پوسٹ تلاش کریں

شیعہ علامہ حیدر نقوی اور سنی جاوید غامدی میں فرق

شیعہ علامہ حیدر نقوی اور سنی جاوید غامدی میں فرق اخبار: نوشتہ دیوار

علامہ حیدر نقوی کاشیعہ سنی کیلئے مینارۂ نور بڑا خطاب

محمد و آل محمد یہ اللہ کے حکم کو فالو کرتے ہیں یا اللہ کا حکم ان کو فالو کرتا ہے ؟۔یعنی جو یہ کہے اللہ کو حکم دیتا ہے یا اللہ جو حکم دیتا ہے وہ یہ کرتے ہیں؟۔ اور قرآن میں فرمایا سور ةالاحزاب کے شروع میں توجہ کریں و اتبِع ما یوحیٰ اِلیک مِن ربِک۔ پہلی ایت یہ ہے یا ایھا النبی اتق اللہ اب جو بات بتانے لگا ہوں میں اس مائنڈسیٹ کو دیکھیں اور دیکھیں کہ کیا پوزیشن ہے۔ کس نے قوم کے ساتھ یہ کام کیا؟۔یا ایھا النبی اتق اللہ اے نبی! اللہ سے ڈر اللہ کا تقوی اختیار کرو۔ ولا تطع الکافرین والمنافقین اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مان ان اللہ کان علیماً حکیماً بے شک اللہ خوب علم رکھنے والا اور حکمتوں والاہے۔واتبع ما یوحٰی الیک من ربک اور اتباع کر اے رسول اس کی جو تیرے رب کی طرف سے تجھے وحی کیا جارہا ہے۔ واتبعاور اتباع کر حکم دیا جارہا ہے۔ کس کی ما یوحٰی الیک جو وحی کیا جا رہا ہے آپ کی طرف من ربک آپ کے رب کی طرف سے ان اللہ کان بما تعملون خبیراً بے شک جو تم عمل کر رہے ہو اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔

رسول نے کس کو فالو کرنا ہے اللہ کے قرآن کو۔ اول المسلمین کا مطلب کیا ہے؟، سب سے پہلے اللہ کے حکم کے آگے سر جھکانے والا ۔ وہ حکم کیا ہے قرآن۔ سورہ الزخرف میں فرمایا: فاستمسک بالذی اوحی الیک اے رسول !جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے فاستمسک اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ جس کو ہم تمسک کہتے ہیں۔ انک علیٰ صراط المستقیم ۔یعنی اس کو مضبوطی سے تھامے رکھ یقینا تو صراط مستقیم پر ہے۔ وانہ لذکرلک ولقومک اور یقینا یہ قرآن آپ کیلئے اور آپ کی قوم کیلئے بھی ذکر ہے نصیحت رہنمائی ہے، و سوف تسئلون اور عنقریب تم سب سے اس قرآن کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ یہ ہے قرآن کا لب و لہجہ ۔

کوئی صاحب ، اللہ تعالی ہم سب پہ رحم فرمائے وہ بلکہ آپ کو میں وہ عبارت سنا دوںانہوں نے لکھا ایک کلپ کے کمنٹ میں کہ نقوی صاحب! آپ نے دوسری مرتبہ گستاخی کی ہے کہ یہ ہستیاں قرآن کو فالو کرتی ہیں۔ یعنی یہ کہنا کہ رسول اللہ اور اہل بیت قرآن کو فالو کرتے ہیں یہ ان کی گستاخی ہے۔ جناب! یہ جو گھروں میں قرآن ہے یہ قرآن صامت ہے اور یہ ہستیاں قرآن ناطق ہیں اور یہ قرآن کے وارث ہیں اور اپنی دلیل ہے کہ وارث ہمیشہ ورثے سے افضل ہوتا ہے کبھی دیکھا ہے کہ بڑا چھوٹے کو فالو کرے۔ ہمیشہ بڑا ہی لیڈ کرتا ہے۔ پھر ان کو میں نے اپنی طرف سے یہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 2 بھیجی۔ جبکہ عام طور پر بھیجتا نہیں ہوں۔ کیونکہ زیادہ فائدہ نہیں لگتا کیونکہ جو بات ہوتی ہے وہ تو ویڈیو میں کر دگئی ہوتی ہے۔ لیکن یہ آیت بھیجی اصل بات آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں۔ میں نے آیت کونسی بھیجی۔ واتبع ما یوحٰی الیک من ربک ان اللہ کان بما تعملون خبیراً ۔اور اے رسول آپ کے پروردگار کی طرف سے جو آپ پر جو وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع کیجیے اللہ یقینا تمہارے اعمال سے خوب باخبرہے۔

یہ میں نے آیت بھیجی اسکا جو انہوں نے جواب دیا ہے اس کی طرف آپ توجہ کیجئے۔ یہ مائنڈ سیٹ اس کا مطلب قرآن مجید سے ہدایت کا راستہ بند ہے۔ لفظ دیکھیے انہوں نے کیا فرمایا۔ لکھتے ہیں پھر وہی بات، یعنی قرآن کی آیت پڑھ کے کہتے ہیں پھر وہی بات۔ قبلہ ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کر دیا۔یعنی قرآن کے ظاہر کو دیکھ کر آپ نے فیصلہ کر دیا۔ اس کا مطلب کیا ہے قرآن کے ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔ جب قرآن کے ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا تو آپ کے ائمہ نے فرمایا کہ روایات کو قرآن پر پیش کرو، تو ظاہر تو ویلیو نہیں رکھتا تو کس قرآن پر آپ نے پیش کرنا ہے۔

اب ان کے ذہن میں یہ بات کہاں سے آئی ہے؟۔ کس نے ڈالی؟۔ وہ مجرم ہے اصلی۔ وہ لوگ بھی ہیں جو عقل استعمال کرنے کو تیار نہیں کہ ائمہ فرما رہے ہیں روایات کو قرآن پر پیش کرو اور خلاف قرآن قبول نہ کرو۔ اورآپ کو کس نے پھر کہا کہ ظاہر قرآن کو دیکھ کر فیصلہ نہیں ہو سکتا تو پھر روایات کس کو پیش کر نی ہیں۔ ہوگا کیا اس کا نتیجہ؟، آپ کوئی روایت پڑھتے ہیں جو آپ کو قرآن کے خلاف لگ رہی ہے، آپ قرآن کی آیت کو پیش کرتے ہیں کسی اس فکر کے بندے کو وہ آپ سے کہے گا کہ ظاہر قرآن کو دیکھ کر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ تو یہ روایات کو قرآن پر پیش کرنے کا دروازہ بند۔ یہیں پر ایک اور بات کی وضاحت کر دوں۔ روایات اہل بیت میں قرآن کے بطون، قرآن کے باطن کے بارے میں کہا گیا ۔بعض روایات میں لفظ آیا 7 بطون ہیں، بعض میں ہے 70 بطون ہیں۔ یعنی ایک قرآن کا ظاہر ہے ایک اس کا باطن۔ جیسے ایک سمندر ہوتا ہے نا آپ کو ایک تو سمندر کے اوپر چیز نظر آرہی ہوتی ہے لیکن اگر آپ غوطہ لگائیں اندر جائیں تووہ چیزیں بھی انسان کو دکھائی دیتی ہیں جو باہر سے دکھائی نہیں دیتیں مثال کے طور پر گہرائی اب کچھ لوگ یہ بطون کے لفظ کو غلط معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک قرآن کے باطن کا ایک صحیح معنی ہے اور ایک قرآن کے باطن کا غلط معنی ہے۔

خوب توجہ فرمالیں۔ صحیح معنی کیا ہے کہ قرآن مجید جیسے اللہ کے نبی کے فرامین میں اوراصول کافی میں بھی روایت ہے کہ قرآن ظاہرہ انیق، قرآن کا ظاہر بہت خوبصورت ہے۔ و باطنہ عمیق اور اسکا باطن بہت گہرائی والا ہے۔ ایک تہہ، دوسری تہہ، تیسری تہہ۔ اترتے جاؤ اترتے جاؤ۔ انسان اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا ۔چونکہ یہ علم پروردگار سے نازل ہوا ہے۔ پروردگار کا علم لا محدود ہے۔ہاں تم جتنا اسکے قریب آؤ گے اور تمہارے سامنے گہری باتیں کھلیں گی۔ جو پہلے دن نہیں کھل سکتی تھیں، دوسرے دن ، تیسرے دن۔ توجہ فرمارہے ہیں؟، ایک ہے اس قرآن کی گہرائی ،یہ مراد باطن سے ہے۔ یہ ہے صحیح معنی بطون کا۔ اور ایک ہے غلط معنٰی ہے جو اس قسم کے لوگوں نے جو ظاہر قرآن کو تقریباً لفٹ نہیں کرواتے وہ کیا کہتے ہیں ایک حدیث مثلا ًحدیث اسلئے کہہ رہا ہوں کہ حقیقت میں خلاف قرآن حدیث ہو ہی نہیں سکتی لیکن چونکہ حدیث کی کتابوں میںآگئی ہے وہ چیز اسلئے اس کو حدیث روایت کہا جاتا ہے۔

حدیث ہمارے سامنے آئی جو خلاف قرآن ہے تو آپ کو کیسے پتہ چلا قرآن کے خلاف ہے ؟۔اسی قرآن کی ظاہری معنی سے لیکن یہ بندہ آپ سے کیا کہے گا، یہ کہاں سے تم کہہ رہے ہو قرآن کے خلاف ہے ۔ قرآن کے تو 70باطن ہیں، تو یہ ان 70میں سے ایک باطن ہے قرآن کا۔ یہ لوگ باطن سے کیا معنی لیتے ہیں جو ظاہر کے خلاف ہو۔ اگر ظاہر کے خلاف معنی بھی باطن میں شمارہو اور وہ بھی صحیح ہے تو بھی دروازہ بند ہو جاتا ہے روایات کو قرآن پر پیش کرنے کا۔ چونکہ آپ جو روایت بھی سخت خلاف لیکر آؤ قرآن کے توآپ سے کیا کہا جائے گا یہ قرآن کا باطنی معنی بیان کیا اہل بیت نے۔ حالانکہ اہل بیت نے فرمایا ہم خلاف قرآن نہیں بولتے۔ اور جب لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ روایت کو پیش کرو تو لوگ تو ظاہر دیکھیں گے نا۔ اور تو کوئی چیز نہیں ۔

بس قرآن کے بطون سے مراد اسکی گہرائیاں ہیں نہ کہ خلاف قرآن کوئی بات آگئی ہے روایات میں۔ کسی اور بندے نے ڈال دی ہے، کسی جھوٹے نے ڈال دی ہے، کسی غالی نے ڈال دی ہے اور اس روایت کو کہا جائے یہ تو خلاف قرآن ہے اور آپ کہیں کہ نہیں خلاف قرآن مت کہو قرآن کا ظاہر جو ہے اس کو دیکھ کے فیصلہ کر رہے ہو یہ قرآن کے باطنی معنوں میں سے ہے۔ خلاف ظاہر قرآن باطنی معنی یہ ناقابل قبول ہے یہ باطنی معنی نہیں ہے، ورنہ میں نے عرض کیا کہ وہ با ب ہی بند ہو گیا کہ جو بنیادی ترین اصول ہے غلط اور صحیح روایات کو پرکھنے کا کہ خلاف قرآن کونسی ہے اور قرآن کے مطابق کونسی ہے۔

پس بطون قرآن کا صحیح معنی بھی ہے اور بطون قرآن سے غلط معنی لے کر خلاف قرآن باتوں کو صحیح قرار دے دینا اور ان کو رد نہ کرنا یہ غلط معنی لے کر بطون سے بعض لوگ مثلاً عوام کے ذہنوں میں یہ ڈالتے ہیں اور قرآن کو گویا ریٹائرڈ کر دیا قرآن کے باطن کو ریٹائرڈ کر دیا ہے اور روز قیامت اللہ کے رسول کے اس شکوے سے نہیں ڈرتے کہ اے پروردگار!میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔( وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجورًا )(الفرقان )


 

غامدی صاحب اس ویڈیو میں قرآن، احادیث اور حضرت عمر کے اجتہاد کا حوالہ دیکر دراصل یزیدیت سے غامدیت تک اسلام کی اجنبیت بتاتا ہے

غامدی اور اس کی ذریت کو یزید سے پیار ہے۔اسکے شاگرد ڈاکٹر عرفان شہزاد نے ایک طرف کہا کہ حضرت علی کی خلافت منعقد نہیں ہوئی اور دوسری طرف کہا کہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، حسن اورامیر معاویہ کے مقابلے میں یزید کی خلافت سب سے زیادہ شرائط کے مطابق درست تھی۔

حضرت عمر نے حج وعمرے کے اکٹھے احرام سے روک دیا لیکن عبداللہ بن عمر نے بھی اس حکم سے اختلاف کیا اور حضرت عثمان نے سختی سے پابندی لگانی چاہی تو حضرت علی نے اعلانیہ مخالفت کردی ۔ (صحیح بخاری)۔ حضرت عمر نے طلاق کے مسئلے پر غلط اجتہاد کیا ہوتا تو حضرت علی مزاحمت کرتے لیکن حضرت علی نے حضرت عمر کی تائید وتوثیق کی۔ جب حضرت عمرکے دربار میں تین طلاق کا تنازعہ آیا جس میں بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو حضرت عمر نے اللہ کی کتاب قرآن ،سنت نبویۖ اور اسلام دین فطرت کے عین مطابق عورت کے حق کی حفاظت فرمائی اور شوہر کو رجوع سے روک دیا۔ ایک طرف دورِ جاہلیت میں عورت کی رضا کے بغیر شوہر کو ایک طلاق پر رجوع کا یک طرفہ اختیار حاصل تھا تو دوسری طرف 3طلاق کے بعد بغیر حلالہ کے رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔ صحابہ نے شرح صدرکیساتھ سمجھ لیا تھاکہ حلالے کا تصور قرآن نے ختم کردیا لیکن عورت کا حق غصب ہونے کا خطرہ پھر بھی موجود تھا اسلئے حضرت عمر کے ہاتھوں اللہ نے عورت کے حق کی حفاظت قرآن کے عین مطابق کردی۔ سورہ بقرہ کی آیت228میں یہ بالکل واضح ہے کہ ” عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہر طلاق کے بعد عورت کو لوٹانے کا زیادہ حقدار ہے”۔ عدالت یا حکمران کے پاس تنازعہ جاتا ہے ، اس نے نہ تو مدرسہ میںدالافتاء کھول رکھا ہوتا ہے اور نہ گدھ کی طرح TVاسکرین پر بیٹھ کر عوام کو گمراہ کرتا ہے۔ جب حضرت عمر کے پاس بیوی کو حرام کا لفظ کہنے پر تنازعہ آیا تو اس پر بھی یہی فیصلہ کرنا تھا مگر عورت رجوع کیلئے راضی ہوگئی تو پھر رجوع کی اجازت دیدی۔ پھر حضرت علی کے دور میں حرام کے لفظ پر تنازعہ آیا تو حضرت علی نے عورت کے حق میں فیصلہ دیا کہ رجوع کا کوئی حق شوہر کو حاصل نہیں ہے۔ قرآن وسنت سورہ تحریم و دیگر آیات میں سیرت نبویۖ سے یہ چیزیں واضح تھیں اور قرآنی آیات کی وضاحتوں میں کوئی تضادات نہیں ہیں لیکن غامدی کی دال اس ویڈیو میں بالکل بھی نہیںگل سکی۔

حضرت عمر کے سر پر طلاق بدعت، اجتہادی غلطی اور حلالہ کی صدیوں سے چالو لعنت ڈالنے کی جگہ یزیدیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ ایک اچھے معروف ضحاک عالم ہیں، دوسرا ظالم گورنر ضحاک تھا جس نے کہا کہ ”جو ایک ساتھ حج وعمرہ کا احرام باندھے تو وہ جاہل ہے۔ جس پر حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا کہ ایسی غلط بات مت بکو۔ میں نے رسول اللہۖ کو حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھے دیکھا۔ (صحیح مسلم) جس طرح بدبخت گور نر ضحاک نے جہالت سے نبیۖ کی توہین کا ارتکاب کیا ،اسی طرح یزیدیت کا کارنامہ تھا کہ حکمران فیصلہ کرلے کہ کس کی بیوی کو حلالہ کی مار کھلانی ہے اور کس کی نہیں؟۔ یہی مؤقف غامدی نے پھر سے تازہ کردیا ہے کہ فیصلہ تھانیدار یا جج کرے گا یا DC کے کس کی تین طلاق ہوگئی اور کس کی ایک طلاق؟۔

قرآن میں طلاق کا مسئلہ بالکل واضح ہے احادیث کی کتابوں میں بھی قرآن کے خلاف کوئی حدیث نہیں ہے۔ طلاق میں عورت کے حقوق زیادہ اور خلع میں کم ہیں اسلئے اگر شوہر طلاق دے اور پھر کہے کہ میں نے مذاق کیا تھا تو یہ طلاق پھر بھی مؤثر ہوگی اور عورت کو سورہ النساء آیت19 کے خلع نہیں سورہ النساء آیت20کے مطابق طلاق کے حقوق ملیں گے۔ اگر شوہر مکر جائے تو پھر معاملہ گواہ یا پھر حلف پر حل ہوگا لیکن اگر عورت راضی ہے تو پھر قرآن نے ڈھیر ساری آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی ترغیب ہے۔ قرآن میں جتنی طلاق کے معاملے پر وضاحت ہے اتنی کسی بھی اورمعاملے پر نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص سورہ الطلاق کی پہلی دو آیات اور سورہ بقرہ کی آیت230سے پہلے 228اور 229اور پھر اس کے بعد 231اور 232البقرہ دیکھ لے تو واضح ہوجائے گا کہ عدت کے اندر اور عدرت کی تکمیل کے بعد رجوع کی بنیاد قرآن نے باہمی رضامندی سے رکھی ہے جس کو کہیں باہمی اصلاح اور کہیں معروف طریقے کا نام دیا گیا ہے۔ آیت230البقرہ سے پہلے 229میں تین مرتبہ طلاق اور پھردونوں اور فیصلہ کرنے والوں سبھی کی طرف آئندہ رابطہ نہ رکھنے پر بھی اتفاق کی وضاحت ہے۔ جس کا مقصد عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی حق دینا ہے جو لیڈی ڈیانا سمیت آج بھی چھین لیا جاتا ہے۔

بخاری کی حدیث نمبر3586 میں دو فتنوں کا ذکر ہے ایک میں مال اور اولاد کا فتنہ ہے اور دوسرے میں سمندر کی مانندٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑا فتنہ ہے۔ جس سے حضرت عمر نے خاص طور پر اس میں متنبہ کرنا چاہا تھا۔حضرت حذیفہ نے کہا کہ اے عمرتم پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر نے کہا کہ وہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟۔ حذیفہ نے کہا کہ توڑا جائے گا۔ نبیۖ نے آخری خطبہ میں عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کی تلقین فرمائی اور اپنی عترت کا بھی خاص خیال رکھنے کی تلقین فرمائی۔ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے فتنے اور حضرت عمر کے درمیان کو نسا دروازہ تھا جس نے حضرت عمر کے بعد ٹوٹ جانا تھا؟۔

حضرت عمر کی شہادت کے بعد ان کے قاتل بیٹے سے قصاص نہیں لیا گیا ۔ قرآن نے قصاص میں حیات کا ذکر کیا ہے۔حضرت علی نے مطالبہ کیا مگر نہیں مانا گیا۔ پھر حضرت عثمان، حضرت علی کی شہادت سے فتنے شروع ہوگئے ۔ آج تک فرقہ واریت کا سمندر ٹھاٹیں ماررہاہے ۔ قرآن پر عمل معطل ہوگیا۔ ایک حرام کے لفظ پر بیسیوں اختلافات ہیں اور حلالہ کی لعنت زندہ کردی گئی۔ مزارعت کو جواز بخش دیا گیا اور خلافتیں خاندانی لونڈیاں بنادی گئی تھیں ۔ حضرت عمر نے خلافت کا حق اچھی طرح ادا کیا ،حضرت علی نہج البلاغہ

آج جاویداحمد غامدی نے اپنا پینترا بدل دیا ہے اور یزیدی ،مروانی اور عباسی سلطنت کی غلط باتوں کو خلافت راشدہ اور حضرت عمر کی گردن پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اگر حقائق کا پتہ چل گیا تو جس طرح فیلڈمارشل حافظ سید عاصم منیر اور ان کا شیعہ سسرال ایک دوسرے کیساتھ شیر وشکر ہیں اور آپس میں کوئی ناچاکی نہیں ہے ،اسی طرح دیوبندی شیعہ اور لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ اور سپاہ محمد والے بھی ایک پلیٹ فارم پر شیر وشکر ہوجائیں گے ۔ انشاء اللہ۔ عتیق گیلانی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

تبرج حسن نساء کی نمائش ،عورتوں کی زینت حسن نساء اورگھر سے باہر سینوں پر اپنے دوپٹے اوڑھنے کا حکم ہے
شیعہ علامہ حیدر نقوی اور سنی جاوید غامدی میں فرق
1500سو سالہ جشن ولادت مصطفی ۖ