پوسٹ تلاش کریں

الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ قوام حکمرانی نہیں بلکہ طاقتور کا کمزور کوعدل وتوازن کا سہارا ہے

الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ قوام حکمرانی نہیں بلکہ طاقتور کا کمزور کوعدل وتوازن کا سہارا ہے اخبار: نوشتہ دیوار

اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا وکان بین ذٰلک قوامًا”خرچ میں نہ اسراف نہ بخل انکے درمیان اعتدال”

الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ قوام حکمرانی نہیںبلکہ طاقتور کا کمزور کوعدل وتوازن کا سہاراہے

الاتطغوافی المیزان

آسمانی توازن اللہ نے قائم کیا ۔ زمین کاتوازن قائم کرنے کی ذمہ داری ارضی خلیفہ انسان پر ہے۔

دماغی توازن بگڑا توپاگل ،جسمانی توازن بگڑا تو فالج زدہ اور کرداربگڑا تو بدچلن ہے۔ دائیں ہاتھ و پاؤں بائیں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں تو بوجھ، لڑائی اور بھاری کام دائیں ہاتھ سے لیتے ہیں اور فٹ بال کی کک دائیں پاؤں کا کام ہے۔ یہی فطرت ہے اور اسلام بھی فطری نظام حیات ہے۔

والذین اذا انفقوالم یسرفواولم یقتروا وکان بین ذٰلک قوامًا ”اور جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اورنہ بخل اور انکے درمیان متوازن ہیں”۔ (الفرفان:67)

قوام کا معنی متوازن ہے ۔قرآن میں مردوں کو صنف نازک عورتوں پر حکمران نہیںقوام بنایا گیا ۔
قوام صنف نازک کی مدافعت ، کمزوری پر قابو رکھنا ہے۔ حکمران کا کام بھی رعایا کی کمزوری کیلئے طاقت کا توازن معتدال بنانا ہے۔ جیسے ماں بچوں کی کمزوری کا دفاع کرتی ہے اسی طرح حکمران اور شوہر کا کام کمزوری کا دفاع ،عدل وتوازن ہے۔

اگر اس کی حقیقت سمجھ میں آجائے تو بیویوں اور رعایا پر ظلم نہیں ہوگا۔ سکیورٹی طاقت کا بنیادی مقصد کمزور کو تحفظ دینا ہے۔ سزا کا کام عدالت کا ہے اور اگر طاقتور شوہر یا ڈکٹیٹر حکمران اپنی رعایا پر ظلم کرے تو عدل وتوازن کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔

پروفیسر نورالامین نے کہا :” ہم پشتون بدھ مت تھے۔ اسلام نے ہمیںمتشدد بنادیا ۔پشتو میں پت اور ہندی میں پتی ۔ لکھ پتی، کروڑ پتی ۔ شوہر ٹرسٹ ہوتا تھا جوبیوی پر بالادست نہیں سہاراہوتاتھا”۔
قوام پر مال کاخرچہ ۔ صالحات، قانتات حافظات للغیب بما حفظ اللہ ایک درجہ مردکااور3درجات عورت کے ہیں۔شوہر خود پر بہتان برداشت کرتا ہے لیکن بیوی پر نہیں۔کیا کوئی فاسق، متکبراور خائن شوہراپنی صالحہ، عاجزہ ،عصمت کی محافظہ عورت سے محض مال خرچ کرنے پر افضل ہوسکتا ہے؟۔اگر برعکس عورت مال خرچ کرتی ہو مگر خائنہ ہو توپھرکیا شوہر اس کو افضل سمجھے گا؟۔

عورت کو عزت کامحافظ اللہ نے بنایا۔ زناکی سزا100، عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے ہے ۔ فطری خائن شوہرکو زیادہ عورتوں سے نکاح کاکہا۔ عصٰی اٰ دم ربہ فغوٰی (طٰہٰ:121)”آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی توبہکا”۔محرک حواء نہ تھی۔

اوالتٰبعین غیر اولی الاربة من الرجال ” ان تابع مردوں سے جو ٹھرکی نہ ہوں ،عورتوںکو اپنی زینت چھپانے کا حکم نہیں ”۔ (سورہ نور:31)

سوال: پھر عورت کے مارنے کا حکم کیوں دیا ؟۔

جواب : شوہر طیش میں مارتاہے، منصوبہ بندی سے بیوی کو نہیں مارتا تو اللہ نے مار سے بچانے کیلئے واضح کیا کہ مارنے سے پہلے ایک مرحلہ میں سمجھاؤ۔ پھر دوسرے مرحلہ میں بستر الگ کرلو۔ پھر تیسرے مرحلہ میں مارو لیکن اس کی اصلاح ہو تومارنے کیلئے راستہ مت ڈھونڈو۔مارنے کیلئے کیا منصوبہ ہوگا؟۔

پھول مارنا ،ہاتھ اٹھانا ناقابل برداشت انسلٹ توہین ہے لیکن بیوی بہت وفادار ہوتی ہے اوربڑی مارکھاسکتی ہے مگرشوہر سے جداپھر بھی نہیں ہوتی۔

شوہر بیوی کو رنگے ہاتھ پکڑلے تو بھی تشدد نہیں لعان کرسکتا ہے اور عورت لعان میں جھوٹ بولے اور شوہر سچا ہو تو تب بھی عورت کو سزا نہیں ہوگی۔

موسٰی نے ہارون کو داڑھی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور ایک شخص کو مکا ماراتومرا۔ بیوی کو مارتے تو؟۔ 3 مراحل کی مار اور 3 مرتبہ کی طلاق کوہم نے کہاں تک پہنچادیا ؟ ، توراة اورانجیل کے ساتھ یہود اور نصاریٰ نے یہی کچھ کیا تھا۔

یہود نے تورات سے حلالہ کی لعنت کو رائج کردیا تھا اور نصاریٰ نے طلاق کا تصور ہی ختم کردیا تھا۔ قرآن نے جب ان کے درمیان اس افراط وتفریط کو اپنی واضح آیات سے ختم کردیا تو اس کے نتیجے میں انہوں نے قرآن کیخلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کیا تھا کہ اللہ کی آیات کو جو تورات اور انجیل میں تھیں مٹادیاہے اور بھلا دیا گیا ہے۔

مثلاً آج قرآن سے سورہ بقرہ آیت 230 کو نکال دیا جائے تو ایک طرف حلالے کا تصور ختم ہوگا اور مسلمان بہت خوش ہوں گے کہ اللہ نے بڑا فضل کیا اور بہت بڑی مصیبت سے جان چھوٹ گئی لیکن دوسری طرف پھر قرآن کی آیات سے طلاق کا تصور بھی ختم ہوسکتا ہے اسلئے علماء ومفتیان قرار دیں گے کہ اللہ نے عدت میں بھی شوہر کو رجوع کا یکطرفہ اختیار دیا ہے اور عدت کے بعد بھی رجوع کا اختیار دیا ہے جس کی وجہ سے عورت کی آزادی بالکل ہی سلب ہوجاتی ہے۔ کوئی شوہر نہیں چاہتا ہے کہ اس کی بیوی سے طلاق کے بعد کوئی اور شخص ازوداجی تعلق رکھے۔ کمزور کے خلاف ویسے بھی قانون ہی قانون بنتے ہیں۔ قرآن کی آیات میں میں عورت کے تحفظ کی کوئی کمی اللہ نے نہیں چھوڑی ہے لیکن پھر بھی سارے حقوق علماء وفقہاء نے سلب کرلئے۔

مثلاً آیت 226 البقرہ میں ایلاء کے بعد شوہر کو عدت میں بھی رجوع کا یکطرفہ اختیار نہیں ہے۔ عورت راضی ہوگی تو شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کے بعد رجوع کیا تواللہ نے کہا کہ سب ازواج کو طلاق کااختیار دو۔ اگر وہ نہیں چاہیں گی تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

آیت 228 البقرہ میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق شوہر کو دیا مگر اصلاح کی شرط کو نکال کر فقہی مسائل کا کباڑخانہ بنادیا گیا ہے۔

229البقرہ میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے لیکن معروف یعنی صلح و اصلاح کی شرط کونکال کر رجوع کو بڑا مذاق بنادیا گیاہے ۔
یہی حال دیگر آیات 231، 232 البقرہ اور سورہ طلاق کی پہلی دوآیات کابھی کیا گیا ہے ۔

تمام آیات میں عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ آیت 230 البقرہ میں یہ حلالہ ملعونہ کا کمال ہے کہ میرا بھی حقائق کی طرف دھیان گیا ہے۔عورت کے حق کی اللہ نے رجوع کیلئے بھرپور وضاحت کی ہے اور دنیا کے سامنے حقائق آجائیں تو مسلمانوں کی بہت زیادہ ملامت کریں گے۔ تورات اور انجیل کی آیات میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے بلکہ بہتری لائی گئی ہے لیکن اس بہتری کی جگہ علماء نے قرآن کے احکام کا بیڑہ غرق کردیا۔ ایک طرف یہ بتایا کہ احکام کی کل آیات 500 ہیں تو دوسری طرف یہ بھی بتایا کہ 500 آیات منسوخ بھی ہوچکی ہیں اسلئے قرآن کی کسی ایک آیت کے حکم پر بھی فقہاء کا کوئی اتفاق نہیں ہے۔ اصول فقہ میں جتنی آیات پڑھائی جاتی ہیں ان پر اختلافات اور تضادات ہیں۔

ماننسخ من آیةٍ او ننسھا نأت بخیرٍ منھا او مثلھا الم تعلم ان اللہ علی شی ئٍ قدیر O ہم جو کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہترلاتے ہیں یا اسی کی طرح، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورہ البقرہ ۔ آیت106)

اس آیت سے کون تصور لے سکتا ہے کہ اللہ نے کسی آیت کو منسوخ کرکے پہلا حکم بدل دیا ہے؟۔ یہ تو دلیل ہے کہ پہلے سے موجود آیت کو مزید بہتری یا پھر اسی جیسی آیت نازل کی گئی ہے۔ کوئی تبدیلی کا تصور اس میں نہیں دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ، عدالت اور دنیا کے کسی بھی تعلیمی اداروں میں اس کی حقیقت سمجھنے کیلئے پیش کردو تو کوئی دشواری اس میں نہیں۔

اللہ نے فرمایا:” اور تمہاری عورتوں میں سے کوئی بدکاری کرے تو اپنوں میں سے چار گواہ لاؤ۔ اگر وہ گواہی دیں تو اس کو گھر وں میں روکے رکھو۔ یہاں تک کہ ان کوموت سے وفات آجائے یا پھر اللہ ان کیلئے کوئی راہ نکال دے”۔ (البقرہ:15)

جیسے شوہر لعان کے بعد گھر سے باہر نکال دیتا ہے۔ اس طرح کوئی عورت ماحول کو بگاڑ رہی ہو تو معاشرے میں اس کی شکایات آتی ہیں۔ جس پر اس عورت کو تادم حیات بند کرنے کا حکم ہے اسلئے کہ ایسی گرم عورتوں سے لوگوں کے گھر اور بچے بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ اگر عملی طور پر کوئی ایسی عورت کو دیکھا جائے گا تو ”میرا جسم میری مرضی” والی بھی اس کو گھر میں نظر بند رکھنے پر متفق ہوں گی۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی راستہ اللہ نکال دے۔ شوہر اس کو مل جائے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی متبادل حکم نازل ہوجائے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن کے مضامین اس پر کتابی شکل میں موجود ہیں جس میں حماقت کی انتہا کی گئی ہے کہ اس آیت سے ”رجم” مراد ہے۔

جہاں تک سورہ نور کی آیت میں 100 کوڑے کی سزا کا حکم ہے تو سزا کیلئے عورت اور مرد کو ایک ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑنے یا اقرار جرم کی صورت میں ہے۔ اس میں بھی رجم نہیں۔ بہت ہی محترم اور اچھے ویلاگر بلال غوری نے عمران اور بشریٰ بی بی پر انتہائی گھناؤنی تہمت لگانے کا ذکر کیا ہے۔ اگر اس بات کو واقعی درست سمجھ لیا جائے کہ عمران خان اور بشری بی بی کئی بار پکڑے گئے تو بھی80کوڑے کی سزا اس نوکر گواہ کو ملتی مگر یہاں معاملہ کچھ اور تھا۔

سورہ نور میں اللہ نے یہ واضح کردیا کہ زنا کار مرد کا نکاح زنا کار عورت سے کرادیا جائے۔ پھر بھی شریعت کا تقاضہ یہی تھا کہ ان دونوں کی آپس میں شادی کرائی جائے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے تدوین القرآن میں مولانا عبیداللہ سندھی اورمولانا محمد حنیف ندوی وغیرہ نے اس پر بہت اچھا لکھا ہے لیکن اگر تسلی بخش نہیں تو میں تسلی کرواسکتا ہوں اور کئی مرتبہ اس پر لکھ بھی چکا ہوں۔ جاویداحمد غامدی نے بھی ان لوگوں سے استفادہ کیا ہوگا لیکن جاویداحمد غامدی کی یہ بات سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ ” آیت میں نسخ کی مثال سورہ مجادلہ کی آیات ہیں کہ اللہ نے فرمایا کہ ”جب تم نبی سے سرگوشی کرو تو صدقہ دو”۔ پھر دیکھا کہ ”مؤمن اس سے ڈر گئے تو اللہ نے معاف کردیا کہ” مت دو” اور حکم بدل دیا۔ حالانکہ اس عظیم الشان حکم میں بڑی حکمت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اگر مذہبی شخصیت سے امیرآدمی کی خصوصی ملاقات سے پہلے صدقہ دینے کا حکم ہو تو یہ غریب غرباء کیلئے زبردست ہوگا۔ لیکن اگر وہ نہیں دینا چاہے تو اس کی عزت بھی پھر خصوصی ملاقات سے نہیں بڑھے گی۔ سینیٹر طلحہ محمود کو علماء نے نماز کیلئے بھی آگے کیاتھا۔ پھر زرداری کی پارٹی میں چلاگیا۔

غامدی کا بھی کوئی ATM ہوگا اگر اس کو حکم ہو کہ غرباء کو صدقہ دو تو ATM کی حیثیت صدقے سے بنے گی۔ اگر غریب کو کچھ نہ دے تو غامدی کو بھی ہدیہ دینا بیکار ہوگا۔ یہ ا س حکم کی حکمت ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمد کے پروگرام میں افغانستان کا نائب سفیر حبیب اللہ فوزی میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے 10 لاکھ کا چیک پیش کیا۔ ملاعمر نے ملاقات کیلئے یہ فیس رکھی تھی اور افغانستان کے انتظام میں اس سے مدد ملتی ہوگی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ منسوخ کے بارے میں آیت کا متن سمجھے بغیر کئی آیات کو مضحکہ خیزانداز میں منسوخ قرار دیا گیا۔ بیوہ کو سال تک نہیں نکالنے کو عدت سے منسوخ قرار دینا حماقت ہے۔ اگرشادی کرنا چاہتی ہو تو عدت ہے اور نہیں کرنا چاہتی ہو تو ایک سال تک نہیں نکالنا فطرت ہے۔ جاوید احمد غامدی پڑھاکو بچہ ہے۔ پڑھ پڑھ کے دماغ خراب ہوا ہے اور ناسخ ومنسوخ کے چکر میں پتہ نہیں کہاں جاکر دم لے گا؟۔وہ حمیدالدین فراہی کو دین کی تعبیر جدید کا بانی اور مولانا مودودی کو اسلاف کی تفسیر کی آخری کڑی قرار دیتا ہے مگر یہ خام خیالی ختم ہے۔

تفسیر کیلئے دماغ سوزی اور لغات میں گمراہ کن تعبیرات ڈھونڈ کر اسلام کو مزید اجنبیت کی طرف دھکیلنا بڑی حماقت ہے۔ علماء وفقہاء کی مصیبت یہ تھی کہ نماز کی رکعتوں میں تین مختصر سورتوں میں بھی درمیان کی سورت چھوڑنا ممنوع قرار دی تاکہ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا تصور قائم نہ ہوجائے ۔اور پھر طلاق کے مسائل میں حلف کو داخل کردیا۔ جدید مفسرین نے سلیس انداز میںگمراہی کو عام فہم بنادیا اور غلام احمد پرویز نے تبویب القرآن میں آسمان و زمین کی قلابیں ملاکر نئی تعبیر ایجاد کی مگرعلامہ بنوری کے تقویٰ ، درخواستی کی قربانی ، حاجی عثمان کی صحبت ، والدہ کی محنت ، اجداد کی برکت، مولانا نصراللہ کی دعا اور نبیۖ کی رحمت نے مجھے اعزاز بڑا بخش دیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

قرآن کی کل محکم آیات500ہیں؟ پھر 500آیات منسوخ بھی ہیں؟ اسلئے امت مسلمہ گمراہی کا شکارہے!
حرمت مصاہرة کا راکٹ سائنس علماء ومفتیان کی سمجھ سے بالاتر
الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ قوام حکمرانی نہیں بلکہ طاقتور کا کمزور کوعدل وتوازن کا سہارا ہے