پوسٹ تلاش کریں

عمرایوب مولانا فضل الرحمن کو ایوان کا متفقہ اپوزیشن لیڈربنادے تو بہترہوگا

عمرایوب مولانا فضل الرحمن کو ایوان کا متفقہ اپوزیشن لیڈربنادے تو بہترہوگا اخبار: نوشتہ دیوار

عمرایوب مولانا فضل الرحمن کو ایوان کا متفقہ اپوزیشن لیڈربنادے تو بہترہوگا

قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسولۖ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اللہ نے فرمایا: لا اکرہ فی الدین ” دین میں زبردستی (جبر) نہیں ہے”۔من شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر ”جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے تووہ کفر کرے”۔
رسول اللہ ۖ نے قرآنی آیات پر عمل کیا تھا۔ یہود کیساتھ میثاق مدینہ اور مشرکین مکہ کیساتھ صلح حدیبیہ بھی عملی تفاسیر ہیں۔ جس کو پاکستان، افغانستان، ایران ، سعودی عرب عام کریں۔ جمہوری و آمرانہ ممالک قرآن وسنت کے پیمانے پر خود کو تولیں توافغان طالبان کا سخت گیر رویہ ملاعمر کے دور میں اسلامی نہ تھا۔ آج طالبان ملاعمر کی روش کو چھوڑ چکے ۔ اور بہت اچھا کیا ہے مگر اب بھی پاکستان کا جمہوری رویہ طالبان کے سخت گیرآمرانہ روش کے مقابلے میں زیادہ اسلامی ، اخلاقی اور انسانی ہے۔
اس اقتدار کا جواز نہیں، جب حکمران عوام اور عوام حکمران پر اعتمادنہ رکھے، پھر رویہ آمرانہ ہوتا ہے۔ افغانستان میں حنفیوں کی اکثریت اور جمہور کا مذہب رائج کردیا۔ ملا کی دوڑ مسجدتک اور طالبان کی دوڑ حنفی مسلک تک؟۔مولانا فضل الرحمن جمہوری بنیاد پر جتنی جرأت سے بولتا ہے افغانستان، سعودیہ اور ایران میں اس کا تصور نہیں ۔ بینظیر بھٹو سے اختلاف اپنی جگہ مگرکراچی میں حملہ ہوا،150افراد شہید ہوگئے ۔پھر میدان میں نکل کر شہید ہوگئی۔ ملاعمرسے عقیدت مگر گھر میںمرا ۔اسامہ مارا یا اٹھایا گیا؟۔یہ خبرمغربی میڈیا پرہی منحصر ہے جمہوری ملک میں تبدیلی کیلئے خونریزی کی ضرورت نہیں۔ عراق اور لیبیا میں آمریت تھی ۔ دوسری عرب بادشاہتوں میں بھی آمریت ہے۔ اسلام میں نہ تو آمریت ہے اور نہ ہی اس طرح کی جمہوریت۔جس میں عوام کی رائے خریدنے وتبدیل کرنے کیلئے پیسوں کا استعمال ہو ۔ سیاست منافع بخش کاروبار بن جائے۔البتہ آمریت کے مقابلے میں جمہوری نظام کو اسلام کے قریب اسلئے قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس میں آزادی کا بہترین تصور ہے۔ جبکہ آمریت میں عوام کی بدترین غلامی کے تصورات ہیں۔صحیح مسلم کتاب الامارة میں ہے۔
باب قولہ ۖ ” طائفة من اامتی لا تزال من امتی ظاہرین علی الحق لایضرھم من خالفھم ”۔ ”میری امت میں ایک گروہ کے لوگ ہمیشہ حق کی بنیاد پر غالب رہیں گے،ان کو نقصان نہ پہنچاسکیں گے جو انکی مخالفت کریںگے”۔
علماء جب تک حلالہ کی لعنت کا دھندہ نہیں چھوڑ تے تو بد سے بدتر حالت میں رہیں گے۔ کھانا پینا اور نفسانی خواہشات تو جانوروں کی بھی پوری ہوتی ہیں۔ مغربی جمہوری نظام سے بھی اسلامی احکام کو قبول کرنے کی توقع ہے مگر علماء ہٹ دھرم ہیں۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے پہلے اور آپ کے بعد حاجی محمد عثمان تک ایک گروہ کی تاریخ ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولانا فقیر محمدجو مجذوب اور معذور شخص تھے۔ کھانے، پینے اور نماز وغیرہ میں مسلسل روتے تھے مگر باربار الہام ہوا کہ حاجی عثمان کی خدمت میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خلافت پیش کی جائے۔ حاجی عثماننے منع کردیا کہ مجھے شرح صدر نہ ہو تو قبول نہیں کرسکتا۔ مسجد نبوی ۖ27رمضان المبارک کو مولانا فقیر محمد کے ورود نے شدت کی انتہاء کردی تو حاجی عثمان نے خلافت قبول کرلی۔جس میں حاجی عثمان کو مولانا فقیر محمد نے مولانا تھانوی کے نہیں بلکہ دادا پیر حاجی امداد اللہ مہاجر کے بہت مشابہ قرار دیا۔ حالانکہ حاجی عثمان کے مقابلے میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔پھرمولانا فقیر محمد نے بہک کر خلافت واپس لی تو اسکا اتنا اثر نہ پڑا ، جتنا فقیر کشکول رکھے اور واپس لے۔ کمال یہ تھا کہ مفتی احمد الرحمن مہتمم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی اور مفتی محمد جمیل خان جنگ گروپ نے مولانا فقیر محمد سے پوچھا کہ خلافت ورود سے دی یا مشورہ سے؟ مولانا فقیر محمد نے کہا کہ ورود سے۔ پوچھا کہ ورود سے واپس لی یا مشورہ سے؟۔ مولانا فقیر محمد نے کہاکہ مشورہ سے۔ علماء نے بتایا کہ” شریعت میں آپ کو مشاورت سے خلافت واپس لینے کا حق نہیںہے”۔ مولانا فقیر محمد نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ”میں نے حاجی محمد عثمان کو ورود کی نسبت سے جو خلافت دی تھی وہ تاحال دائم اور قائم ہے”۔ اس پر ان علماء ومفتیان کے دستخط ہیں۔ پھر انہی علماء کی طرف سے مولانا فقیر محمد کو خط لکھ دیا کہ ”حاجی عثمان سے خلافت واپس لینے کا ہم مشورہ دیتے ہیں”۔ کفر وگمراہی کا فتویٰ لگے تو مشورہ نہیں فتویٰ ہوتا ہے کہ ”ورود باطل ہے، تم پیری کے لائق نہیں ہو، پہلے اپنی اصلاح کرلو”۔ ان علماء کی شریعت بھی کاروباراور طریقت بھی کاروبارہی تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے مجھے کہا تھا کہ ” کراچی کے معروف علماء ومفتیان کو آپ نے بکرے کی طرح لٹادیا ہے ،چھرا ہاتھ میں ہے،اگر ذبح کرلیا تو ہم بھی ان کی ٹانگیں پکڑ لیں گے”۔
میری تحریک انصاف کے عمرایوب سے گزارش ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو ”حزب اختلاف کا متفقہ اپوزیشن لیڈر”ہی بنادے۔ محمود خان اچکزئی کو صدارتی الیکشن لڑانے میں قربانی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ،جب پارٹی کو کامیابی کا یقین نہیں ہوتا ہے تو اپنے قائد کو بھی وزیراعظم کا الیکشن نہیں لڑاتے۔ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہی نہیں خطے اور بین الاقوامی سیاست میں بھی اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ پہلے بھی عمران خان اور نوازشریف نے وزیراعظم کا ووٹ دیا تھا اور اپوزشن لیڈر بن گئے تھے تو پرویزمشرف کے خلاف اہم کردار ادا کیا تھا۔
قال رسول اللہ ۖ : لایزال اہل غرب ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعة ” صحیح مسلم کتاب الامارة”
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”اہل غرب ہمیشہ غالب رہیں گے حق کی بنیاد پریہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے”۔ آج مغرب میں فسلطین کیلئے مظاہرہ میڈیا دکھاتا ہے اور اسلام آباد میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کو میڈیا کوریج نہیں دیتا بلکہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے ساتھیوں کو گاڑی سے کچلا گیا۔ وہ علماء ومفتیان، جماعت اسلامی، سیاسی جماعتیں جوجنرل ضیاء الحق کیBٹیم تھے آج جمہوریت کے علمبردار بن گئے۔ عمران خان کا صدارتی پروجیکٹ ناکام ہونے کے بعد سعد نذیر کے ذریعے جمہوریت کو کفر قرار دینے کا نیا پروجیکٹ شروع ہوگیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!
چوہے کی بل سے آواز ایک بڑا راز ؟ فیس بک پر انگریزی کی تحریر کا ارود ترجمہ اور اس کاجواب!
پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح ہے اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں