دریائے ستلج اور پنجند کے مقام پر منرل واٹر سے زیادہ صاف پانی کے بڑے ذخائر
مئی 11, 2025

کیا راجستھان کی ناکامی ،چولستانی نہر کا نقصان اور متبادل زیرزمین پانی سے آگاہ نہیںکیاگیا؟ جواب:11اپریل 2024ء کو ایکس، دو، تین، چار 14نکات پر مشتمل رپوٹ میں سب کچھ بتایا
گرین پاکستان نے اپنے الفاظ میں بھی سمجھایا لیکن یہاں کا ٹھیکیداری سسٹم بہت مضبوط ہے۔ مقصد صرف مافیاکا پیسہ کھانا ہے ،خمیازہ عوام بھگتتی ہے
ناظرین آداب علی وارثی ایک مرتبہ پھر نیا دور کے پلیٹ فارم سے آپ کے سامنے حاضر ہے ۔ سوال: پنجاب کہتا ہے کہ ہمارے حصے کا پانی ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ پنجاب نہیں کہہ رہا یہ کنالز بنانے والے کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کا پانی جائے گا اور سندھ کا نہیں ۔ سندھ کی سیاسی جماعتیں ، لوکل لیڈرز، عوام سمجھتے ہیں کہ جب دریاؤں کا رخ موڑا گیا تو سندھ کو نقصان ہوا اور وہ آرگنائز طریقے سے آواز بلند کر رہے ہیں۔ کچھ چیزیں سیاسی ہیں اور بہت سی چیزیں سائنٹیفک اور حقیقی ہیں تو یہ ملا جلا رجحان ہے جس میں ان کنالز کی مخالفت کی آواز آرہی ہے مگر ایسا نہیں کہ پنجاب کا کسان بڑا خوش ہے کہ چولستان میں پانی جا رہا ہے پنجابی کسان بھی پریشان ہے مگر بدقسمتی سے سندھی کسان کی طرح سیاسی ،ا نتظامی اور تہذبی منظم نہیں جس طرح سندھی کسان ہیں تو پنجابی کسان پریشان ہے کہ اگر میرے حصے کا پانی جائے گا تو مجھے پہلے پورا نہیں مل رہا تو پھر میرا کیا بنے گا؟اور حال میں پنجاب سے آواز اٹھی ہے۔ لوکل لوگوں نے مقدمات درج کروائے کہ یہ زیادتی ہے ۔ جہاں تک SIFC کے Green Pakistan Initiative کا معاملہ ہے تو بیان کردہ مقصد یہ ہے کہ فوڈ سیکیورٹی کو استحکام دیا جائے اور جو زرعی اجناس اُگا سکتے ہیں ان کو ایکسپورٹ کیا جائے جہاں وہ پیدا نہیں ہو سکتی مثلا مڈل ایسٹ سینٹرل ایشیا میں جائیں۔ تو آئیڈیا برا نہیں ہونا،ایسا ہونا چاہے لیکن جس طریقے سے وہ یہ مقصد حاصل کرنے جا رہے ہیں اس پر کافی سارے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
سوال: بریفنگ دی گئی تھی صحافیوں اور بہت سے سول سوسائٹی کے لوگوں کہ پنجاب کے لاہور، قصور اور غالباً اوکاڑہ تین اضلاع میں شہری آبادی بہت زیادہ ہو چکی ہے ۔ وہاں اتنے زیادہ پانی کی اب ضرورت نہیں ، اسلئے انکے حصے کا پانی لینا ہے ۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ ہر روز ایک نئی منطق سنتے ہیں کہ پنجاب میں شہری آبادی بن گئی تو وہ پانی بچ گیا ہے کبھی یہ منطق کہ سیلاب کا پانی آئے گا تو کینال چلا دیں گے کبھی کہتے ہیں دیامیر بھاشااور مہمند ڈیم بن جائیں گے تو ادھر کا پانی آجائے گا۔ کبھی کہتے ہیں سندھ کا ایک بوند نہیں جائے گا اور پنجاب کا پانی آئیگا۔ ابھی تک کوئی واضح وضاحت کینالز بنانے والی لابی کی طرف سے نہیں آئی وہ کبھی کوئی بہانہ کرتے ہیں کبھی کوئی بہانہ کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ مقصد چولستان میں پانی لے جانا نہیں، مقصد گرین پاکستان کو سپورٹ کرنا نہیں بلکہ مقصد صرف اور صرف وہ بڑے بڑے ٹھیکے لینا ہے جس سے اگلے 6 سال تک ٹھیکے کرنے کے، مٹی کھودنے کے، سریہ باندھنے کے پیسے ملتے رہیں اور چیزیں چلتی رہیں اور جو ٹھیکدار ہیں ان کی بلا سے پانی ہے یا نہیں ، پانی آئے یا نہ آئے گرین پاکستان کامیاب ہو یا ناکام ہو ان کی بلا سے کچھ نہیں ہے ان کو صرف ٹھیکے چاہئیں۔ جس طرح نیلم جہلم میں انہوں نے کیا کہ اس قوم کے کوئی پانچ چھ بلین ڈالرز خرچ کر دیے اور نیلم جہلم کے ٹھیکے دار پیسے لیکر چلے گئے۔ لیکن نہ ہمیں بجلی ملی، نہ وہ پروجیکٹ کام کر رہا ہے۔ تو ٹھیکیداری کا نظام پاکستان میں بہت طاقتور ہو چکا ہے ان لوگوں کو آپ روک نہیں سکتے یہ بہت پاور فل ہیں یہ فیصلہ سازوں تک پہنچ جاتے ہیں اپنی لابنگ کر دیتے ہیں اپنی مرضی کے فیصلے کرا لیتے ہیں اور پھر اگر پراجیکٹ نہ بھی چلے تو یہ اتنے مضبوط ہیں کہ ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ تو مجھے ایسی سٹوری نظر آرہی ہے کیونکہ جہاں تک نہروں کا تعلق ہے اور
Green Pakistan Initiative کا تعلق ہے تو ان مقاصد کا تو ان نہروں سے دور دور تک کوئی واسطہ بنتا ہوا نظر نہیں آرہاہے۔
انڈیا نے راجستھان کینال بنائی ۔راجستھان ڈیزرٹ نام رکھا۔ گوگل پر زوم کر کے دیکھیں ۔اُوپر ریت کے ٹیلوں نے اس کو مٹی سے بھر دیا ہے اور بلینزآف ڈالرز کا خرچہ انہوں نے کیا۔ تین دریا کا رُخ موڑ دیا60 سال لگا دیے، ابھی تک ڈیزرٹ ڈیزرٹ ہی ہے اور قابل عمل نہیں۔ ہائیڈروجیکل سسٹم ہے اس میں بڑے سے بڑا ڈیم بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ تین مہینے کا سٹیمنا نہیں ہے آپ اربوں ڈالر کا خرچہ کس کیلئے کر رہے ہیں؟۔ مجھے بتائیں نیلم جہلم کا قرضہ کون دے رہا ہے؟۔ میں اور آپ! ہم موبائل فون بیلنس، گاڑی اور موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلواتے ہیں اس پرجو ہم ٹیکس دیتے ہیں وہ پیسہ جا رہاہے ٹھیکدارکو تو کسی نے پوچھا بھی؟ یہ ٹھیکدار اتنے پاور فل ہیں کہ آپ پوچھ تک نہیں سکتے کہ آپ ہیں کون ؟۔ ہمارے ارباب اختیار کو اسکے بارے میں کوئی نالج نہیں تھی پہلے سے؟۔
ان کو بتایا گیا تھا ستلج کے نیچے 34 ملین ایکڑفٹ پانی ہے اور پنجند ریور کے نیچے تقریبا 110 ملین ایکڑفٹ پانی ہے۔ مثلاً دیامیر بھاشا ڈیم بن رہا ہے یہ چھ سات ملین ایکڑ فٹ کا ہے، ادھر 500ہے یہ 100گنا زیادہ پانی ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ آلٹرنیٹ سستا بنتا ہے جلدی بنتا ہے ماحول دوست، سماجی طور پر مستحکم ، ایکنامیکل ہے۔ یہ ڈیموں، بیراجوں اور نہروں پر مبنی روایتی کے مقابلے میں تعمیر اور چلانے کے لحاظ سے نمایاں طور پر زیادہ آسان ہے۔ گرین پاکستان کے اپنے الفاظ ہیں اس رپورٹ کے بارے میں۔
سوال: یہ غذائی مسائل کا قابل عمل حل ہے؟۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ بالکل قابل عمل نہیں ہے۔ اگر فوڈ سکیورٹی کرنا چاہتے ہیں تو ورٹیکل گروتھ پہ جانا ہوگا جس کا مطلب پر وہ سیراب شدہ علاقہ جہاں لوگوں کو الاٹمنٹس ملی ہوئی ہیں اور وہ ایریا جہاں پانی نہیں پہنچ رہا ادھر لوگ غربت کسمپرسی کا شکار ہیں ان علاقوں کو اگر آپ مضبوط کریں ادھر اگر کوئی آپ نے پانی کا پراجیکٹ کرنا ہے تو آپ وہاں لے کے جائیں اگر آپ نے ماڈرن ایریگیشن ٹیکنالوجیز لے کے آنی ہے تو وہاں لے کر جائیں اپنے لوگوں کو بااختیار بنائیں کہ وہ اس زمین سے زیادہ پروڈیوس کریں جس زمین سے اس وقت وہ مشکل سے پروڈیوس کر رہے ہیں تو آپ کا کام ہے کہ ان کو سپورٹ کریں ۔ یہاں صاف آپ کو یاد ہوگا کہ وزیراعظم اسٹیج پر آئے اور کہا کہ یہ میرا پراجیکٹ نہیں ہے یہ جنرل عاصم منیر صاحب کا پروجیکٹ ہے۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ شاید کچھ زیادہ ہی شکر گزاری کہ عالم میں ہیں لیکن شاید وہ اس سے اپنے آپ کوبری الذمہ بھی کر رہے تھے۔
سوال : یہ بتائیے کہ جب یہ فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں تو فیصلہ سازی کس طرح سے ہوتی ہے آخر آپ نے جیسے ابھی یہ مثال دی راجستھان کی ۔ کچھ سال پہلے بھاشا ڈیم پر ڈیم فنڈ بنایا تھا اس پر غالباً آپ نے کہا تھا کہ یہ مفاد فرست گروپس ڈیم کیلئے ہر وقت زور ڈالتے ہیں اور وہ رشوت دینے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔کیا ان کو یہ پتہ نہیں کہ ڈیموں کا فائدہ نہیں۔ ماحولیات پر اس کا برا اثر پڑتا ہے؟اور صوبوں کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے؟۔
جواب :پہلے سے جی نہ صرف یہ کہ نالج تھی بلکہ ان کو رپورٹ لکھ کے دی گئی تھی زبانی کلامی بھی نہیں لکھ کے ایک رپورٹ ان کو دی گئی تھی جس میں ان کو بتایا گیا تھا کہ کنال راجستھاں کی طرح چولستان ڈیزرٹ میں کیوں نہیں چل سکتی؟۔ اس پہ پورے سارے ایک، دو، تین، چار اس کو 14 پوائنٹس لکھ کے دیے گئے تھے کہ یہ مسائل ہیں اگر آپ نے کنال بنائی اور وہ رپورٹ 11پریل 2024 میں ان کو جمع کرائی گئی تھی اور اس میں جو کنال کا سب سے پہلا منفی نکتہ دیا گیا وہ یہ تھا کہ جب کنال کیلئے دریاں میں پانی نکالیں گے تو صوبوں کے درمیان چپقلش اور بدمزگی پیدا ہوگی اور جو قومی ہم آہنگی شمال اور جنوب کی ہے اس کو دھچکا لگے گا یہ تو اپریل میں پچھلے سال ان کو بتایا گیا تھا۔ ایک سال کے بعد اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ سب کچھ ہو رہا ہے پھر ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کنال کی جگہ آپ کے پاس متبادل چیز ہے۔ دیکھیں چولستان میں ایسا نہیں کہ فارمنگ نہیں ہو سکتی ، ہو سکتی ہے لیکن کنال سے نہیں ہو سکتی اسکے دوسرے طریقے ہیں پھر ان کو دوسرے طریقے بھی بتائے گئے تھے کہ آپ کے اس وقت دریاؤں میں پانی کوئی نہیں ہے جو پہلے سے کم اور ختم ہے۔ پنجاب میں بھی پانی کی کمی ہے سندھ میں بھی ۔اگر مزیدپانی لیں گے تو مسائل بنیں گے۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ دریائے ستلج کے نیچے پانی کا ذخیرہ ہے اور پنجند کے مقام پر بھی ۔یہ دو جگہیں جو چولستان کے قریب100 سے200 اور50 سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ علاقے ہیں جو آپ نے مختص کیے ہیں اور پھر فارمنگ کیلئے ان کو اگر آپ نے زرعی بنانا ہے تو اس کیلئے جو ذریعہ ہے وہ یہ دریاؤں کے نیچے سٹور پانی ہے جو کہ اس وقت کوئی استعمال نہیں کر رہاہے ۔اس کو استعمال کریں اور اس پانی پر ایک بہت مفصل تحقیق ، مطالعہ ، تجربہ ہواہے۔ جس میں قومی اور بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی اور اس کاقابل عمل معاملہ دیکھا گیا کہ کتنا پانی ہم نکال سکتے ہیں، کتنا پانی ٹوٹل ہے اور پانی کی کیا کوالٹی ہے؟۔ کدھر سے نکالنے سے نقصان نہیں ہوگا ؟۔کس طرف سے پائپ لائن آئے گی۔ کدھر کیا ہوگا ایک بہت تفصیلی رپورٹ بنا کے دی اور اس میں جو پانی کی کوالٹی تھی جو اس دریا کی ریت کے نیچے ہے وہ پینے کے قابل ہے یعنی وہ اتنا صاف پانی ہے کیونکہ وہ قدرتی فلٹر ہوا ہوا ہے وہ پینے کے قابل پانی ہے ہم نے ایک جگہ پہ اس کو بوتل پانی سے موازنہ کیا تو بوتل پانی سے بھی اچھا پانی تھا پھر جو اس کی تعداد ہے اس پانی کی جو مقدار ہے وہ بھی دریاؤں کے بڑے ڈیموں سے پانچ سو گنا زیادہ ہے۔ اگر دریاؤں کیساتھ قدرتی نظام سے جمع شدہ پانی کو استعمال کیا جائے تو دریائے ستلج اور پنجند کے علاوہ پورے ملک میں بڑے بڑے ذخائر دریافت ہوں گے۔ ہم ڈیموں کے ذریعے اتنا بھی پہلے جمع نہیں کرسکتے۔ ڈیموں میں بہت کم گنجائش ہے اور اس کے بہت زیادہ نقصانات بھی ہیں۔ ایران کے پاس ڈیموں کیلئے بین الاقوامی ٹیم 1950ء میں آئی تھی اور اس وقت دنیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی مگر مقامی ماہرین نے کہا کہ مصنوعی ڈیموں سے قدرتی نظام بہتر ، محفوظ اور بہت فائدہ مند ہے اور اس کے نقصانات اور مضر اثرات بھی نہیں ہیں۔
آج دنیا نے ترقی کرلی ہے اور نہری نظام کو ختم کردیا گیا ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر قدرت کا بہت بڑا تحفہ ہے جس میں پانی بہت بڑی مقدار میں اسٹور بھی ہوتا ہے اور فلٹر بھی زبردست طریقے سے ہوجاتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ بھی ہوتا ہے ، اس کا موجودہ دور میں خرچہ بھی بہت کم ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس کی تعلیم، مہارت اور خلوص قوم، سیاستدانوں اور صحافیوں میں عام ہورہا ہے اور مقتدر طبقات کا بند دماغ بھی انشاء اللہ جلد کھل جائے گا اور قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر بہترین منصوبہ بندی سے پاکستان جنت نظیر بنادیا جائے گا۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ