پوسٹ تلاش کریں

جنوبی وزیرستان میں پیپلزپارٹی کے رہنما سردار نجیب محسودکی شہادت اوروزیرستان محسود ایریامیں امن کی ضرورت

جنوبی وزیرستان میں پیپلزپارٹی کے رہنما سردار نجیب محسودکی شہادت اوروزیرستان محسود ایریامیں امن کی ضرورت اخبار: نوشتہ دیوار

جنوبی وزیرستان میں پیپلزپارٹی کے رہنما سردار نجیب محسودکی شہادت اوروزیرستان محسود ایریامیں امن کی ضرورت

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب مسلسل پروپیگنڈہ ہوتا ہے تو سچ کی خبرپہنچنے سے پہلے جھوٹ گاؤں کے گاؤں بہالے جاچکا ہوتا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” جب کوئی فاسق خبر لیکر آئے تو پہلے اس کی وضاحت طلب کرو اور اس کو اپنے میں سے اولی الامر کی طرف لے جاؤ تاکہ نقصان نہ اُٹھاؤ”۔ آج کل الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کا خطرناک ہتھیار فاسقوں کے ہاتھ میں آیاہے لیکن اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ باطل کے مقابلے میں حق کی وضاحت بھی ہوسکتی ہے۔
جس کے پاس طاقت اور اختیار ہوتا ہے وہ اپنے خلاف کوئی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے لیکن سوشل میڈیا نے طاقتور لوگوں کا اختیار ختم کردیا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے پاک فوج کے خلاف بڑاپروپیگنڈہ کیا گیا۔ ایک بنگالی حسینہ کی پاکستانی فوجی عاشق کیلئے اپنے خاندان کی قربانی کا عنوان دیکر بھارت میں قید رہنے والے پاکستانی فوجی بریگڈئیر کاا نٹرویو لیا گیا ہے جس نے اپنی داستان پر کتاب لکھی ہے۔ ایک عیاش جرنیل جنرل یحییٰ خان کی کہانیاں دیکھ کر یہ بعید ازقیاس نہیں کہ کسی بنگالی حسینہ سے ایک فوجی جوان کو عشق ہوگیا ہو۔ جبکہ اس نے بھارت میں تشدد کے حوالے سے یہ بات کہی کہ” میرے چاروں ناخن ٹوٹے ہوئے ہیںاور متعصب ہندو سے جتنا بھی ہوسکا ،انہوں نے ہماری تذلیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔باقی اس حوالے سے میں نے اپنی کتاب میں بھی کوئی بات نہیں لکھی اور میڈیا پر بھی کوئی بات نہیں کرتا ہوں لیکن یہ تأثر غلط ہے کہ پاک فوج کی بزدلی تھی اورسب اسی کی غلطی تھی۔لاوا پہلے سے تیار تھا”۔
جب ایک طرف یہ پروپیگنڈہ ہو کہ بھارت نے پاک فوجی قیدیوں کے چوتڑ پر ”جئے ہند” کی مہریں لگائی تھیں اور دوسری طرف اس پر بات کرنے کیلئے بھی ہمارا فوجی دانشور اور سپاہی تیار نہ ہو تو لوگوں میں اس غلط فہمی نے جنم لیا تھا کہ چوتڑ پر مہر لگانے کی داستان میں حقیقت تھی۔ حالانکہ ایسی پینٹ پہنائی گئی تھی جس کی پشت پر جئے ہند کی چھاپ تھی۔ یہ تذلیل کا انداز تھا اور اس پر بھی تبصرے کرنا بھی توہین آمیز بات تھی۔ جب ایک سیدھے سادے فوجی کو کہا گیا کہ سفید پینٹ کے چوتڑ پر سیاہ رنگ سے جئے ہند لکھاہواتھا تو اس نے غصہ ہوکرکہا کہ نہیں پینٹ سیاہ تھی اور اس پر لکھائی سفید رنگ کی تھی۔
اب یہاں تک بات پہنچی ہے کہ عام لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ93ہزار فوجی تو بہت بڑی بات ہے ۔اتنی برائلر مرغیوں کو پکڑنا بھی مشکل کام ہے۔ ہم نے بھی کبھی ذہنوں میں نہ صرف پروپیگنڈے پالے بلکہ برملا اس کا اظہار بھی کیا تھا لیکن اس مرتبہBBCکی وہ رپورٹ اردو ترجمہ کیساتھ دیکھ لی کہ جو اسی وقت بنائی گئی تھی۔ جنرل نیازی اور دوسرے فوجی افسران کے علاوہ انڈیا کے افسران کے بھی اس میں تأثرات ہیں اور صحافیوں کے بھی اسی وقت کے تأثرات ہیں۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جذبات کا تناور درخت تیار ہوچکا تھا۔ جب ان کو جیتنے کے باوجود بھی اقتدار منتقل نہیں کیا گیا، جنرل نیازی کی بدتمیزی وبہادری میں بہت توازن تھا، اس وقت موقع پر اپنے اعصاب پر اس طرح قابو رکھنا بہت کمال، بہادری اور حوصلے کی بات تھی۔ اگر ہتھیار نہ ڈالے جاتے تو اپنے شہری علاقوں کو مزید بہت بڑی تباہی اور نقصان کا سامنا ہوسکتا تھا اور اس وقت ایک صحافی نے موقع پراس بات کا اظہار کیا تھا۔ ایک طرف باغی اور متعصب باغیوں کا سامنا تھا اوردوسری طرف بمباردشمنوں کاسامنا تھا ، اس کی ذمہ داری صرف اس وقت پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حکومت و ریاست کی طویل پالیسی کا یہ نتیجہ تھا۔
مغربی پاکستان کے گلگت و بلتستان کے کئی گاؤں پر بھی1971ء میں قبضہ کیا گیا تھا جس کے خاندان کے کچھ افراد ادھر اور کچھ ادھر رہ گئے تھے۔ جرمنی کا چینل50سال بعد اس قبضے کا انکشاف پہلی مرتبہ عوام کے سامنے لارہاہے۔ یہ پشتو کے مشہور مقولے کے مطابق اہمیت کے قابل اسلئے نہیں تھا کہ جب پاکستان کا بڑا حصہ ہم سے جدا ہوگیا تو گائے کیساتھ اس کے بچھڑے کے جانے کی بھی خیر ہے لیکن سچائی سے ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے اور جھوٹ ایک لعنت ہے۔
بنگلہ دیش میں سقوطِ ڈھاکہ کا بچہ آخر کار ایک دن پیدا ہونا ہی تھا اور قوم کے وسیع تر مفاد میں حقائق چھپانے کا بچہ بھی اپنی ولادت کے قریب ہے۔ جب ہم بچے تھے تو اندراگاندھی سے نفرت اور یحییٰ خان سے محبت ایک فطری بات تھی مگر جب شعور بڑھ گیا تو میڈیا کے ترانے ایک فراڈ لگے اور اب یہ فکر لگی ہے کہ ہماری دانست سے قوم میں ایک توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیرستان میں پیپلزپارٹی کے رہنمانجیب محسود اور ڈیرہ اسماعیل خان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ژوب کے شیرانی کا قتل ہوا۔ محسود قوم ماشاء اللہ سمجھدار اور بہادر ہے ۔ جب نقیب محسود کے قتل پر اسلام آباد میں دھرنا ہوا تھا تو یہ ایک حقیقت تھی کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے بعد قبائلی لوگ عمائدین سے زیادہ شیرپاؤ محسود ایڈوکیٹ کے کہنے پر واپس چلے گئے تھے۔ جبکہ بہت کم تعداد میں منظور پشتین کی قیادت میں چندا فراد نے فیصلہ کیا تھا کہ دھرنا جاری رہے گااور اس میں بڑی تعداد منتشر ہونے سے بے خبر رہنے والے سلمان خیل قبیلے کی تھی جو الیکشن لڑنے کی خواہش پر دھرنے میں لائے گئے تھے۔
منظور پشتین اور اسکے ساتھیوں کا اسلئے دھرنے کو ختم کرنے پر اعتراض تھا کہ جو لوگ تائید کیلئے آئے ہیں ان کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ مجھے اس میں مختصرتقریر کا موقع ملا تو میں نے کہا تھا کہ” اصل دھرنا اب شروع ہوا ہے۔یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ” لیکن ساتھ ساتھ یہ روڈ میپ دینے کی بھی کوشش کی تھی کہ ریاست اور حکومت کو تعصبات اور گلے شکوے کے ذریعے نہیں بلکہ اپنا سمجھ کر اس منصب کو خود سنبھال لو۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف لاڈلی دُختر ہیں جنہوں نے کورٹ میرج کے ذریعے بغاوت کی ہے اور تم نرینہ بچے ہو اور تمہیں اس ریاست کا ولی وارث بنناہے جسکے آگے تم نے کبھی اُف نہیں کیا۔
آج شیرپاؤ محسود نے وزیرستان میںوہی بات کی، جو منظور پشتین کا بیانیہ تھا لیکن اس میں پھر وہی غلطی دہرائی ہے کہ قصور صرف اور صرف فوج کا ہے۔ جب وانا میں کانیگرم کے شریف النفس انسان تحصیلدار مطیع اللہ برکی اور اسکے ایک ساتھی ملازئی کے باشندے تحصیلدار کو انتہائی سفاکانہ انداز میں شہید کرکے ان کی لاشوں کو مسخ کیا گیا تو جیو ٹی وی کے نمائندے نے ڈاکٹر عبدالوہاب برکی سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں کس نے یہ کاروائی کی ہے؟۔اس نے جواب دیا کہ ہندوستان نے اتنے فوجی قید کئے تھے لیکن کسی کیساتھ یہ سلوک نہیں ہوا۔ امریکہ نے گوانتا موبے کے قیدی آزاد کئے تو کسی کیساتھ ایسا نہیں ہوا۔ ہندوستان اور امریکہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں ، کسی مسلمان کا بھی یہ کام نہیں ہوسکتا ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ کس نے کیا ہے؟لیکن جیو نے اس کو نشر نہیں کیاتھا۔
پھر علی وزیر کے پورے خاندان اور کوٹ کئی محسود ایریا سے خاندان ملک اور اس کی پوری فیملی کو شہید کیا گیا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے گلشاہ عالم برکی کو غائب کیا گیا جس کا بھائی آئی ایس آئی میں بریگیڈئیر کے عہدے پر تھا۔ فوج کی کانوائیوں پر حملے ہوتے تھے اور بڑی تعداد میں فوجی مار کر ایک شعبان نامی فوجی کو قید کیا گیا تھا جو اپنے ماموں کو بتارہاتھا کہ میری ماں کو پتہ نہ چلے ۔اگر اس وقت قبائل نے درست ایکشن لیا ہوتا تو بعد میں اتنے مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔ شیرپاؤ محسود نے اپنا مقدمہ پیش کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان جیت گئے، ہماراGHQجیت گیا ، تحریک طالبان پاکستان جیت گئی لیکن ہم قبائل کی عورتوں کو پھلا دیا۔ اگرGHQچاہے تومفتی نورولی محسوداور طالبان رہنما ہیلی کاپٹر میں لاسکتے ہیں۔ ہم بندوق نہیں اٹھائیں گے۔ ہم باغی نہیں، آئی ایس آئی کے مخالف بھی نہیں ہیں۔ نور سعید نے کہا کہ ہم طالبان اور فوجیوں سے پوچھیں گے کہ کس جرم کی پاداش میں نجیب محسود کو قتل کیا گیا ہے؟۔ لیکن ہم نے بالکل بھی نہیں پوچھنا ہے۔ بندوق بھی ہم نہیں اٹھائیںگے۔ اگر ہم یونہی رہے تو ایک ایک کا جنازہ اٹھائیں گے۔ نجیب محسود کے قتل پر میرا خون جل رہاہے ۔ فوج کے پاس بیٹھے ہوئے طالبان ہمارے بچے، بھانجے اور بھتیجے ہیں۔ ہم نے علماء کے کہنے پر ہی ان کو بھیجا تھااور اس وقت ایک بڑے بالوں والا پنجابی اس کی تربیت کرتا تھا۔ ہماری قوم کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل فوج نکال سکتی ہے اور ہم نہیں نکالیں گے۔شیرپاؤ کے بیان میں تذبذب کا ہونا ایک مجبوری لگتی ہے۔
جب پشتون کلچر فنکشن کے موقع پر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں منظور پشتین پہنچا تو اس کو تقریر کا موقع بھی نہیں دیا گیا اور اسٹیج پر جانے سے روکا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مروت اور دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پہلے طالبان کے نام پر اپنی قوم کی عزت تار تار کردی اور اب قوم پرستی کے نام پر پھر اپنے محسود قبیلے اور پشتون قوم کا بیڑہ غرق کرنے سے شرم نہیں آتی ہے۔
رسول اللہ ۖ نے وحی کی رہنمائی سے تیرہ سال تک اپنی قوم کو مکی دور میں اپنا کردار ادا کیا اور دس سال مدنی دور میں لیکن پھر ایک انقلاب برپاکردیا ۔ جس کے بعد مسلمان عرب قوم نے مشرق ومغرب کی دونوں سپر طاقتوں ایران و روم کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ آج دنیا کو پھر سے مسلمانوں اور اسلام نے خوفزدہ کردیا ہے۔ فرانس کے واقعات سے پاکستان کے تحریک لبیک سے مذاکرات تک کا اختتام سری لنکن شہری کے بہیمانہ طریقے سے قتل پر ہوگیا۔ایک ضعیف حدیث ہے کہ من سبّ نبےًا من الانبیاء فقتلوہ ”جس نے انبیاء میں کسی نبی کی توہین کردی تو اس کو قتل کردو”۔ حالانکہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت بڑی گالی دیتے تھے اور قرآن نے ان کی خواتین کیساتھ نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔
حنفی مسلک قرآن کے مقابلے میں ضعیف حدیث نہیں صحیح حدیث کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ حضرت عائشہ پر بہتان لگانے کا معاملہ گالی سے بھی زیادہ سنگین تھا لیکن بہتان لگانے والوں کو وہی سزا دی گئی جو کسی عام عورت پر بہتان لگانے کی80کوڑے ہے۔ جبکہ زنا کی سزا100کوڑے ہے۔ اگر سورہ نور کی آیات کی تشہیر کی جائے تو پوری دنیا اس سے روشن ہوسکتی ہے۔ سیالکوٹ کا واقعہ ایک غیرملکی شہری کی وجہ سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا اور اس سے پہلے مشعال خان کا واقعہ بھی بہت سنگین تھا لیکن اس وقت جماعت اسلامی کے سراج الحق اور دوسرے لوگوں کو نبی رحمت ۖ کا دین اوراسلامی تعلیمات کا آئینہ دکھائی نہیں دیا تھا۔ وزیرستان میں جو فضاء بنائی گئی تھی وہ وہی تھی جو سیالکوٹ میں بنی تھی لیکن اپنے قصور کو صرف دوسرے کے سر رکھنا بھی کوئی سمجھداری کی بات نہیں ہے۔
خان زمان کاکڑ ایک تعلیم یافتہ اورباصلاحیت جوان ہے جو پہلےPTMاورANPکی کشمکش میں لٹک رہاتھا اور پھر ایک عہدہ ملنے پر اپنا وزن مستقل عوامی نیشنل پارٹی کے کھاتے میں ڈال دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی ایسی متعصبانہ پالیسی نہیںلیکن خان زمان کاکڑ منفرد مقام رکھتا ہے۔ قوم کو باشعور شخصیات کی سخت ضرورت ہے اور خان زمان کاکڑ جیسے لوگ ایک بہت بڑا اثاثہ ہیں۔
قرآن وسنت نے آزادی کی آخری حد تک گنجائش دی ہے۔ خیبر امن کمیٹی کا سربراہ انتخابات میں قوم کو دھمکی دے رہاتھا کہ ” جس نے ووٹ ڈالا ،تو اس کی کھال ایسی اتاردیں گے جیسے مرغ کی اتاری جاتی ہے”۔ جبMQMنے ایک مرتبہ بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا تو بھی لوگوں کو دھمکی دی تھی کہ ووٹ کا حق استعمال کیا تو انگلیاں کاٹ دیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لاڑکانہ سے ایک مخالف امیدوار کو کمشنر کے ذریعے اٹھالیا تھا۔ سیاسی پارٹیوں نے بدمعاش رکھے ہوتے ہیں۔ تحریک طالبان کے عروج کا دور سب نے دیکھ لیا تھا کہ جب سرکار کے لوگ بھی ڈرتے تھے اور مسلم لیگ ن نے الزام لگایا کہ مولانا فضل الرحمن بھی امریکہ کا ایجنٹ بن گیا ہے ،اسلئے کہ ریاست وحکومت کو خبردار کررہاہے کہ مارگلہ تک طالبان پہنچ گئے ہیں۔پاک فوج میں سپاہی تو دور کی بات ، اصحاب ثروت کیپٹن بھرتی ہونے کیلئے بھی تیارنہیں ہوتے ہیں ۔ کیپٹن صفدر کا بیٹا جنید صفدر بھی اب کیپٹن بننے کوتیار نہیں ہے۔ سنگلاخ جنگلات اور دہشتگردی سے متاثرہ علاقہ میں جان پر کھیل کر ڈیوٹی دینا خالہ جی کا گھر نہیں۔ غریب فوجیوں کے بیٹوں کا کوئی کاروبار نہیں ہوتا اسلئے وہ کم تنخواہ اور مراعات کے چکر میں جاتے ہیں۔
ایک ایسی فضاء بنائی جارہی ہے کہ نوازشریف کو اقتدار منتقل کرنے کیلئے ہرقسم کا حربہ استعمال کیا جائے۔ حالانکہ واپڈا کے بلوں کو فوج کے حوالے کرنے سے لیکر دہشتگردی کے ہر محاذ پر نوازشریف نے فوجی پالیسی کا ساتھ دیااسلئے کہ اس کا جنم بھی مارشل لاء میں ہوا تھا۔ جب اے این پی اور پیپلزپارٹی طالبان کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں تو وہ نشانہ بنیں گے اور اس کو کسی اور کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جب تک فوج مجبور ہوگی تو وہ اس وقت تک اپنی حفاظت کیلئے دہشت گردوں کے روپ میں اپنے لوگوں کو پالنے کی پالیسی پر بھی گامزن رہے گی لیکن جب قوم اپنے میں سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرے گی تو فوج بھی اپنی جان کی امان پائے گی اور کسی سرنڈر کو تحفظ نہیں دے گی۔
عالمی ایجنڈے کے تحت پہلے پشتون قوم کو طالبان کے نام پر تباہ کیا گیا اور پھر قوم پرستی کے نام پر اس کی تباہی کے منصوبے بن رہے ہیں۔ بات کا جواب اورگولی کا جواب گولی سے دئیے بغیر پوری قوم کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہے لیکن جب ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے تو لوگوں کے ذہن بدل سکتے ہیں اور اس میں ریاست کا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ البتہ ہماری ریاست میں سب سے زیادہ کردار پاک فوج کا ہے اور سیاستدان بھی اس کے بنائے ہوئے گملوں میں پلے ہیں۔ ولی خان سے مولانا فضل الرحمن تک اسٹیلشمنٹ کی مخالفت کرتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار مسلم لیگ ن کا ساتھ دیتے ہیں۔ قبائلی علاقہ جات کو اگر امریکہ کے کہنے پر ضم کیا گیا تو ن لیگ کا دور تھا اور مولانا فضل الرحمن حکومت کا حصہ بقدر جثہ تھے۔سی پیک کا مغربی روٹ مسلم لیگ ن کے دور میں تبدیل ہوا۔ کرک کے گیس کو اٹک منتقل کرنے کی کوشش مسلم لیگ کے دور میں ہوئی اور اس کا نام کرک کی جگہ اٹک رکھا گیا۔پارٹیاں نظریات اور قومی مفادات کی نہیں اپنے ذاتی معاملات کا تحفظ کرتی ہیں۔اللہ سب کو اب ہدایت بھی دیدے۔
وزیرستان میں امن کی بحالی کو قبائلی عمائدین، سرنڈر مجاہدین اور سول و ملٹری حکام، سیاستدان اور نوجوان قیادت مل کرممکن بنائیں تاکہ پھر سے ٹارگٹ کلنگ اور قیمتی شخصیات کے قتل کا سلسلہ جاری نہ ہو۔سردارنجیب محسود کہتا تھا کہ” یہاں امن کی بات کرنا منع ہے تاکہ ترقیاتی کام کے نام پر پیسہ ہڑپ کیا جائے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟