سندھ کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کیلئے ایک تجویز!
ستمبر 8, 2020
اخبار: نوشتہ دیوار
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
سندھی و مہاجر اپنی الگ الگ تہذیب وتمدن کیساتھ رہتے ہیں۔ مہاجر وطن ہندوستان چھوڑ کر سندھ میں آباد ہوئے اور سندھی پرانی تہذیب کیساتھ رہتے ہیں۔ ایک شیعہ بچہ داد لینے کیلئے کہتا ہے کہ لیڈر دو تھے، ایک محمدۖ اور ایک حسین ۔ جب محمدۖ نے دن کے وقت لوگوں کو بلایا تو کوئی نہیں آیا اور حسین نے رات کی تاریکی میں جانے کا کہا تو کوئی نہیں گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑا لیڈر کون تھا؟۔
مہاجر بے وطن نہیں،پوراپاکستان مہاجر کا وطن ہے۔سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ اپنے اپنے علاقوں میں رہ سکتے ہیں اور ایکدوسرے پر اپنے علاقوں میں بھی رہائش کے دروازے بند کرسکتے ہیں۔ لیکن مہاجر پورے پاکستان کے باسی ہیں۔
مہاجرصوبہ سندھ کی تقسیم پر بن سکتا ہے جو سندھیوں کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ اگر کراچی کو صوبہ بنالیا تو سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں فساد بھڑک سکتے ہیں۔ بھارت سندھ سے لگا ہے۔ فسادات کے بعد بنگلہ دیش جیسی صورتحال سندھ میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ کچھ کٹھ پتلی قسم کے سمیع ابراہیم جیسے صحافی خود کو ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنٹ ظاہر کرکے نادانستہ طور پر پاکستان کو بحران کی طرف گھیسٹ رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے بہت غلط کیا ہوگا کہ اسکے چشمے کو مکا مار کر توڑ دیا تھا لیکن ایسی حرکت نہیں کرنا چاہیے کہ غلط تجاویز اور پروپیگنڈے سے ملک وقوم کو نقصان ہوجائے۔
رسول بخش پلیجو کے گلے شکوے سوشل میڈیا پر پھیل گئے تو انور مقصود نے بھی بہت اچھا بیان لکھ کر مہاجر بھائیوں کو حقائق سمجھانے کی زبردست کوشش کی۔ معاملہ اس وقت صلح ، امن و آتشی اور بھائی چارے کی طرف آئیگا کہ جب ایک دوسرے کی خوبیوں اور فوائد کی طرف نظر کرینگے اور اپنی خامیوں کو اجاگر کرکے اپنی قوم سے ہوا نکالیںگے۔ جب مہاجر صوبے کی بات عروج کی طرف بڑھ رہی تھی تو ایک عورت یا لڑکی کی طرف سے سوشل میڈیا پر بیان آیا جس نے اپنا تعلق حیدر آباد سے ظاہر کیا تھا اور سوشل میڈیا پر جعلی ایڈرس بھی ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق الطاف بھائی سے تھا۔ اور بہت مؤثر تحریر لکھی تھی کہ ” اپنا صوبہ بنانے سے اگر مسائل حل ہوتے تو بلوچستان اور پختونخواہ کے لوگ خوشحال ہوتے اور ریاستی جبر اور غلامی کا رونا نہ روتے۔ مہاجروں کو کراچی الگ صوبہ بناکر دیا تو ان کو مزید زیادہ مار پڑے گی۔ یہ بالکل کٹھ پتلی بن کر رہ جائیںگے۔ ہم پاگل نہیں کہ مہاجر صوبہ بنائیںگے بلکہ ہم الطاف بھائی کی قیادت میں سندھو دیش بناکر دم لیںگے”۔ الطاف بھائی کے کارکن عتاب میں ہیں اور ان سے اس قسم کے بیانات خلافِ توقع نہیں۔ پھر الطاف بھائی کا بیان بھی سامنے آگیا ،جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ ”ہم نے پہلے بہت بڑی غلطی کردی کہ اپنا وطن ہندوستان چھوڑ دیا ۔ اب ہم سندھی ہیں، ہمارا کوئی دوسرا وطن نہیں ، سندھ سے غداری کی غلطی نہ کرو”۔ یہ معمول کی بات لگی کہ الطاف بھائی ہر اس قدم کی مخالفت کرینگے جسکے پیچھے وہ خود اور اس کی پالیسی کا عمل دخل نہ ہو۔ پھر ہندوستان کی اسمبلی میں پہلی بار سندھی زبان میں تقریر ہوئی اور ایک کروڑ سندھیوں کی ہندوستان میں نشاندہی اور سندھ کے مشترکہ اقدار منجو دھڑو وغیرہ کا ذکر کیا گیا۔ ہندوستان کے پنجاب میں سکھوں کیساتھ پہلی مرتبہ مراسم قائم کئے گئے۔ امریکہ کا حکمران طبقہ اسلحہ سازوں کا ایجنٹ ہے اور اس خطے کے ٹکڑے کرکے گریٹ پنجاب کیساتھ سندھ ، بلوچستان اور پختونخواہ میں بڑے پیمانے پر خونریزی کا چکر چلانا چاہتا ہے۔ ریاست کے دلال قوم پرستوں پر ایجنٹ کا الزام لگاکر خونریزی کی راہ مزید ہموار کررہے ہیں اسلئے کہ ایجنٹ ہونے کا کردار سب سے زیادہ پاکستان کی ریاست نے ادا کیا ہے۔
جب تک ہماری ریاست ہوش کے ناخن نہ لے اور عوام میں بیداری کی لہر نہ دوڑائی جائے ہم ایک نامعلوم اور بہت خطرناک منزل کی طرف جارہے ہیں۔ ایک نوکر پیشہ ملازم اور کٹھ پتلی سیاستدان کو اپنے ماحول کے نشے میں بات اسوقت تک سمجھ نہیں آتی جب تک اس کو سرکے بل پٹخ کر اس کی دنیاتبدیل نہیں کی جاتی۔ ہنوز دلی دور است ۔ ”ابھی دہلی دور ہے ” کی کہاوت بہت پرانی مشہور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور منافقوں کا زبردست نقشہ سورۂ نور میں کھینچاہے واذادعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم اذا فریق منھم مغرضونO ” اور جب ان کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ ہو تو ان میں ایک گروہ ٹال مٹول کرتا ہے” ۔ سندھ لینڈمافیا کا مرکز ہے۔ پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ سیکولر ازم ہے۔ اسلامی سوشل ازم کا نعرہ بھٹو نے لگایا تھا۔ آج قرآن وحدیث اور فقہ کے جمہوری مسالک کے مطابق مزارعت کا نظام سندھ میں ختم کیا جائے تو پورے پاکستان نہیں بلکہ دنیا میں انقلاب آئیگا۔ مزارعین کو مفت کی زمین کاشت کیلئے مل جائے تو سندھی عوام کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ عوام کو اسلام بھی چاہیے اور اپنا مفاد بھی اور اسلامی مزارعت میں دونوں باتیں ہیں لیکن سیاسی پارٹیاں اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں اس میں وہی فریق ہیں جو اسلام سے اعراض میں قومی مفادات کو نظر انداز کرکے اپنے ذاتی وخاندانی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اللہ اگلی آیات میں فرماتا ہے کہ ” اگر بات انکے حق میں ہو تو اس میں مطیع اور فرمانبردار ہونے کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا انکے دلوں میں مرض ہے یا یہ شک میں ہیں؟ یا ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول ان پر خوف مسلط کردیںگے؟۔ بیشک یہی لوگ ظالم ہیں۔ مؤمنوں کی بات یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ انکے درمیان فیصلہ ہو تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اطاعت کرلی۔ اور یہی لوگ فلاح والے ہیں۔ اور جو اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس کا پرہیزگار بنے تو یہ لوگ کامیاب ہیں اور یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیںکہ ان کو آپ حکم دو تو سب گھروں سے قربانی کیلئے نکل کھڑے ہونگے ،ان کو کہہ دیجئے کہ قسمیں مت کھاؤ، معروف اطاعت کرو، بیشک اللہ جانتا ہے جو تم عمل کررہے ہو۔ ( سورۂ نور آیات۔ آیات48تا53)
جو عام معاملات میں لینڈ مافیا، کرپشن، ظلم وجبر اور ہرطرح کی حرام زدگیوں میں ملوث ہیں وہ ملک وقوم اور اسلام پر مشکل وقت آن پڑنے پر قربانیوں کی قسمیں کھاتے ہیں اور جوش وجذبے کے مظاہرے کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ پر تھپڑ مارا ہے کہ قسمیں مت کھاؤ، معروف اطاعت کرو۔ وقت پر تمہارے بدلنے کی ضمانت تمہاری قسمیں اور عہدوپیمان نہیں ۔ جسکا تم نے حلف اٹھایا، اس کی پاسداری بھی تم سے نہیں ہوتی۔ جب قوم کو محکوم، مجبور، مظلوم اور بہت پسماندہ رکھا جاتا ہے تو ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایک حکمران اپنی جگہ سے ہٹ جائے اور دوسرا آجائے۔ بنگلہ دیش پاکستان کی بنیاد تھا لیکن پھر آزاد ہوگیا تو آج خوشحال ہے۔ مزارع مزارع ہی رہے گا تو وہ ملک وقوم کیلئے کیوں قربانی دے گا؟۔ محنت کش خون پیسنے کی کمائی سے پیٹ نہیں پال سکتا تو کیوں بیوقوف بنے گا کہ سیاستدان نے ملک کو لوٹا ہے یا فوجی اسٹیبلیشمنٹ، عدالتی اسٹیبلیشمنٹ اور سول اسٹیبلیشمنٹ نے؟ اور کس کی حکومت آئے اور کس کی جائے؟۔ یہ درست ہے کہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں بیرونی اور اندرونی قرضے نہیں بڑھے لیکن دونوں ادوار میں امریکہ کی جنگ لڑکر قوم کا اخلاقی اور جسمانی دیوالیہ بھی نکال دیا گیا اور افراد نے بہت کمایا لیکن قوم کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ مہاجر سندھی بھائی بھائی زندہ پائندہ باد
لوگوں کی راۓ