پوسٹ تلاش کریں

” اس دن کسی انس و جن سے اسکے گناہ کے بارے میں نہیں پوچھا جائیگا۔ پھر تم اپنے رب……۔ مجرم اپنے نشان سے پہچانے جائیں گے۔….پس ان کو پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ ا جائیگا۔….یہ ہے وہ جہنم جس سے مجرم لوگ جھٹلاتے تھے۔ وہ چکر لگائیں گے اسکے اور گرمی کے درمیان اس وقت”۔الرحمن39تا44

” اس دن کسی انس و جن سے اسکے گناہ کے بارے میں نہیں پوچھا جائیگا۔ پھر تم اپنے رب……۔ مجرم اپنے نشان سے پہچانے جائیں گے۔….پس ان کو پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ ا جائیگا۔….یہ ہے وہ جہنم جس سے مجرم لوگ جھٹلاتے تھے۔ وہ چکر لگائیں گے اسکے اور گرمی کے درمیان اس وقت”۔الرحمن39تا44 اخبار: نوشتہ دیوار

سورہ رحمن میں مجرموں کو پیشانی اور پاؤں کے ذریعے پکڑنے کا ذکر ہے اور سورہ االاعرف میں ریاستی رجال ”عراف” کے کردار کا بھی واضح ذکر ہے۔

پاکستان قیام کے25سال بعد ٹوٹا تو فوج، سیاستدان اور لسانی تعصبات کو ذمہ دار سمجھاگیامگر اس سے بڑا واقعہ25سال بعد ریاست مدینہ میں پیش آیا ۔ خلیفہ سوم عثمان40دن محاصرے میں رہے اور گھر سے مسجد تک بھی نہیں جاسکے۔ پھرمسند پرشہید کیا گیا۔ وجوہات تاریخ میں ہیں لیکن اصل بات کی طرف دھیان نہیں گیا۔ حضرت عمر نے مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف تین گواہوں کو کوڑے لگائے اور پھر پیشکش کی کہ اگر کہہ دو کہ جھوٹ بولا تھا تو آئندہ تمہاری گواہی قبول ہوگی۔ واحدگواہ صحابی ابوبکرہ نے پیشکش کو مسترد کیا اور دوسرے دو غیر صحابی گواہوں نے یہ پیشکش قبول کی۔ امام ابوحنیفہ نے حضرت عمر کی پیشکش کو قرآن کے خلاف قرار دیکر مستردکیا اور باقی تینوں مسالک مالکی، شافعی اور حنبلی نے مسلک بنالیا۔ امام ابوحنیفہ بلاوجہ جیل میں شہید نہ کئے گئے لیکن کہانیوں میں حقیقت گم ہوگئی۔

حضرت عمر نے معاملہ کی سنگینی کو بھانپ لیا اورعدالتی نظام کو الگ کردیا۔ ایک پروفیشنل اور ذہین جج قاضی شریح کو عدالتی امور سپرد کردیں۔ حضرت عمر کے دور میں قاضی شریح سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی۔ حضرت عثمان حیادار انسان تھے مگر فاروق اعظم کی طرح فتنوں کیلئے بند دروازہ نہیں تھے۔ قاضی شریح نے بڑے باریک طریقے سے ایسی ناانصافی شروع کردی کہ قانون کے اندر ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانا شروع کردیا۔ جس پر کوئی احتجاج بھی نہیں کرسکتا تھا۔ جس کا یہ بھانک نتیجہ نکل آیا کہ حضرت عثمان خلیفہ وقت کے خلاف بغاوت ہوگئی۔

حضرت عثمان کی شہادت سے جو فضا بنی تو آج تک امت کے معاملات اپنی جگہ پر نہ آسکے۔ یزید کو حسین کے خلاف فتویٰ درکار تھا تو قاضی شریح نے پہلے منع کیا پھر رشوت سے فتویٰ دیا۔ یزید کی فوج نے بھی طمع ولالچ رکھی ہوگی لیکن اصل کردار قاضی شریح کا تھا۔ اگر کسی کو اس سے تکلیف ہے تو چاہیے کہ وہ جمعہ کے خطبہ میں ارحم امتی بامتی ابوبکرو اشدھم فی امر اللہ عمر واصدقھم حیائً عثمان واقضاھم علی میں اقضاھم علی کی جگہ اقضاھم واکبرھم قاضی شریح ”امت میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا قاضی شریح تھا”۔ تاکہ اہل بیت سے نفرت رکھنے والوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے۔چیف جسٹس امام ابویوسف سے جسٹس مفتی تقی عثمانی تک سب نے اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے۔
قاضی شریح چیف جسٹس نے عدالتی نظام کا ستیاناس کردیا تھا ۔قرآن کو نہ صرف ذبح کردیا بلکہ قصائی کی طرح اس کو ایسا ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ امت نے چھوڑ دیا۔ سورہ تحریم کی واضح آیت کو چھوڑ کر بیوی کو حرام کہہ دیا تو اس پر20اجتہادی مسالک بن گئے۔ اگر قرآن کو دودھ دینے والی بھینس فرض کرلیا جائے تو کیا قصائی کے ٹکڑے کرنے کے بعد بھی اس سے دودھ نکالا جاسکے گا؟۔

ہمارے قابل استاذلورالائی کے مفتی عبدالمنان ناصرمدظلہ العالی نے بتایا تھا کہ عورتیں بغیر محرم حج کیلئے جاتی تھیں تو ان کا مرغ سے نکاح کردیا جاتا تھالیکن فتاویٰ عالمگیریہ میں بادشاہ پرچوری، قتل، ڈکیتی اور زنا کی حدیں جاری نہیں ہوتی ہیں اور مفتی تقی عثمانی نے جو سود کی حرمت ختم کردی ہے ۔دارالعلوم کراچی شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین پر70سے زیادہ گناہوں کی حدیث سناتا تھا جس میں کم ازکم اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق نے سود پر سگی ماں سے خانہ کعبہ میں36مرتبہ زنا کا بتایا۔
قرآن وحدیث میں واشگاف الفاظ میں واضح ہے کہ ” طلاق عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ کا فعل ہے”۔ ایسا نہیںہوسکتا کہ طلاق مکمل ہو اور عدت باقی رہے اور نہ ایسا ہوسکتا ہے کہ عدت مکمل ہو اور دوطلاقیں جیب میں رہ جائیں۔ جتنی احادیث ہیں وہ سب صحیح ہیں اور ان میں تطبیق موجود ہے لیکن مولوی حلالہ کی لعنت کو ختم اسلئے نہیں کرتا ہے کہ اس میں غیرت، عزت، فطرت، انسانیت، اخلاق اور کردار سب ختم ہوچکا ہے۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی علی صاحبہا الصلوةوالسلام کے آئینہ میں” علماء ومفتیان اپنا چہرہ دیکھ

چکے تھے اسلئے مقبول کتاب مارکیٹ سے غائب کردی گئی۔
قرآن وحدیث میں داؤد اور سلیمان کے واقعات ثبوت ہیں کہ جج کا کام ایسا اجتہاد ہے کہ انصاف کی روح معاشرے میں زندہ ہو ۔ فصل اور جانور کی قیمت برابر تھی لیکن داؤد کے فیصلے کو سلیمان نے اس انصاف پر نہیں چھوڑا اسلئے کہ ایک قوم کا معاش ختم ہوجاتا تو یہ انصاف کے خلاف تھا اور وہ چوراور ڈکیٹ بن جاتی۔ ایک قوم کو محنت پر لگادیا کہ فصل اپنی جگہ تک پہنچاؤ اور دوسری کو جانور سپرد کردئیے کہ اسکے دودھ، اون، کھاد سے جب تک فائدہ اٹھاؤ۔ دونوں کو پورا انصاف ملا ،مجرم کو سزا ہوئی اور مظلوم کو ریلیف ملا۔ پھر اپنی اپنی جگہ پر بھی آگئے۔ جو عورت بچے کی ماں تھی تو اس کو انصاف بھی اس طرح دیا کہ دونوں کی حقیقت بھی سامنے آگئی۔ قاضی شریح نے عدل کی بنیاد غلط رکھی۔ اسلئے مسلم اقتدار دنیا کیلئے قابل تقلید نہیں ہے۔ اگر اسلامی نظام کا ٹھیک خاکہ ہوتا تو اسلامی ممالک میں وہی نافذ ہوتا لیکن مولوی محکمات کی آیات کونہیں سمجھتا تو اجتہادی مسائل کا کیا بنے گا؟۔پہلے علماء میں صلاحیت نہیں تھی مگر اب نیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔

قاضی شریح فقہ کا ماسٹر مائنڈ تھا۔کونسا فقہ ؟ جو یہود کی میراث تھا۔ سورہ تحریم میں بیوی کو حرام کہنے کا مسئلہ حل ہے لیکن بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر حضرت عمر سے ایک طلاق رجعی کا قول منسوب ہوا، حضرت علی سے تین طلاق کا۔ حضرت عثمان سے ظہار کا۔ بخاری کی روایات میں تضادات ہیں اور چار ائمہ کا لفظ حرام پر اختلاف ہے ۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے”زاد المعاد” میں اس پر20اجتہادی مسالک نقل کئے۔ قرآن کو سازشی فقہ نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ جوقرآن میں واضح ہے اور نبیۖ نے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اورعنقریب یہ پھر اجنبی بن جائے گا خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ اب اپنا مفاد اور ماحول چھوڑ کر اسلام کے صحیح فہم کا اظہار کرنا چاہیے۔ مدارس فراڈ اور گمراہی کے قلعے بن چکے ۔ جان بوجھ کر اب حق کو قبول نہیں کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے میری کبیرپبلک اکیڈی کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اس خاندان کے بزرگوں کی دینی خدمات ہیں اور اس میں عتیق جیسا اہل علم ہے”۔ پاکستان، افغانستان، ایران، عربستان ، ہندوستان میں علم سے انقلاب آئے گا۔ غریب فوجی اور جنگجو عناصر حالات کی بہتری کے بعد قربان نہیں ہوں گے۔
٭

ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمن)

”اور جو اپنے رب سے ڈرا تو اس کیلئے دو جنت باغ ہیں”۔(الرحمن:46)
دوبئی میں میرے ساتھی ناصر علی کی رہائش جبل علی گارڈن میں تھی۔ غریبوں کیلئے وہ بھی جنت سے کم نہیں ہے۔ گارڈن اردو میں باغ اور عربی میں جنت۔ خلافت قائم ہوگی تو دنیا بھر میں اہل لوگوں کیلئے درجہ دوم کے دودوباغ بنانے کا سلسلہ ہوگا اور اچھے اور اہل لوگوں کیلئے دنیا جنت نظیر بن جائے گی۔

ذواتآ افان ” اس کی بہت شاخیں ہوں گی”۔( سورہ رحمان:آیت48)

بغیر شاخوں کا باغ نہیں ہوتا۔ اس لفظ کے کئی معانی ہیں۔ مناسب ترجمہ ہو۔ ان میں کمال کا فن ہوگا۔ پیرس میں ”ڈنزی لینڈ” کی فن کاری کا کما ل ہے۔ دوبئی برج خلیفہ نے اونچائی سے دنیا کو نیچے دکھایا ۔ خلافت میں فن کاری کا کمال ہوگا اور معنی یہ بھی ہے کہ یہ فانی دنیا کے باغات ہیں، دائمی نہیں ہونگے۔

”ان دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے”۔ خوبصورتی کا حسین نظارہ ہوگا۔

” ان دونوں میں ہر پھل کی دودو قسمیں ہوں گی”۔ جیسے شوگر اور شوگر فری۔ ”وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے فرشوں پر جن کا غلاف ریشم کا ہوگااور دونوں باغوں کے جھکے ہوئے پھلوں کو توڑیںگے”۔ سورہ واقعہ میں اونچے فرشوں کو واضح کیا۔

فیھن قاصرات الطرف لم یطمثھن انس ولاجان

” ان میں ڈبہ پیک چیزیں ہوں گی جن کو کسی انس وجن نے چھوا نہیں ہوگا”۔پہلے ڈبہ پیک ان ٹچ موبائل،ٹی وی، کرارکری، گھڑی، گاڑیاں برینڈ یڈ چیزوں کا تصور نہیں تھا۔ یہ باغ کی چیزوں کی صفات ہیں۔ قاصرات الطرف (مختصرچھپی)۔ مفسرین نے ایک طرف نوعمر بچیاں لکھا تو دوسری طرف نوخیز دوشیزاؤں کی عمر33سال؟۔

قرآن اللہ نے سکھانا ہے اور ہرانسان کو کھل کر ایک ایک بات سمجھ آئے گی۔
پہلے درجہ کے جنتیوں کیلئے صحیح حدیث میں دو حوراء کا ذکر ہے۔ حور حورا ء کی جمع بھی ہے۔ معزز شہری عورت کو عرب حوراء کہتے ہیں۔ ہندوستان کے علماء نے میم کو معزز سمجھ لیا تھا اسلئے کہ انگریز حکمران طبقہ تھا اور مقامی لوگوں کو انکے مقابلہ میں اچھوت تصور کیا جاتا تھا اسلئے اس کو ”گوری عورت” کا نام دیا ہے۔

ھل جزاء الاحسان الا الاحسان ” نیکی کا بدلہ صرف نیکی ہے”۔

سورہ الرحمن کی آیت60تک اصحاب الیمین کے دوباغ کا ذکر ہے جو فرش پر بیٹھیں گے۔جو بڑی تعداد میں ہونگے اور مزاج بھی فرش پر بیٹھنے کا ہوگا جبکہ دو السابقون کیلئے قالین کا ذکر ہے جو تھوڑے ہیں اور زیادہ عزت ملے گی۔

جو یہاں بیگم سے ڈر کر دوسرا نکاح نہیں کرتے ۔ حقائق کا پتہ چلے تو نہ صرف عورتوں بلکہ مرد وں کی طبیعت کا بوجھ ہلکا ہوگا۔ مولانا طارق جمیل کو چین کی120فٹ کی حوردلادیں جس کی پنڈلی کو نہ پہنچ سکے۔بہت افسوس! دنیا کی عورت کی توہین کرکے اس جنت میں جائے گا ؟جو اسی ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔

وطلح منضود ”اور تہ بہ تہ کیلے ہوں گے”۔ (سورہ الواقعہ آیت:29)

 

ومن دونھما جنتان(الرحمن62)

” اور ان دو کے علاوہ دوباغ اور ہونگے”۔ یہ درجہ اول السابقون کیلئے ہیں۔

”دونوں گہرے سبز ہونگے”۔ کانیگرم اور گومل کے دھتورے میں سبز رنگ کا فرق ہے۔ ” دونوں میں دو فوارے ”۔ ” دونوں میں پھل، کھجور یں اور انار ”۔
درجہ اول میں فوارے اور انار لیکن درجہ دوم میں چشمے ،بیر اور کیلے کاذکر ہے۔

فیھن خیرات حسان ” ان میں خصوصی خوبصورت چیزیں ہوں گی”۔

جیسے عمران خان کیلئے سعودی عرب نے خصوصی گھڑی تیار کرکے دی تھی جس کو بیچنے پر عدالتوں سے سزا ہوئی۔ ایک وہ چیز ہوتی ہے جو کمپنی مارکیٹ میں بیچنے کیلئے بناتی ہے۔ جس کے ڈبہ پیک ہونے کا ذکر دوسرے دوباغوں میں کیا گیا۔ دوسری ایسی چیز جومارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ سورہ واقعہ میں بھی حفظ مراتب کے لحاظ سے السابقون اور اصحاب الیمین کے باغوں میں فرق ہے ۔

اگر مقربین کیلئے خاص اہتمام ہرچیز منفرد ہو۔ گاڑی، کراکری، موبائل اور الیکٹرانک والیکٹرک کی چیزوں سے عزت افزائی ہوگی جو مارکیٹ میں نہ ہونگی۔

حور مقصورات فی الخیام ” حور خیموں میں ہوں گی”۔ خیموں میں سردی کا پھل ”مالٹا ”موسم گرما میں اورگرمی کا پھل ”آم” سرمامیں مصنوعی ٹمپریچر سے پکتاہے۔ہائی بریڈ پھل یاقوت و مرجان کی طرح جھلکتا ہے۔ مشین سے کٹتا، پیک ہوتا ہے اسلئے ہاتھ نہیں لگتا۔ یہ عورتوں کی توہین ہے کہ ان کو دوسروں کے ہاتھ میں استعمال ہونے والیاں کہا جائے۔ قرآن کی درست تفسیر کی جائے ۔

حور کے معانی

1: ہلاکت۔
2:کمی:انہ فی حوروبور اسے کوئی اچھا کام نہیں آتا۔ وہ گمراہی میں ہے۔ الباطل فی حور : باطل ہمیشہ نقصان میں ہے۔

نبی ۖ نے پناہ مانگی ”کور کے بعد حورسے” خوشحالی کے بعد بد حالی سے۔ انہ فی اہلہ مسرورًاOانہ ظن ان لن یحور ”بیشک وہ اپنے اہل میں خوش تھااور سمجھا کہ خوشحالی کے بعد بدحال (حور) نہ بنے گا”۔(سورہ الانشقاق) قدرتی کے مقابلے میں ہائی بریڈ پھل اور جانور کی حالت بدلی ہوئی ہوتی ہے۔
”قالینوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جو سبز اور یونیک نفیس ہوں گی”۔

سورہ رحمن آیت76تک دو اعلیٰ درجہ کے جنتوں (باغوں) کا ذکر ہے۔

عربة:

جمع عُرُب ، عربیات ۔ عربة عربی میں یوٹیوب پر کلک ۔تمام اقسام کی گاڑیاں ۔

عربًااترابًا

”قد کے برابر گاڑی”۔ عورت کیلئے عربة کا لفظ نہیں تھا۔ تفسیر ی اقوال تأویلات ہیں، عرب نے اپنی نقل مکانی پر گاڑی کا نام عربة رکھا۔ دنیا کے جنت کی طرف دھیان نہیں گیا اسلئے تفسیر نہ سمجھ سکے۔ گاڑی اور دنیا کی جنت نہیں تھی توآیت متشابہات میں تھی۔ عربة گاڑی سے تفسیر زمانہ نے کردی۔ الرحمن علم القرآن۔ رحمن نے قرآن سکھایا۔قرآنی معجزہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کو قرآن کے ترجمہ پر واجب القتل کہاپھر انگریز کی ٹانگوں میں لٹکے۔ فقہاء نے محکم آیات کو اجنبی بنادیا ۔ غامدی بھی فراہی اور اصلاحی کی بکواسات میں لگاہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ فروری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

سورۂ النباء میں فتح مکہ،دنیا کی جنت وعذاب اور عذابِ قبرکا ذکر
سورہ رحمن میں عظیم خوشخبری
درباری علماء کے سرکاری مدارس VS علماء حق کا مساجد میں درس