اقبال کا بلوچستان میں یونیورسٹی کا مطالبہ ،میرا والد اس پر نوکری سے نکالا گیا :سینیٹر تاج حیدرکی تقریر ضرور سنو!
مئی 11, 2025

پاکستان کونازک صورتحال سے نکالو!
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ہوا کے دوش پر سودی گردشی قرضوں کے سہارے پر چل رہے ہیں اور جب ہمارا جہاز فضاؤں میں ہموار چلتا ہے تو پھر یہ پروا نہیں کرتے کہ اس کا کتنا کرایہ ہم نے دیا اور اس کی کیاقیمت چکائی اور ہم پر اس کا کیا اثر پڑاہے؟ لیکن چلتی کا نام گاڑی اور اڑتے کا نام جہاز ہے۔
فضاؤں میں اعلان ہوتا ہے کہ اپنی اپنی نشست پر بیٹھ جائیے اور سیٹ بیلٹ باندھ لیجئے ۔ موسم کی خرابی سے جہاز ناہموار ہوسکتا ہے تو زیادہ خوف نہیں ہوتا ہے اور کسی کو خوف ہوبھی سکتا ہے لیکن اگر اعلان ہو کہ جہاز میں خرابی کے باعث سمندر کا رخ کرلیا۔ لائف جیکٹ پہن لیجئے اور دروازوں کی طرف لائن لگاؤ اور سمندر میں چھلانگ لگاؤ تو بہت تکلیف ہوگی اور انسان زندگی اور موت کی کشمکش سے کھیلنے کیلئے ذہنی طور پر بہت پریشان ہوگا۔ جب ملک کے حوالہ سے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں چل رہی تھیں تو گویا اعلان ہوچکا تھا کہ سمندر کا رخ ہوچکا ہے اور تیاری کرلو۔ سمندری مخلوق اور مچھلی کا شکار بن سکتے ہو۔
جب پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے اعلان ہورہے تھے تو فی الحال ہمارا سفر بخیر ہے لیکن اب بھی جن حالات کا سامنا ہے تو فضائی طوفانوں کا اندیشہ ہے۔ جب عمران خان کو خلا سے زمیں پرا تارا جارہا تھا تو خلائی مخلوق مشہور ہوگئی تھی اور اب فضا بدل چکی ہے لیکن پارلیمنٹ، عدالت، صحافت، دہشت گردی کے حالات اور معیشت کی خرابیاں بھوت بنگلے سے ایک ڈراؤنا منظر پیش کررہی ہیں۔ گالی گلوچ سے ہر کوئی خوش ہوتا ہے لیکن سنجیدہ بات کوئی نہیں سنتا۔
صحافی صابر شاکرکو ہم نے لکھاتھا کہ چاچو جنرل قمر جاوید باجوہ کو غلط راستے پر مٹ ڈالو۔ خیرخواہی غلط ماحول بنانا نہیں ہے۔ آج صابر شاکر کہاں کھڑا ہے؟۔ عمران ریاض خان نے یہ جھوٹ بولا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن اسرائیل کو تسلیم کررہاہے ” اور اب تک معافی بھی نہیں مانگی ہے۔ ایک طرف روز جمعیت علماء اسلام کے علماء شہید ہورہے ہیں دوسری طرف عمران ریاض خان معافی نہیں مانگ رہاہے اور مولانا کہنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے، ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سے معافی مانگ لی تھی لیکن مولانا سے ایک غلط الزام پر معافی مانگنے سے کیا ویوزکم ہوںگے؟۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ایک طبقہ صحافیوں کا ہیرہ منڈی کا بھڑوا لگتا تھا اور اب یہ ٹیم بدل گئی ہے اور چہرے اور شخصیات اور ہیں لیکن کام وہی ہے۔ خیر یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
ہم مذہبی لبادے والے ہیں اور سمیع ابراہیم عام صحافی ہے۔ سمیع ابراہیم عاصمہ جہانگیر کو موت کے وقت بھی نہیں بخش رہاتھا اور میزے جہانگیر کی نماز میں شرکت پر مذہب کے نام پر متعہ وحلالہ کی بھڑوا گیری سے کسی کو خوش کررہاتھااور ہم اس نابغہ روز گار شخصیت عاصمہ جہانگیر کو خراج عقیدت بھی پیش کررہے تھے۔ حق وصداقت کی بے لوث صدائیں ایمان اور اسلام کا بہترین تقاضا ہیں لیکن جھوٹ اور بہتان طرازی بھی غلط لوگوں کو دینداری لگتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کے اعلیٰ ترین معززمنصب پر فائز ہیں لیکن مقبولیت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے سوشل میڈیا پر ان کی تصویر سے خبر نہیں ڈالی جاتی ہے۔ چینلوں پر بڑا جھوٹ لکھ کر معمول کی خبریں دی جاتی ہیں۔
حالات ایسے بن گئے کہ اگر جنرل عاصم منیر کو لال کرتی کی پیداوار اور گالیاں دی جائیں تو اس پر ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ مریم نواز اور جنرل عاصم منیر کی تصاویر اور ویڈیوز ایڈٹ کرکے مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ جس کا مقصد نظریہ نہیں پیسہ کمانا ہے۔
صحافت کے حوالے سے سخت قوانین پر مقتدرہ کو مجبور کیا گیا ہے۔ جہالت ، تعصبات اور مفاد پرستی نازک اندام جسم فروشی کی طرح بک رہی ہیں۔ اگر اس قوم ، اس ملک ، اس خطے اور عالم انسانیت کو ہم نے جہالت کے مقابلے میں علمی حقائق ، تعصبات کے مقابلے میں مثبت اخلاقیات اور مفاد پرستی کے مقابلے میں ایثار و قربانی کے جذبات کی طرف نہیں ابھارا تو پھر اللہ کے علاوہ خیر کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
قرآن میں وقل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا ”اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل گیا بیشک باطل مٹنے کیلئے ہے”۔ گالی گلوچ کیلئے اور تقریری جذبات کیلئے بھی نہیں ہے بلکہ مثبت عقائد و نظریات اور عملی اقدامات کیلئے ہے لیکن اب یہاں گالی گلوچ سے معاملہ آگے نکل کر خودکش دھماکوں اور دہشت گردی تک پہنچ چکا ہے۔
٭
زیرِ زمین پانی کے ذخائر مسئلے کا حل
ہم مسجد کے بڑے تالاب کا پانی نکالنے کیلئے عام پلاسٹک کا پائپ ڈال کر منہ سے شروع میں کھینچ لیتے تھے اور پھر سارا تالاب خودبخود خالی ہوجاتا تھا اور یہ ایک دیسی فارمولا تھا۔ پاکستان کی بناوٹ کو اللہ نے اتنا بہترین بنایا ہے کہ اگر زیر زمین پانی کو نکالنے کیلئے پائپ کا بندوبست کیا جائے تو بغیر کسی بجلی اور پٹرول کے خرچے کے پورے ملک میں پانی کو بہترین طریقے سے سپلائی کیا جاسکتا ہے۔
مثلاً گومل ڈیم اور دیگر ڈیموں سے پورے پاکستان کیلئے پانی پہنچانے کا بندوبست کیا جائے اور اس کا کنکشن زیر زمین پانی سے بھی اس طرح سے ملایا جائے کہ زیرِ زمین پانی کو بھی خوب پریشر کے ذریعے سے باہر نکال کر ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کا بہترین اہتمام ہو۔ اگر پنجند کے ذخیرے میں ایک طرف پانی ڈالنے اور دوسری طرف سے نکالنے کا اہتمام ہو تو صحرائے چولستان اور بلوچستان اور سندھ و کراچی تک بالکل شفاف پانی کی ترسیل کا زبردست پروگرام بن سکتا ہے۔
کتنا زبردست ہوگا کہ جب پنجند کے ذخیرے کا پانی کراچی کی بڑی بلڈنگوں حبیب بینک پلازہ کی چھت تک بغیر کسی موٹر کے جارہا ہو؟۔ لوگوں کو اگر صاف پانی ملے گا تو پاک پاکستانیوں کا دماغ بھی پاک بن جائے گا۔ اب تو گالی دے کر کہتے ہیں کہ غیرت سے پاک ہیں، ضمیر سے پاک ہیں، ایمان سے پاک ہیں، اخلاق سے پاک ہیںاور انسانیت سے پاک ہیں تو واقعی پاک پاک بن جائیں گے۔
اگر پاکستان کی معدنیات کیلئے ہمارا دل و دماغ صاف ہوگا تو جتنا نقصان پہلے کرچکے ہیں وہ اب کرنے سے بچ جائیں گے۔ صحافی ضیغم خان نے میزبان عائشہ بخش کے پروگرام میں کیا خوب کہاکہ ”زیر زمین معدنیات سے زیادہ قیمتی زمین کے اوپر کے معدنیات انسانی شکل میں موجود ہیں۔امریکہ وغیرہ میں زیر زمین معدنیات نہیں لیکن انسانوں کیلئے بہترین تعلیمی یونیورسٹیاں ہیں جن کی وجہ سے ان کی شخصیات جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے کیا کچھ نہیں کماتے ہیں؟۔ایک ایک شخص کی وہ دولت ہے کہ اگر وہ ہمارے ہاں پھینک دے تو زمین کی سطح معدنیات سونے کے ذخائر اور ڈالر سے بھرے اور جہاں تعلیم نہیں وہاں کتنے ایسے ممالک ہیں جہاں پر معدنیات کے بڑے ذخائر ہیں پٹرول ہے اور سونا ہیرے جواہرات ہیں لیکن ان کے حالات انتہائی خراب ہیں کیونکہ ان کا اشرافیہ عیش کررہا ہے اور غریب جہالت اور تباہی سے دوچار ہیں”۔
یونس بٹ نے ”ہم سب امید سے ہیں” میں مشکلات کے دور میں سب کو ہنسایا۔ جنرل مشرف کو پی ٹی ماسٹر بناکر سیٹیاں بجواتا تھا اور سب پریڈ کیا کرتے تھے۔ صحافی افتخار احمد جنرل پرویز مشرف کی طرح سیٹی بجاکر زبردستی سے پریڈ کرانے کے موڈ میں ہے۔ اس پر ٹھیکیداروں سے پیسہ وصول کرنے کا الزام تو نہیں لگ سکتا لیکن پنجاب کی زرخیز مٹی میں کوئی حسن نثار کی طرح تحریک انصاف کا جنون اپنے دل میں سمائے رکھتا ہے اور کسی کو نواز شریف کی محبت نے اندھا دھند بنا رکھا ہے۔ فوج کی بھی طاقت ان کے پاس ہے اور جمہوریت کی بھی۔ بس اللہ اس ملک کو مزید جبر و تنگدستی سے بچائے۔
پشتو زبان کا مشہور مزاحیہ کردار میراوس خان اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ جنت الفردوس میں جگہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اس نے کہا کہ بلڈنگ کی پہلی اور دوسری منزل پر بنگالی کام کرتے تھے اور تیسری منزل پر پٹھان تھا۔ بنگالی نے آواز لگائی کہ عجب خان کی بیوی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ پٹھان نے چھلانگ لگائی ، ٹانگیں ٹوٹیں اور بیہوش ہوکر ہسپتال پہنچ گیا۔ جب ہوش آیا تو کہا کہ اوہ میرا نام تو عجب خان نہیں تھا۔ پھر کہا کہ میری تو شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔ خوامخواہ ٹانگیں تڑوادیں۔ یہی حال علامہ اقبال نے ”پنجابی مسلمان” کا لکھا ہے کہ تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا، ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد۔ تحریک انصاف کے یوتھیوں کو جب ہوش آئے گا تو کہیں گے کہ ہم جس کو مرشد مرشد کہتے تھے وہ تو خود زن مرید تھا۔ مرشد تو بی بی بشریٰ تھی۔ شیعہ سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرتے تھے تو امام خمینی نے سمجھایا کہ جس سینے کو مار رہے ہو اس میں یزید نہیں حسین کی محبت ہے۔ جس پیٹھ کو زنجیر سے خون آلود کرتے ہو وہ یزید نہیں حسین کے مرید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان ، افغانستان ، ایران اور بھارت سب کو شیطانی شر سے بچائے۔
٭
حماس جان اور اسرائیل خان جانان
مولانا فضل الرحمن ، حافظ نعیم الرحمن اور طالبان کی قیادت میں یورپ سے اسرائیل کیلئے ایک وفد یا جلوس کی قیادت کی جائے تو بہت بڑے پیمانے پر مغرب کی خواتین وحضرات بھی شریک سفر بن سکتے ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کی مدد صرف جلسے ، جلوس، رونے دھونے اور اسرائیل کی مذمت سے نہیں ہوگی بلکہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حماس جان کے حملے پر تھوڑی سی خوشی منانے اور چندہ اکٹھے کرنے پر اصرار کرنے والے اس بات سے بے خبر تھے کہ اسرائیل جانان اپنا بدلہ لینے کیلئے کہاں تک جائے گا اور کون کون اس کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا؟۔
ایران نے حماس جان کو اسرائیل کے خلاف بڑا مضبوط بنادیا تھا لیکن جب ایران اسرائیل جانان کا خود مقابلہ نہیں کرسکتا ہے تو حماس جان کے ذریعے ایک کاروائی کے بعد غزہ کے مسلمانوں کو بے تحاشا پٹوانے کے انجام کی ایران نادان کو خبر نہیں ہوگی۔
عبداللہ گل کے والد جنرل حمید گل نے حضرت خالد بن ولید کی طرح ساری زندگی روس وامریکہ کے خلاف افغان مجاہدین اور طالبان کیساتھ اللہ کی تلوار بن کر جہاد کارزار میں گزاری لیکن شہادت کی قسمت نہیں تھی اور اب عبداللہ گل شہادت کی منزل پانے کیلئے مولانا فضل الرحمن کی بیعت کرچکا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا جنرل حمید گل واضح کہتا تھا کہ ”میں نے بنائی ہے ،جس نے عدالت میں کیس کرنا ہے مجھ پر کرے”۔ عدالت کا اصغر خان کیس سلمان اکرم راجہ جیت چکا تھا لیکن افتخار چوہدری کو ترچھا نظر آتا تھا اسلئے نگاہ مرد مؤمن وہاں تک نہیں پہنچ سکی ۔ مولانا سمیع الحق نے میڈم طاہرہ سکینڈل سے سبزی کے چھرے سے شہادت تک منزل پالی۔
پراکسی سیاست اور پراکسی جہاد سے سب ہی تنگ آچکے ہیں لیکن ایک شخص نے کالا کمبل دریا میں دیکھ کر چھلانگ لگائی تو ساتھیوں نے مہم جوئی میں خطرہ بھانپ کر آواز لگائی کہ کمبل کو چھوڑو۔اس نے کشمکش کی حالت میں کہا کہ میں کمبل کو چھوڑ رہا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اسلئے کہ وہ اصل میں ریچھ تھا جس کو کمبل سمجھ کر دریا میں چھلانگ لگائی تھی۔ دنیا بھر میں امریکہ ، ایران ، پاکستان، چین، بھارت اور تمام چھوٹے بڑے ممالک کے اپنے اپنے کٹھ پتلی پراکسی ہوسکتے ہیں لیکن اب ہوسکتا ہے کہ سب ان سے تنگ بھی آچکے ہوں۔ میں اپنے مسلمان بھائی اور خطے کے ان مجاہدین سے گزارش کروں گا کہ وقفہ کرلیں جنہوں نے روس ، امریکہ اور بھارت کو مزا چکھانے کیلئے اسلامی جہاد کیا لیکن اب اپنے ہی سرپرستوں کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ مجاہد سے دہشتگرد اور دہشتگرد سے خوارج کا لقب پاچکے ہیں۔ افغان طالبان بھی امریکہ سے دوستی کے خواہاں ہیں اور جب امریکہ بلیک واٹر کے ذریعے اپنا ڈبل گیم کھیل رہا تھا تو پاکستان نے بھی ڈبل گیم کھیلی یا پھر ڈبل گیم کا شکار ہوگیا؟۔ طالبان نے قطر میں دفتر اور افغانستان میں میدان جہاد سجایا تو خلوص تھا یا ڈبل گیم؟۔ اللہ تعالیٰ بھی ستاری کو ہی پسند کرتا ہے۔ پہلے حمام میں سب ننگے ہوتے تھے اور اب حمام سے سب ننگے باہر نکل چکے ہیں۔ جس کا نتیجہ سب کیلئے بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ عیب سے پاک ذات اللہ کی ہے اور جو کمی کوتاہیاں ہم سے ہوئی ہیں بارگاہِ الٰہی میں استغفار کرتے ہوئے ایک امن و امان اور خوشحالی و سلامتی کا ماحول بنائیں تو ممکن ہے کہ سبھی اچھے اہداف تک بھی پہنچ جائیں لیکن سدھرے نہیں تو آخرت کیا دنیا کے عذاب کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا میں ایسی خلافت نے آنا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا کے لوگ خوش ہوں گے اور قرآن وحدیث کی پیش گوئی ثابت ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے سینٹ میںڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی اسلام آبا آمد پر یادگار تقریر کی تھی ، کہا تھا کہ”علامہ اقبال نے 1936ء کے پنجاب اسمبلی میں بلوچستان کے اندر یونیورسٹی قائم کرنے کی قرار داد پیش کی تھی۔ میرے والد نے بلوچستان میں یونیورسٹی کی بات کی تو نوکری سے نکال دیا گیا۔ چین اور پاکستان کے سی پیک کا اصل منصوبہ دونوں ممالک کے پسماندہ علاقوں میں ترقی تھی جو پاکستان میں بلوچ اور پختون قوم کا مغربی روٹ تھا ۔ جس کو چھین کر سندھ اور پنجاب کی طرف موڑ دیا گیا۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو سمجھتی ہے کہ بڑے لوگوں کو امیر تر بنایا جائے پھر وہ سونے کے انڈے دیں گے اور پھر غریب کو بھی کچھ ملے گا۔ مگر ساری دنیا میں ایسے منصوبے بالکل ناکام رہے ہیں”۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ