پوسٹ تلاش کریں

قرآن کی کسی آیت کا حکم منسوخ نہیں!

قرآن کی کسی آیت کا حکم منسوخ نہیں! اخبار: نوشتہ دیوار

ما ننسخ من آیةٍ او ننسھا نأت بخیرٍمنھا او مثلھا ہم جو آیت منسوخ کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آتے ہیں۔البقرہ:106

سوال:کیا اس آیت سے یہ کہیں لگتا ہے کہ اللہ نے اس آیت سے اپنا کوئی حکم منسوخ کردیا ہے؟۔
جواب : اس آیت سے کسی حکم کی منسوخی کا تصور زائل ہوتا ہے۔ اگر کسی حکم کی آیت اللہ نے منسوخ کردی ہے تو اس سے بہتر آیت اس حکم کو سمجھنانے کیلئے نازل کی ہے یا کم ازکم اسی جیسی آیت ضرور۔
سوال :شیعہ پر الزام لگتاہے کہ وہ اللہ کی طرف بھولنے کی نسبت کرتے ہیں تو کیا قرآن کی آیات میں تبدیلی اور بھلا دینے کا الزام درست ہے؟۔
جواب: قرآن کی آیات میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی بھلادینے کا امکان تھا۔
اس آیت میں سابقہ آسمانی کتب کی آیات میں منسوخی اور بھلاد ینے کی بات ہے اسلئے کہ انہوں نے احکام کو تبدیل کردیا تھا۔ من الذین ھادوا یحرفون کلم عن مواضعہ و یقولون سمعنا و عصینا واسمع غیر مسمعٍ وراعنالیًّا بألسنتھم وطعنًا فی الدین (المائدہ :46)
”اور یہود میں کچھ لوگ کلمات کو اپنی جگہوں سے ہٹاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے سنا اور انکار کیا اور سنو،نہیں سننااور ”راعنا” اپنی زبانوں کو نرم کرکے اور دین میں طعن زنی کرتے ہوئے”۔
اہل کتاب ایماندارطبقہ ”سلام علیکم” کہتا ۔ لیکن یہود ”سام” کہہ دیتے۔ قرآن میں اہل کتاب کی طرف مخاطب کے لفظ سے منسوب ہے کہ وہ سلام علیکم کہتے تھے اور سابقہ کتابوں میں حکم بھی ہوگا لیکن قرآن میں ”سلام علیکم” کے الفاظ کا مسلمانوں کو حکم نہیں ہے۔ جب یہود نے نبیۖ سے کہا کہ سام علیکم تو حضرت عائشہ نے ان کو جواب میں یہ کہا کہ وعلیکم سام ۔ نبیۖ نے فرمایا ”وعلیکم” کافی تھا۔
رعاک اللہ ،اللہ تیری حفاظت کرے۔ راعنا کا معنی ہماری نگہداشت کیجئے۔ راعنة، راعنہ رعونت سے ناسمجھی کے ہیں۔ یہود الف کی جگہ آخر میں ”ة” کو ”ہ” سے بدل دیتے تھے۔ راعنا کی جگہ راعنہ کہتے اور مذاق اڑاتے ۔ اسلئے اللہ نے حکم دیا کہ
یایھا الذین اٰمنوا لاتقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا …”اے ایمان والو! راعنا مت کہو،اور کہو کہ انظرنا اور سنو۔ اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے۔ نہیں چاہتے کافر اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کہ تمہارے اوپر خیر میں سے نازل ہو۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے”۔ ( البقرہ آیات104،105)
اہل کتاب نے اعتراض کیا کہ راعنا کا حکم اللہ نے منسوخ کیا اور سلام علیکم کے حکم کو بھلادیا ہے۔
اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ ” جب ہم کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی دوسری آیت لاتے ہیں”۔
بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ قرآن کے کچھ احکام کو نازل کرتے ہیںتو پھر ان کو تبدیل کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں؟۔
پھر اس کا مصداق تلاش کرنے کے پیچھے بہت ساری روایات گھڑ دیں۔ یہاں تک بھی بک دیا کہ سورہ احزاب آدھی رہ گئی اور آدھی بھلادی گئی ہے۔
مفتی منیر شاکر شہید کے پاس علامہ غلام رسول سعیدی کی کتابیں تھیں۔ میں نے کہا کہ ”خلع” کی تنسیخ پر آدھی سورہ احزاب کو بھلانے کا لکھ دیا گیا۔
شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ کیا تو علماء نے ان پر کفرومرتد کا فتویٰ لگایا۔ حالانکہ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم کے ہم عصر” ملاجیون” کی کتاب ”نورالانوار” میں لکھا ہے کہ ” امام ابوحنیفہ نماز میں قرآن کو فارسی سے عربی میں پڑھنا جائز نہیں بلکہ افضل سمجھتے تھے۔ فتاویٰ عالمگیریہ اور نورالانواراس وقت سے مدارس میں رائج ہیں۔ پھر جب دوسری زبانوں میں قرآن کا ترجمہ ہوا تو پشتو ترجمہ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا۔ عرب اور پشتون قوم کا بیٹیوں کو بڑی رقم کے بدلے بیچنا اور پنجاب و ہندوستان میں جہیز کی لعنت سے واضح ہے کہ مسلمان کا عمل قرآن سے بہت دور ہے۔ ہندو بیوہ کو ”ستی” میں زندہ جلاتے تھے تو شاہ اسماعیل شہید اور مولانا قاسم نانوتوی کی طرف سے بیوہ کی شادی احیاء اسلام کی تحریک تھی۔
مدارس اور مذہبی طبقات کی بہتات کے باوجود مسلمان قرآن واسلام سے اسلئے دور ہورہاہے کہ مذہبی تعلیمات ہی غلط اور خلافِ فطرت ہیں۔
٭

قرآن کی آیات محکمات کا انکار کیا گیا!

قرآن کی آیات اور احکام کو منسوخ کرنے کے حوالے سے مسلمانوں میں انتہائی گمراہ کن عقائدوتعلیمات کا وہ آئینہ جس پر پارلیمنٹ میں آئین سازی کرنی ہوگی

جب ہم عمرہ پر گئے تھے تو مدینہ منورہ میں کتابیں دیکھنے اور خریدنے جاتے تھے۔ مہدی سے متعلق ایک کتاب پوچھنے پر کتب خانے والے نے کہا کہ ”آپ شیعہ تو نہیں؟”۔ میں نے کہا کہ میں شیعہ ہوں اور آپ؟۔ اس نے کہا کہ الحمد للہ ہم سنی ہیں۔ میں نے کہا کہ الحمدللہ ہم شیعہ ہیں تو الحمدللہ سے کیا ہوتا ہے؟۔ شیعہ سنی میں فرق کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں۔ میں نے کہاکہ آپ نہیں ہیں؟۔ اس نے کہا کہ بالکل نہیں! تو میں نے کہا کہ ابن ماجہ اُٹھاؤ۔ پوچھا یہ آپ لوگوں کی کتاب ہے؟۔ اس نے کہا کہ ہاں ۔ جب اس میں روایت دکھائی کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو رضاعت کبیر اور رجم کی آیات چار پائی کے نیچے پڑی تھیں اور بکری نے کھاکر ضائع کردیں۔ تو وہ لوگ دھنگ رہ گئے۔
میں نے کہا کہ ”میں تو نہ شیعہ ہوں اور نہ سنی” تو انہوں نے کہا کہ ”ہم بھی نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی” اور وہ دونوں علماء لگ رہے تھے۔ مدینہ یونیورسٹی میں آخری درجہ تک پڑھانے والے اساتذہ کرام سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ” آپ کی باتیں درست ہیںلیکن اگر یہاں پتہ چلا تو ہمیں غائب کردینگے یا پھر نوکری سے فارغ کرکے جلاوطن کردیںگے”۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کو بھی ساری بات سمجھادی تھی لیکن اس نے کہا کہ” علماء شاہ دولہ کے چوہے ہیں ،میر ی نوکری کیلئے مشکل کھڑی ہوگی”۔ مولانا محمد خان شیرانی، مولاناعطاء الرحمن ، مفتی سعید خان، مولانا تراب الحق قادری اور بڑی تعداد میں علماء کرام کو بالمشافہہ اور تحریرات سے باتیں سمجھ میں آگئی تھیں لیکن کچھ علماء کرام میں ایمانی غیرت ہے اور کچھ میں ہمت نہیں ہے۔
قرآن کی تعریف کا معاملہ اپنے استاذ مفتی محمد نعیم صاحب جامعہ بنوریہ عالمیہ کے سامنے رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو واقعی قرآن کی تحریف ہے۔
جب قرآن کی تعریف میںیہ پڑھایا جائے کہ ”اس سے غیر متواتر آیات نکل گئی ہیں اور اس میں شبہ والی آیت ہے”۔تو یہی تحریف کا عقیدہ ہے۔
اصول فقہ میں جو آیات پڑھائی جاتی ہیں وہ نہ صرف متنازعہ ہیں بلکہ قرآن کی واضح تعلیمات کی بیخ کنی بھی کی جارہی ہے۔مثلاً ثلاثة قروء میں 3 کاعدد خاص ہے اور عورت کو طلاق طہر میں دینی ہے اور عورت کی عدت 3حیض ہے اسلئے کہ جس طہر میں طلاق دی ہے اگر اس کو شمار کیا جائے گا تو عدت تین کی جگہ پر ڈھائی بن جائے گی۔(نورالانور)
اگر3 حیض کو شمار کیا جائے تو جس طہر میں طلاق دی ہے تو اس کی وجہ سے عدت ساڑھے 3حیض بن جائے گی۔ پھر بھی قرآن کے خاص پر عمل نہ ہوگا اور یہ بات میں طالب علمی کے زمانہ میں اساتذہ کے سامنے رکھ چکا ہوں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ کتاب میں غلط تعلیم دی جارہی ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ عدت کی دوقسمیں ہیں۔ایک عدت الرجال جو مردوں کی عدت ہے جو عورت کی پاکی کا زمانہ ہے یعنی مرد عورت کی پاکی میں طلاق دے گا ۔ دوسری عورت کی عدت ہے جوحیض ہے ۔ حالانکہ قرآن کی سورہ طلاق میں اللہ نے فرمایا کہ ” جب تم عورتوں کو طلاق دو تو تم لوگ ان کی عدت کیلئے طلاق دو”۔ فطلقوھن لعد تھن پھر تو حیض کیلئے طلاق دینی ہوگی اور ایک تو عدت الرجال کی مشروعیت وڑ گئی اور دوسرا یہ کہ حیض میں ویسے بھی مقاربت منع ہے۔
قرآن کے متعلق غلط قواعد سے صرف حضرت عائشہ کے قول اور جمہور فقہی مسالک کی مخالفت نہیں ہوتی ہے بلکہ قرآن کی آیات کا درست ترجمہ بھی ناممکن بن جاتا ہے اور قرآن کی واضح آیات مجہول اور منکرات کے احکام میں بدل جاتے ہیں۔
پھر ایک طرف حنفی مسلک یہ ہے کہ خبرواحد کی حدیث کو آیات سے متصادم قرار دیتے ہیں جن کی وجہ سے انکارِ حدیث کا مسئلہ آتا ہے اور پھردوسری امام شافعی کے نزدیک قرآن میں خبرواحد کا عقیدہ کفر اور تحریف ہے لیکن احناف کے نزدیک قرآن کی خبرواحد بھی آیت کے حکم میں ہے۔ جس سے قرآن کی آیات محکمات کا تصور ہی ختم کردیا گیا ہے اور میںایک عرصہ سے لگاہوا ہوں اور عدالت کے دروازے پر دستک دینے کے بغیر چارہ نہیں ہے ۔
٭

مدارس سے ہی انقلاب آئیگا!انشاء اللہ

منہ اٰیٰت محکمٰت ھن ام الکتٰب واُخر متشٰبھٰت
اس میں سے کچھ فیصلہ کن آیات ہیں جو کتاب کی بنیاد ہیںاور دوسری متشابہات ہے۔ (سورہ ال عمران:7)

مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی محکم آیات میں گڑبڑ اور انتشار کی وہ کیفیت پیدا کردی کہ اچھے خاصے ذہین غلام احمد پرویز جیسے کو بھی بہت زیادہ الجھاؤ نے گمراہ کردیا۔ علماء کرام کی بدنیتی نہیں بلکہ نیک نیتی ہے کہ قرآن کا ترجمہ مت پڑھو اسلئے کہ جب ایک عالم دین اپنے علم کی گمراہی کاکٹا لیکر قرآن کو دیکھتا ہے تو اس کا اپنا دماغ بھی کام نہیں کرتا تو دوسروں کو کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس کو پڑھ کر ہدایت حاصل کرو؟۔ ہندوستان میں قرآن کے ترجمہ کا سہرا شاہ ولی اللہ اور انکے صاحبزادگان شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے سر ہے۔
لیکن قرآن سے مسائل کیسے حل ہوتے کہ جب محکم آیات پر حنفی، مالکی ،شافعی، حنبلی اور جعفری کے علاوہ فقہائ، مجتہدین، محدثین ، خلفاء راشدین اور صحابہ کرام وتابعین عظام تک کوئی متفق نہیں تھے؟۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پہلے کسی خلیفہ راشد ، صحابی، اہل بیت ، تابعی ، تبع تابعیاور مجتہد اور فقیہ ومحدث کی رائے یا عمل کو معیار بناتے ہیں ،اس کے بعد قرآنی آیات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔
جب محکم آیات سے مسائل حل ہونے کے بجائے فکری، ذہنی، قلبی، نظریاتی ، عقیدے ، مسلک ، مشرب اوروجدانی کیفیات میں انتشار وفساد ہوگا تو مسلمان کیسے گمراہی کے دلدل سے نکلیں گے؟۔
محض یہ کہنا کہ” قرآن کی طرف رجوع مسائل کا حل ہے”ایک ہوئی فائرنگ کے سوا کچھ نہیں ہے اور شاہ ولی اللہ سے شیخ الہند مولانا محمودالحسن تک اور مولانا عبیداللہ سندھی سے علامہ تمناعمادی، غلام احمد پرویز،جاویداحمد غامدی اور مفتی منیر شاکر شہید تک قرآن کی طرف دعوت دینے والوں کی ہر دور میں ایک اچھی خاصی تعداد بھی رہی ہے۔ لیکن
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
قرآں کو بوٹی بوٹی کردیا فقہاء ملت نے
فرقوں کی بہتات میں رسولۖ خدا ملتا نہیں
جب قرآن میں آیات محکمات کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ وہ محکمات جس کی وجہ سے اس وقت کی سپر طاقتیں روم وفارس لیٹ گئی تھیں اور مشرق و مغرب میں ایک بڑا انقلاب برپا کردیا تھا لیکن پھر خلافت خاندانوں کی لونڈی بنادی گئی اور مذہبی طبقہ محکمات کے بٹوارے میں لگ گیا۔ پھر متشابہات کا کیا حال کیا ہوگا؟۔ اسلام اور مسلمان قسمت کے بڑے دھنی ہیں۔ متشابہات کے معنی مشتبہ کے نہیں جس میں اشتباہ ہو بلکہ مشابہ مراد ہے۔ جیسے جیسے سائنس کی ترقی وعروج کا دور آرہاہے تو مشابہ آیت دنیا کے سامنے فتوحات کی تصویر لئے کھڑی ہے۔
پہاڑوں کو قرآن نے میخیں قرار دیا۔ سائنس کی دنیا نے ثابت کیا۔ پہاڑوں کے بارے میں کہا کہ یہ بادلوں کی طرح چلتے ہیں اور ثابت ہوا اور عرب اترابًا قد کے برابر گاڑیاں کہا۔ ترقی یافتہ دنیا نے ثابت کیا۔وانزلنا الحدیدًاہم نے لوہے کو نازل کیا تو سائنس نے ثابت کیا۔ مدارس کے علماء کرام کا کوئی قصور اسلئے نہیں کہ ان کو ورثہ میں جو کچھ مل گیا تو انہوں نے اپنے جبڑے سے مضبوط تھام لیا لیکن یہ بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس ہی کا کمال ہے کہ میں نے انہی سے کسب فیض کیا ،مجھے سب سے زیادہ سپوٹ بھی مدارس کے علماء ومفتیان ہی سے ملی اور آج بھی میرا میدان عمل یہی لوگ ہیں اور مساجد ومدارس ہی سے انقلاب آئیگا۔ انشاء اللہ
پختونخواہ سے کراچی ایک تیز رفتار بس پر لکھا تھا کہ ” جوماں کا اکلوتا بیٹاہووہ اس میں سفرنہ کرے”۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی ،علامہ تمنا عمادی ،غلام احمد پرویز، مولانا ابوالاعلیٰ موددی، ڈاکٹر اسرار احمد، شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری، ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی ،کمال لدین عثمانی ،پروفیسر مسعود احمد،مفتی منیر شاکر اور وہ تمام فرقے، جماعتیں اور گروہ جو ایک ایک شخصیت کے سہارے کا آسرا لئے ہوئے ہیں تو ہم ان کو احترام کیساتھ کہتے ہیں کہ تم لگے رہو۔ اپنی شخصیت قربان کردی تو پھر تمہارا بچے گا کیا؟۔ البتہ اگر جمہور امت کے علماء ومفتیان میں سے بہت بھی قربان ہوگئے تو بڑی تبدیلی و انقلاب کی توقع ہے۔
جمہور کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
اجماع ہے ملت کے مقدر کا سورج

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

اخبار کی وجہ سے قرآ ن وسنت کے مطابق طلاق کا مسئلہ حل کیا ثواب آپ کو ملے گا ۔مولانا عنایت الرحمن
پاکستان کی سر زمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز، طلاق کے مسائل کا حتمی حل اور دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کیلئے سنجیدہ اقدامات کا آئینہ
عورتوں کیلئے قرآن میں اللہ ایسا فتویٰ دیتا ہے جس میں خطا کی کوئی گنجائش نہیں ہے