کربلا، حسین و یزید مکتب وجدان کے نقطہ نظر سے
جولائی 17, 2025

متنازعہ عراقی مفکر احمد القبانجی
شمس الدین حسن شگری سے عربی مکالمے کا کچھ حصہ۔
دین اسلام انسان اور خدا کے درمیان ایک رشتہ ہے۔ دنیاوی معاملات کا دین سے براہ راست تعلق نہیں۔مثلا شادی، خرید و فروخت آپ گاڑی بیچتے ہیں، خریدتے ہیں تو کیا یہ دین کے اصولی جزو ہیں؟ نہیں، نہ یہ دین کے ذاتی امور اور نہ بنیادی احکام۔ لیکن تیسری چیز دین انسانی زندگی کے ہر پہلو کو ایک الٰہی رنگ دیتا ہے۔قرآن کہتا ہے: صبغة اللہ، ومن احسن من اللہ صبغة” اللہ کا رنگ، اور اللہ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟”یعنی آپ کی خرید و فروخت، آپ کی شادی سب کچھ ایک عرفی (سماجی طور پر تسلیم شدہ) معاملہ ہے، لیکن جب وہ دینی رنگ اختیار کرتا ہے، تو ایک روحانی پہلو حاصل کر لیتا ہے۔حکومت بھی ایسی ہی ہے۔ یہ نہ دین کی ذات میں شامل نہ اس کی شاخوں میں، لیکن یہ الٰہی رنگ اختیار کرتی ہے۔اللہ چاہتا ہے کہ اسلامی حکومت ایمان دار ہو۔یعنی حکومت دنیاوی معاملات میںخدمات دیتی ہے، لیکن اسکا مزاج دینی ہو ایمان سے لبریز، اخلاقی بنیادوں پر چلنے والی جہاں حکام ایمان رکھتے ہوں،لوگوں کو روحانی اقدار کی طرف راغب کریں۔جیسے شادی عرفی بھی ہے، شرعی بھی لیکن جو شادی دینی رنگ رکھتی ہو وہ زیادہ مضبوط، اس میں زیادہ محبت ہوتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے۔
جواب:تاریخی واقعات میں اصل نیت کا تعین مشکل ہوتا ہے، کیونکہ صرف وہی شخص اپنی نیت کو جانتا ہے۔لیکن مورخین اور محققین مختلف قرائن و کلمات سے اندازہ لگاتے ہیں۔علمی منہج نیتوں سے سروکار نہیں رکھتامگر دین رکھتا ہے، کیونکہ حدیث ہے:انما الاعمال بالنیات، و انما لکل امرء ما نوٰی”عمل نیت کے مطابق ہوتا ہے۔لہٰذا امام حسین کے حوالے سے پانچ مشہور نظریات ہیں اور ہمارا بھی ایک نظریہ ہے جو شاید چھٹا ہو:
نظریہ اول:
ناصبیوں، ملحدوں اور سیکولرز کا ہے کہ امام حسین اقتدار چاہتے تھے۔ یعنی مقصد حکومت حاصل کرنا تھا، بالکل معاویہ اور یزید کی طرح۔یہ نظریہ ہم قبول نہیں کرتے، کیونکہ امام حسین جنت کے سردار ہیں،ان جیسی عظیم قربانی کا مقصد محض دنیاوی اقتدار کیسے ہو سکتا ہے؟اگر اقتدار مطلوب ہوتا تو یزید سے صلح کر لیتے، عزت سے رہتے۔
نظریہ دوم:
حسین اقتدار چاہتے تھے، اپنے لئے نہیں، امت کیلئے۔مقصد عدل و انصاف کا قیام تھا جیسے خلفائے راشدین یا امام علی کا طرزِ حکومت۔یزید چونکہ ظالم و فاسق تھا تو امام حسین نکلے۔
نظریہ سوم:
یہ اکثر اہلِ سنت کے ہاں مقبول ہے۔کہ امام کو کوفہ والوں نے بلایا پھر دھوکہ دیا۔ امام نے واپس جانا چاہا تو انہیں روکا یا بیعت کرو یا قتل۔یعنی امام نے بغاوت کی نیت نہیں کی تھی، وہ بس دھوکہ کھا گئے۔یہ رائے اسلئے بھی ہے تاکہ نہ یزید پر کھلا الزام آئے، نہ امام حسین پر۔یہ بیچ کا راستہ ہے:یعنی اہلِ کوفہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ،یزید بری الذمہ مگر بہت سے اہل سنت یزید پر لعنت کرتے ہیں،کیونکہ نہ صرف حسین کو قتل کیا بلکہ اگلے سال مدینہ میں صحابہ کو قتل کیاپھر کعبہ پر چڑھائی کی 3 سال تک فتنہ برپا رہا۔
نظریہ چہارم شیعہ نظریہ :
امام جانتے تھے کہ کوفہ والے دھوکہ دیں گے۔ صرف70 افراد میسر تھے، تو عقل سے یہ حکومت کا منصوبہ نہیں تھا۔عقلمند صحابہ جیسے عبداللہ بن عباس، ابن زبیر، ابن عمرسب نے امام کو روکالیکن امام نکلے کیونکہ یہ تحریک عقل کی نہیں، وجدان کی پکار تھی۔ امام جانتے تھے کہ شہید ہوں گے لیکن مقصد یہ تھا کہ یزید کی حکومت سے شرعی جواز چھین لیا جائے۔کیونکہ یزید کہتا تھا کہ وہ خدا کا خلیفہ ہے امام کی شہادت نے عوام کو بیدار کیاپھر یکے بعد دیگرے کئی انقلابات آئے۔ جس کے نتیجے میں بنی امیہ کا زوال آیا۔
نظریہ پنجم :
یہ غالی شیعوں کا نظریہ ہے، جو حسین کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں جیسے مسیح۔ کہ امام کی شہادت گناہ گاروں کیلئے کفارہ بن گئی۔ بس حسین سے محبت کافی ہے نجات کیلئے۔یہ عیسائی سے مستعار تصور ہے۔ ہم اس کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ اس میں دین خرافات بن کر رہ جاتا ہے۔ حسین کو قربانی بنا کر انکے غم، معجزات، ان پر رونے کو نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا جیسے مسیحی حضرت عیسی کی قربانی کو کفارہ سمجھتے ہیں۔ یہ خرافات پر مبنی اور ناقابلِ قبول ہے۔
نظریہ ششم (مصنف کا ذاتی نظریہ):
یہ نہ دینی تحریک تھی، نہ عقلی، بلکہ وجدانی تحریک تھی۔امام نہ حکومت چاہتے تھے، نہ شہادت۔ جب بیعت کا مطالبہ آیا، تو وجدان نے کہا:ھیھات منا الذلة ذلت ہم سے دور ہے۔یعنی عزت نفس اور انسانی وقار کے خلاف تھا کہ یزید جیسے فاسق کی بیعت کی جائے۔اسی لیے امام حسین نے کہا:”میں موت کو سعادت اور ظالموں کیساتھ زندگی کو بیزاری سمجھتا ہوں اوریہ وجدان کی پکار تھی نہ قرآن کہتا ہے کہ ظالم کے خلاف بغاوت کرو، نہ حدیث۔قرآن : ”لا ترکنوا الی الذین ظلموا” ان کے قریب بھی نہ جا”لیکن ”ان کے خلاف تلوار اٹھا”ایسا کہیں نہیں۔لہٰذا یہ وجدانی انقلاب تھا۔نبیۖ نے دین میں انقلاب لائے ۔توحید، ایمان، اخلاق لیکن وجدان کی بیداری باقی تھی۔جیسے ہی نبی دنیا سے رخصت ہوئے، صحابہ آپس میں لڑ پڑے۔ مطلب ہے کہ وجدان کمزور تھا یا مر چکا تھا۔اور فتوحات سے جو مال و دولت آیا، اس نے دین کو دنیا کا ذریعہ بنا دیا۔پہلے دین سلطنت کو چلاتا تھا اب سلطنت دین کو چلا رہی تھی۔اسی وجہ سے امام حسین نے اقدام کیا تاکہ انسانیت کے اندر ضمیر کو بیدار کیا جا سکے۔یہی ان کی تحریک کی اصل روح ہے۔
سوال: انقلابِ خمینی نے علماء دین اور مذہبی شخصیات کو قتل کیا۔آیت اللہ خامنہ ای، سید کمال الحیدری، یہاں تک کہ آیت اللہ منتظری جیسے افراد کو بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔کئی لوگ، خصوصا لبرلز، جیلوں میں بند ہیں۔تو پھر وہ ضمیر کہاں گیا جو امام حسین کے انقلاب سے متاثر ہو کر جاگا تھا؟اب ایران میںنہ کوئی رحم ہے، نہ ہمدردی۔
جواب :میں فرق کرتا ہوں ایرانی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ میں۔اسلامی جمہوریہ انقلاب نہیں ۔خمینی کا انقلاب جو امام حسین سے ماخوذتھا اپنی جگہ درست تھالیکن ”اسلامی جمہوریہ” کا قیام الگ معاملہ ہے۔ حسین نے کبھی کوئی ریاست یا حکومت قائم نہیں کی۔لہٰذا فرق کرنا ہوگا: خمینی کا انقلاب، ایران کا انقلاب، شاہ کیخلاف، امریکہ و اسرائیل کیخلاف، یہ سب قابلِ احترام اور مبارک ہے لیکن جب یہ انقلاب ریاست میں تبدیل ہوا، اسلامی جمہوریہ میںتو ریاست کی بقا کیلئے مظاہروں کو کچلنا شروع کیا گیا، اوریہ چیزیں حسین سے ماخوذ نہیں۔ریاست کے اصول الگ ہیں۔میں ایران کی کچھ چیزوں کو سراہتا ہوں، جیسے فلسطین کی حمایت،اسرائیل و امریکہ کے خلاف موقف اور داعش کے حملے کے وقت عراق کی مدد کرنا، جب دوسرے ممالک خاموش تھے۔لیکن ریاست کی بھی غلطیاں ہیں۔تو اگرچہ ایران کی حکومت میں مثبت پہلو ہیں،یہ واضح ہے کہ یہ حکومت حسین کے انقلاب جیسی نہیں ۔ حسین کا انقلاب نظام کو بدلنا تھا،جبکہ نئی حکومت کا قیام، نئے معیارات کے مطابق ہوتا ہے،جیسے عوام کی رضا، جمہوریت وغیرہ۔
سوال :شیعہ عام طور پر سنیوں سے زیادہ جذباتی ہیں، فلسطین اور غزہ میں مظلوموں کی مدد کی یہ امام کے انقلاب کے اثرات ہیںتو پھر ایرانی عوام کیساتھ ہمدردی کہاں گئی؟ بے شمار لوگوں کو صرف حکومت پر تنقید کرنے پر قتل کیا۔
جواب :یہ ولایت فقیہ کی حکومت ہے،یہ انقلاب سے خیالات نہیں لیتی بلکہ روایات، عقائد اور نظام کے مفادکی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے جبکہ حسین کا انقلاب ”نظام کے مفاد” کی بنیاد پر نہیں تھا،بلکہ نظام کے خاتمے کیلئے تھا۔میں سیاست میں نہیں پڑتا کیونکہ وہ بدلتی رہتی ہے اور اس میں بہت جھوٹ بھی ہوتا ہے۔ایران کے خلاف مغربی میڈیا، سعودی عرب اور کچھ دیگر آوازیں مسلسل پروپیگنڈا کرتی ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ سب جھوٹ ہے، لیکن سب سچ بھی نہیں۔پاکستان کی حکومت بھی مکمل درست یا مکمل غلط نہیں لیکن فرق یہ ہے کہ پاکستانی حکومت دین یا حسین کے نام پر نہیں جبکہ ایرانی حکومت ”اسلامی”اور ”حسینی”کہلا کر کام کرتی ہے۔ حالانکہ اسلام وہاں روایات سے لیا گیا جیسے”علم کلام” میں امام غائب اور نائب امام کے تصورات۔میں نے پہلے بھی کہا، میں ولایت فقیہ کے نظریے سے متفق نہیںلیکن ایرانی عوام اور نظام کا احترام کرتا ہوں۔ولایت فقیہ خدا کی طرف سے نہیں، بلکہ فقیہوں کی اجتہادی رائے ہے،جیسے امام خمینی یا شہید صدر کی۔اب سوال یہ ہے کہ امام حسین کے اہداف و مقاصد کی اتنی مختلف تفسیریں کیوں ہیں، حالانکہ ان کی تقریریں، وصیتیں، اور بیانات مکمل محفوظ ہیں؟تو اس کا جواب ”علمِ تاویل” میں ہے۔تاریخی متون مختلف قراتیں برداشت کرتے ہیں، جیسے قرآن کے بھی کئی تفاسیر ہیں۔ اسی طرح امام حسین کے کلمات کی کئی تفاسیر ہو سکتی ہیں۔ ہر مؤرخ اپنے پس منظر، عقائد اور سوچ کے مطابق تاریخ کو دیکھتا ہے۔سنی کچھ اور سمجھیں گے، شیعہ کچھ اور، مسیحی کچھ اور۔ جیسے کہ قرآن کے مفسر بھی اگر صوفی ہو تو صوفیانہ تفسیر کرتا ہے،شیعہ ہو تو شیعہ نظر سے۔
تحقیقی طریقہ کار (سائنسی و تاریخی)کہتا ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مذہبی تعصب کے بغیر تحقیق کی جائے۔دینی قرات میں، جیسے امام حسین کی تحریک میں کئی تشریحات ممکن ہیں جیسے تفاسیر قرآن میں کئی صحیح ہو سکتی ہیں اگر انکے پاس دلائل ہوں لیکن جو خرافاتی تفاسیر ہوں، جیسے”بعوضہ (مچھر) سے مراد امام علی ہے”،یا ”جن و درخت امام حسین پر روئے” یہ غلو (افراط)کی مثالیں ہیںمگرباقی4یا5 نظرئیے دلائل کیساتھ ہوں تو قابل قبول ہو سکتی ہیں۔تاریخ مختلف قراتوں کو سہہ سکتی ہے اور ہم اپنی قرات کو ”ثورة الوجدان”(ضمیر کی بیداری)کہتے ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے پہلے، اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یعنی خلافتِ عثمانیہ میں،شیعہ اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے۔نماز، روزہ، سب کچھ اپنی مرضی سے کرتے تھے۔ نہ کسی کو جبرا سنی بنایا جاتا تھا،نہ جبرا کمیونسٹ یا بعثی (بعث پارٹی کا رکن)بنایا جاتا تھا۔لیکن اب یہ نئی سیکولر حکومتیں،لوگوں پر دباو ڈال کر انکے دین کو مٹا رہی ہیں،انہیں دین سے خارج کر رہی ہیں۔ اگر تم بعثی نہیں بنتے تو تمہیں جینے نہیں دیا جائے گا۔
اسی لیے بیدار علما نے کہا کہ اب وقت آ گیا کہ ایک ریاست قائم کی جائے۔ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔اب دو ہی راستے ہیں:اسلام موجود رہے یا بالکل ختم ہو جائے۔اگر یہی حکومتیں رہیں تو اسلام خطرے میں ہے۔ امام حسین نے کہا تھا:اگر یزید حکومت رہی تو اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ معاویہ کے زمانے میں اسلام خطرے میں نہیں تھا کیونکہ معاویہ جانتا تھا کیسے سیاست کرنی ہے۔کہا جاتا ہے کہ "شعرہ معاویہ” کبھی ٹوٹتی نہیں،یعنی وہ حد سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔مگر یزید واضح طور پر دین کے خلاف تھا،اسلئے وہ دین کیلئے خطرہ تھا۔اسی طرح خمینی اور شہید صدرنے کہا کہ یہ دین خطرے میں ہے اور اب ریاست قائم کرنا ضروری ہے۔جب کہ اس سے پہلے مولانا مودودی جیسے لوگ،تقریبا 100 سال پہلے، انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں، جمال الدین افغانی، طحطاوی جیسے لوگوں نے اسلام کی طرف واپسی اور شریعت کے نفاذ کی بات کی۔ہاں، وہ پہلے آئے لیکن ایران میں اس وقت کوئی خطرہ نہیں تھا،شاہ بھی شیعہ تھا، مدارس تھے، علما ء تھے، کوئی مسائل نہیں تھے۔جیسے کہ عراق میں صدام کے زمانے میں تھے۔ ایران میں ایسی کوئی صورتحال نہ تھی لیکن خمینی نے گہری نظر سے دیکھا کہ امریکہ شیعوں کی حمایت کرتا ہے،لیکن وہ ظاہری، سطحی شیعہ۔حقیقی، علوی تشیع نہیں بلکہ صفوی تشیع۔
شیعہ حکومت یعنی شاہ،جو شیعہ ہونے کا دعوی کرتا تھا، زیارت کرتا تھا،لیکن حقیقت میں کیا کرتا تھا؟پہلا اسرائیلی سفارت خانہ جس مسلم ملک میں کھلا وہ ایران تھااور شام کے اسرائیل سے تعلقات۔اسرائیل طغیان کی علامت ہے،اسلامی علما کے نزدیک،کفر و طغیان کی علامت۔ حتی کہ امریکہ بھی اتنا برا نہیں جتنا اسرائیل کیونکہ اسرائیل ایک غیر قانونی مسلط شدہ وجود ہے۔جبکہ امریکہ، فرانس، برطانیہ کی حکومتیں ظلم کرتی ہیں،لیکن انکے پیچھے عوام ہوتے ہیں۔ اسرائیل تو سراسر ناجائز ہے۔شاہ ایران پہلا حمایتی تھا،تیل بھی اسرائیل کو دیتا تھا۔یہی چیز خمینی کو سب سے زیادہ پریشان کرتی تھی۔اس نے کہا کہ اگر ہم نے روکا نہیںتو پورا اسلام ظاہری اور کھوکھلا بن جائے گا۔جیسے خلیجی ممالک۔یہ سب اسرائیل کی درپردہ حمایت کرتے ہیں۔غزہ کے مظلوم عوام کیخلاف اسرائیل کی مدد کرتے ہیں۔ خمینی نے کہا کہ اگر ہم نے شاہ کو نہ روکاتو خلیجی ریاستوں جیسا بن جائے گا پھر امریکہ اسے اربوں ڈالر دے گا۔ جیسا ہو رہا ہے۔
سوال :شکریہ استاذ!آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا۔آپ کی باتوں نے ہمارے دل و دماغ کو بیدار کیا،جن میں سچائی، فلسفہ اور علم کی گہرائی موجود تھی۔پاکستان میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کی کتابیں اردو میں دستیاب ہوں۔ آپ کا نظریہ منفرد ہے،اللہ جزائے خیر دے۔
جواب: وجدان صرف شیعہ یا سنی تک محدود نہیں،یہ مسیحی اور ملحد کو بھی شامل کرتا ہے۔بے دین شخص باوجدان ہوتو وہ بے ضمیر مسلمان یا شیعہ سے بہتر ہے۔وجدان اللہ کی آواز ہے،یہ قول میرا نہیں عارفین کا ہے ”مومن کا دل عرشِ رحمن ہے ”یعنی اللہ دل میں رہتا ہے۔شیعہ، سنی، عیسائی کی تمیز نہیں،یہ سب نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے۔اللہ نے ہر انسان کو وجدان دیا :ونفس وما سواہا، فلہمہا فجورہا وتقواہاہر نفس کویعنی ہر انسان کو،اللہ نے نیکی اور بدی کا شعور دیا ۔ہم یہی کہتے ہیں:اے لوگو! اپنے وجدان کو زندہ کرو!لوٹو، اپنے ضمیر کی طرف واپس آو،جس کو تم نے فرقہ بندی میں کھو دیا ۔لوگ فرقہ واریت میں الجھ گئے،اور اصل خدا کو بھول گئے۔اسی کی طرف لوٹنا ضروری ہے۔چاہے وہ سنی ہو مگر باوجدان ہو۔نہ کہ سنی جو اسرائیل کی حمایت کرے۔یا ایسا شیعہ ہو جو غلو کرے،صحابہ کو گالی دے اور فرقہ واریت پھیلائے۔یہ شیعہ نہیں، یہ بے ضمیر ہے۔اگر شیعہ باوجدان ہو، مسیحی ہو،تو اپنے مذہب پر قائم رہے۔ سیکولرشخص بھی قابل قبول ہے۔ اللہ انسان سے یہی چاہتا ہے کہ وہ باوجدان ہو۔ ہم اسی بات پر زور دیتے ہیں، یہی پیغام دینا چاہتے ہیں۔کہ لوگ سچے دین، سچے خدا کی طرف لوٹیں،نہ کہ مذاہب ، مسالک والے خدا کی طرف۔ اللہ رب العالمین ہے،ہم نے مسلمانوں کا، شیعوں ، سنیوں، وہابیوں ، اخباریوں ، اصولیوں کا خدا بنا دیا۔ اب ہر فرقے کا اپنا رب ہے۔ قرآن کہتا ہے:أرباب متفرِقون خیر أمِ اللہ الواحِد القہاراللہ واحد و قہار ہے۔ہاں جیسا آپ نے کہا، وہ رب العالمین ہے۔
٭٭
ساری دنیا ایک طرف ایران اکیلا ہے،علامہ حسن ظفر نقوی
علامہ حسن ظفر نقوی کے بنیادی نکات ہیں کہ مذہب سے زیادہ بڑی تعداد میںوسائل پر قبضہ کی وجہ سے لوگ قتل ہوئے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم اس کی مثال ہیں۔ ایران میں کٹھ پتلی شاہ ، اسرائیل کاوجود تیل پر قبضہ کرنا تھا۔ عرب ممالک کو اسی وجہ سے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔ بیت المقدس تو مسلمان، عیسائی اور یہودی سب کیلئے مشترکہ تھا۔ اصل جنگ وسائل پر قبضہ کی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے سامراج سے ٹکر لی ۔ جس کو فرقہ واریت کا رنگ دیا گیا۔ اسرائیل کے مخالفین کو ختم کیا تو پھر ایران پر حملہ کردیا۔ ایرانی میزائلوں کو روکا جاتا ہے اور اسرائیل کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں۔ ایرانی انقلاب کے بعد اسرائیل کا سفارت خانہ فلسطین کے حوالے کیا گیا۔ ایران اکیلا کھڑا ہے ،اس کی شکست عرب ممالک پر قبضہ کی راہ ہموار کریگی، حسین کی جیت اور یزید کی شکست ولایت فقیہہ کا نظریہ ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ