قال رسول اللہ ۖ لایزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعة ”اہل غرب کاحق پر غلبہ رہے گا حتی کہ انقلاب قائم ہوجائے”۔(صحیح مسلم)
اپریل 6, 2025

من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتةً جاہلیة:جس نے اپنے امام زمانہ کو نہ پہچانا تو جاہلیت کی موت مرا۔
ایک زمانہ4امام:
دیوبندواہلحدیث:(1)یزید
بریلوی:(2)عبداللہ بن زبیر
شیعہ:(3)زین العابدین
اور کیسانیہ:(4)محمد بن حنفیہ
اوپیچھے تو دیکھو !پیچھے
سیاسی بچہ: احمد شاہ کانیگرم وزیرستان
امام پر کبھی اتفاق نہیں ہوا لیکن جمہوریت پرہندوستانی، پاکستانی اورایرانی متفق؟
امام پر اتفاق نہیں ہوا۔ اگر خلافت راشدہ جمہوری ہوتی تو نبی ۖ کی 23 سالہ جدوجہد کے بعد عثمان 25 سال میں شہید نہ ہوتے ۔ عمر کی شہادت پر عبیداللہ بن عمر نے کئی افرادکو قتل کیا۔ عثمان خلیفہ بن گئے تو علی نے قصاص کا کہامگر پھرسرکار نے دیت دی۔ عبیداللہ پھر شام گیا۔ ریمنڈ ڈیوس نوعیت کا پہلا کیس تھا۔ کہا گیا کہ عمر دور کا کیس تھا نہ عثمان دورکا اسلئے قصاص نہ کیا۔ قاضی شریح کی عدالت نے قتل عثمان سے قتل حسین تک آخرمعاملہ پہنچادیا اور اب تک معاملہ چل رہا ہے۔
ایک مؤمن کے ناجائز قتل کی سزا جہنم اور خانہ کعبہ کو ڈھانے سے زیادہ گناہ ہے لیکن کیا عثمان وعلی اور حسین سمیت لاکھوں مسلمانوں کو قتل سے اس آیت وحدیث نے بچایا؟۔نہیںہرگزنہیں!۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے ایک جان کو قتل کیا جیسا کہ اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔ جس میں مسلم وغیر مسلم اور فرقہ وقوم پرستی ، ریاستی وغیرریاستی کی تفریق نہیں۔ دہشتگردی کو روکنا پشتو گانے سے ممکن نہیں کہ” میں آج جب ناچ رہا ہوں توپوری دنیا ناچ رہی ہے”۔اسی طرح رونا بھی سمجھو۔ طالب علماء کو کافراورمرتد سمجھ کر قتل کرتا ہے۔بلوچ اپنا بلوچ قتل نہیں کرتا ۔ طالب گڈ و بیڈ کے پاس اسلحہ مگر بلوچ میں یہ نہیں ۔بلوچ پہاڑی جنگل اور طالب شہری منگل میںہے۔
قرآن میں جہادو اصلاح کی بیعت لیکن بنیاد بیعت خلافت ہے۔جس میں جبر کا تصور نہیں تھا۔
نبیۖ نے حدیث قرطاس سے امت کو اپنے بعد گمراہی سے بچانا چاہا تو عمر نے کہا کہ ” ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔ مگر آخری عمر میں عمر نے کہا کہ کاش نبیۖ سے خلفاء کے نام پوچھتے۔ سعد بن عبادہ نے خلافت انصار کا حق سمجھا۔ ابوبکر وعمر نے قریش کوحقدار کہا۔ علی ہنگامی بیعت پر خوش نہ تھے مگر ابوسفیان کی پیشکش مسترد کی۔ ابوبکر نے چھ ماہ بعد منایا۔ پھر عمرکو نامزدکیا تو صحابہ نے کہا کہ اللہ کا خوف نہیں کہ سخت عمر مسلط کیا؟۔ ابوبکر نے کہا کہ خلافت کا بوجھ نرم بنادے گا۔ سعد بن عبادہ مدینہ چھوڑکر شام کے گاؤں میں رہنے لگے ۔ ابوبکر وعمر کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے اور پھر جنات نے قتل کیا۔ قرون اولیٰ میں اختلاف، جنگیں ، جنات کے قتل تھے توہم اپنے دور میں احتیاط اور حکمت سے کام لیں۔ یزیداورکربلا کے علاوہ عبداللہ بن زبیر نے بیعت لی ۔ مختار ثقفی اور محمد بن حنفیہ اتحادی مگر پھر ثقفی نے اس کا گورنر کوفہ سے بھگایا اور حسین کے قاتل چن چن کر قتل کئے۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے اس کا خاتمہ کیا۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے خلافت زین العابدین کے سپرد کرنا چاہی مگر قبول نہیں کی گئی۔پھر مروان بن حکم خلیفہ بنا۔ عبدالملک بن مروان دور میں عبداللہ بن زبیر کی المناک شہادت اور لاش مکہ میں لٹکائی گئی جس طرح کابل میں طالبان نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا اور لاش لٹکائی۔ مولانا شیرمحمد نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے نجیب اللہ کو بچانے کیلئے ملا عمر سے کہا مگر ملاعمر نے اپنی بے بسی کا اظہارکیا۔ نبیۖ نے اہل غرب کو جمہوریت وقانون کی بالادستی کی وجہ سے اہل حق کا غلبہ قرار دیا۔ اگر ہم نے سنجیدگی سے معاملہ لیا تو بڑی مشاورت سے خلافت کا نظام قائم کرسکتے ہیں۔
مثلاً آج سنی مروان بن حکم کا حویلیاں ہزارہ میں عرس منارہاہے تو شیعہ اس کو توہین اہل بیت سمجھتا ہے اور اگر شیعہ کہتا ہے کہ علی ولی اللہ وخلیفتہ بلا فصل توسنی عالم اس پر توہین کی تشہیر کرتا ہے۔
ہے بھڑکنے کا ذوق تو بھڑک جاؤ
ہے مرنے کا شوق تو پھڑک جاؤ
ہم کہتے رہیں گے تمہیں رُک جاؤ
اچھے دور کے آنے تک سسک جاؤ
وہ وقت بھی آئے گا کہ تھک جاؤ
اپنے اُٹھائے ہوئے ہتھیار رکھ جاؤ
مرتے ہوئے اچھی وصیت لکھ جاؤ
خوش حال راج کیلئے جلد مکھ جاؤ
توحید نہ رسالت چھیڑنے فدک جاؤ
بہانے بہانے سے لمحہ لمحہ بدک جاؤ
اللہ نے کہا بدلے جنت کے بک جاؤ
سامنے خلیفہ ارض کے تم جھک جاؤ
زمیں سے بھی اوپر برسر فلک جاؤ
عزازیل سے ابلیس تک بھٹک جاؤ
ملح اجاج کیلئے ساحل جھرک جاؤ
عذب فرات کیلئے کاہل دھڑک جاؤ
اپنی تقدیر کی بدولت منزل تلک جاؤ
تدبیر سے اندھیرے میں جھلک جاؤ
پگڈنڈیوں سے نکل کر سڑک جاؤ
اگر ہمت نہیں رکھتے تو سرک جاؤ
لگتا نہیں کہ رمک سے کرک جاؤ
مگر بامحاصرہ اچانک جب ٹپک جاؤ
تعصبات کا یہ عالم ہے کہ سنی یزید زندہ باد پر آگیا اور ہر داڑھی والے کو مولانا کہتا ہے لیکن علی کو مولانا طارق جمیل مولا کہہ دے تو اس کو مسلک ہی سے باہر کردیا جاتا ہے۔ پوری دنیا مولانا، مولانا بن گئی یہاں تک کہ اگر زیر ناف بال بڑھ جائیں تو اس کو بھی ڈاکٹر مفتی منظور مینگل حضرت مولانا ہی کہتا ہے اوراس کو توہین نہیں سمجھتا لیکن علی کو مولانا کہنا مولانا طارق جمیل کا ناقابل معافی جرم ہے۔
اگر سنی کہتا ہے کہ ابوبکر، عمر ، عثمان کے بعد علی کا چوتھا نمبر ہے تو یہ اس کو حق پہنچتا ہے۔ اگر ابوطالب کو کافر کہتا ہے تو بھی حق پہنچتا ہے۔ یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے ۔ شیعہ کو بالکل برا منانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر شیعہ کہتا ہے کہ ابوطالب ابوبکروعمر سے اچھے مسلمان اور علی کا پہلا نمبر ہے تو یہ بھی اس کا حق ہے۔ شیعہ تو احادیث کی بنیاد اہل بیت کا کلمہ پڑھتا ہے لیکن سنی نے صحابہ کا کلمہ نہیں پڑھا ہے اور نہ ایمان مجمل ومفصل میں صحابہ کرام کوشامل کیا۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایاکہ تم میں سے ہرایک راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا پوچھا بھی جائے گا۔ یعنی جتنا بڑا راعی اتنا بڑا معززاور لوگوں پر حکومت واقتدار کرنے والا۔ لیکن قرآن میں یہی لفظ ایک خاص ماحول کی وجہ سے اللہ نے منع کیا۔
جن الفاظ سے فتنہ وفساد اور فرقہ وارانہ تعصب کو ہوا ملتی ہو تو ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ جب فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی گئی ہے تو حکمت عملی سے اس کو بجھانا ایک بہت بڑا فرض ہے اور الحمدللہ اس فرض کو ادا کرتے کرتے میری عمر گزری ہے۔
اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں یہ جملہ کہیں نہیں ہے کہ ”جس نے اپنے زمانہ کے امام کو نہیں پہچانا تو وہ جاہلیت کی موت مرا”۔ بیعت اور جماعت کو لازم پکڑنے کی بنیاد پر احادیث ہیں۔
جنرل ضیاء الحق دور میں بریلوی مکتب کے علامہ عطاء محمد بندھیالوی نے کسی قریشی امام سے بیعت کیلئے تحریک اور فتوؤں کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ دیوبندی مدارس نے کوئی توجہ نہیں دی۔ مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت پر احادیث کو فٹ کررہاتھا تو میں نے اپنی کتاب ”اسلام اور اقتدار” میں تسلی کرادی تھی۔
شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے پہلی باریہ درج کیا کہ ”جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا”۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے دوسری بار لکھ دیا۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ نبیۖ نے کشف میں فرمایا: ”شیعہ کی گمراہی کی وجہ عقیدہ امامت ہے۔ جس سے میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ امامت کا عقیدہ ختم نبوت کا انکار ہے”۔انجینئر محمد علی مرزا ایسے کشف کی بنیاد پر شاہ ولی اللہ اور سب اکابرین کو ختم نبوت کا منکر قرار دیتا ہے۔
درس نظامی کی کتاب شرح العقائد میں ہے کہ اہل سنت کے نزدیک امام کا تقرر مخلوق پر فرض ہے اور شیعہ کے نزدیک امام کا تقرر اللہ پر فرض ہے۔
شاہ اسماعیل شہید نے ”منصب امامت”میں شیعہ اور سنی دونوں مؤقف کی تائید کردی ہے اور بریلوی مکتب نے اس کتاب کی تائید کردی ہے۔
جو سنی مخلوق کا فرض سمجھتے ہیں انہوں نے عرصہ سے اس پر عمل نہیں کیا اور جو شیعہ اللہ کا فرض سمجھتے تھے تو امام خمینی نے چھلانگ کر فرض پوراکردیا۔
جو ہچکچا کے رہ گیا وہ رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا
ایک ایسی فضا ضروری ہے کہ ریاستیں و حکومتیں خود امام وخلیفہ کے شرعی فریضہ پر متفق ہوجائیں اور تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں اور عوام الناس کو بھی کسی ریفرینڈ م سے اعتماد میں لیں۔ قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہاہے۔ خلافت راشدہ سے ہماری اوقات بھی زیادہ نہیں جہاں صحابہ واہل بیت کی موجودگی میں بڑا فساد برپا ہوا تھا۔صلح میں سبھی کی خیر ہوگی۔انشاء اللہ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ