پوسٹ تلاش کریں

یہود امام مہدی کی تلاش میں کیوں ہیں؟

یہود امام مہدی کی تلاش میں کیوں ہیں؟ اخبار: نوشتہ دیوار

پہلے ہمیں امریکہ اور یورپ میں یہ خطرناک نفسیاتی تصورکو سمجھنا ہوگا کہ ” جب کوئی جماعت کسی پیشین گوئی پر یقین رکھتی ہے اور اسکے پورا ہونے کا شدت سے انتظار کرتی ہے تو کائنات میں ایک توانائی حرکت میں آتی ہے جو اس پیشگوئی کو حقیقت میں بدل دیتی ہے”۔ چاہے یہ پیشین گوئی سچ ہو یاجھوٹ ؟ انکے خیال میں یہ توانائی اتنی طا قتور ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کو جنم دے سکتی ہے۔ ….. عنقاء مغرب

چینل قناة ”عنقاء مغرب”میں خوش آمدید ۔ آج ہماری قسط کا عنوان ہے : ” یہودی امام مہدی کو تلاش کررہے ہیں”۔

سوال یہ ہے کہ کیوں امام مہدی کا نام عالمی خفیہ ایجنسیوں کی میز پر موضوع بنا ہوا ہے؟۔ کیا خطرناک معلومات ان کے بارے میں حاصل کی جاچکی ہیں؟۔ امام مہدی کیوں دنیا کی خفیہ ایجنسیوں کے ریڈار پر ہیں ؟۔ اے اللہ کے پیارو! آئیے ہم صدق دل اور سکون کیساتھ اس نازک اور حساس باب میں داخل ہوتے ہیں۔ کیوں امام مہدی کا نام خفیہ ایجنسیوں کے دفاتر میںزیر بحث ہے ؟، کیوں وہ ہر اس سراغ یا اشارے کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی شناخت کی طرف جائے؟۔ پہلے ہمیں امریکہ اور یورپ میں موجود ایک بہت خطرناک اور نفسیاتی تصور کی حقیقت جاننا ہوگی۔ یہ نظریہ کہتا ہے :”جب کوئی جماعت کسی پیشین گوئی پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اس کو پورا ہونے کا شدت سے انتظار کرتی ہے تو پھر اس کی وجہ سے اس کائنات میں وہ خودکار توانائی حرکت میں آتی ہے جو اس پیشین گوئی کو حقیقت میں بدل دیتی ہے”۔ چاہے یہ پیشین گوئی سچ ہو یا جھوٹ ۔ان کے خیال میں یہ توانائی اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کو جنم دے سکتی ہے۔

( مولانا عبیداللہ سندھی نے شاہ ولی اللہ کے حوالہ سے یہی نظریہ نقل کیا کہ اہل حق کا عزم مضبوط ہو یا اہل باطل کا تو اس کا اثر خطیرة القدس پر پڑتا ہے۔اور پھر دنیامیں غلبے کی بنیاد عزم کی مضبوطی پر ہوتی ہے)۔

مغرب مہدی کی صرف کہانی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔کیونکہ انکے نزدیک اجتماعی پر جوش سوچ چیزوں کو حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ یہ ”قانون کشش” (Law of Attraction) کہلاتا ہے جس پر آپ توجہ دیتے ہیں وہی آپ کو حاصل ہوتا ہے۔

مغرب امام مہدی کو عدل کا منتظر نہیں نجات دہندہ سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے نظام کیلئے ایک خطرہ سمجھ کر تلاش کررہا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مہدی محض ایک خرافہ ہے تو پھراگر ایسا ہے تو مغرب یہ معاملہ اتنا سنجیدہ کیوں لیاہے؟، کیوں اس پر بجٹ بنتے ہیں؟،خفیہ فائلیں اور رپورٹ اس پر مبنی ہیں؟۔ جواب بالکل واضح ہے کہ

مغرب جانتا ہے کہ دنیا کو اصل میں خیالات ہی چلاتے ہیں۔ ایک ”خیال” ہی زمین کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ اسلئے وہ عوام کو سطحی چیزوں میں مصروف رکھتے ہیں۔ وہ انہیں ہر چیز سکھاتے ہیںمگر سوچنا نہیں سکھاتے۔ وہ انہیں آزادی کا دھوکہ دیتے ہیں مگر اصل میں انہیں صرف خواہشات اور لذتوں میں بند رکھتے ہیں ۔ گہری سوچ انکے منصوبوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔عالمی خفیہ ایجنسیاں جانتی ہیں کہ اگر کسی خاص شخص کا چرچا عام ہوجائے اگر ایک ارب سے زائد مسلمان اس پر یقین رکھتے ہوں تو یہ صرف خیال نہیں رہتا بلکہ ایک ایسی تونائی بن جاتی ہے جو حقیقت بن سکتی ہے۔ اسلئے جب کوئی انٹیلی جنس آفیسر اس حقیقت کو جان لیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ مہدی ایک نام نہیں بلکہ نظریہ ہے جو ان کے نظام کو ہلا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔مغرب سویا ہوا نہیں بلکہ بیدار ہے ۔انہیں معلوم ہے کہ مسلمان ایک دن یا سال نہیں بلکہ صدیوں سے مہدی کا انتظار کررہے ہیںاور جتنایہ انتظار بڑھتا ہے اتنا ہی اس کو پورا ہونے کی طاقت بڑھتی ہے اسلئے جب وہ مہدی کا نام سنتے ہیں تو انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔

مغرب میں ”تاریخ کے خاتمے کا نظریہ ” رائج ہے۔ جو بالواسطہ یہ اعتراف ہے کہ جب ان کی تہذیب ترقی کی آخری حد کو چھولے گی تو وہی ان کے زوال کی ابتداء ہوگی۔ یہی ابن عربی کا فتیٰ ساحل ہے۔ وہ مشرقی نوجوان جس کا انتظار اہل مشرق کررہے ہیں۔یہ پیشین گوئیاں صرف مسلمانوں نے کیں بلکہ مغربی نجومیوں نے بھی کیں۔

جین ڈکسن مشہور امریکی نجومی نے مشرق سے عظیم نوجوان کی آمد کی پیشین گوئی کی ہے

1:جو دنیا کا نقشہ بدل دے گا۔
2:مسلمانوں کو غیر معمولی فتوحات دے گا۔
3:مشرق وسطیٰ اور دنیا پر حکومت کرے گا۔
4:اس کی آنکھیں گہری بھوری ، رنگ سانولا، چہرہ لمبوترا،مضبوط جسم اورگھنگھریالے بال ہونگے۔
5:اس کا نام ”میم” سے وابستہ ہوگا۔
6:وہ پردے کے پیچھے کام کرے گا۔
7:اور اللہ کی طرف سے محفوظ ہوگا۔

یہ خواب 1962ء سے چھپائے رکھا کیونکہ دھمکیاں دی گئیں۔ ہم نجومیوں کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرتے مگر جب20 ویں اور 21ویں صدی میں یہ پیشین گوئیاں بار بار سامنے آئیں۔ جب مسلمان ایک ارب امام مہدی کے منتظر ہوںتو یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا ہے۔

نوسٹرڈیمیس نے بھی 1556میں ایک مسلم نوجوان کی آمد کی پیشین گوئی کی تھی۔ جو مشرق سے ابھرے گا ، بادشاہتوں کو گرائے گا اور تاریخ کا دھارا بدل دے گا۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مغرب ان پیشین گوئیوں کو نظر انداز کرسکتا ہے؟۔ ہرگزنہیں بلکہ وہ ان پر تحقیق کرتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ پیشین گوئیاں ذہنوں اور جذبات پر نظر انداز ہوتی ہیں۔

مغرب اسلام سے خوفزدہ ہے نہ کہ عیسائیت یہودیت سے کیونکہ اسلام صرف عبادت نہیں ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اسلئے : صلیبی جنگیں ہوئیں۔ خلافت عثمانیہ گرائی گئی۔عراق پر حملہ ہوا۔ مشرق وسطیٰ میں فتنہ بھڑکایا گیا۔یورپ میں مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں بنائی گئیں۔اسلامی شعار کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب اس خوف کا اظہار ہے۔کہ امام مہدی کا ظہور کہیں ان کے نظام کو نہ گرادے۔ اے اللہ کے پیارو! جب آپ سچے دل سے دنیا کا جائزہ لیتے ہیںتو آپ کو ایک ایسا عالم نظر آتا ہے۔جو انتشار میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایک ایسا نظام جو بظاہر ترقی یافتہ ہے مگر پس پردہ ایک خفیہ ہاتھ اسے کنٹرول کر رہاہے۔ یہ قوتیں ہمارے سامنے اسکرینوں پر نظر آتی ہیں مگر عوام کو موبائل اسکرینز اور روزمرہ کے شور میں مصروف رکھ کر غافل کردیاگیا ہے۔ ان کے درمیان فکری انتشار پھیلادیا گیا ہے تاکہ وہ نہ جان سکیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟۔ خفیہ ایجنسیوں کے سائے دار کمروں میں جہاں اندھیرے اور اسرار چھائے رہتے ہیںوہاں مہدی کا نام بار بارگونجتا ہے ، وہ خاموشی سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ خوابوں، اشاروں اور علامتوں کی تعبیرات پر اس کی تحقیق کرتے ہیں۔حتیٰ کہ ایماندار دلوں کی کیفیات کو بھی دیکھتے ہیں۔کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ جب کوئی سچی اور زوردار ”فکر” جنم لیتی ہے تو کوئی رکاوٹ اور دیوار اس کا راستہ نہیں روک سکتی ہے۔

تو پھر مغرب کو امام مہدی کے تصور کا اتنا خوف کیو ں ہے؟۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ ایک ارب سے زائد مسلمان اس ایک شخص کے منتظر ہیںاور ہر گزرے دن یہ انتظار شدید تر ہوتا جارہاہے۔انہیں معلوم ہے کہ یہ مہدی کا تصور دماغی وہم نہیں، بلکہ یہ عقیدہ ہے جو انسان کے ایمان کی گہرائیوں میں پیوست ہے۔یہ تصور بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ پلایا جاتا ہے ، یہی تصور اسے ظلم سے آزادی دیتا ہے۔ اس عقیدے نے مغرب کو ہمہ وقت چوکنا کررکھا ہے اسلئے کہ وہ جانتے ہیں عظیم خیالات کبھی نہیں مرتے۔ اور وہ امت جو ایک زبردست خیال کی وارث ہو ،وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔ چاہے وہ کمزور کیوں نہ نظر آئے۔

ان کا خوف صرف امام مہدی کی ذات سے نہیں بلکہ اس فکر سے ہے جو وہ مجسم کرتا ہے ۔کیونکہ امام ان کیلئے صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک عالمی نظام ظلم کے زوال کی علامت ہے۔

نظام پر مغرب کا تسلط ہے

1:ظلم پر قائم ہے۔
2:عوام کی محنت کو لوٹتا ہے۔
3:انسان کو شہوت پرست صارف (cosumrer) میں بدل دیتا ہے ۔
4:روحانی اقدار کو مٹاتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب امام مہدی آئیگا تو یہ سب کچھ زمین بوس ہوجائے گا۔یہ وہ کونیاتی قانون (UnivrsalLaw) ہے جس سے وہ ڈرتے ہیں۔”قانون کشش” یعنی جس خیال پر ایک گروہ خلوص نیت اور یقین کے ساتھ توجہ دے تو وہ خیال بالآخر طاقتور حقیقت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ جب وہ خود ہمیں میڈیا میں باور کراتے ہیں کہ امام مہدی ایک افسانہ ہے تو پھر وہ خود کیوں اربوں ڈالر اس پر خرچ کررہے ہیں؟۔ کیوں وہ مشرق ومغرب میں جاسوس بھرتی کرکے ہر حرکت ، ہرخواب اور ہر اشارے کی نگرانی کرتے ہیں؟۔ جواب واضح ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ افسانہ نہیں بلکہ ایک ایسی ”زندہ فکر”ہے ان کے نظام کیلئے زہر قاتل ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ امت اگر کمزور بھی ہو تب بھی اس کے دل میں ایک بیج ہے ۔ مہدی کا بیج۔ جو کبھی نہیں مرتا۔ یہ وہ شخص عدل کا توازن واپس لائے گا۔جو ظلم کے ستونوں کو گرائے گاجو حق کو اس کے مقام پر رکھے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ تاریخ اس لمحے کا انتظار کررہی ہے۔ اے اللہ کے پیارو!

نجومیوں کی رویائیں محض کھیل تماشا نہیں، جین ڈکسن جس نے فتیٰ مشرقی کی رؤیا دیکھی نہ صرف اس کا چہرہ دیکھا بلکہ :رنگ، آنکھیں،بالوں کی ساخت اور یہاں تک کہ اس کا نام ”میم” سے متعلق یہ بھی بتایا۔اور کہا کہ وہ پردے کے پیچھے کام کرے گا۔اللہ کے محفوظ منصوبے کا حصہ ہوگا۔ مشرق اور مغرب کو بدل ڈالے گا۔ یہی بات نوسٹر ڈیمس نے بھی کہی تھی کہ وہ مشرق سے آئے گا۔فتح کرے گا ، بادشاہتیں گرائے گا اور تاریخ کا دھارا بدل دے گا۔

تو کیا مغرب جو دنیا کی ہر چھوٹی بڑی بات پر نظر رکھتا ہے ، ان پیشین گوئیوں کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے؟۔ نہیں ! بلکہ وہ تحقیق کرتاہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ باتیں اگرچہ مذہبی عقائد میں لکھی ہوں مگر پھر بھی قوموں کے شعور پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔کیونکہ وہ امام مہدی کے تصور سے خوفزدہ ہیں اسلئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام صرف عبادت کا دین نہیں بلکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ اگر کوئی شخص آیا جس نے دلوں کو بیدار کردیا۔دین کو زندہ کردیا۔عدل کا نظام قائم کردیا تو ان کی ظالمانہ تہذیب جو ظلم ، حرص اور شہوت پر قائم ہے زمین بوس ہوجائے گی۔ اسلئے وہ حجاب کو روکتے ہیں۔اسلامی شعار پر حملہ کرتے ہیں ۔امت کو تقسیم کرتے ہیں۔خانہ جنگیاں کرواتے ہیں۔ گروہ بندیوں کو بھڑکاتے ہیں۔ تاکہ امت بیدار نہ ہو۔

وہ مہدی کے منتظر ہیں تاکہ اس سے لڑسکیں اور ہم منتظر ہیں تاکہ نجات پا سکیں۔ آج کا عالمی منظر عجیب تضاد سے بھرا ہوا ہے ۔ سائنسی ترقی عروج پر ہے مگر اخلاقی پستی انتہا پر۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا : فلسطین پر دنیا خاموش رہی ظالم کو بچایا گیا اور مظلوم کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ یہ انحطاط، یہ زوال محض اتفاق نہیں ،یہ سب اس بات کا اشارہ ہے کہ

حق کی آمد قر یب ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا(حق آگیا اور باطل مٹ گیا ،بیشک باطل مٹنے والاہی تھا)اسلئے مغرب کا خوف امام مہدی کے حوالے سے محض ایک سیاسی معاملہ نہیں بلکہ یہ ان کی پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔اس خوف میں صلیبی جنگیں ہوئیں۔خلافت گری۔ عراق پر حملے۔مشرق وسطیٰ کی آگ۔ اسلامی علامات پر پابندیاں۔ یہ سب ایک فکر کے خلاف ہے ۔ مہدی کی فکر کیوں؟۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امت اگر بیدار ہوجائے تو زمین کا چہرہ بدل سکتی ہے۔ یہ عام دور میں نہیں جی رہے بلکہ نقابوں کے گرنے اور حقیقتوں کے ظاہر ہونے کا دور ہے۔ یہ عالمی توجہ امام مہدی پر محض اتفاقی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہمیں بیدار کرنے کا اشارہ ہے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے تو اللہ کی یہ سنت ہے کہ ایک نجات دہندہ بھیج کر حق کو غالب کرتا ہے۔ امام مہدی وہی شخص ہے جس کو اللہ نے چن لیا ہے۔جو عدل کو زمین میں واپس لائے گا جو ظالموں کا تخت گرائے گا۔ خفیہ ایجنسیاں کیوں نہیں سوتیں؟۔ کیونکہ انکے بند کمروں میںاور خفیہ فائلوں میں مہدی کا نام موجود ہے۔ وہ میڈیا میں اسے جھٹلاتے ہیں مگر اندرون خانہ مہدی کی حقیقت کو مانتے ہیں۔ وہ اسے مشرق میں، مغرب میں، شہروں ، دیہاتوں میں اور خوابوںاور مختلف زبانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک سچی فکر جب یقین بن جائے تو حقیقت بن جاتی ہے۔ اب مہدی ایک خیال نہیں بلکہ ایک ارب مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ یہ انتظار وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ ایک زور دار توانائی پیدا کرتا ہے جو کائنات کو ہلا سکتی ہے۔

کیوں اتنا شدید خوف؟۔ اسلئے کہ وہ جانتے ہیں کہ رؤیا محض خواب نہیں بلکہ ”اللہ کے نظام کی علامتیں” ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مہدی محض ایک واقعہ نہیں بلکہ عالمی زلزلہ ہوگا جو ظالم نظام کو گرادے گااور انسانیت کو آزادی دے گا۔ اور اگر امت ایک دل کی طرح بیدار ہوجائے تو کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی ۔ امام مہدی ایک فوجی نہیں بلکہ فکر نجات ہے۔ اسے مارا ،اسے روکا نہیں جاسکتا۔کیونکہ وہ ایک وعدہ ہے اور ”وعدہ الٰہی” کبھی جھوٹا نہیں ہوتا ۔ وکان وعداللہ مفعولًا ” اللہ کا وعدہ تو گویا پورا ہوچکا”

فلسطین کے بچے، مائیں، مظلوم یہ سب قربانیاں اس دن کی تیاری ہے۔ جب مہدی آئے گا اور امت کو عزت واپس دے گا۔انسانیت میں معنویت کو لوٹائے گا۔ اور عدل کو زمین پر غالب کردے گا۔ تو اے بھائی ! ہمیں صرف انتظار نہیں کرنا بلکہ اپنے دل کو پاک کرنے میں اس وقت کیلئے تیار ہونا ہے کہ جب مہدی وہ شخص ہوگا جس پر مظلوموں کے دل متفق ہوجائیںگے۔ یہ محض ایک قیاس نہیں بلکہ ایک یقینی وعدہ ہے جس کی گھڑی صرف اللہ جانتا ہے۔ اور جب وہ گھڑی آئے گی تو انسانیت کی ایک نئی کہانی کا آغاز ہوگا جہاں ظلم ہارے گا اور حق جیتے گا۔ آخری پیغام یہ ہے کہ اے اللہ کے بندو!

آپ نے آج کے اس مبارک قسط میں وہ حقائق سنے جو عام لوگوں سے چھپائے گئے۔آپ کومعلوم ہوا کہ وہ امام مہدی سے کیوں خوف کھاتے ہیں؟،کیوں دن رات اس کی نگرانی کرتے ہیں ؟اور کیوں نیند ان کی آنکھوں سے غائب ہے؟۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہرظالم نے کہا کہ ہم ناقابل شکست ہیں مگر جب اللہ کا وعدہ آیا، وہ سب گر پڑے اور صرف حق باقی رہ گیا۔ جس نے یہ گمان کیا کہ یہ امت ابھی کبھی نہیں اٹھے گی ۔ وہ دیکھے کہ یہ امت ابھی جاگ رہی ہے۔ یہ وعدہ الٰہی ہے اور اللہ اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑتا۔ وکان وعد اللہ مفعولًا

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

امام مہدی کا زمانہ:شیخ تامر ابراہیم
مہدی کے قریبی افراد ہی اس پر سب سے زیادہ ظلم و ستم والے ہوں گے
مہدی العبقری (عبقری مہدی) جو اپنے زمانے سے آگے ہے اور لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔