شکوہ وجواب شکوہ لاجواب : پیر عابد
اپریل 6, 2025

گزشتہ سے پیوستہ: شاہ صاحب کا شکوہ وجواب شکوہ لاجواب ہے۔ دور جبروت کے بعد ہی دورِ نبوت (کی طرز پر خلافت) نے آنا ہے۔ اجنبی اور نامعلوم میں بڑا فرق ہے۔
حدیث میں اجنبی کا ذکر ہے اور ایف آئی آر نامعلوم کے خلاف درج ہے۔ہم ایک پراکسی جنگ کی طرف دھکیل دئیے گئے ہیں۔ دشمن نامعلوم ہے اور الزام اجنبی پر ہے۔ تاریخ سے کوئی قاضی فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ابھی ہم یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمارا مستقبل امریکہ یا اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔جٹہ واقعہ سے بہت زیادہ ظلم غزہ کے مظلوم فلسطینی بچوں پر ہواہے اور ہورہا ہے۔ جذبہ شہادت سے سرشار شامی وفلسطینی بچے اس دور کے امام مہدی ہیں۔اگر کوئی نہیں مانتا تو نہ مانے ، ہمارے بچے پراکسی جنگ کا حصہ بن جائیں۔قومی عصبیت کے نام پرایک دوسرے کی گردن دبانا اور عزت تار تار کرنا یہ اگر سعادت ہے یا دین ہے یا غوثیت یا قطبیت یا مہدیت ہے تو لعنت ہے ایسے دین پر اور اس کے پیروکار پر۔ اسلام امن وسلامتی سے نکلا ہے ۔ دینِ ابراہیمی کی بنیاد وحدت اور سلامتی پر ہے۔خانہ کعبہ کی بنیاد رکھتے ہوئے ریاست کا وجود نہیں تھالیکن دعا میں ایسی ریاست مانگی جہاں باہم محبت ، اخوت، مساوات ، معاشی ترقی اور امن ہو ۔ ایک دوسرے کو صدق دل سے معاف کردو اور آپس میں امت پناہ بن جاؤ۔یہ قرآن کا تصور اور سنت کی راہ ہے،نہیں تو فتنہ وشر نہ پھیلاؤ،اپنے گناہوں کی اجتماعی معافی اللہ پاک سے مانگیںاور ظلم کو پاک رب پر چھوڑدو۔وہی بہترین انصاف کرنے والا ہے۔ یا اللہ کی رضا کیلئے معاف کردو یا پھر شریعت مطہرہ کے مطابق شرعی ثبوت کے ساتھ ریاست کے حوالہ کردو اور مطمئن ہوں۔
پہ خیر راغلے ہر کلہ راشہ،دغہ دغہ بیابیابیا
عابد بھائی ! آپ بھی منیر نیازی کے پنجابی اشعار لکھتے کہ
کُج اونج وی رَاہواں اَوکھیاں سَن
کُج گَل وِچ غم دا طوق وِی سی
کُج شہر دے لوک وِی ظالم سَن
کُج مینوں مَرن دا شوق وِی سی
شاہ صاحب کا شکوہ جواب شکوہ لاجواب ہے لیکن پھر بھی جناب کے زیر عتاب ہے؟۔آپ نے خود ہی ہمیں سبحان شاہ کا غلام بنادیا۔ اپنے لئے بھی غلام ابن غلام لکھ دیا مگر تمہیں فرق کیا پڑتاہے؟۔ غلام کو عربی میں ”عبد” کہتے ہیں۔ اس کی تانیث کو اَمة کہتے ہیں۔ مرد غلام توعورتیں لونڈیاں یا کنیزیں!۔ شیعہ تو کلب علی اور کنیز فاطمہ (علی کا کتا، فاطمہ کی لونڈی) شوق سے نام رکھتے ہیں۔ ہمیں اللہ اپنا کتا نہیں بلکہ اپنابندہ بنادے۔
جب کانیگرم میں شیعہ ماتم کرتے تھے تو یوسف شاہ کا والد آپ کے دادے کا بھائی میرمحمد شاہ بھی جوش وخروش سے ماتم کرتا تھا۔ کانیگرم کے لوگ کہتے تھے کہ تم شیعہ ہو یا پھر مسلمان؟۔ شاید اسی وجہ سے یوسف شاہ کے باپ کو کوئی رشتہ بھی نہیں دیتا ہوگا اور سوات کی منڈی سے اسکی ماں لانی پڑی۔
اس میں کوئی عیب کی بات نہیں کہ اماں جان لونڈی ہو۔ حضرت اسماعیل کی والدہ بھی لونڈی تھیں لیکن نبیۖ تک یہ خاندان اسی کی بدولت چلا۔ کسی نبی کی بعثت کی ضرورت بھی پیش نہ آئی۔ یہود، نصاریٰ اور مشرکین مکہ سب ابراہیم کی ملت کے دعویدار تھے۔ قریش کو عرب نے تلوار کی زور پر مکہ سے بھی بے دخل کیا تھا لیکن جب ایک قریشی کی بنوخزاعہ کی عورت سے شادی ہوئی تو پھر ماموں کے توسط سے دوبارہ قریش مکہ مکرمہ میں آباد ہوگئے۔ اسلئے بنوخزاعہ نے جب اسلام قبول نہیں کیا تو بھی مسلمانوں کے ہمدرد اور حلیف تھے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی بنوخزاعہ کے خلاف بنوبکر کی قریش مکہ نے مدد کی تو ٹوٹ گیا اور اگر میرا ننھیال طالبان کو پال کر میری صحیح پوزشن بتاتے تو اس حملے سے طالبان بھی اتنے بدنام نہ ہوتے۔ چلو میری مخالفت کرتے تو مردوں کی طرح میدان میں کھڑے ہوجاتے ۔
آپ نے اچھا کیا کہ شرعی گواہ اور حکومت کی عدالت میں اس کے مطابق مقدمہ کرنے کی تجویز پیش کردی۔ آپ نے یہ کہا تھا کہ مجھے بھی معلوم ہے کہ اس واقعہ میں کون کون ملوث ہیں ۔ ابھی مشکل بڑھ سکتی ہے اسلئے وقت آنے پر بتادوں گا۔ جہاں تک شرعی گواہ کا تعلق ہے تو بیوی کو تین طلاق دو اور مکر گئے تو گواہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ حرام کاری پر مجبور؟۔ اس سے بھی بڑھ کر امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب ہے کہ ”اگر کسی کی بیوی کو چھین لیا اور عدالت میں اس پر گواہ بنادئیے تو وہ حقیقی بیوی کی طرح جائز ہے”۔ جبکہ دوسرے اس کو حرام کاری سمجھتے ہیں۔ اسی شریعت کے غلط تصورات کو ٹھیک کرنے کی جدو جہد ہے۔
پہلے شہر کو آگ لگائیں نامعلوم افراد
اور پھر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد
لگتا ہے انسان نہیں ہیں کوئی چھلاوا ہیں
سب دیکھیں پر نظر نہ آئیں نامعلوم افراد
ہم سبھی اسی شہر ناپرساں کے باسی ہیں
جس کا نظم و نسق چلائیں نا معلوم افراد
لگتا ہے کہ شہر کا کوئی والی نہ وارث
ہر جانب سے بس دھوم مچائیں نامعلوم افراد
پہلے میرے گھر کے اندر مجھے قتل کریں
اور پھر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد
ان کا کوئی نام نہ مسلک ، نہ ہی کوئی نسل
کام سے بس پہچانے جائیں نامعلوم افراد
شہر میں جس جانب بھی جائیں ایک ہی منظر
آگے پیچھے دائیں بائیں نامعلوم افراد
جب عمران خان کے عروج اور اقتدار کا دور تھا تو مجھے اس وقت ایک ساتھی بہت اصرار کرتا تھا کہ اس کی حمایت کروں۔ ایک دن اس نے کہا کہ ” صرف ایک خوبی تو عمران خان کی بتاؤ تو پھرمیں نے کہا کہ خاور مانیکا بے غیرت سے بیوی چھین کر بڑا اچھا کیا ہے”۔ پھر جب عمران خان پر زوال آیااور دوسرے ساتھی نے کہا کہ ”آئندہ وزیراعظم نوازشریف ہوگا۔ اگر نہیں بنا تو میں بکرا کھلاؤں گا اور بن گیا تو آپ کھلا دیں” ۔ میں نے کہا کہ یہ یک طرفہ شرط رکھتا ہوں کہ اگر نوازشریف بن گیا تو میں کھلاؤں گا اور نہیں بنا تو آپ مت کھلانا”۔ عوام کے موڈ کو ہم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے ساتھی اخبارات کو عوام میں بیچ رہے ہوتے ہیں۔
عابد بھائی!
میں خورشید کا تربور (چچیرا) ہوں ۔ اس نے کالج میں مخالف پر دوسری منزل سے چھلانگ لگائی تو وہ بیہوش ہوگیا اور اس کے پیر میں چھوٹ آئی۔ میں نے کہا کہ نیچے اترکر لڑتے تو اس نے کہا کہ میں نے سوچا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ لڑائی ختم ہوجائے اور کوئی بیچ بچاؤ کرادے۔ میں نے بھی سوچا کہ صلح کی ہوا چلنے سے پہلے کچھ تاریخی حقائق لکھ دوں تاکہ نسلوں میں بھی جھوٹ پھیلانے کی کبھی جسارت نہیں ہو۔ اپنے قریبی بزرگ کی قبر وں کا پتہ نہیں اور ابوبکر ذاکر کی قبر پر بھی جھوٹی کہانی گھڑ دی؟۔اللہ نے فرمایا:” قتل ہو انسان ، کیوں ناشکری کرتا ہے؟ اس کو کس چیز سے پیدا کیا؟۔ نطفہ سے۔ اس کو پیدا کیا، پھر اس کی تقدیر بنائی، پھر اس کا راستہ آسان کیا۔پھر اس کو موت دی اور پھر قبر دیدی ”۔ سورہ عبس:آیت:17تا21)اس میں قبر کو بھی احسان کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ عالم برزخ کی حیات کا تصور الگ ہے۔ کبیرالاولیاء سے میرے پردادا سید حسن شاہ بابو تک کی کچی قبریں تھیں۔ دادا سیدامیر شاہ کی قبر میرے والد کو شاید اسلئے پکی کرنی پڑی کہ سبحان شاہ کے پوتوں کو اپنے باپوں کی قبر کا خیال آئے۔ میں نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب پڑھ لی تو1976میں بہت چھوٹا تھا۔ کدال اٹھائی کہ پکی قبر جائز نہیں ۔ اس کو توڑوں گا۔ میرے والد نے مجھ پر غصہ کیا کہ” قبر سے کون مانگتا ہے؟۔ جب تک پکی قبر نہ ہو تو کوئی دعا بھی نہیں کرتا ہے۔ میں نے اسلئے قبر پکی کردی ہے”۔ کسی یونیورسٹی کی لڑکی نے پوچھ لیا کہ قبر کو سجدہ کرنا، بوسہ دینا اور جھکنا جائز ہے تو مولاناشاہ احمدنورانی نے جواب دیا کہ ” صاحب قبر کیلئے فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا جائز ہے باقی کچھ بھی جائز نہیں ہے”۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے قبر پرستی کی بہت سخت مخالفت کی ہے لیکن جب عمران خان نے بشریٰ بی بی کے کہنے پر پاک پتن کی راہداری کو بوسہ دیا تو علامہ کوکب نورانی اور توحیدپرستی کا دعویٰ کرنے والے یکساں تائید کررہے تھے اسلئے کہ توحید ومسلک سے زیادہ لوگ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔
ہمارے ایک ساتھی حافظ شارق کا خاندان بریلوی اور کچھ اہل حدیث ہیں توان کی بہن امریکہ میں زیادہ عمر گزارنے کی وجہ سے مزید کٹر اہل حدیث بن گئی۔ گھر میں شدت کا مذہبی اختلاف تفریق کا باعث تھا۔ میں نے بتایا کہ میراDNAبھی وہابی والا ہے اسلئے کہ ہمارے اجداد سید عبدالقادر جیلانی سے حنبلی مسلک کے تھے اور امام احمد بن حنبل کوفقہاء نہیں محدثین میں شمار کیا جاتا ہے۔ باقی رفع الیدین وغیرہ علاقائی رسم ہیں۔ جب عبدالقادر جیلانی حنفی ماحول میں تھے تو حنفی تھے ۔پھر حنبلی بن گئے۔جب ہمارے اجداد حنفی ماحول میں آئے تو حنفی تھے۔
جب خاتون کے سامنے یہ بات رکھی کہ شرک قرآن نے سکھایا ہے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کوئی دیکھے گا تو وہ شرک ہی کرے گا کہ اس سے بڑا مشکل کشا کیا ہوگا کہ جو مٹی کا پرندہ بنادے اور پھونک سے روح ڈال دے۔ ابرص کا مرض ٹھیک کردے اور مردے کو زندہ کردے۔ میں خود تو وہابی ہوں لیکن دم درود سے کسی کو صحت مل جائے تو اس کو شرک نہیں کہتا۔ اسلئے کہ پھر قرآن بھی شرک کی تعلیم والا ہے۔ خاتون پھر بیٹے کو امریکہ سے لائیں اور کسی اہل حدیث دم درود والے سے روحانی علاج بھی کروایا۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم کی کتاب ”اذکار مسنونہ” میں یہ وضاحت ہے کہ پہلے نبیۖ نے منع فرمایا لیکن پھر اجازت دیدی کہ اگر کوئی شرکیہ کلمات نہ ہوں اور فائدہ پہنچتا ہو تو ٹھیک ہے۔ بریلوی علماء ومشائخ نے جرأت نہیں دکھائی ورنہ مشرک وہ بھی نہیں تھے۔ دیوبندیوں کی جرأت نے بڑی تبدیلی لائی ہے ۔ مفتی منیب الرحمن مفتی اعظم پاکستان وغیرہ بھی درگاہوں کے رسوم کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں لیکن اس سے بڑی مصیبت فقہاء کی ان عبارات پر فتوے ہیں جن سے علماء ومفتیان بھی پہلے اتنے واقف نہیں تھے اور اگر تھے تو اس کو عوامی سطح پر اور علماء کی سطح پر عام نہیں کیا۔ اب اسکے خلاف طبل جنگ بجانا بہت بڑا جہاد اور ایمان کی محنت ہے۔
عابد بھائی!
آپ کی باتیں علم، عمل، تاریخ اور حقائق سے جوڑ نہیں کھاتی ہیں۔ اپنی صلاحیت کو درست استعمال کرو۔اپنا وقت ضائع مت کرو۔ آپ کے خلوص ومحبت میں شک نہیں۔ میراشکوہ جواب شکوہ پسند نہیں ہے اسلئے لعنتیں بھیجی ہیں حالانکہ اس بہتر تھا کہ میںبھی پھر ثقیل برکی کی تک بندی کرتا کہ
پورے وورے تکے شجہ وغیاں دے کاٹکے
اس پار اس پار چٹانیں اور بیوی چودھ دوں کاٹکے کی
جس کے جواب میںثقیل کو مقابلے کیلئے بلایا کہ مقابلہ کرو۔ کاغذ پر اشعار لکھے ہوئے تھے اور ثقیل کے خلاف پڑھا کہ
ووینا دیر ووخلا پہ ووینا کشے مخ کاتلائی نہ شے
طانبل دیر ووخلابے طانبل پائسے گاٹلائی نہ شے
آئینہ اُٹھاؤ آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ نہیں سکتے
کشکول اٹھاؤ ، بغیر کشکول کے پیسہ کما نہیں سکتے
ثقیل برکی نے دوبارہ سنانے کا کہا اور پھر فی البدیہہ کہا
بے طانبل پائسے گا ٹلائی نہ شہ پہ وویناکشے مخ کاتلائی نہ شہ
مور دے زاڑہ خوردے پہ شل زرہ کاولئی ن شہ
کشکول کے بغیر پیسہ کما نہیں سکتاآئینہ میں چہرہ دیکھ نہیں سکتا
تیری ماں بوڑھی ہے تیری بہن کو20ہزار میں خرید نہیں سکتا
عابد بھائی!
کاٹکے برکی کے بیٹے نے گالی کا جواب بہت ہی مہذب انداز میں منہ توڑ دیا اسلئے کہ ثقیل برکی پاگل تھا ،اس کا کوئی کاروبار تھا نہیں تو لوگ اس کی کچھ امداد بھی کردیتے تھے اور اس کی شکل بھی واقعی کوئی قابل رشک نہیں تھی تو کاٹکے کے بیٹے نے گالی کا جواب بہت زبردست انداز میں دیا لیکن جب ثقیل برکی نے جوابی شعر میں پہلے سے زیادہ بڑی گالی دی تووہ نہ صرف سرنڈر ہوااورکاغذپر لکھے ہوئے اشعار چھوڑ دئیے بلکہ ثقیل کا500روپیہ جرمانہ بھی دے دیا کہ بس آگے اور اشعار مت بناؤ۔ یہ کانیگرم کی ہزار سالہ مہذب قوم کی تاریخ ہے ،اس قابلیت، غیرت ، شرافت اور صلاحیت کو دنیا دادبھی دے گی ۔
عابد بھائی!
جب اسرائیل فلسطین پر بے تحاشا بمباری کرتا تھا تو آپ کو فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی کوئی فکر نہیں تھی اور مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کروں تو کیا کروں؟۔ان کی بچیوں کے گلے شکوے سے دل پھٹ رہاتھا۔ مشہور عربی ڈاکٹر خالد الفجرنے میری تجویز پر درس قرآن دینا شروع کیا تھا تو اس نے سورہ الناس سے شروع کیا۔ میں نے اس کو تجویز دی کہ قرآن کو تجویدوقرأت کے قواعد سے پڑھنے کے بجائے سادہ زباں کی ادائیگی میں پڑھو۔ اس نے سورہ فلق کی تفسیر عام مفسرین کی طرح کی تو میں نے اس کی ویب سائٹ پر یہ بھی لکھ دیا کہ
تمہاری صلاحیت اور فصاحت وبلاغت بہت اچھی ہے۔ قل اعوذ برب الفلقOمن شرمن ماخلق …
فلق سے طلوع فجر کے علاوہ پھول کھلنے سے لیکر کائنات کی توسیع میں تمام تغیرات مراد ہیں۔ جن میں کوئی شر ہو تو اس سے پناہ مانگی ہے۔ اس سے مفسرین بہت ساری وہ توہمات بھی لیتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ فلسطین پر بم اور میزائل گرتے ہیں تو پھٹنے والے شر کی زد میں جس طرح سے وہ آتے ہیں تو ان کو اس سورة کا صحیح معنوں میں ادراک ہے۔ بندوق کی گولی سے وہ زہریلے بم جو بڑے پیمانے پر پھٹ کر بڑی تباہی مچاتے ہیں۔ جسے ڈاکٹر خالد الفجر نے بہت سراہا تھا۔
میں نے اس میں مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار کا بھی ٹچ دے دیا تھا کہ من شر نفٰثٰت فی العقد سے وہ گروہ اور جماعتیں مراد ہیں جو قوموں میں اقدار کو توڑنے کی مہم جوئی ، سازش اور معاشرے میں فتنہ وفساد برپا کرتے ہیں۔
مشرکین عرب کا معاشرہ حضرت اسماعیل کے بعد بھی انہی اقدار کی وجہ سے قائم تھا۔ بنی اسرائیل میں ہزاروں ابنیاء کرام بھیجے گئے۔حضرت یوسف کے والد، دادا، پردادا انبیاء کرام اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے تھے لیکن یوسف کو پھربھی بھائیوں نے قتل یا کنویں میں پھینکنے کی ترتیب لڑائی۔ بھیڑئیے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا۔ آخر کار یوسف کی قسمت نے پہلے انکے جھوٹ سے پردہ اٹھایا کہ انہوں نے کہا کہ اگر یوسف کا بھائی چور ہے تو اس سے پہلے اس کا بھائی یوسف بھی چور تھا۔ پھر جب پہچان لیا توکہا کہ کیا آپ یوسف ہیں؟۔ پھر معاف بھی کردیاتھا۔
طالبان نے اپنی غلطی مان لی اور معافی کیلئے بڑی عزت بھی بخش دی۔ مہمان نہ ہوتے تو ہم معاف کرچکے ہوتے۔جو یہ کہتے ہیں کہ اورنگزیب شہید نے بھائی کو بچانے کیلئے سب کو قربان کردیا تو وہ اسلام، قبائل ، انسانیت، علی کی اولاد اور فطری غیرت سے نابلد ہیں اور جب تک اقدار کے نشیب وفراز سے یہ لوگ واقف نہیں ہوں گے تو اگر ہمارے والے ان کو سارادن بھی کاندھے پر گھمائیں گے تو یہ کہیں گے کہ ہماری چوتڑیں توڑ دی ہیں۔میں واقعہ کی نہیں دراصل اقدار کی جنگ لڑرہاہوں۔
عابد! سرنڈرکو وہاں سلنڈرکہتے ہیں ۔سر+نڈر نہیں۔ سلنڈر میں زیادہ گیس ہو تو پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ آپ نے اچھا کیا کہ اپنی بیہودہ معلومات پر سلنڈر بن گئے۔ ممکن ہے کہ پھٹنے کے ڈر سے یہ ہوا چھوڑی ہولیکن اپنی کاوش جاری رکھو۔
آپ نے کانیگرم کو اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز اور سیاست کا محور بتایا اور شیخ الہند اور مجدد سبحان شاہ کی بنیادپر سیاست کو محور بناکر اس بات کا اظہار کیا کہ مہدی کی شخصیت بقیہ صفحہ ھذا نیچے بڑی ہے اور منصور کا کام تم نے کرنا ہے اور خود ساختہ پیران پیر بن گئے۔ آپ غلام قرار دو ، جھوٹی تاریخ لکھو توٹھیک اورمجھے سچ بولنے پر لعنت اور تعصبات ؟۔
شیخ الہند کی سیاست کے پہلوان مولانا فضل الرحمن کے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کے استاذ شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی مولانا سبحان محمود نے ”اخبار الاخیار” کا ترجمہ کیا اور میں نے اس کا ایک فتویٰ میں صرف حوالہ دیا تو اس نے اپنا نام بدل کر سحبان محمود رکھ دیا۔جس سے اس نے خود کو بہت بڑا جاہل ثابت کیا کہ ساری زندگی ایک ناجائز نام رکھا ہوا تھا۔
سبحان شاہ کی اولاد جھوٹی کہانی دم توڑنے پربغیر ماں باپ والے اکاؤنٹ سے گالیاں بک رہی ہے۔ پتہ نہیں چلتا کہ لڑکے ہیں لڑکیاں؟۔ حالانکہ شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ سچ کی وجہ سے انسان توبہ کرتا ہے اور تکبر اور دھوکے میں نہیں رہتا۔ عابد بھائی ! آپ ان کی وکالت ضرور کریں مگر کچھ حق بھی بولیں۔
سبحان شاہ کے بیٹوں مظفرشاہ و صنوبر شاہ کے پوتے زندہ ہیں۔ دادوں کی قبر تلاش نہیں کرسکتے اور ابوبکر ذاکر کی قبر اور قتل پر بیہودہ60خوارج کے بدلے میں قتل کی جھوٹی کہانی بناؤ اور پھر انہی برکی قبائل کو خوارج بھی قرار دے دو؟۔ چلو شجرہ اور قبروں تک رسائی نہیں تو اکاؤنٹ پر نام لکھ سکتے ہو۔ وہ بھی نامعلوم ۔FIRتو نامعلوم کے خلاف ہی درج ہوتی ہے ۔
مولانا قاسم نانوتوی نے ایک کارنامہ انجام دیا کہ بیوہ اور طلاق شدگان کیلئے شاہ اسماعیل شہید کے طرز پر تحریک چلائی مگر اپنی ایسی بوڑھی بہن کو قربانی کی دنبی بنایا جس کی عمر قرآن کے مطابق نکاح سے گزر چکی تھی۔ نوشہرہ میں مولانا گل حلیم شاہ نے بتایا کہ ایک شخص اپنی بوڑھی ماں کو ٹوکری میں لئے قرآن پر عمل کیلئے نکاح کرانا چاہتا تھا تو میں نے یہ سمجھادیا کہ غلط کررہا تھا ۔ جہاں کسی نے دہشت گرد پالے تھے تو بہادری کے باوجود بھی خواتین بچانے کیلئے بازو تڑوانے کا قصہ ہے۔ میری خواہش تھی کہ ضرورت ہو تو عمر کا لحاظ رکھے بغیر مرد حضرات قربانی دیں اور سب سے پہلے میں ، میرے بچے ، بھائی اوربات ماننے والے پیرعبدالوہاب ، عبدالرحیم ، عبدالواحد وغیرہ تیار کردئیے تھے لیکن ماموں سعدالدین نے کہا کہ یہ مشکل کام ہے۔
جنڈولہ سے وانا کے راستے میں آپ لوگوں کی بڑی زمین ہے۔ جس قبیلہ نے بیچی تھی تواس نے پھڈہ کھڑا کردیا۔ جب اس پربڑا جرگہ بٹھادیا تو معمول کیمطابق ایک طرف ہمارے والے بیٹھ گئے اور دوسری طرف وہ بیٹھ گئے۔ ثالثوں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے زمین بیچی ہے لیکن اس کا پانی نہیں بیچا ہے۔ میرے والد نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجھے کہہ رہاہے کہ میں نے عورت بیچ دی ہے لیکن اس کی پیشاب گاہ کو نہیں بیچا ہے۔ پانی کے بغیر زمین ایسی ہے جیسے عورت کی وہ چیز نہیں ہو۔ ثالثوں نے ان سے کہا کہ ”پیر صاحب کی بات ہم مجمع عام نہیں بتاسکتے۔ کچھ افراد الگ ہوجاؤ تو ان کو بتادیں گے لیکن انہوں نے زور لگایا کہ اب تو خواہ مخواہ بھی بتاؤ گے۔ جب بتایا تو کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہوئے کہ معاملہ ختم ہے۔
کبھی صرف بات کرنے سے بہت بڑے فساد ٹل جاتے ہیں۔ میرے بھائیوں نے والد کی زندگی میں والد کو بے خبر رکھ کر مینک برکی کی غلط ڈیمانڈ پر فیصلہ کیا کہ یا ہم قرآن کا حلف اٹھائیں تو210کنال میں105ہماری ہے۔ یا وہ حلف اٹھائیں گے کہ ہماری70کنال ہے۔ ماموں غیاث الدین کی موجودگی میں ہمارے بھائیوں نے ان کو حلف اٹھانے کیلئے کہہ دیا۔ ایک جھوٹے حلف پر ہم35کنال سے محروم ہوگئے تو ہمارے رشتہ داروں کو اس پر فخر کرنا چاہیے تھا کہ لالچ کی جگہ زمین کی قربانی دیدی۔ ہماری مخالفت میں اس پر فضا بنائی گئی کہ جیسے ہم نے مینک برکی سے حلف اٹھواکر بڑا ظلم کردیا۔
اس کے پیچھے پھر حلف کا معاملہ تھا کہ وہ اٹھاتے اور زمین بھی لیتے اور بدنام بھی ہمیں کرتے۔ میں نے مولانا سبحان محمود کاواقعہ بھی بہت مختصر نقل کیا ہے جو دارالعلوم کراچی والوں کا دادا اور بنوری ٹاؤن والوں کا ننھیال تھا اسلئے کہ مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر دونوں اسکے شاگرد تھے۔ بنوری ٹاؤن کراچی کے اکثر اساتذہ پہلے دارالعلوم کراچی میں تھے۔ اپنی ننھیال سبحان شاہ کے معاملات بھی ضروری حد تک بیان کیے لیکن تفصیل کی ضرورت آئے تو آسرا نہیں کروں گا ۔ بڑے مقاصد کے حصول کیلئے چھوٹی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بہت لوگ کچھ نہیں سمجھتے اور خدا کرے کہ کچھ نہ سمجھے کوئی اور بڑا مقصد بھی مل جائے۔ قدرت بڑی مہربان ہے۔ اگر یہ مد بھیڑ نہ ہوتی تو پھر سورہ سبا اور دیگر سورتوں کی تفسیر سمجھنے میں بھی مشکل ہوتی۔
مولانا پیر گل حلیم شاہ نے کانیگرم کے جلسہ میں میری والدہ کا نام لیا تو ماموں نے اپنی بہن اور بھائی نے اپنی والدہ کی بے حرمتی پر اس کو پکڑنے کے بجائے مجھے ہی جیل میں ڈال دیا۔ حالانکہ مولاناگل حلیم شاہ کو ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا تو لوگ بھی کہتے کہ غلط کیا تو بھگتے بھی۔ پھر میں نے اس پر پہلے اتمام حجت کی اور اپنی کتابوں کا کہا کہ دیکھو اس میں کیا غلطی ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں مولانا فتح خان سے پوچھ لو۔ تو میں نے کہا کہ جب پتہ نہیں تو پھر مخالفت میں بولو بھی مت۔ پھر اس کی حقیقت سے”نیولے اور ٹرانسفارمر ” نقاب کشائی کی۔
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
مجاہد شا ہ ولی مروت ، شین مینار مسجد کے مولانا عنایت اللہ محسود اور سپاہ صحابہ کے شاہ حسین گواہ ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء اور کلاچی کے قاضی، کراچی کے مدارس اور حاجی عثمان کے مریداور ضرب حق دیکھ لو۔
ابوسفیان کی بہن ام جمیل ابولہب کی بیوی تھی ۔ قرآن کی مذمت پر قریش نے نبیۖ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ ولید بن مغیرہ کو ترجمان بنایا۔اللہ تعالیٰ نے بھرپور جواب دیا ۔ فرمایا:
”ن قلم کی قسم اور جو اس سے لکھتے ہیں۔آپ اپنے رب کی نعمت سے دیوانہ نہیں ہیںاور آپ کیلئے بیشمار اجر ہے۔ اور بے شک آپ تو اخلاق کے عظیم مرتبہ پر ہیں۔ پس عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم سے کون فتنہ میں مبتلا ہے؟۔ بیشک تیرا رب جانتا ہے کہ کون راستے سے گمراہ ہے۔ اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ پس آپ جھٹلانے والوں کا کہا مت مانو۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی چاپلوسی کرو تو وہ بھی چاپلوسی کریںاور ہر قسم کھانے والے ذلیل کا کہنا نہ مانیں۔جو طعنے دینے والا چغل خور ا، نیکی سے روکنے والا، حد سے گزرا، گناہ گار۔ بدتمیز اور پھرناجائز نسبت والا ۔ اگرچہ وہ مال واولاد والا ہے ۔جب اس پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں۔ عنقریب ہم اس کو سونڈ پر داغ دیں گے۔بیشک ہم نے ان کو آزمائش میں ڈالا، جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا۔جب انہوں نے قسم کھائی کہ ہم صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ دیں گے اور انہوں نے استثناء نہیں کیا۔ پھر ایک گھومنے والاتیرے رب کی طرف سے آیا اور وہ سوئے ہوئے تھے۔پھر وہ باغ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح تھا”۔ (سورہ القلم آیت1تا21)
حضرت خالد بن ولید کے والد ولید بن مغیرہ بہت تیز طرار ، چالاک، عقل ودانش کے پیکر قریش مکہ کے ترجمان نے زبان کی تیزی دکھائی اور نبیۖ پر ڈھیر ساری بداخلاقی اور عزتوں کو تار تار کرنے کا الزام لگادیا تو سورہ قلم کی ان آیات سے خالق کائنات نے جواب دیا تھا۔ بعض مترجمیں نے ”زمیم” کا ترجمہ” ناجائز اولاد” کیا ۔ اس سے خالد بن ولید کی شخصیت اور نسب پر کتنا برا اثر پڑا؟ ۔جس کا بھائی ولید بن ولید مسلمان تھا۔ خالد بن ولیدمسلمان ہوا تو یہ آیات سنانے کا مطالبہ کیا جو اس کے باپ کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں۔ پٹھانوں کو پتہ ہوتا تو وہ کبھی خود کو خالد بن ولید کی اولاد نہ کہتے۔ جب کچھ لوگوں نے سازش کی اور ہمارے ساتھی خانقاہ کے امیر شفیع بلوچ کو میرے سامنے کھڑا کیا تو اس نے کہا کہ ہم بلوچ بھی امیر حمزہ کی اولاد ہیں۔ پھر میںنے کہا کہ اگر میں تجھے مجمع میں چیلنج کرتا اور پھر یہ کتاب دکھاتا کہ امیر حمزہ لاولد تھے تو کیا حشر ہوتا؟۔ اس نے شکریہ ادا کیا کہ مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ طاہر شاہ نے لکھا کہ ”کیا دنیا نے اتنی ترقی نہیں کی کہ مہدی کو دریافت کرسکے”۔ مہدی کی نسبت روحانی ہے اور سائنس ابھی روحانیت تک نہیں پہنچ سکی ہے لیکن طاہر شاہ ایک ویڈیو میں اپناتشخص، تعارف اور شجرہ نسب دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ یہ تو وہ شخص ہے جو کہتا تھا کہ ”وزیرستان کا سپر خاندان ہم ہیں۔ انگریز نے بتادیا ہے”۔
یہ بد قماش جو اہل عطا بنے ہوئے ہیں
بشر تو بن نہیں سکتے خدا بنے ہوئے ہیں
میں جانتا ہوں ایسے عظیم لوگوں کو
جو ظلم سہہ کے سراپا دعا بنے ہوئے ہیں
وہ مجھ سے ہاتھ چھڑا لے تو کچھ عجب بھی نہیں
اسے خبر ہے کہ حالات کیا بنے ہوئے ہیں
لڑھکتا جاؤں کہاں تک میں ساتھ ساتھ ان کے
مرے شریک سفر تو ہوا بنے ہوئے ہیں
تو خلوتوں میں انہیں دیکھ لے تو ڈر جائے
یہ جتنے لوگ یہاں پارسا بنے ہوئے ہیں
کبھی کبھار تو ایسا گماں گزرتا ہے
ہمارے ہاتھ کے ارض وسما بنے ہوئے ہیں
ہمیں سے پہنچنا ہے تم کو منزل تک
گزر جانا کہ ہم راستا بنے ہوئے ہیں
ہزاروں لوگ بچھڑتے ہیں مل مل کر
سو زندگی میں بہت سے خلا بنے ہوئے ہیں
کسی سے مل کے بنے تھے جو زرد لمحوں میں
وہ سبز خواب میرا آسرا بنے ہوئے ہیں
عابد بھائی!
میں نے تو بارہایہ کہا کہ مجرم کوئی اور نہیں ہم خود ہیں ۔ دہشتگرد قوم کو نقصان پہنچارہے تھے تو ہم نے پالا۔ اگر اس کی سزا اس سے زیادہ ہے جو ہمیں ملی ہے توقبول ہے ۔
ہماری مسجد کے امام حافظ عبدالقادر شہیدکے گاؤں میں یہ بات پھیلائی گئی کہ اس کی موت حرام کی ہوئی ہے۔ جب اسکے بھانجے کو پتہ چلا کہ حرام کی موت نہیں ہوئی ہے تو بہت خوش ہوا کہ اس کی آخرت خراب نہیں ہے۔ یہ کس کس کا پروپیگنڈہ تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا؟۔ مجھے شہداء کیلئے کچھ حقائق سے پردہ اٹھانا ہوگا۔ منہاج کا ماموں پیر سجاد بھی یہ تشہیر کرتا تھا اور مجھے اس پر گرفت کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہمارے شہداء کے وارث پریشان ہوں اور لوگ اپنی کم عقلی یا کمینگی سے غلط پروپیگنڈہ کریں۔
قاتل کو زعم چارہ گری ، اب دردِ نہاں کی خیر نہیں
اترا وہ خمار بادۂ غم ، رندوں کو ہوا ادراک ستم
کھلنے کو ہے مے خانے کا بھرم، اب پیرمغاں کی خیر نہیں
اب تک تو کرم کی نظروں نے، فتنۂ دوران روک لیا
اب دوش پہ زلفیں برہم ہیں، اب نظم جہاں کی خیر نہیں
سوچا ہے شکیل انکے دلوں کو میں فتح کروں گاسجدوں سے
یا میری جبیں کی خیر نہیں، یا کوئے بتاں کی خیر نہیں
مولانا فتح خان سے کوئی پوچھتا کہ” نامعلوم نے ہمارے آدمی کو قتل کیا تو یہ شہید ہے یا نہلائیں؟”۔ تو مولانا فتح خان جواب دیتے تھے کہ احتیاطاً نہلانے میں حرج نہیں ۔ شہادت نہلانے سے خراب نہیں ہوتی ہے۔ لیکن جب حاجی رفیق شاہ شہید کیلئے مولانا فتح خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ”یہ اس اونچے درجہ کے شہید ہیں کہ نہلانا تو دور کی بات چہرے پر گرد پڑا تو اس کو بھی مت ہٹاؤ”۔ پھر یہ کون ہیںجنکے نزدیک حافظ عبدالقادر شہید حرام کی موت مرا؟۔ اسکے بھانجے کو بتادیا کہ حرام کی موت نہیں مرا تو بڑا خوش ہوا۔ اورنگزیب شہید کی تصویرپر ڈیرہ میں یہ کہاگیا کہ” ہمارا عزیز تھا یہ غلط تھا”۔تو عام آدمی نے اس سے کہا کہ” تصویر سید کی ہے تم سید نہیں لگتے ”۔
جس طرح فلسطین کے مجاہد بچے مہدی ہیں اسی طرح جن مجاہدین نے امریکہ کے خلاف جہاد کیا تو وہ بھی مھدی ہیں۔ مجھے مجاہدین کی ان ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو دکھ اور تکلیف پہنچنے کا جٹہ قلعہ کے واقعہ سے زیادہ احساس ہے جن کا اپنا کوئی گناہ نہیں تھا اور وہ بے گھر اور بے عزت کئے گئے ۔ اگر میں موجود ہوتا تو اپنے سکول اور گھروں میں ان کو ضرور بساتا اور ان کیلئے جتنا ہوسکتا تو خرچے کا بندوبست بھی ضرور کرتا۔
مجھ سے پیر طارق شاہ نے کہا کہ ” پیر یعقوب شاہ سے آپ بات کرلو تو صلح پر راضی ہونگے”۔ میں نے کہا کہ اس کیلئے کچھ ایسی تجویز ہو جو بخوشی سے قبول کریں۔ پھر اس بات کا اظہار کیا کہ پیرغفار لوگوں نے زندگی ماموں کے گھر میں گزاردی اور اب گھر چھوڑنے کی قیمت پر صلح کیلئے یہ بات بڑھانی ہوگی۔ پیر غفارجٹہ قلعہ آئے تو میں نے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ حالانکہ بظاہر یہ بالکل غلط تھا لیکن اس کا اتنا بڑا دل ہے کہ مجھ سے ناراضگی کی وجہ پوچھ لی۔ میں نے کہا کہ تم صلح نہیں کرتے۔ اس نے کہا کہ آپ کو ہر طرح کا اختیار ہے۔ میں نے کہا کہ اگر کسی اور دشمن کیلئے بات ہوتی تو میں کبھی نہیں بولتا۔ برکی قبائل کیلئے محسود ملک دینائی نے بندے مارنے کے بعد وطن چھوڑا تو عار بن گیا مگراپنے عزیزوں کیلئے یہ قربانی کوئی بے عزتی نہیں۔ وہ بالکل تیار تھا اور پھر دوسرے بھائیوں سے مشورہ کرکے بھی بتایا کہ ٹھیک ہے لیکن پھر پتہ نہیں کس ابلیس نے مشورہ دیا اور مجھے کہا کہ ”گھر چھوڑنے والی بات پر ہم سوچ میں پڑگئے”۔
اگر اس وقت معاملہ حل ہوجاتا تو مجھے یقین ہے کہ یعقوب شاہ بہت خوش ہوتے اور پہلے کوڑ چھوڑنے کیلئے اپنے ڈیرے کا گھر دیتے اور پھر اپنے ساتھ ڈیرہ سے ان کو واپس لاتے کہ بھئی اپنی چیز خود سنبھال لینا۔اچھوں کی کمی نہیں تھی مگر ماحول بہت تیزی سے بگڑ گیا اسلئے کچھ ضربیں برداشت کرو۔
نمازکی امامت پر میری کوشش ہوتی تھی کہ تاخیر سے جاؤں تاکہ کوئی اور امامت کرے۔ ایک دن حاجی بدیع الزمان مجھے آگے کررہے تھے اور میں اس کو امامت کی دعوت دے رہاتھا۔ ڈاکٹر آفتاب نے اس کو کہا کہ آپ پڑھائیں مگر اس نے مجھے آگے کیا۔ میرے دل میں ڈاکٹر آفتاب سے محبت بڑھی کہ اس نے اقدار اور چھوٹے بڑے کا بڑا خیال رکھا۔ آج بھی دل میں اس کی مٹھاس محسوس کرتا ہوں۔ حاجی یونس شاہ نے ہمیشہ اپنی گاڑی دوسروں کی غم شادی میں پیٹرول سے بھری انکے گھر پر کھڑی کرکے رکھی تو میں نے کہا تھا کہ سب سے اچھی گاڑی حاجی صاحب کیساتھ ججتی ہے جبکہ ماموں سعدالدین نے مسجد میں حاجی شاہ عالم کے بھائی دین حاجی سے ہاتھ ملایا تو پوچھا کہ کون ہے۔ صمد نے بتایا کہ مزیانی ہے ، تواس نے کہا کہ گم ہوجائے۔ صمد نے کہا کہ دبئی سے آیا مہمان ہے تو اس نے کہا کہ دبئی سے بھی گزرے۔چھوٹے ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ ۔
حاجی یونس شاہ الیکشن کمپین کا خرچہ دیتا تھا اور بدتمیز مخلوق مذاق اڑاتی تھی۔ میرا کتا بس نے ماردیا تو ڈرائیور نے کہا کہ آدمی کی دیت دوں گا۔ حاجی یونس شاہ نے کہا : چائے پیتے ہوتو پلادیتا ہوں ،کتے کا کون پوچھتا ہے جاؤ۔ یہ ہوتا ہے معیار !۔
منہاج اور شہریار کی غیرت کتے کی غلطی کو معاف نہیں کرتی لیکن مہمان اور عورتوں سمیت جمع غفیر پر کبھی غیرت نہیں آئی۔
پیر طارق شاہ بہت اچھا تھامگر اللہ نے مجھ سے کام لیاہے۔ ”اللہ فاسق سے بھی دین کی خدمت لیتا ہے”۔(حدیث) گالی کھانا اور دینا اچھا نہیں مگر مجبوری ہوتو علی سے ابوسفیاننے کہا: ہماراجدایک عبدالشمس تھا تو علی نے کہا کہ صخر ابوطالب کی طرح تھا،نہ حرب عبدالمطلب اورنہ ہی امیہ ہاشم کی طرح۔ نبیۖ نے سچ فرمایا:انانبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب اللہ کا کلینڈر شاہکارہوتا ہے تعصبات نہیں۔فارمی نہیں سمجھ سکتا۔
عابد! آپ اور مولانا آصف میری تعلیم کو پہنچاتے تو سبحان شاہ ، مظفرشاہ ، سرورشاہ اور جلیل شاہ کا نام بھی روشن ہوتا اور مولانا فضل الرحمن اور اس کے ٹبر سے بھی بہت ہی آگے نکلتے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ