عورتوں کیلئے قرآن میں اللہ ایسا فتویٰ دیتا ہے جس میں خطا کی کوئی گنجائش نہیں ہے
مئی 17, 2025

خلع وطلاق اور عورت کے مالی حقوق کامسئلہ
عورت کو خلع کا حق :
اللہ تعالی نے فرمایا : ” اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی سے عورتوں کے مالک بن بیٹھو۔ اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ ان سے اپنا دیا ہوا بعض مال واپس لے لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کریں اور ان سے اچھا سلوک کرو ،اگر تم انہیں برا سمجھ رہے ہو تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اس میں اللہ بہت سارا خیر رکھ دے” ۔ (النساء 19)
اس آیت میں نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے بلکہ اس کو مالی حقوق کا قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔ بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ ، مغلیہ سلطنت ، خاندان غلاماں یا ممالیک نے حکومتوں کو بھی اپنی ذاتی وراثت اور لونڈی بنارکھا تھا تو عورت کو قرآن کے مطابق پھر کیا حقوق دینے تھے؟ اور زیادہ تر علماء سوء اور فقہاء رنگ وبو ان کاچربہ تھے۔
عورت کو اگر نہ صرف خلع کا حق قرآن کے عین مطابق مل جائے بلکہ شوہر کا دیا ہوا وہ مال بھی اس کی ملکیت رہے جس کو وہ اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے تو ساری دنیا کے آدھے نہیں پورے مسائل حل ہوں گے۔ دکان، مکان اور جائیداد عورت کودئیے ہوں تو ان سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا جو قرآن کی اس آیت سے بھی واضح ہے اور نبیۖ نے بھی یہ وضاحت فرمائی ہے کہ دیا ہوا باغ واپس کروادیا۔ اگر مفتی تقی عثمانی کی فتویٰ عثمانی میں نابالغ بچیوں پر نکاح کے مظالم دیکھ لئے تو فلسطین بھول جاؤ گے۔
طلاق میں عورت کے حقوق
اللہ نے فرمایاکہ ” اگر تم ایک عورت کے بدلے دوسری سے نکاح چاہتے ہو تو اور ان میں کسی ایک کو بہت سارا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔ کیاتم وہ مال بہتان کے ذریعے اور کھلے گناہ سے واپس لوگے”۔ (النساء آیت20)
اس میں طلاق کے اندر تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد میں سے کچھ بھی واپس نہ لینے کا حکم ہے۔ بہتان کو ذریعہ بنانے سے روکا گیا ہے۔ خلع میں عورت جدائی چاہتی ہے اسلئے حقوق کم ہیں۔ طلاق مرد ہی دیتا ہے اسلئے پورے حقوق دئیے گئے ہیں۔
یہ بات اچھی ذہن نشیں بلکہ دل نشیں کرلیں کہ
عورت کا حق مہر اللہ نے مرد کی استطاعت کے مطابق رکھا ہے۔ البتہ مرد اپنی استطاعت کو چھپاتا ہے تو عورت کے اولیاء کو اپنے حق کی پاسداری کیلئے وکالت کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ یہ سب فضول اور بے بنیاد بکواس ہے کہ شرعی حق کی مقدار کیا ہے؟۔
اللہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر عورت کو طلاق دیدی تو بھی مقرر کردہ حق مہر کا آدھا اور متعین نہیں کیا ہو تو امیر اور غریب پر استطاعت کے مطابق متقی لوگوں پر فرض کیا گیا ہے۔
پھر سہولت دیتے ہوئے اللہ نے آدھے سے کمی و بیشی کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ عورت بھی کچھ چھوڑ سکتی ہے اور مرد بھی زیادہ سے زیادہ دے سکتا ہے۔ البتہ چونکہ مسئلہ خلع کا نہیں طلاق کا ہے ۔مردچھوڑنا چاہتا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ ”جس کے ہاتھ میں نکاح کا عقدہ ہے تو اس کو چاہیے کہ زیادہ دیدے اور ایک دوسرے پرآپس میں فضل کومت بھولو”۔
احمق فقہاء نے اس آیت کی بنیاد پرعورت سے خلع کاحق چھین لیا ہے کہ عقد نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے حالانکہ سورہ النسائ21 میں نسبت عورت کی طرف ہے وقد اخذن منکم میثاقًا غلیظًا ”اور انہوں نے تم سے پکا عہدوپیمان لیا”۔
سورہ بقرہ آیت229البقرہ میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے ۔ صدر وفاق المدارس شیخ الاسلام مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں اس کو بہت مشکل اور ناقابل فہم قرار دیا ہے مگر سیدمودوی اور جاوید غامدی جیسے جاہلوں نے سلیس انداز میں اس کا ترجمہ خلع کرکے نہ صرف جاہلیت کا بہت بڑا ثبوت دیا بلکہ قرآن کے ذریعے امت کو گمراہ کیا۔
ہم نے بفضل تعالیٰ اصول فقہ کی تعلیم حضرت مولانا بدیع الزمان جیسے اساتذہ سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں نہ صرف رسمی طور پر حاصل کی ہے بلکہ نصاب کی غلطیوں کو آشکارا کرکے تائیدوحمایت اور زبردست حوصلہ افزائی کی ترغیب وتربیت اچھے انداز میں حاصل کی ہے۔ اگر علماء کرام نے حقائق کو قبول نہیں کیا تو جدید دانشور اسلام کی تفہیم پر ڈاکہ ڈالیںگے۔ جیسے مولوی جعلی پیر بن رہے ہیں ویسے دانشور جعلی علماء بن کر اسلام کا تختہ الٹ رہے ہیں۔
٭
ایک مجلس کی 3 طلاق 1یا 3؟، فیصلہ کن حل!
ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہے یا پھر تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟۔
جو اہل حدیث وغیرہ کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی3 طلاقیں ایک طلاق رجعی ہے تو ان کا مقصد درست لیکن علم کا لیول غلط ہے۔ قرآن وسنت میں طلاق کامسئلہ واضح ہے۔ ایک طلاق کے بعد بھی باہمی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ایک طلاق رجعی ہے اور صلح کے بغیر رجوع ہے تو یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اکٹھی تین طلاق کے بعدصلح کے باوجود بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے تو یہ بھی قرآن کے خلاف ہے اور حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔
ایک طلاق کے بعد عورت عدت سے نکلے اور دوسرے شوہر سے نکاح کرے ،تب بھی پہلے شوہر کے پاس دو طلاقوں کی ملکیت باقی رہتی ہے۔ جب دوسرا شوہر طلاق دے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شوہر دوبارہ نکاح جدید سے تین طلاق کا مالک ہوگا یا پھر پہلے سے موجود انہی دو طلاق کا مالک ہوگا؟۔
امام ابوحنیفہ اور باقی ائمہ میں اس پراختلاف اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد میں اس پر اختلاف ہے۔ اکابر و اصاغر صحابہ نے یہ اختلاف کیا کہ پہلا شوہر نکاح جدید سے3 طلاق کا مالک ہوگا یا2 طلاق کا؟ لیکن یہ اختلاف نہیںاسلام کی اجنبیت کا آئینہ تھا۔
قرآن وسنت اور فطرت کامسئلہ ہوتا تو اختلاف کیسے ہوسکتا تھا؟۔ قرآن میں طلاق شدہ عورتوں کو ایک عدت میں3 ادواریا 3 ماہ کا پابند بنایا گیا مگر طلاقِ رجعی سے عورت کئی عدتیں گزارنے کی پابند ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے بیوی کو ایک طلاق دی اور پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلیا، پھر طلاق دی اور عدت کے آخر میں رجوع کرلیا تو دو عدتیں گزارنے کے بعد شوہر تیسری طلاق دے گا تو عورت تیسری عدت گزارنے پر مجبور ہوگی۔ اور اگر اس سے زیادہ تکلیف دینے کا پروگرام ہو تو طلاق رجعی سے وہ مزید بہت کھیل سکتا ہے اسلئے کہ رجوع کے بعد پھر عدت میں طلاق دینے کے بجائے مدتوں تک عورت کو رلا سکتا ہے۔ اگر عورت کو 10 افراد نے ایک ایک کرکے ایک ایک طلاق دی تو عورت پر 10شوہر کے 20 طلاق کی ملکیت کے بوجھ تلے بے چاری ٹیٹیں ہی مارتی رہے گی۔
ایک طلاق کے بعد عورت راضی نہیں تو بھی اس کے شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ بلکہ اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا بلکہ ایلاء یا ناراضگی اختیار کی ہے تو بھی اس کے بعد چار ماہ کی عدت میں باہمی رضامندی سے ہی رجوع کرسکتا ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کے ایک مہینے بعد رجوع کیا تب بھی اللہ نے حکم دیا کہ رجوع نہیںہوسکتا ہے ، پہلے ان کو طلاق کا اختیار دو اور پھر وہ راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے۔ دو بار طلاق کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کا یہ مقصد ہے کہ باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتاہے۔
اکٹھی تین طلاق کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا تعلق طلاق کے عدد کیساتھ نہیں رکھا بلکہ
اللہ نے فرمایا کہ ” عدت کے تین ادوار ہیں اور عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ کی طلاق ہے” جو آیت228،229البقرہ اور سورہ طلاق کی پہلی آیت سے واضح ہے اوررجوع کی گنجائش اصلاح اور معروف طریقے سے ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”تم ان کو انکے گھروں مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں ،ہوسکتا ہے کہ اللہ صلح کی کوئی نئی صورت پیدا کردے ”۔
حلالہ کی بھوک کا مارا ہوا مفتی اکٹھی تین طلاق سے ساری آیات پر حکم تنسیخ پھیر دیتا ہے اور لعنت کے عمل سے پورا مسلم معاشرہ تباہ کردیتا ہے۔
جب قرآن نے رہنمائی فرمائی ہے کہ عورتوں کے حساس معاملات میں اللہ تعالیٰ بذات خود فتویٰ دیتا ہے جس کی کتاب سے عوام پر تلاوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جہاں شک وشبہ اور غلطی کا احتمال نہیں ہوتا ہے۔ جب معاملہ اس بات پر آجائے کہ فلاں کے نزدیک طلاق ہے اور فلاں کے نزدیک نہیں ہے اور فلاں کے نزدیک حلالہ ہے اور فلاں کے نزدیک حلالہ نہیں ہے۔ فلاں کے نزدیک پہلی طلاق واقع ہوگی اور فلاں کے نزدیک تیسری تو پھر یہ طلاق کی واضح آیات اور اللہ کے احکام کے ساتھ کھلا مذاق ہے اور یہ اتنا غیراہم مسئلہ نہیں تھا کہ اللہ آنے والی مخلوق کے ذمہ چھوڑتا اور نبیۖ سے کہتا کہ طلاق کا فتویٰ آپ نے نہیں اللہ نے دینا ہے۔ اگر اصول فقہ کو سمجھا جائے تو بھی معاملہ حل ہوگا۔
٭
قرآن ، سنت اور صحابہ کرامایک پیج پر ہی تھے
صحاح ستہ احادیث کی کتابیں 200سال بعد مرتب کی گئی ہیںجبکہ قرآن صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی تین نسلوں میں صبح شام، دن رات اور سفر وحضر میں تلاوت کیا جارہاتھا۔ صحیح بخاری نہیں صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ ۖ ، ابوبکر کے دور اورعمر کے ابتدائی سالوں تک اکٹھی تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا، پھر حضرت عمر نے تین طلاق جاری کردئیے۔
حضرت عمر کے مخالفین نے اس فیصلے کو عمر کے خلاف چارٹ شیٹ میں شامل کردیا کہ اس کی وجہ سے قرآن وسنت اور اہل بیت کا مذہب ملیامیٹ کردیا گیا اور طلاقِ بدعت سے امت میں حلالہ کی لعنت کا دروازہ کھول دیا۔ اہل سنت نے حضرت عمر کے دفاع میں کہا کہ اکٹھی تین طلاق منعقد ہوجاتی ہیں۔ حنفی اور مالکی مسالک نے اکٹھی تین طلاق کو بدعت، ناجائز اور گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقع ہوجاتی ہیں۔ شافعی مسلک نے کہا کہ یہ سنت، جائز اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل والے متذبذب تھے اسلئے ایک قول سے اکٹھی تین طلاق کو بدعت، گناہ اور ناجائز قرار دیا اور دوسرے قول سے جائز، سنت اور مباح قرار دے دیا۔ لیک ٹینکی سے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، داؤد ظاہری ، اہل حدیث ، حنفی علماء علامہ عبدالحی لکھنوی،علامہ تمنا عمادی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے لوگ نکل کر آگئے اور پھدک پھدک کر کچھ نہ کچھ چھلانگیں لگانی شروع کردیں۔
اگر ایک طرف قرآن ، احادیث، صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین و محدثین کا اجماع ہو اور دوسری طرف حضرت ابن عباس کی اس ایک روایت کا سہارا ہو تو اہل حدیث کے حافظ زبیر علی زئی ، انجینئر محمد علی مرزا اور سعودی حکومت بھی ایک روایت کے سہارے پر چلنے کے بجائے اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں۔
یہ حدیث نہیں ابن عباس کی طرف منسوب ایک تاریخی فیصلے کی بات ہے۔ اہل حدیث رفع الیدین کی روایات پر جتنا زور دیتے ہیں ،اتنا تین طلاق کی احادیث سے دوڑ لگاتے ہیں۔ مسلم میںابن عباس سے متعہ کے جاری رہنے کی بھی حضرت عمر تک اسی طرح کی روایت ہے مگر وہ اہلحدیث نہیں مانتے۔
سوال یہ ہے کہ حضرت عمر نے ٹھیک یا غلط فیصلہ کیا تھا؟۔ حضرت عمر سے فتویٰ نہیں پوچھا بلکہ عدالتی فیصلہ لیا گیا۔ ایک شخص نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اور تنازعہ عمرفاروق اعظم کی عدالت میں پہنچ گیا تو پتہ یہ چلا کہ بیوی رجوع پر آمادہ نہیں ہے اور شوہر چھوڑنا نہیں چاہتا ہے۔ اگر حضرت عمر یہ فیصلہ شوہر کے حق میں دیتے تو قرآن وسنت اور انسانیت سبھی غرق ہوجاتے ۔نبی ۖ نے اس کا راستہ روکنے کیلئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے تو تین نہیں ایک طلاق پر بھی تنازعہ کے بعد یہی فیصلہ درست تھا۔ پاکستان کے شیعہ ایران اور دنیا بھر کے شیعہ کو توبہ کروائیں تو بڑااچھا ہوگا۔ لیکن اگر عورت بھی رجوع کیلئے راضی ہو اور مرد بھی رجوع کرنا چاہتا ہو اور پھر بھی سود خور مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن اپنی بے گناہ خواتین کو قرآن وسنت کے خلاف مجبور کریں کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تو ہمارے ریاستی ادارے جو مجرم کو سزائیں دیتے ہیں وہ ان کو پکڑیں اور قرار واقعی سزا دیں۔
حضرت علی کے پاس بھی ایک کیس آیا تھا جب شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے رجوع نہ کرنے کاہی فیصلہ دیا تھا۔ جاہلوں نے اس کو نام دیا کہ حضرت علی کے نزدیک حرام کا لفظ تین یا تیسری طلاق ہے اور حضرت عمر کے نزدیک حرام کا لفظ ایک طلاق ہے۔ حالانکہ حضرت عمر نے دیکھا کہ عورت رجوع کیلئے راضی ہوگئی تو رجوع کا فیصلہ دے دیا۔ بے غیرتوں نے حرام کے لفظ پر مسالک کے انبار لگادئیے لیکن قرآن کی سورہ تحریم کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
اسلئے رسول اللہ ۖ قیامت کے دن اُمت کی شکایت کریں گے۔ وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھٰذاالقراٰن مھجورا ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان) افلا یتدبرون القراٰن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا(النسائ:82
” کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے۔اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضادات) وہ پاتے”۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ