطرات اور پابندیوں سے جڑا ہوا ہے۔ جیسے کشتیوں پر رسک لینے والوں اور فوجی سپاہیوںکو جنگی محاذوں پرمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس کو بطور پیشہ اختیار نہیں کرے گی۔
2: جب کینیڈا میں معلوم ہوا کہ اس کے پاس CEOبننے کا چانس نہیں ہے تو اس کو مجبوری میں پادری کیلئے وقف ہونا پڑا ہے۔ اگر اس کے پاسCEOبننے کا راستہ ہوتا تو وہی کرتی۔
3: اس کو بائبل کی تعلیم اور مذہب کی خدمت کے دوران یہ احساس نہیں تھا کہ وہ کیا خدمت کررہی ہیں لیکن ایک تنخواہ کیلئے گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ صرف یہ بات اہم لگی کہ بائبل کا ترجمہ کسی اور زبان سے اردو میں ہوا اور دوسری زبانوں میں کرنا ہے۔
4: اس تعلیم میں ایک بنیادی بات مسیحی بنیاد پر مذہبی بننا ہے اور دوسرا دوسرا مسیحیوں کیساتھ امتیازی سلوک کا درد رکھنا ہے۔
5: مسیحیت کو پرانے مذہبی لبادے سے ایک ماڈل نوجوان لڑکی کی دلچسپ صورت میں تبدیل کرنا ہے۔ کیونکہ مذہبی تعلیم میں وہ دلچسپی نہیں جو جوان لڑکی جوانمردوں کو متاثر کرتی ہے۔
6: اس مجبوری میں ایک جوان لڑکی کو خطرات بھی لینے ہیں اور جس مذہب کی گوروں کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے تو پاک وطن کی اپنی نسل کو اس میں قربانی کے کاروبار میں لگانا ہے۔
7: اگر آزادی دی جائے تو جنسی اشتعال انگیزی اورتشدد کیا جائے تو مذہبی اشتعال انگیزی کو فروغ ملے گا۔
دوسری طرف حریم شاہ بھی مدرسہ کی فارغ التحصیل مولانا ہیں۔ گل چاہت اور مہک ملک بھی ڈانس اور تبلیغ دنوں ہی کرتی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کو مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع نے دارالعلوم کراچی میں گھر خرید کر دئیے تو مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ وقف کی خریدوفروخت جائز نہیں اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ خریدنے اور بیچنے والا ایک ہی شخص ہو۔ اس پر مفتی رشیداحمدلدھیانوی کی تاریخی پٹائی لگائی گئی۔اب سودی نظام کو معاوضہ کے تحت جائز قرار دیا گیا ۔ مفتی محمد شفیع دیوبندی سے عثمانی بھی جعلی بن گئے کیونکہ عجمی نسل کی لڑکیوں کو بھگانے اور ان کا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست ہوتا ہے۔
حاجی محمد عثمان کی خانقاہ میں فوجی وپولیس افسران، علماء اور تمام طبقے شامل تھے۔ تھوڑی سی آزمائش پر ایسے بھاگے جیسے خدا کو پہنچانتے ہی نہ تھے۔ مسلمانوں کا بڑا المیہ قرآن کے محکم احکام کو مسخ کرنا ہے۔ جب تک مسلمان دین فطرت اسلام کی طرف توجہ نہیں دیںگے تو کل یہ مولوی پادری بن جائیں گے اور حلالہ سے خلاصی پر کہیں گے کہ مسیحی مذہب ہی فطری ہے۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ