وہ اُمت ہلاک نہ ہوگی جسکا اول میں ، درمیان مہدی اور آخر عیسیٰ ہیں۔حدیث سے اِمام خمینی مراد ہے۔
اکتوبر 4, 2025

ایران اسرائیل کے ذریعے اسلحہ لیتا تھا تو سنی حکمرانوں نے سمجھا کہ شیعہ اور یہودی ہمیں ختم نہ کریں
علامہ شمس الدین شگری صاحب نے پوچھا کہ
سوال نمبر4: مسلمان فرقوں کی بنیاد کیا ہے؟
علامہ شبیر: امامت تک تعصب سے پاک شعور کا نہ ہونا۔امامت کو سب مانتے ہیں لیکن اپنا جو سبق بناکر رکھا ہوا ہے ان کی نہ اتباع کر نی ہے نہ حکمرانی کیلئے ان کے پیچھے چلنا ہے۔ تو پھر ایسی امامت کیا ہے ؟۔ اہل سنت کے چار امام ہیں وہ یہ مانتے ہیں کہ فقہ جعفریہ بھی ٹھیک ہے لیکن اس کو وہ سٹیٹس نہیں دیا انہوں نے۔ انہوں نے اس کو نکال کر علیحدہ رکھا ہوا ہے کہ یہ تو شیعہ فرقہ سے ہیں۔شیعہ سنی امامت میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ شیعہ امامت کا مقام غلط بڑھا دیتے ہیں اور سنی شیعہ امام کی پیروی کو دین کا حصہ نہیں بناتے۔ کہ بات ختم ہوگئی ۔
سوال نمبر7: امام مہدی سے متعلق آپ کا نظریہ منفرد ہے ۔
علامہ شبیر احمد اختر: شیعہ سنی مہدی و مسیح ابن مریم کوہم عصر سمجھتے ہیں پوری دنیا میں اسلام کو غالب کر دیں گے ۔یہ درست نہیں، ملت کو دو حصوں میں بانٹ دیا جب تک سنی شیعہ کی متفقہ قیادت نہیں آتی اسلامی غلبہ ملت مسلمہ کے بس میں نہیں، اسلئے عقیدہ امامت کا درست ادراک بہت ضروری ہے لیکن سنی عوام اور علماء خاص کر مولانا غلام اللہ خان ، مولانا غلام غوث ہزاروی جماعت اسلامی کے بانی کو بے دین، صحابہ کرام کا گستاخ اور یہودی ایجنٹ کہتے تھے۔ شاہ ایران کے حمایتی یورپ و امریکہ نے ایران کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ ایران نے مجبوراً بلیک مارکیٹ سے مہنگے داموں اسرائیل کے ذریعے اسلحہ حاصل کیا۔ پھر سنی عوام میں یہ نظریہ زور پکڑتا گیا کہ اسرائیل اور شیعہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جو سنی اقتدار کوملیا میٹ کر دینگے۔ صدام حسین نے شکست قبول کرلی ۔ خفت مٹانے کیلئے کویت پر حملہ کیا۔ امریکہ نے صدام حسین کی وفادار فوج کو ٹریکٹروں کے ذریعے مٹی میں دفن کیا۔ یہ حدیث کی بڑی دلیل ہے کہ مہدی کے خلاف لشکر کشی والی فوج کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ 1979میں امریکی صدر جمی کارٹر نے اسلحہ سے لیس بہترین فوج کو خمینی کا تختہ الٹنے کیلئے روانہ کیا مگر یہ فوج صحرا کے طوفان میں غرق ہوئی جو کہ تائید الٰہی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔
شمس الدین شگری: امام خمینی کو بارہواں امام مہدی کیسے کہتے ہیں؟۔
علامہ: امام مہدی سے متعلق 200 سے زیادہ حدیثیں ہیں، زیادہ تر حدیثیں بنائی ہوئی ہیں جو کہ عیسی علیہ السلام سے متصل ہیں۔ایک حدیث کو مانتا ہوں ۔ واقعات اسکے مطابق ہیں۔ رسول اللہۖ نے فرمایا: اس امت کے شروع میں ”میں” اور درمیان میں مہدی اسلئے امام مہدی کو درمیان میں آنا چاہیے۔ عیسی علیہ السلام کیساتھ لنک بنتاہی نہیں تو اسلئے میں امام مہدی کو اس حدیث کے مطابق سمجھتا ہوں ۔ اب 1447ہے40، 50 سال رہ گئے۔ اگر مہدی نہیں آئے تو کم از کم10، 15 سال میںظہور ہو نا چاہیے عیسی علیہ السلام سے بہت پہلے۔ ذخیرہ حدیث سے زیادہ اہمیت وجدانی کیفیت اور زمینی حقائق ہیں۔ اللہ نے یہ آلہ انسانی جسم میں رکھ دیا۔ احادیث سنی کتابوں سے ہوں یا شیعہ سے ان میں غلطی کا امکان ہے لیکن حدیث کا کون سا حصہ درست اور کونسا حصہ ملاوٹ شدہ ہے، زمینی حقائق سے حقیقت نکھر کر سامنے آئے گی۔ دینی بنیاد پر تصدیق شدہ حدیث کو قبول کیا جائے گا۔ فالھمھا فجورھا و تقوٰھھا اس آیت میں انسان کے اندر اللہ نے حق و باطل کی پہچان کا جوہر وجدان میں ڈال دیا ۔امام مہدی کا علیحدہ تشخص ہے اور وہ اہل تشیع اور اہل سنت دونوں میں سے نہیں ہیں۔
سوال: جو من میں آیاکہ مہدی کی حدیث کو مانوں یا نہیں؟۔
علامہ شبیر اختر: نہیں معلوم کہ کوئی خمینی کے امام مہدی ہونے والے میرے تصور سے متفق ہے یا نہیں۔ امام علی سے 11تک دشواری پیش نہ آئی کہ امام آنے والے کا تعارف کروا دیتے مگر آخری زمانے کی غیبت کبریٰ کا غلط تصور شیعہ میں رواج پا گیا۔ امام کو اقتدار میں لانے کیلئے عوامی حمایت ضروری تھی ۔جو غلط عقیدہ شیعہ کا ہوچکا، خمینی نے ولایت فقیہ میں امام المہدی کی نیابت سے جوڑ دیا۔ انہوں نے اعلان نہیں کیا کیونکہ ا غلط عقیدہ شیعہ میں موجود تھا اس سے وہ کیسے نکلتے؟۔ اپنا کام 10سالہ خلافت الٰہی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا۔ یہ وقت کیساتھ عوام کا شعور بیدار ہوکر وحدت انسانیت میں پھیل جائے گا۔ خمینی کو علم تھا کہ اسلام کووحدت انسانیت تک پہنچنا ہے کیونکہ فرقوںکی گہری جڑیں ختم نہیں ہوں گے۔ اسی لیے تو وہ آئیں گے۔ اگر فرقے حق پر قائم ہیں تو انکے آنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ آگاہ تھے کہ اصل کام بنی نوع انسان کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی ہے۔ نئی امت مسلمہ انسانیت کے اظہار کے ذریعے معرض وجود میںآئے گی۔ یہ ہوگی اُمت مسلمہ ،امام مہدی جو چاہ رہے ہیں وہ یہی ہے ۔ اسکے باوجود اگر تعصب کی بیماری ختم نہ ہوئی تو عیسیٰ ابن مریم باقی کے کام مکمل کریں گے۔
سوال: تفرقہ کا خاتمہ ،اتحاد اوروحدت امت کیسے ممکن ہے؟۔
علامہ شبیر اختر: اہل بیت میں رسول اللہ ۖکی بیویاں، بیٹیاں، بیٹے اور ان کی اولادیں سب شامل ہیں۔ دین کو قائم رکھنے میں سب کی خدمات ہیں، مگر جب کوئی شخص یا گروہ کسی کردار کو گھٹانے یا بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو تفرقہ ہوتا ہے۔بطور مثال مولا علی اور جعفر طیار دونوں اہل بیت میں شامل ہیں مگرجو مقام مولا علی کا ہے وہ جعفر تیار کا نہیں ۔ بی بی فاطمہ کے علاوہ تین بہنیں تھیں۔ دو بیٹیاں خلیفہ حضرت عثمان بن عفان کی زوجیت میں تھیں۔ ذی النورین کے لقب سے مشہور ہوئے لیکن ان بیٹیوں کا وہ مقام نہیں جو رسول اللہ ۖ نے فاطمہ کو جگر کا ٹکڑا کہہ کر ان کی فضیلت اور برتری کو نمایاں بیان کر دیا۔ لیکن تینوں بیٹیوں کو جعفر طیار کی طرح عزت و احترام سے محروم نہیں کیا ،سب کو عزت واحترام سے گفتگو کی جائے گی۔ ائمہ اہل بیت پرسنی شیعہ میں افراط و تفریط پیدا ہوئی۔
سوال: فدک پہ حضرت ابوبکر کو بات مان لینی چاہیے تھی؟۔
علامہ شبیر احمد: پہلے تینوں خلفاء راشدین کا ایمان رسول اللہ اور انکے گھرانے سے محبت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے، لیکن یہ خلفا ء معصوم نہیں، انکے دور میںکئی فیصلے 100 فیصد درست نہ تھے۔ ان پر پردہ پوشی سے سنی نے انکا حقیقی مقام کو داغدار کیا اور شیعہ ان پر الزام تراشیاںکرکے جابر اور غافل حکمرانوں میں شمار کرنے لگے یہ درست نہیں۔ پھر مولا علی سے تقویت نہ ملی تو تقیہ کے پردے میں چھپا کر مولائے کائنات کا کردار داغدار کیا۔ خلافت کا غصب درست نہیں مولا علی نے جائز خلافت تسلیم کیااور تینوں خلفائے راشدین سے بھرپور تعاون کیا۔ ان سب کا دور حکمرانی رحماء بینھم کی بہترین مثال ہے ۔
سوال: کیسے سمجھ میں آئے گاکہ انتظار میں تم بیٹھے ہو امام ا چکا ۔
علامہ شبیر احمد اختر: امام خمینی نہ تو سنی اورنہ شیعہ قید میں۔وہ آزاد تھے۔اسلام کی صحیح نمائندگی کا سسٹم نافذ کیا تھا۔ سنی اور شیعہ کو برابر مقام دیا۔ کسی کو کم تر نہیں جانا۔ اگر سارے اس کو اپنا لیں تو پھر یہ پوری امت دوبارہ اکٹھی ہو سکتی ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ