بیشک جنت میں حوراء ہوگی جس کو”کھلونا ”کہا جائے گا
مئی 11, 2025

ان فی الجنة حوراء یقال لھا :اللعبة
بیشک جنت میں حوراء ہوگی جس کو”کھلونا ”کہا جائے گا
واخر متشٰبھٰت فاما الذین فی قلوبھم زیغ: اور اس میں متشابہات ہیں تو جنکے دلوں میں کجی ہے
قرآنی محکم آیات بنیاد ہیں۔ متشابہات کی تفسیر زمانہ کرتا ہے۔ قرآن میں حورو غلمان اور دیگر اشیاء پر مفسرین کی رائے ہے ۔ تاویل کوئی نہیں جانتا تھا مگر اللہ۔ ترقی یافتہ دنیا نے کمال حاصل کیا توپھر بات سمجھ آئی ۔سمندر میں پہاڑ جیسے جہاز آگئے، ترقی یافتہ دنیا نے قرآنی آیت کا متشابہ سامنے لاکھڑا کیا۔
عربی میں گاڑی کو عربہ کہتے ہیں۔ قرآن میں قد کے موافق گاڑی کا ذکر تھا لیکن جب گاڑی کا وجود نہیں تھا تو اس سے ”حور” مراد لی گئی۔ حالانکہ عربی کی کسی لغت، شاعری ، عام زبان اور کہانیوں تک میں حور یا عورت کیلئے عربہ کا تصور نہیں تھا۔ آج دنیا میں گاڑی آچکی ہے لیکن قرآن کی تفسیر غلط کی گئی۔
ما ورد فی حوریات خاصة فی الجنة:ابی دُنیا
فصل:جوخاص جنت کے حوروں کے حوالہ سے آیا:
عن ابن مسعود ،قال: ان فی الجنة حوراء یقال لھا اللعبة کل حور الجنان یعجبین بھا، یضربن بایدھن علی کتفھا ویقلن : طوبیٰ لک یا لعبة ،لویعلم الطالبون لک لجدوا ، بین عینھا مکتوب من کان ینبغی أن تکون لہ مثلی فلیعمل برضا ء ربی عزوجل (ابی دنیا)
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے۔ فرمایاکہ جنت میں حور ہوگی جس کو اللعبة کھیل کہا جائے گا۔ جنت کی تمام حوریں اس پر شیدا ہوںگی۔وہ اپنے ہاتھوں سے اس کے کاندھے پر تھپکی دیں گی اور کہیں گی کہ ” اگر چاہنے والوں کو تیرا پتہ چلے تو وہ ضرور کوشش کرینگے۔ اسکی دونوں آنکھوںکے درمیان لکھا ہوگا کہ ” جو یہ چاہے کہ اس کیلئے میری جیسی ہو تومیرے رب عزوجل کی رضا کیلئے عمل کرے”۔
روایت کے الفاظ سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس سے دنیا کی کوئی کھلونا حور ہی مراد ہوسکتی ہے اسلئے کہ واضح طور پر اپنی جیسی حوراء کو پانے کیلئے اس کی آنکھوں کے درمیان ترغیب کیلئے ایک تحریر سے واضح کیا گیا ہے۔ قیامت کے بعد اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی اسلئے کہ اعمال کا دروازہ موت کے بعد بالکل بند ہوجاتا ہے تو ترغیب کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی ہے۔ دنیا بہت ترقی کرے گی۔ اس میں دو قسم کے افراد کیلئے الگ الگ اقسام کے دو دوباغات ہوں گے جس کا سورہ رحمن،سورہ واقعہ اور دیگر سورتوں میں ذکر ہے۔ اللہ نے قرآن میں واضح فرمایا کہ قیامت کیلئے خاص جنت کا مزہ دنیا میں بھی انسانوں کوچھکاؤں گا اور بڑے عذاب جہنم سے پہلے چھوٹے عذاب کا دنیا میں مزہ چھکاؤں گا تاکہ وہ آخرت کیلئے تیاری کرلیں۔ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اسلئے اللہ دنیا میں آخرت کا نقشہ اس طرح لوگوں کے دلوں میں بٹھائے گا کہ آخرت کی تیاری میں اس کیلئے وہ مددگار ثابت ہو۔ دنیا میں دو دو باغ اور دو دو چشمے اور دودو فوارے کا تعلق آخرت کی جنت سے نہیں ہوسکتا ہے جو بہت وسیع ہوگی۔
عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:بے شک میں اس کو جانتا ہوں جو اہل دوزخ میں سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور جنت والوں میں سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ وہ ایسا آدمی ہے جو ہاتھوں اور پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ جا جنت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ جنت میں آئے گا تو اسے یہ خیال دلایا جائے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا : اے میرے رب !مجھے تو وہ بھری ہوئی ملی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے فرمائیگا : جا جنت میں داخل ہوجاؤ۔آپۖ نے فرمایا : وہ (دوبارہ) جائے گا۔تو اسے یہی لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے۔ وہ پھر واپس آکر کہے گا کہ اے میرے ربّ! میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا کہ جا ؤ ، تیرے لئے دنیا کی طرح اور اس سے دس گنا جگہ ہے۔آپ ۖ نے فرمایا کہ وہ شخص کہے گا کہ میرے ساتھ مذاق کرتے ہو اور میری ہنسی اڑاتے ہو اورحالانکہ آپ تو بادشاہ ہو؟۔عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو دیکھا کہ ہنس دئیے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ یہ شخص سب سے کم مرتبہ کا جنتی ہوگا۔
روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنت میں جن خادموں اور حوروں کا ذکر ہے وہ انسان نہ ہوںگے بلکہ خدمت کیلئے کسی اور مادہ سے بنے ہوں گے اور اصل حیثیت اشرف المخلوقات بنت حواء کی ہوگی۔
جب دنیا میں جزاو سزا ہوگی تو پھر اس جہنم سے نکلنے والے آخری شخص کو پہلے کے مقابلے میں دس گنا جگہ مل جائے گی۔ جس کا اس کو یقین بھی نہیں آتا ہوگا اسلئے کہ بدلی ہوئی دنیا اس نے نہیں دیکھی ہوگی۔ قیدیوں کیساتھ سزا والا سلوک ہوگا لیکن انسانوں کو جنت اور دوزخ کا مزہ دنیا میں ملے گا۔
اگر دنیا اور آخرت کا صحیح تصور پیش کیا جائے تو مسلمانوں کی خواتین کو بہت زیادہ اطمینان ملے گا۔ قرآن میں دنیا کے اندر چھوٹے عذاب کا ذکر ہے بڑے عذاب سے پہلے اور دنیا ہی میں مؤمنوں کو وہ نعمتیں دینے کا ذکر کیا جو قیامت کیساتھ خاص ہیں۔ عرب ملحد نے حور کا مذاق اڑانے کیلئے پستانوں کی لمبائی چوڑائی کا ذکر کیا ۔ توجاہل واعظ کو روایت لگی۔ عمرشریف نے کہا کہ بیت الخلاء کو عربی رسم الخط میں دیکھ کر جاہل قرآن سمجھتے ہیں۔ لاہور کا واقعہ بھی مشہور ہوا کہ ڈیزائن کے کپڑوں کو قرآن کی گستاخی سمجھ لیامگر فقہاء کا پتہ نہیں کیا گل کھلائے؟ ۔
٭٭
صحیح وضعیف احادیث کے معاملات
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک لمحہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تمہارے ایک کمان یاایک قدم کی جگہ جنت کی بہتر ہے دنیا سے اور جو کچھ ہے اس میں ۔اگر جنت کی ایک عورت دنیا کو جھانک کر دیکھ لے تو اس میں جو کچھ ہے وہ سب روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور اس کے دوپٹے کا پلو دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری)
یہ دنیا کی ان عورتوں کی شان بتائی گئی ہے جن کا رہن سہن اور اوڑھنا بچھونا جنت کماتے گزرتا ہے۔
جن روایات میں ہے کہ حوروں کی طرف سے استقبال میں گانے ہوں گے کہ ہمیشہ کیلئے ہیں، کبھی ناراض نہیں ہوں گی۔اللہ نے تمہارے لئے بنایا اور ہم خوش رکھیں گی اور نافرمانی نہیں کریں گی ۔اماں عائشہ نے فرمایاکہ جنت کی حوریں مقالہ پڑھیں گی تو مؤمنات جواب دیں گی کہ ہم نمازی ہیں اورتم نے نماز نہ پڑھی،ہم نے روز ہ رکھا اور تم نے روزہ نہ رکھا۔ہم نے وضو کیا اور تم نے وضو نہ کیا اور ہم نے صدقے دئیے اور تم نے صدقہ نہ دیا تو ان پر غالب آجائیں گی (تفسیر قرطبی جلد 17صفحہ 187)
اسلام ویب میں سوال اور جواب
سوال:وجدت لفظا غریبا عن ابن عباس بخصوص الحوراء لعبة فی کتاب” تبیہ الغافلین” للسمرقندی: ان فی الجنة حوراء یقال لہا : لعبة خلقت من اربعة اشیاء : من المسک والعنبر ،والکافوروالزعفران و عجن طینھا بماء الحیوان فقال العزیز : کونی فکانت وجمیع الحور عشاق لہا ولوبزقت فی البحر لعذ ب ماء البحر ، مکتوب علی نحرھا : من أحب أن یکون لہ مثلی فلیعمل بطاعة ربی۔ ھل حذہ روایة ثابتة؟۔ وان کانت کذلک فما معنی أن الحور یعشقنھا؟فان العشق بحسب اللغة مرتبط بالشھوة فھل یعقل أن فیہ اشارة للسحاق؟
سوال : سمرقندی کی ”تنبیہ الغافلین” میں ابن عباس نے کہا کہ جنت میں حور ہوگی …… پھر عزیز اس کو کہے کا کہ ہوجاؤ تو وہ ہوجائے گی۔ اس سے تمام حوریں عشق کریں گی۔اگر سمندر میں تھوکے تو سمندر کا پانی میٹھا ہوجائے۔ اس کی گردن پر لکھا ہے کہ جو چاہے کہ اس کیلئے میری جیسی ہو تو میرے رب کی اطاعت کا عمل کرے ۔ کیا یہ روایت مستند ہے؟۔اگر ہے تو حوروں کے عشق کا کیا معنی ہے؟۔ عشق لغت میں شہوت سے تعلق رکھتا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ ہم جنس پرستی کی طرف اس کا اشارہ ہے؟۔
الاجابة : فالجدیر بالذکر ابتداء : التنبیہ الی ان کتاب تنبیہ الغافلین مع جلالة مصنفہ ملی ء بالأحادیث الضعیفة والموضوعة المکذوبةعلی النبی ۖ وذلک لعدم درایة المصنف بعلم الحدیث و ما یصح منہ ومالا یصح وقال عنہ الذہبی فی السیر: تروج علیہ الاحا دیث الموضوعة وقال عنہ فی تاریخ الاسلام : وفی کتابہ تنبیہ الغافلین موضوعات کثیرة فینبغی لمن لایمیز بن الصحیح والسقیم من الأحادیث أن یبتعد عن مطالعة مثل ہذہ الکتب ۔
والحدیث المذکور فی سؤال لیس حدیثا عن النبی ۖ وانما ذکر فی تنبیہ الغافلین موقوفا علی ابن عباس …..
وقدورد مسندا بألفاظ قریبة عن ابن مسعود وابن عباس فقد روی ابن ابی الدنیا فی صفة الجنة موقوفا علیہ …….
وھذہ لآثار الموقوفة لیس فیہا من ذکر العشق والعشق فی لغة العرب أصلہ : فرط الحب وان اطلق علی ما یتعلق بالشہوة وحاشا للہ أن یکون فی الجنة شی ء مما تسا ئلت عنہ فی السؤال ۔وللہ تعالیٰ اعلم
جواب : ”تنبہ الغافلین کتاب کا مصنف عالی المرتبت ہونے کے باوجود ضعیف ومن گھڑت روایات بھی درج کرچکا اسلئے کہ اس کو احادیث میں مہارت نہ تھی۔جس کو علم نہ ہو تو ان کتابوں سے دور رہے۔ اس روایت کی نبیۖ سے کوئی سند نہیں بلکہ ابن عباس سے بھی نہیں ،البتہ ابن مسعود و ابن عباس سے اسکے قریب کے الفاظ کی سند ہے۔
عشق عربی میں محبت کی شدت کو کہتے ہیں اس کا اطلاق شہوت سے متعلق پر بھی ہوتاہے۔ جس سوال کا آپ نے پوچھا ہے تو جنت میں ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ باقی درست حقیقت کو اللہ ہی جانتاہے”۔
عینی نے بخاری کی شرح میں ابوہریرہ سے نقل کیا ” جنت میں حوراء ہوگی جس کو عیناء کہا جائے گا ، جب وہ چلے گی تو اسکے دائیں 70 ہزار اور اسی طرح بائیں جانب 70ہزار وصیف( لونڈیاں و غلمان) ہوں گے اور وہ کہے گی کہ کہاں ہیں معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے والے”۔اگر چین بنالے تو پاکستان میں دنیا بھر سے سیاح دیکھنے آئیں گے۔
٭٭
مولانا طارق جمیل اور جنت کی حوریں
مولانا طارق جمیل جامعہ بنوری ٹاؤن میں تبلیغی جماعت کا وعظ کرنے آتاتو حوروں کا بلوپرنٹ پیش کرتاتھا۔ خواتین کے بعد ہجڑے جماعتی ہوگئے۔ مشہور ڈانسر مہک ملک زنانہ لباس میں مردوں سے معانقہ کرتی پھررہی ہے۔ گل چاہت پشتون خواجہ سرا کا چرچا گزرگیا۔ جو مسجد کی منبروں پر بیان اورجماعتوں میںنکل کر تبلیغ کرتی تھی۔ وزیرستان کے لوگوں کی کہاوت ہے کہ ” مور پلور مے مڑہ کہ مو وترانجے تا لایہ کے ” (میرے والدین مریں تاکہ میں اچھل کود کیلئے فارغ ہوں) گل چاہت نے اپنا نام معاویہ رکھ دیا لیکن داڑھی نہیں رکھی اور عورت کا روپ دھارے رکھا۔ پھر بتایا کہ کسی نے نہ چھوڑا۔ تبلیغی جماعت نے حاجی عثمان جیسے اکابر کھودئیے تو ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی اور اوباشی کرتی پھرتی ہے۔
حدیث ہے کہ ”تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا پوچھا جائے گا”۔
طالبان شیخ عبدالحمیدحماسی نے لڑکوں کو عورت کے حکم میں شمار کیا توداڑھی منڈے میک اپ نسوانی لباس اور حسن النساء کی زینت کیساتھ خواجہ سراؤں کو تبلیغی جماعت میں کیسے گھمایا جارہاہے؟۔
قوم کی حالت بڑی ناگفتہ بہ ہے ۔ساس ، بہو، ماں ، بہن اور بیٹی کے واقعات کو میڈیا میں رپورٹ کیاجارہاہے۔باخبردلے بیوی کوچھوڑ یں نہ باپ کو ماریں۔ جبری جنسی زیادتی کی بڑھتی واراداتوں کو روکنا معاشرے اور حکومتی دسترس سے باہرلگتا ہے۔ چین کو اگر مصنوعی جنسی پیاس بجھانے کا راستہ سوجھا ہے تو محرمات اور جبری جنسی زیادتی کا سد باب بھی ہوسکتا ہے۔ مفتی طارق مسعوداور مولانا منظور مینگل سوشل میڈیا پر بڑے فحش عنوانات لگاتے ہیں ۔
انور مقصود نے مولانا فضل الرحمن کا کہا کہ بغیر ماں کے باپ سے پیدا ہوا، اسلئے کہ تحریک انصاف کی عورتوں کو تتلیاں اور پاؤں کے تلوؤں کو گال کی طرح نازک کہا تھا۔ مفتی منظور مینگل کی بیوہ ماں نے یتیم بچے کو فحش گالیاں دینے کیلئے نہیں پالا ….”۔
خلافت کمالات کا آئینہ ہوگا۔ اللہ رؤف و رحیم اور نبی ۖ بھی مؤمنوں پر رؤف و رحیم تھے۔ خلیفہ ارضی نے علم الاسماء سے فرشتوں کو شکست دی تھی۔ تسخیرارض و سماء نے پھر ورتہ حیرت میں ڈالنا ہے۔ الم اقل لم انی اعلم مالا تعلمون ” کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے”۔
سورہ بقرہ کی پہلی آیت الم O کے معنی کیا نہیں؟ الم نشرح ،الم ترکیف،الم تعلم ان اللہ ، الم تر الی الذین خرجوا ،الم ..بہت کچھ…
باچا خان نے لکھا ” قرآن پڑھنا بڑامشکل تھا ” الف لام میم الفابیٹ کی رہنمائی تھی۔ اردو، سندھی کی الفا بیٹ انگریز نے شروع کی ۔ حروف مقطعات حروف تہجی کے رہنماتھے ،نالائقی انگریز نے ختم کی۔
کن فیکون کی تفسیر دنیا اس طرح سے سمجھے گی کہ مصنوعی حور کو عزیز یعنی خدا کا خلیفہ بندہ جو حکم بھی دے گا تو وہ تعمیل کرے گی۔ کسی روایت میں ہے کہ اس لعبہ حور کی آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہوگا تو کسی میں گردن یعنی گلے پر لکھائی کا ذکر ہے۔ دونوں قسم کی حوروں کا ہونا تضاد نہیں بلکہ نوشتۂ دیوار ہے۔
اصول فقہ میں سمندری انسان سے نکاح ناجائز قراردیا ۔ جل پری کا افسانوی کردار فقہاء نے سچ سمجھ لیا لیکن واضح کردیا کہ کسی اور جنس کی مخلوق سے نکاح نہیں ہوسکتا ۔ گائے کا بیل، بھینس کا سانڈھ سے جنسی تعلق ہوتا ہے، بھینس سے بیل کا نہیں اور انسان کو قرآن نے جانور سے بھی بدتر قرار دیا ہے تو انسان کہاں سے کہاں پہنچتاہے؟۔
دنیا کی جنت اور آخرت کی جنت میں حور کا تعلق ربوٹ سا ہوگا۔ مستند حدیث میں دنیا کی آدم زاد عورتوں کی فضیلت ہے اور حوراء عربی میں بیگم ہی کو کہتے ہیں۔ روایت میں کھلونا حوراء واضح ہے۔ یہ نام نہیں جنس ہے ۔ بڑھیا نے پوچھا کہ جنت جاؤں گی؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ ”جنت میں بوڑھی عورتیں نہیں ہوں گی” ۔ تو وہ رونے لگی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”جوان بن کر جاؤگی تو وہ خوش ہوگئی”۔ آخری جنتی کیساتھ مزاح کا حدیث میں ذکر ہے اور یہی مزاح جنتی عورتوں کیساتھ حوروں کے لشکروں کی صورت میں ہوگا۔ جس میں مکالمہ ہوگا لیکن پھر پتہ چلے گا کہ یہ سوکنیں نہیں بلکہ کھلونے ہیں۔
مزاح خوشیوں کو دوبالاکرتا ہے۔ خوف، غم اور مشکل کے بغیر امن، خوشی اور آسانی کا تصور ادھورا ہے ۔رات کے بغیر دن کی نعمت کا پتہ نہیں چلتا۔ مفتی اعظم وشیخ الاسلام نے تصویر اور سود کو جواز بخش دیا لیکن حلالہ کیخلاف دلائل قبول نہیں کرتاہے؟۔
تفسیربیضاوی میں الم پر تضاد ۔ شیعہ نے ال محمدۖ مراد لیا ۔پروفیسر نے اللہ، لوح محفوظ ،محمدۖ مراد لیا۔
جب نیٹ کا کورڈ میپ دنیا دکھاتا ہے تو قرآن کا کورڈ بولتی کتاب بن کر درخت کا پتہ پتہ گرنے تک سب کچھ دکھائے گا ۔بے انتہا ء علوم کا راز کھلے گا۔ انجو گرافی اورMRIسے زیادہ ترقی ہوگی مگر قرآن دل کا نفاق اور ذخیرہ آخرت کا نقشہ بھی دکھائے گا۔
٭٭
ایک دفعہ پھر بہت بڑا اسلامی عروج آرہا ہے
جس میں پاکستان کو حیثیت حاصل ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر
فرمایا:” پس نہیں ! قسم کھاتاہوں ستاروں کے واقع ہونے کی جگہوں کی اور بے شک ہے اگر تم سمجھ لو تو یہ بڑی قسم ہے۔ بیشک یہ عزت والا قرآن ہے۔ تکوینی امور کی کتاب میں ہے۔ اس کو چھونہیں سکتے مگر پاکیزہ لوگ۔ اتارا گیا ہے پروردگار عالم کی طرف سے۔ کیا اس کلام کے ساتھ بھی تم حقائق کو نظر انداز کرنے کے مرتکب ہو؟اور اپنا رزق بناتے ہو، بیشک تم ہی اس کو جھٹلارہے ہو۔ پس کیوں نہیں تمہاری روح گلے تک پہنچتی اور جب تم اس وقت دیکھ رہے ہوگے۔ ( سورہ واقعہ 75تا84)
سورج نظام شمسی کیساتھ ایک بونا ستارہ ہے اور ہمارے کہکشاں میں کھربوں ستارے ہیں اور پھر کھربوں کہکشاں ہیں۔ ایک بلیک ہول کا ستارہ سورج سے کئی کئی گناہ بڑا ستارہ ہڑپ کرلیتا ہے۔
سائنسی ترقی نے قرآنی آیات کی افادیت واضح طور پر ثابت کردی ہے۔ پہلے لوگوں کو علم نہیں تھا مگر جب علم ہوگیا تو واقعی یہ بہت بڑی قسم ہے۔
سائنسی ترقی سے قدرت اور قرآن وحدیث میں موجود تکوینی امور کے راز کھل رہے ہیں۔ آج ایک آدمی گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون پر بات کرتا ہے اور ٹریفک پولیس کو دیکھ کر موبائل ران پر رکھ دیتا ہے۔ آج سے 40سال پہلے بھی یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لائیو موبائل پر بات ہوگی۔ حدیث میں14سوسال پہلے سے ہے کہ آدمی اہل خانہ سے اپنی ران کیساتھ بات کریگا۔ نیٹ نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ دنیا کے بہت بڑے نقشے تک بھی لائیو رسائی حاصل ہے۔ ChatGPT سے انٹیلی جنس معلومات لی جاتی ہیں تو اگر قرآن کے الفاظ کا آئینہ کھل گیا تو دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی؟۔
حوروں کا نقشہ سائنس نے پیش کرنا ہے جس سے آخرت کی وسعتوں کا انسان کی محدود سوچ کو یقین آجائے گا اسلئے کہ نبوت اور وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ علماء و مشائخ اپنی ذات ، فرقہ اور مسلک کی طرف بلارہے ہیں اور پستی وزوال کی انتہاء پر مسلمان پہنچ گئے۔ ہمارے اساتذہ کرام کی آنکھوں میں آنسو آتے تھے کہ نبیۖ کی نعمت بھی پیسوں کی خاطر کوئی پڑھتا ہے ۔ اب غزہ کا غم کھانے کی جگہ اپنے ہجوم کا جشن شادی کی طرح مناتے ہیں۔
ابن عربی نے فرعون کے جنتی ہونے کا ذکر کیا ہے۔بعض علماء نے لکھا کہ دنیا کی زندگی محدود ہے تو لامحدود سزا کیسے کسی کو مل سکتی ہے؟۔ جہاں لامحدود کا ذکر ہے تو زیادہ عرصہ مراد ہے۔ بالفرض فرعون کو ہی آخری جنتی تصور کیا جائے تو بیگم آسیہ جنت پہنچ گئی ہوگی تو فرعون کو جنت میں عورت ملے گی؟۔ کوئی جنتی عورت اس کی زوجیت چاہے گی بھی نہیں۔ آخری جنتی کو اس دنیا کی ڈبل جنت کا ذکر ہے۔ اگر وہ فرعون ہوا تو روایات میں حوروں کا ذکر ہے۔اور حور سے 70سال تک جماع ہوگا اور ایکدوسرے سے نہ بھریںگے۔ کیا پتہ یہ فرعون سے متعلق ہو۔
دنیا میں مسلمانوں کی فرعونیت بھی فرعون سے کم تو نہیں ہے جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ایک دن جنت میں ضرور جائیںگے۔ رسول اللہۖ کے والد حضرت عبداللہ کی قبر جب منتقل کی گئی ،اس وقت جن لوگوں نے دیکھا تو اس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک عالم دین اب بھی زندہ ہیں اور اس نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بالکل سلامت تھے۔ اور جب قرآن کی واضح آیات کا انکار کرنے، ان کو روند نے اور ان کو چھپانے کے مجرم مسلمان ہیں تو جنہوں نے قرآن کو دیکھا اور سمجھا نہیں ہے تو پھر وہ کیوں کافر اور جہنم کی سزا کے مستحق ہیں؟۔
مولانا فضل الرحمن منصورہ حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی کے پاس گئے اور عمران خان سے سیاسی تعلق کی بحالی کیلئے کہا کہ میں شدت پسندی کی سیاست نہیں کرتا۔ تلخیوں میں برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹ کو ایجنٹ قرار دینا معمول کی بات ہے۔
مذہبی منافرت کی جگہ ایک اچھے ماحول کی بڑی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں سے نفرت اور ان کے بارے میں غلط سوچ کا مرتکب رہنے سے بہتر یہ ہے کہ اپنے اعمال اور ایمان پر نظرکریں ۔
دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
اگرچہ ابن عربی کی کتابوں میں تحریفات بھی کی گئی ہیں تاہم ان کے مقابلے میں پروفیسر احمد رفیق اختر کا یہ کہنا زیادہ معقول ہے کہ اسلام کو دوبارہ پھر عروج ملے گا اور پاکستان کا اس میں مرکزی کردار ہوگا۔ ہمیں انکے اس مؤقف سے مکمل اتفاق ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ