سید عتیق الرحمن گیلانی کی ایک تحریر
اکتوبر 4, 2016
سپریم کورٹ کے فیصلے اور علماء ومفتیان کے فتوے میں اتنا بڑا تضاد کیوں ہے؟ ، قائدین قرآن وسنت کے مطابق عوام کیلئے عملی طور سے رول ماڈل کیوں نہیں بنتے ہیں؟
قرآن میں کفرواسلام اور بہت بڑے معاملے میں بھی درجہ بہ درجہ ، مرحلہ وار، باقاعدہ عدت اور پروسیس کا ایسا تصور نہیں جو اللہ تعالی نے طلاق کے حوالہ سے واضح کیاہے
ایلاء و ناراضگی میں چار ماہ کی عدت کا حکم دیا، جس میں باہمی رضامندی سے صلح و رجوع ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ عورت کی تکلیف کے باعث انتظار کاپابند نہیں بنایا گیا،
طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت کے تین مراحل یاماہ کا پابند بنایا جسمیں صلح کی شرط پر شوہر ہی رجوع کا حقدار قرار دیا، عدت تک کیلئے طلاق اور اسکو گننے کا حکم دیا،
بیوی کو اسکے گھر سے نکالنے اور نکلنے کو منع کیاالا یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہو، عدت کی تکمیل پر رجوع نہ ہوتوالگ کرنے کے فیصلہ پر دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا،


لوگوں کی راۓ