پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔ - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔ اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہمارے ملک کا مین سٹریم میڈیا چنداشخاص کے گرد گھومتا ہے۔ نوازشریف، مریم نواز، شہبازشریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ۔ مستونگ میں دو،ڈھائی سو بلوچ سراج رئیسانی کیساتھ مارے گئے لیکن میڈیا دکھا رہاتھا کہ نوازشریف اور مریم نواز لاہور ائرپورٹ پہنچ رہے ہیں اور شہبازشریف لاہور کی گلیوں میں جلوس گھمارہے ہیں لیکن اپنے اس ہدف تک نہیں پہنچ پارہے ہیں یا جان بوجھ کر ایک وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود ایک ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ پھر قوم نے انتخابات اور اسکے نتائج دیکھے اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ پھرPDMبن گئی، پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی بات سامنے آئی لیکن مریم نواز کیلئے قابل قبول نہیں تھا اسلئے اس نے کھل کر کہا کہ ” عمران خان کو ہم شہید نہیں ہونے دیں گے”۔ پھر اب عمران خان کو بھی شہید کردیا گیا ہے اور پرویز الٰہی کی ساکھ بھی ختم ہوگئی ہے اور حمزہ شہباز بھی بہت تذلیل کیساتھ وزیراعلیٰ کے منصب پر بیٹھ گئے ہیں۔ ان لوگوں کا ماٹو یہ ہے کہ عزت آنی جانی چیز ہے کوئی عہدہ ومنصب ملنا چاہیے۔ اب پیپلزپارٹی، ن لیگ، جمعیت علماء اسلام ، ایم کیوایم اور بلوچستان کی قوم پرست و باپ پارٹی میں وزارتیں تقسیم ہوگئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے بیٹے کیلئے جو وزارت چاہیے تھی اس پر اکرم خان درانی پہلے بھی اپنی کاروائی دکھا چکے ہیں اور اس میں لین دین ، کھانچوں ، مال کمانے اور مفادات اٹھانے کے سارے سربستہ حقائق معلوم ہیں۔ یہ سیاست اور مذہب نہیں بلکہ منافع بخش کاروبارہے۔اس سلسلے کو چلتا اسلئے رہنا چاہیے کہ اب یہ خانوادے اسکے بغیر جی نہیں سکتے ہیں۔

پرویزمشرف نےIMGسے6ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ آصف زرداری نے16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچادیا اور عمران خان48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ جس کا گردشی سود بھی قریب قریب اپنے ملک کے کل آمدنی ٹیکس کے برابر ہے۔ یہ سارے قرضے ملک کی اشرافیہ کے نذر ہوجاتے ہیں ۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے روپیہ کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ سودی قرضوں پر سودی قرضے لینے کے نتائج عوام بھگت رہی ہے لیکن ہماری اشرافیہ اور مقتدر طبقہ ٹس سے مس نہیں ہورہاہے۔ دلّوں اور دلّالوں کو بدلتا ہے لیکن نظام کی تبدیلی کی طرف کوئی توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔
پدو مارنے سے نظام کی تبدیلی ممکن ہوتی تو سب کو بے عزت ہوکر اقتدار سے نکلنا نہ پڑتا۔ جو بھی آئے گا اس کی خیر نہیں ہوگی۔ جب تک کہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ شہبازشریف آٹا سستا کرنے کیلئے اپنے کپڑے بیچنے کی بات کرکے جو ڈرامہ بازی کررہاہے تو اس سے اہل بصیرت کو اندازہ لگانا چاہیے۔
رسول اللہ ۖ نے سود کی حرمت والی آیات کے نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے زمینوں کو کاشتکاروں کیلئے فری کردیا ۔ جس سے دنیا میں غلامی کا نظام دنیا میں قائم تھا۔ جنگ بدر میں70قیدی بنائے گئے مگر کسی ایک کوبھی غلام نہیں بنایا اور نہ غلام بنانے کا سوچا جاسکتا تھا اسلئے جنگی قیدی کو غلام بنانے کا مفروضہ قطعی طورپر غلط ہے۔جنگی قیدی کو قتل کیا جاسکتا ہے، رہاکیاجاسکتا ہے یاپھر قید میں رکھا جاسکتا ہے۔قرآن نے یہ اجازت دی کہ جنگی قیدی کو فدیہ لیکر یا بغیر فدیہ کے احسان کرکے آزاد کیاجاسکتا ہے۔ابھی نندن کو قرآن کے حکم کے مطابق ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہمارا کوئی قیدی ہوتا تو تبادلے کی گنجائش بھی موجود ہوتی۔
اسلام دنیا اور مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول نظام ہے لیکن اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیس سال بعد شریعت کورٹ نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور وہ بھی صرف انٹرسٹ (سود) کے لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ لکھنے کیلئے۔ کیس لڑنے اور جیتنے والے جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کو شرم بھی نہیں آتی ہے جو اسلامی بینکاری کے ایجنٹ بن کر کام کررہے ہیں۔ سود کے عملی کام سے زیادہ خطرناک اسکو جواز فراہم کرنا ہے۔ آج ہمارا عدالتی، ریاستی اور معاشرتی نظام تنزل وانحطاط کا شکار ہے اور سب سے عوام کا اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے غلام سرور اور شہر یار آفریدی نے پارلیمنٹ پر خود کش حملے کی بات کردی تھی۔ شاری بلوچ نے خود کش حملہ کردیا۔ مین سٹریم میڈیا چنداشخاص اور مفادات کے گرد گھومتا ہے لیکن وائس آف امریکہ،BBCاور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام کے ذہنوں کو بتدریج بالکل اُلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگرچہ منظور پشتین جیسے لوگ بھی بیرونی میڈیا کی کوریج سے خوش ہوکر طلسماتی دنیا کے شکار ہوگئے ہیں اور عوام کا اصل اعتماد وہ کھوچکے ہیں۔ اگر بلوچستان اور دیگر سیاسی جماعتوں سے معاہدہ کیا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو علی وزیر اور محسن داوڑ کو الیکشن میں حصہ لینے پر فارغ کردینا چاہیے تھا۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کی راہیں بھی جدا کردی گئیں اور جب ارمان لونی کے جنازے سے واپسی پر وزیروں کا جلسہ ہوا تھا تو علی وزیر اور محسن داوڑ اس میں جاسکے تھے لیکن منظور پشتین کو اجازت نہیں ملی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ کے حامی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف باقی سب کو امریکہ کے ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ANPکے بشیر بلور شہید سمیت کتنے رہنما و کارکن شہید کئے گئے۔آصف علی زرداری،MQM، محمود خان اچکزئی،PTM، مولانا فضل الرحمن ، بلوچ قوم پرست اور فوج کی سیاسی مداخلت پر غدار اور امریکہ اور بھارت کا ایجنٹ قرار دئیے جاتے تھے اور اب وہی صحافی عمران خان کو دوبارہ لانے کیلئے پاک فوج کو امریکہ ایجنٹ قرار دیتی ہے۔ کلاچی کے گنڈہ پوروں نے ایک لطیفہ بنایا تھا کہ ایک خاندان کے لوگ تھانیدار سے کسی بات پر نالاں تھے اور انہوں نے اس کی بے عزتی کا فیصلہ کیا۔ دوافراد تھانے میں گئے اور تھانیدار سے ایک نے کہا کہ اس نے میرا گدھا چوری کیا ہے۔ تھانیدار نے دوسرے سے پوچھا کہ سچ ۔ دوسرے نے کہا کہ یہ جھوٹ بول رہاہے۔ تھانیدار نے پہلے سے کہا کہ تمہارے گدھے کو کیسے چوری کیا ہے؟۔ اس نے کہا صاحب ! بطور مثال یہ سمجھو کہ آپ میرے گدھے ہو اور گند کی ڈھیر پر گوہ کھارہے تھے۔ اس نے تجھے کان سے یوںپکڑا اور چوتڑ پر لاتیں مارتے ہوئے تجھے ہنکاتا ہوا لے گیا۔ دوسرا شخص تھانیدار کے پیچھے کی طرف چلا گیا۔ تو پہلے نے کہا کہ اب تھانیدار کی ….. میں مت گھسو۔ دوسرے نے جواب دیا کہ تھانیدار کی ……میں میرا…… گھس رہا ہے۔ تھانیدار نے یہ دیکھ کر دونوں کو بھگادیا۔ امپورٹ حکومت اور کورٹڈاپوزیشن بھی سوچی سمجھے منصوبے کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی بے عزتی میں لگے ہوئے ہیں۔
پرویزمشرف سے زیادہ ملک کو قرضوں اور مہنگائی کا شکار پیپلزپارٹی نے کردیا تھا اور پیپلزپارٹی کو چوکوں پرلٹکانے ، پیٹ چاک کرنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے والی مسلم لیگ ن کی باری آگئی تو زرداری سے زیادہ سودی قرضے کے تحت ملک وقوم کو پھنسادیا اور پھر عمران خان کی حکومت آئی تو اس سے زیادہ قرضے لے لئے۔ عوام بیوقوف ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارا معاشی نظام سود ی قرضوں پر چل رہا ہے تو بھلائی کے دن ہم کب دیکھ سکتے ہیں؟۔ جو حکومت سے باہر ہوتا ہے تو اس کو دانت نکال کر فوج کو گالیاں دینی پڑتی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ یہ انقلابی بن گیا ہے اور جو حکومت میں ہوتا ہے وہ فوج کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جب عمران خان حکومت میں تھا تو نوازشریف اورPDMوالے فوج کو سب سے بڑی خطرناک بیماری کہہ کر جان چھڑانے کی بات کررہے تھے۔ لندن سے راشد مراد کا تعلق ن لیگ سے تھا اور کھریاں کھریاں کے نام سے فوج کی درگت بناتا تھا اور اب عمران خان والے دوسرے پیج پر آگئے ہیں۔ جب گھر میں تنگی ہوتی ہے تو بھائیوں میں بھی لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ جب تک ہمارے ملک کا اپنا معاشی نظام درست نہیں ہوگا تو یہ لڑائیاں، بدتمیزیاں اور بدتہذیباں چلتی رہیں گی۔کوئی بھی کسی اورکا خیر خواہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں اور فوج کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور بگاڑ پیدا ہوتا رہے گا لیکن اب معاملہ لگتا ہے کہ بہت خطرناک موڑ پر پہنچ گیا ہے اور بنے گی اور بگڑے گی دنیا یہی رہے گی کا کھیل ختم ہوا چاہتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔
ریاست مدینہ نے سودکے خلاف آیات نازل ہونے کے بعد کاشتکاروں کو مفت میں زمینیں دیں تو محنت کش طبقہ خوش حال ہوگیا اور ان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینے کا تاجر بھی خوشحال ہوگیا۔ مزارعین کی محنت کا صلہ دوگنا ہوگیا توپھر مزدور کی دیہاڑی بھی ڈبل ہوگئی۔ مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں ۔ یثرت تجارت کا مرکز بن گیا تو دنیا میں مدینہ کے نام سے مشہور ہوگیا اور اس ترقی کا سبب جب نبی کریم ۖ ہی تھے تو پیار سے لوگوں نے مدینة النبی کہنا شروع کردیا تھا۔ آج ہندوستان سے الگ ہوئے ہمیں75سال ہوگئے ہیں لیکن ان کے اور ہمارے نظام حکومت کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پختونوں اور بلوچوں سے بڑا برا حال پنجاب اور سندھ کا ہے ، اب ابھی دادو میں زمین کے پانی کے مسئلے پر ایک گاؤں جلایا گیا ، جس میں بہت سارے بچے جھلس کر شہید ہوگئے۔ سندھ کی انقلابی خاتون ام رباب کے پاس باقاعدہ گاؤں کے افراد نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ فلاں فلاں افراد نے پہلے دھمکی دی تھی اور پھر گاؤں کو جلا ڈالا ہے۔ جام عبدالکریم کے ہاتھوں ناظم جوکھیو کا بہیمانہ قتل اور مصطفی کانجو کے ہاتھوں ایک بیوہ کے اکلوتے بیٹے کا قصہ ایک مثال ہیں ورنہ سارے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں اور یہی حال ہندوستان کے بہت سے علاقوں کا ہے۔
ہمارے ہاں لسانیت ، فرقہ واریت اور طبقاتی کشمکش نے سر اٹھالیا ہے اور ہماری قومی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے۔ مہاجر، سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی کے علاوہ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث کے علاوہ پرویزی ، غامدی اور تبلیغی جماعت، سپاہ صحابہ، جمعیت علماء اسلام اور ایک ایک فرقے میں کئی کئی جماعتیں اور ایک ایک جماعت میں کئی کئی گروہ بندیوں کا تصور عام ہے۔ سیاسی جماعتوں کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ریاستی اداروں کا حال بھی ویساہی ہے۔
اس مرتبہ ایک منشور کے تحت آزاد ارکان الیکشن لڑیں اور اس منشور میں واضح معاشی اور اسلامی دفعات ہوں۔ جو آزاد ارکان بھی اس منشور پر منتخب ہوں تو وہ ایک آزاد حکومت بنائیں۔ اس منشور کے دفعات بطور مثال یہ ہوں۔
(1:) پورے پاکستان میں مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں دی جائیں اور جہاں جہاں بھی فارغ زمین ہو ،اس پر کھیتی باڑی، باغات اور جنگلی درخت لگائے جائیں جس سے محنت کشوں کو معقول آمدنی ملے گی اورباہمت لوگوں کو بہت بڑا روز گار ملے گا اور کم ازکم اگر دنیا نے امداد روک دی تو لوگ بھوکے نہیں مریں گے۔ بدحال لوگ خوشحال ہوجائیں گے تو پاکستان بننا شروع ہوجائے گا۔
(2:) جہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے وہاں ہمارا اتفاق نہیں ہورہاہے اور جس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے وہاں گنجائش کو ختم کرنے میں لگے ہیں۔ جب قرآن میں حضرت آدم سے لیکر خاتم الانبیاء ۖ تک انبیاء میں اختلاف کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟۔ جب اللہ نے اپنی آیات سے سورہ مجادلہ میں ایک عورت اور نبیۖ کا مجادلہ ختم کردیا تو ان آیات سے امت مسلمہ کے مسالک کا اتفاق کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ فرقہ واریت اور سیاسی معاملات میں اتفاق رائے کی طرف لے جانے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات بھی جلد ازجلد سمندر کی جھاگ کی طرح اُڑیں گے۔
(3:) قرآن میں کسی شادی شدہ عورت پربہتان لگانے کی سزا80کوڑے ہیں اور جب نبیۖ کی حرم ام المؤمنین پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے پر ان صحابہ کرام کو80،80کوڑے لگائے گئے جن میں نعت خواں حضرت حسان، حضرت مسطح اورحضرت حمنا بن جحش تھے۔ ہمارے ہاں کسی کی عزت کھربوں اور اربوں میں ہے اور کسی کی عزت کوڑیوں کے دام بھی نہیں ہے۔ اسٹیٹس کو توڑنے کیلئے ٹانگ اٹھاکر پدو مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہماری اشرافیہ کو قربانی بھی دینی پڑے گی ورنہ تو ایسا وقت آئے گا کہ وہ کہیں گے کہ کاش ہم اشرافیہ نہ ہوتے اور غریب لوگوں کی قسمت پر فخر کریں گے۔ محسود قوم اور وزیرستان کے لوگ بڑا خود پر فخر کرتے تھے اور طالبان کے مظالم نے ان کو مزید خراب کردیا تھا مگر جب آزمائش کے دروازے کھل گئے تو کہتے تھے کہ کاش ہم بھاگڑی ہوتے۔
(4:)نکاح وطلاق اور ایگریمنٹ کے مسائل میں اسلام کی تبلیغ اور اس پر عمل کریں گے۔ حلالے کی لعنت کا اسلام نے تصور بھی ختم کردیا تھا لیکن پھر جاہل طبقات کی بدولت یہ رسم رائج ہوگئی۔ ہماری تعلیم یافتہ قوم میں قرآن کے واضح مفاہیم کو سمجھنے کی بڑی صلاحیت ہے اور عورتوں کی عصمت دری کاقرآن نے حکم نہیں دیا ہے۔ اسلام کو غیر فطری بنانے اور سمجھنے والوں کا راستہ روکنا ہوگا۔
(5:) ماں باپ کی جدائی کے بعد بچوں کے مفاد میں قانونی اور معاشرتی بنیاد پر قرآن کے احکام پر عمل در آمد کرائیں گے۔ بچوں کی وجہ سے ماں باپ میں سے کسی کو بھی قرآن کے مطابق تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(6:)عدالت کے نظام کو ظالموں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑیں گے اور عدالت کیلئے تاخیری حربوں کا استعمال بالکل ختم کردیں گے۔ آزاد عدلیہ کا اعلیٰ ترین تصور قائم کریں گے جس میں مداخلت کا کسی طرح سے بھی تصور نہیں رہے گا۔
(7:) پاک فوج کو سرحدات کی حفاظت اور جدید اسلحے کی ٹریننگ تک محدود کرنا ہوگا۔ شہروں میںپرتعیش ماحول میں رہنے والے جنگ کے قابل نہیں رہتے ہیں اور تجارتی مقاصد کیلئے فوج کی چھتری استعمال ہونے پر پابندی لگادیں گے۔ ٹول پلازے، روڈ کے ٹھیکے اور رہائشی کالونیاں اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازم بن کران کو فائدے دلانے کے معاملات پر پابند ی لگادیں گے۔
(8:) کسی بھی مجرمانہ سرگرمی میں عدلیہ، فوج ، پولیس اور سول بیوروکریسی کا کوئی ملازم ملوث پایا جائے تو اس کو سرِ عام زیادہ سے زیادہ سخت سزا ملے گی۔
(9:) فوج کو پہلے مرحلے میں ڈسپلن قائم کرنے کیلئے ٹریفک پولیس سے لیکر سوشل میڈیا پر جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف استعمال کیا جائے گااور علاقائی بدمعاشوں سے لیکر لینڈمافیا کے خاتمے تک سب معاملات درست کرنے کی کوشش ہوگی۔ ریاستی اداروں کی عزت و توقیر میں کارکردگی کو بنیاد بنایا جائیگا۔
(10:) مساجد کے ذریعے سے معاشرتی مسائل کے حل میں بنیادی کردار ادا کیا جائے گا۔ منشیات فروشی کے اڈوں اوران کے سرپرستوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ قوم ، ملک اور سلطنت کو زندہ باد پائندہ باد کی منزل مراد پر پہنچایا جائیگا۔
منشور کے نکات سوچ سمجھ کرباہمی مشاور ت سے طے کئے جائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے