بریلوی دیوبندی حنفی اہل حدیث اور اہلسنت و اہل تشیع ڈیرہ اسماعیل خان، مولانا فضل الرحمان اور دیگر نامور علمائے کرام اور مفتیوں کا اجلاس بلائیں، اور مجھے بلا کر لوگوں کی جانیں بچائیں۔ حلالہ کی لعنت
دسمبر 1, 2021
نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)
ڈیرہ اسماعیل خان کے دیوبندی بریلوی ، حنفی اہلحدیث اوراہلسنت واہل تشیع مولانا فضل الرحمن اور دیگر اکابرعلماء ومفتیان کا اجلاس بلائیں اورمجھے طلب کریں،تاکہ حلالہ کی لعنت سے عوام کی جان چھڑائیں!
جب طلاق کی واضح آیات پر علماء ومفتیان کی غلط فہمی دور ہوگی تو مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت اورقادیانیوں کا بھی بیڑا غرق ہوجائیگا
محترم السلام علیکم_
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے موضع شور کوٹ کے ایک مولوی کا جو اپنے آپ کو مفتی کہتا ہے دیا گیا ایک فتویٰ بھیج رہا ہوں تسلی فرما کر قرآن و سنت کے مطابق جواب عطا کرکے عند اللہ ماجور فرمائیں۔ جبکہ جس نے طلاق دی وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنے بیان میں قرآن پاک کا تذکرہ نہیں کیا تھا اور نہ اس وقت اس مولوی کے ساتھ کوئی دوسرے علماء بیٹھے ہوئے تھے۔ اصل میں اس مفتی کے فتوے کو رد کرنا ہے کیونکہ اس مولوی نے پورے شہر میں کہا کہ اگر یہ لوگ نکاح ثانی بغیر حلالہ کے کرتے ہیں تو عورت مرد زنا کے مرتکب ہوں گے اور زانی سے ہر قسم کے تعلقات کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ اب یہ لوگ پریشان ہیں۔ شکریہ۔ و السلام
از محمد ادریس علوی صوبائی جنرل سیکریٹری تحریک استقلال پاکستان خیبر پختونخواہ
_ بسم اللہ الرحمن الرحیم_
الاستفتا ء :کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین کہ بقول غلام صمدانی اس نے اپنی زوجہ ہاجرہ بی بی کے مطالبہ پر بایں صورت کہ زوجہ نے شوہر کی گود میں قرآن رکھا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔ اب غلام صمدانی نے علماء کے سامنے اور اپنی زوجہ کے سامنے دوران بیان اقرار کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیں اور اس کی بیوی منکر ہے کہ بعض الفاظ میں نے نہیں سنے۔ اور اس کی بیوی رو رہی تھی اور غلام صمدانی مسلسل اپنی زوجہ کے سامنے مذکورہ بیان دیتا رہا۔ ان بیانات پر حکم شرع بیان فرمائیں۔
_ الافتا ئ_
صورت مسئولہ میں عدت بائنی مغلظہ ہے۔ اور بلا تحلیل کے زوج اول حلال نہ ہوگی۔ کما فی التنزیل :فلا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ الآیہحضرت عبد اللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا۔ اور آپ حضرات نے جواب دیا ۔فقالا لانری ان تنکحھا حتی ……
حررہ سنی حنفی قادری ۔آل رسول محمد شعیب شاہ گیلانی ۔
مدرس فیضان مدینہ، خادم العلماء و الافتائ۔ خادم جامعہ غوث الاعظم دستگیر۔ شور کوٹ ۔ ڈیرہ اسماعیل خان ۔
محترم ادریس علوی صاحب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
صورت مسئولہ میں شرعاً حنفی وشافعی ، دیوبندی ،بریلوی اور دیگر تمام مسالک کے نزدیک بیوی کی رضامندی کیساتھ رجوع کرنا قرآن وسنت کاحکم ہے اور حلالہ کی لعنت قرآن وسنت کے خلاف قطعی طور پر حرام ہے۔ قطعی دلائل یہ ہیں کہ
علامہ ابن قیم اپنی کتاب ” حکم رسول اللہۖ فی الخلع ” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: وثبت بالسنة واقوال الصحابة أن العدة فیہ حےة واحدة و ثبت بالنص جوازہ بعد الطلقتین و وقوع ثالثة بعدہ و ھذا ظاہر جدا فی کونہ لیس بطلاق فانہ سبحانہ تعالیٰ قال:الطلاق مرتان فامساک بمعروف أو تسریح باحسان ولایحل لکم أن تأخذوا مما ء اتیتموھن شیئا الا ان یخافا االا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ]البقرة:٢٢٩[وھذا ان لم یختص بالمطلقة تطلیقتین فانہ یتناولہا غیرھما ولا یجوز أن یعود الضمیر اِلی من لم یذکر ویخلی منہ المذکور اِ ما ان یختص بالسابق أو یتنالہ و غیرہ ثم قال فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد وھذایتناول من طلقت بعد فدیة و طلقتین قطعاً لأنھا ھی المذکورة فلا بد من دخولھا تحت اللفظ وھکذا فھم ترجمان القرآن الذی دعا لہ رسول اللہۖ أن یعلمہ اللہ تأویل القرآن و ھی الدعوة مسجابة بلا شک زاد المعاد جلد ٤،ص١٧
اس عبارت میں حنفی مسلک کے خلاف خلع کو طلاق سے علیحدہ چیز بتایا ہے اوراس میں سنت، صحابہ کے اقوال اور قرآن کے نص کی دلیل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور عبارت کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ” آیت تحلیل میں مذکورہ عورت جس کو طلاق دی گئی ہو فدیہ اور دو مرتبہ طلاق کے بعد قطعی طور پر اسلئے کہ اس کو تحت اللفظ کے تحت داخل کئے بغیر چارہ نہیں اور اسی طرح کا فہم حضرت عبداللہ ابن عباس ترجمان القرآن ہے جس کو نبیۖ نے دعا دی تھی کہ اللہ اس کو قرآن کا علم دے اوروہ دعا بلا شک قبول ہوئی ہے۔ زادالمعاد ج4ص17
علامہ ابن قیم نے یہاں اس عبارت میں احناف کے مقابلے میں امام شافعی کے مسلک کی خلع کے حوالے سے حمایت کی لیکن پھر بھی فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ الآیہ کو اس سے پہلے فدیہ اور دومرتبہ طلاق کیساتھ ہی نتھی کردیا۔ اور اس کیلئے حضرت ابن عباس کے فہم کا حوالہ بھی دیدیا۔ جبکہ حنفی مسلک کی اصول فقہ کی کتابوں میں بھی اس آیت کو فدیہ کیساتھ ہی منسلک کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ اس آیت میں مذکور طلاق کا تعلق احناف کے نزدیک بھی فدیہ کی صورت سے ہی ہے۔
حضرت ابن عباس کی طرف یہ بھی منسوب ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دیتے تھے اور بعض شاگردوں نے یہ بھی کہا کہ جب کسی شخص نے پوچھا کہ میں نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی تھیں تو ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ اس کو اس کی بیوی لوٹادیں گے لیکن اس نے کہا تمہاری بیوی تم سے الگ ہوچکی ہے کیونکہ تو نے اللہ کا خوف نہیں کھایا اور جس چیز میں رعایت تھی اس کا غلط استعمال کیا۔
ابن عباس کے دونوں قسم کے فتوؤں کے تضاد میں یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع کا حکم ہے ا ور جب رجوع کیلئے راضی نہ ہو تورجوع حرام ہے اور یہ صرف آیت230البقرہ کا تقاضہ نہیں بلکہ آیت228،229اور231،232البقرہ اور سورۂ طلاق آیت1،2 کا بھی یہی حکم ہے۔ صورت مسئولہ میں عورت راضی ہو توحلالہ کئے بغیر رجوع کا حکم قرآن وسنت سے ثابت ہے اور عورت راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے رجوع حرام ہے۔ صحابہ کرام، ائمہ عظام کا قرآن کے واضح احکام پر اجماع تھا اور اسکو بعد میں نااہل لوگوں نے غلط رنگ میں پیش کرکے نااہلی کا ارتکاب کیا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ