پوسٹ تلاش کریں

قرآن وسنت میں زنا بالجبرکی حد وتعزیر کا اہم مسئلہ: عتیق گیلانی

قرآن وسنت میں زنا بالجبرکی حد وتعزیر کا اہم مسئلہ: عتیق گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

عورت بدکاری کے الزام پر قتل کی جائے ۔مرد زبردستی خاتون کی عزت دری کرے تو اس کو تحفظ ملے۔ عورت قانون کے بغیر غیرت کے نام پر قربان ہے اور مجرم مرد کو شریعت کے ذریعہ جان کی امان ہے۔ کیا یہ رحمان کا شاخسانہ ہے یا شیطان کا افسانہ ہے؟۔خود کش حملے میں ہزاروں شہید زندہ وتابندہ ہیں اور جنسی تشدد کا نشانہ بنے والی خاتون خود اور خاندان والے بھی شرمندہ ہیں ۔ عورت کی عزت دری پر عرش ہلتاہے مگر بے ضمیر داڑھی والے کی ناک پراحتجاجًا جوں نہیں رینگتی ہے اور نہ ہی بال والے اور گنجے کے کان پر جوں رینگتی ہے۔
بچی کے مقابلے میں بچے کی پیدائش پر ماں بہنیں زیادہ خوش ہوتی ہیں اور مشرکینِ مکہ کے حوالہ سے بچی کی پیدائش پر حالتِ زار کا قرآن نے جس انداز میں تذکرہ کیا ہے کہ ’’ جب بچی کی خبر سنائی جاتی ہے تووہ سوچتاہے کہ اس طرح ذلت وشرمندگی کیساتھ اس کو برداشت کرلے یا اس کو مٹی میں دفن کردے‘‘۔ عورت کو زندہ دفن کرنا، زندگی بھر طلاق نہ دینا یا ایک دم فارغ کرکے رُلانااس معاشرے میں خمیر کی طرح شامل تھا۔ اسلام نے صنفِ نازک کے تمام مسائل کو اس احسن انداز میں حل کیا جس کی حقیقت سے آج دنیا واقف ہوجائے تو خواتین اپنے مسائل کے حل کیلئے پوری دنیا میں اسلامی نظام کو ووٹ دیں گی۔
کوئی اپنی بیوی سے زیادہ کسی پر غیرت نہیں کھاسکتا۔ اسلام نازل ہوا تو معاشرے میں جاہلیت ایسی سرایت کر گئی تھی کہ سبقت لے جانیوالے انصار کے سردارحضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ قرآن کی آیت میں لُعان کے حکم پر میں عمل نہیں کرونگا بلکہ قتل کردونگا۔ نبیﷺ کی شکایت پر انصارؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس سے درگزر فرمائیے ، یہ بہت غیرت والا ہے، ہمیشہ کنواری سے شادی کی، کبھی بیوہ یا طلاق شدہ سے شادی نہ کی اور جس کو طلاق دی اس کو کسی اور سے شادی نہیں کرنے دی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔(صحیح بخاری)
برطانیہ کی بادشاہت کے وسیع حدود پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن برطانوی راج نے بھی تعزیرات ہند میں مردوں کے سامنے گھٹنے ٹھیک دئیے۔ شوہر بیوی کو ناجائز تعلقات پر قتل کرتا تھا تو انگریز کی حکومت نے اس پرقانونی چھوٹ دیدی تھی۔حضرت عمرؓ نے بھی اس شخص کو سزا نہ دی جو بیوی کیساتھ کسی کو بدکاری کی حالت میں دیکھ کر قتل کرگیا۔ پہلے رسول اللہ ﷺ نے تلوار سے فیصلہ کرنے کا حکم صادر فرمایاتھامگر جب اللہ نے وضاحت کی تو پھر قتل کرنے پر قتل کی حد نافذ فرمادیتے چاہے سعد بن عبادہؓ ہوتا یا کوئی اور۔ غیرت کا تقاضہ یہ ہرگزنہیں کہ کسی کی زندگی کا خاتمہ کرکے پھراپنی زندگی کی بھیک مانگی جائے۔ قتل کے بدلے قتل کا قانون انسانی فطرت ہے۔ توراۃکے حوالہ سے قرآن میں بھی ہے اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’قصاص میں تمہاری زندگی ہے‘‘۔
قانون ہمیشہ کمزوروں کی ضرورت ہوتاہے اور طاقتوروں کو اس سے لگام دی جاتی ہے۔ عورت کمزور ہے ، ایک طرف قرآن نے اس کو شوہر کی غیرت سے انتہائی ناگوار صورتحال کے باوجود تحفظ دیا اور دوسری طرف زبردستی کے زنا پر مرد کو قتل کرنے کا قانون متعارف کرایاہے۔ کمزورعورت کی عزت طاقتور مرد زبردستی سے لوٹ لے تو سزا قرآن وسنت میں قتل ہے۔دنیا کو اسلام کے فطری قوانین سے آشنا کیا جائے تو کوئی انسان ایسا نہیں ہوگا جو اس کو قبول کرنے سے انکار کردے۔لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔
مردخاتون کا قتل اسلامی غیرت سمجھے اور عورت کیساتھ زبردستی سے زیادتی کی جائے تو چار شرعی گواہ لانے کو ضروری سمجھا جائے۔ انسان یہ خیال کرتاہے کہ عورت کی سزا سنگساری ہے تو قتل کیلئے قانونی الجھنوں میں نہیں پڑتا ۔جب یہی ریت پڑجائے کہ شادی شدہ خواتین کیلئے قتل ہے تو غیرشادی شدہ کے قتل کیلئے بھی یہ روایت پڑجاتی ہے۔ طاقتور قانون سے بالاتراور کمزورقانون کی گرفت کا نشانہ بنتے ہیں توانسانی ضمیر کانے دجال کی آنکھ سے دیکھنے کا عادی بنتاہے، دجال دجل سے ہے، یہ بڑا دجل ہے کہ طاقتور کیلئے قانون تحفظ فراہم کی ضمانت اورکمزور کیلئے گرفت کا باعث ہو۔ اورنگزیب عالمگیر نے بھائیوں کو قتل کیا اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ’’ بادشاہ پر حد جاری نہیں ہوتی ‘‘۔ یزید سے لیکر برطانوی سامراج اور موجودہ سپر طاقت تک قانون کمزور نہیں طاقتور کو تحفظ دیتارہاہے۔جو لوگ برطانوی عدل کو مثالی قرار دیتے ہیں یہ نری بکواس ہے۔ الطاف حسین مجرم نہ تھا تو کیس بنایا کیوں ؟اورتھا توپھر چھوڑا کیوں؟۔
گھر میں مرد بادشاہ ہے،جو اپنی گرفت کیلئے قانون برداشت نہیں کرتامگر یہ سمجھتاہے کہ کوئی اسکی بیگم سے زبردستی زیادتی کرے تواسے قتل کیا جائے۔ یہ قانون دنیا کے ہر غریب امیر ، ادنیٰ اعلیٰ اور بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب سب کیلئے یکساں ہو۔ اسلامی دنیا کے علاوہ غیرمسلم بھی اس قانون کا خیرمقدم کرینگے۔ اقبال ؒ نے اس کو ’’حافظِ ناموسِ زن‘‘ قرار دیا ۔ قرآن میں سابقہ امتوں کے حوالہ سے بھی اس فطری قانون کا ذکرہے ۔ فرمایا: اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’جہاں بھی پائے گئے قتل کئے گئے‘‘۔ وائل ابن حجرؓ کی روایت میں ہے کہ نبیﷺ کے سامنے ایک خاتون نے کسی کی شکایت کردی کہ اس نے زبردستی سے اسکے ساتھ بدکاری کی ہے۔ نبیﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیدیا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ ایک عورت کی گواہی کو علماء حد جاری کرنے کیلئے ناکافی سمجھتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ علماء نبیﷺ کی شریعت کو نبیﷺ سے زیادہ تونہیں جانتے ہیں۔ اگر پھر بھی اپنی ضد پر ہی اڑے رہتے ہیں تو یہ بات بہرحال انکی سمجھ میں آجائیگی کہ قرآن و سنت میں زنا بالجبر کیلئے تعزیراً قتل کی سزا ہے۔ نوشتۂ دیوار کی اہم شخصیت محترم شاہد علی نے بتایا کہ 1996 میں وہ کمپنی کی نمائندگی کیلئے ہانگ کانگ گئے تو وہاں کسی نے پوچھا کہ:کیایہ سچ ہے کہ کسی خاتون سے زبردستی زیادتی ہو تو اسلام میں چار مرد گواہ لائے گی؟۔
کتنی باعثِ شرم، بے غیرتی ، بے ضمیری ، بے حیائی اور بدفطری کا معاملہ ہے کہ جولوگ خواتین کو غیرت کے نام پرقتل کرنے کی بڑھ چڑھ کر تائیدکرتے ہیں وہی اس شرعی سزا کو شریعت کے منافی سمجھنے کی وکالت کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں زنابالجبر کو حدود سے نکالنے کی بات اسلئے تھی کہ مجرم شرعی گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں تو مفتی تقی عثمانی اور جماعتِ اسلامی نے باقاعدہ مہم چلاکر اسکی مخالفت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو چاہیے کہ اس جرم کی سزا قتل و سنگساری کی تجویز پیش کردے اور اطمینان بخش شکایت اور کسی بھی معقول دلیل کو شریعت کا عین تقاضہ اورکافی قرار دیدے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز