پوسٹ تلاش کریں

یزیدی خاتون بہار اور3بچوں کا براحال؟

یزیدی خاتون بہار اور3بچوں کا براحال؟ اخبار: نوشتہ دیوار

یزیدی خاتون بہار اور3بچوں کا براحال؟

مذہب انسانیت سکھاتا ہے،اسلام دین فطرت ہے، اسلام کے نام پر غیر انسانی سلوک کا بہت بڑا المیہ!

پاکستان میں علماء ومفتیان نے اسلامی منشور کو عام نہیں کیا تو پھر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوسکتا ہے

2015میں بہار اور انکے3بچوں کو پانچویں بار فروخت کیا گیا تھا۔ وہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے ہاتھوں ان بہت سی یزیدی خواتین میں سے ایک ہے جنہیں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے2014کے اوائل میں شمالی عراق کے ضلع سنجار کے ایک گاؤں پر حملہ کے نتیجے میں قید کیا تھا۔ دولت اسلامیہ عراق میں گذشتہ6ہزار سال سے آباد یزیدی مذہبی فرقے کے پیروکاروں کو کافر قرار دیتے ہیں۔یہ تحریر ریچل رائٹ کی ہے جسے سحر بلوچ کی زبانی سن رہے ہیں۔ بہار کا خیال ہے کہ ان کے گاؤں پر حملے کے دوران ان کے شوہر اور بڑے بیٹے کو گولی مار کر قتل کردیا گیا ہوگا۔ اور انہیں کسی اجتماعی قبر میں دفن کردیا گیا ہوگا۔ بہار کو یاد ہے کہ کس طرح وہ اور ان کے کم عمر بچے ایک کمرے میں قطار میں کھڑے تھے اور زار و قطار رورہے تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو انکے سر قلم کر دیں گے۔ اگرچہ انہیں قتل تو نہیں کیا گیا لیکن اس کے بجائے فروخت کردیا گیا۔ اور بہار کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب ان کی دہشت ناک کہانی کا آغاز ہوا۔ گاؤں پر حملے کے بعد وہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے قبضے میں ان کی ذاتی ملکیت بن چکی تھیں۔ اب بس جنگجوؤں کی خدمت کرنا تھی۔ وہ جب چاہتے مجھے ان کی بیویوں کی طرح برتاؤ کرنا پڑتا، جب چاہتے تب مارتے تھے۔ بہار کے مطابق ان کے بچوں کو جن کی عمریں10سال سے کم تھیں ان کو بھی مارا پیٹا گیا جبکہ ان کی بیٹی کے چہرے پر رائفل کے بٹ مارے گئے۔ اس کے بعد وہ ایک ہاتھ سے دوسرے جنگجو کے ہاتھ فروخت ہوتی رہیں۔ جبکہ ان کے چوتھے مالک کا نام ابو خطاب تھا جو ایک تیونسی شہری تھا۔ بتایا کہ ہم اسکے گھر پر رہ رہے تھے۔ وہ میری خدمات مختصر عرصے کیلئے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کیلئے دو ٹھکانوں پر صفائی ستھرائی کے کام کرنے کیلئے بھی دے دیتا تھا۔ تمام جگہوں پر میں کام کرتی، صفائی ستھرائی کرتی تھی ، جب چاہتے میرا ریپ کردیتے۔ یہ وہ وقت تھا جب عراق میں ہر وقت فضائی حملے ہوتے تھے۔ دولت اسلامیہ کے جنگجو اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ ہتھیار پکڑے بمباری کے خوف سے چھپ رہے تھے۔ ایک افراتفری کا عالم ہوتا تھا۔ یہ صورتحال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھی۔ پھر ایک دن جب بہار اور انکے بچے ابو خطاب کے گھر پر تھے تو ایک سفید کار اسکے گھر پر پہنچی جس کی کھڑکیوں کے شیشے سیاہ تھے۔ ڈرائیور لمبی داڑھی کیساتھ سیاہ لباس میں ملبوس تھا۔ وہ دولت اسلامیہ کے بہت سے جنگجوؤں کی طرح ہی نظر آتا تھا۔ اسے دیکھ کر بہار کو احساس ہوا کہ انہیں اور انکے بچوں کو ایک بار پھر فروخت کیا جا رہا ہے۔ صورتحال سے مغلوب ہوکر بہار نے بچی کچی ہمت جمع کی اور اس شخص پر یہ سوچتے ہوئے چیخ پڑی کہ انہیں فروخت کرنے کے بجائے اب مار دیا جائے کیونکہ وہ مزید برداشت نہیں کرسکتی۔ لیکن آگے جو ہوا وہ ان کی زندگی بدلنے والا تھا۔ گاڑی میں انہیں اور انکے بچوں کو بٹھا کر اس شخص نے گاڑی چلادی۔ گاڑی چلاتے ہی ڈرائیور نے کہا کہ میں آپ کو کہیں اور لے جارہا ہوں۔ بہار کو معلوم نہ تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟۔ وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ آیا اسے اس آدمی پر بھروسہ کرنا چاہیے یا نہیں؟۔ جب وہ بے چین ہونے لگی تو اس شخص نے گاڑی روکی۔ اور اپنے فون پر کسی کو کال کی۔ اس نے پھر فون بہار کے حوالے کردیا۔ دوسری طرف سے آنے والی آواز ابو شجاع کی تھی۔ جس کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ اس نے بہت سی یزیدی عورتوں اور بچوں کو بچانے کا انتظام کیا۔ ابو شجاع سے بات کرکے انہیں معلوم ہوا کہ ڈرائیور نے اگرچہ انہیں خرید لیا مگر اب انہیں اور ان کے بچوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ بہار کو شام میں رقہ کے قریب ایک تعمیراتی جگہ پر لے جایا گیا انہیں اس مقام پر چھوڑ دیا گیا اور بتایا گیا کہ ایک آدمی آئے گا اور کوڈ ورڈ سید کہے گا۔ جس کے جواب میں انہیں اسکے ساتھ جانا ہوگا اور ایسا ہی ہوا ۔تھوڑی دیر میں ایک شخص وہاں موٹر سائیکل پر آیا اور وہی کوڈ ورڈ بولا،بہار اور انکے تین بچوں سے کہا کہ وہ اس کی موٹر سائیکل پر سوار ہوجائیں۔ اس شخص نے کہا کہ سنو! ہم دولت اسلامیہ کے علاقے میں ہیں۔ یہاں ان کی چوکیاں ہیں اگر وہ آپ سے کچھ پوچھیں تو ایک لفظ نہ کہنا تاکہ وہ آپ کا یزیدی لہجہ پہچان نہ سکیں۔ بہار کا کہنا ہے کہ وہ شخص انہیں اپنے گھر لے گیا۔ وہ وہاں ہمارے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئے ہم نے غسل کیا، ہمیں کھانا اور درد کش ادویات دیں اور کہا کہ آپ اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ ایک اور شخص نے بہار اور انکے بچوں کی تصویریں بنائیں اور ابو شجاع کو بھیج دیں تاکہ یہ ثابت ہو کہ انکے پاس صحیح لوگ پہنچے ۔ پھر اگلی صبح تقریباً3 بجے اس خاندان کو بیدار کرکے کہا کہ وہ دوبارہ سفر کیلئے تیار ہوجائیں۔ جس شخص کے گھر وہ رہ رہی تھی اس نے بہار کو اپنی والدہ کا شناختی کارڈ دیا اور کہا کہ اگر کوئی روک کر پوچھے تو کہنا کہ وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے جارہی ہیں۔بہار بتاتی ہیں کہ ہم دولت اسلامیہ کی بہت سی چوکیوں سے گزرے لیکن کسی نے ہمیں نہیں روکا۔ آخر کار وہ شام عراق کی سرحد پر واقع گاؤں پہنچ گئے جہاں بہار کی ملاقات ابوشجاع اور انکے بھائی سے ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں تباہی کے دہانے پر تھی بس مجھے یاد نہیں کہ اسکے بعد کیا ہوا؟۔ ابو شجاع جنہوں نے بہار کی بازیابی کا انتظام کیا وہ واحد شخص نہیں تھے جو دولت اسلامیہ کے ہاتھوں اغوا ہونیوالی خواتین اور بچوں کے بارے میں فکرمند تھے ۔ تاجر بہزاد فرحان نے یزیدی خواتین اور بچوں کو بچانے اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے جرائم کو ریکارڈ کرنے کیلئے کنیت نامی ایک گروپ قائم کیا تھا ۔ کنیت کو یہ اطلاع ملی کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو اغواء شدہ یزیدی خواتین اور بچوں کی آن لائن خرید و فروخت کررہے ہیں۔ خاص طور پر ٹیلیگرام (telegram) پر۔ بہزاد کہتے ہیں کہ ہم آن لائن گروپوں میں جعلی ناموں سے یا دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ناموں کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ عراق کے کرد علاقے میں اپنے دفتر کی دیوار پر ٹیلی گرام (telegram) چیٹس کے اسکرین شاٹ کی طرف اشارہ کیا۔ ان میں سے ایک انگریزی میں ہے جس میں ایک لڑکی برائے فروخت کا اشتہار ہے اشتہار کی عبارت کچھ یوں تھی”12سالہ لڑکی کنواری نہیں ہے مگر بہت خوبصورت ہے ”۔ شام کے علاقہ رقہ میں موجود اس لڑکی کی قیمت13ہزار ڈالر لکھی گئی تھی۔ اسکے بعد انہوں نے مجھے لڑکی کی تصویر دکھائی، جو لیدر کے صوفے پر پرکشش انداز میں بیٹھی تھی۔ بہزاد کا کہنا ہے کہ ان ٹیلی گرام چیٹس سے انہیں یہ تفصیلات معلوم ہوتی تھیں کہ مغوی یزیدی خواتین کو کہاں رکھا گیا۔ ہم وہاں کے آس پاس رہنے والے لوگوں سے رابطہ کرتے اور انہیں ان مغویوں کے پتہ لگانے کا ٹاسک دیتے۔ یزیدیوں کیلئے دولت اسلامیہ کے علاقوں میں داخل ہونے کا عمل بہت خطرناک تھا۔ اسلئے مغویوں کے ریسکیو کا کام سگریٹ اور شراب کے مقامی اسمگلروں کے ذریعے ہوتا تھا۔ بہزاد کہتے ہیں کہ اسمگلر یہ کام پیسے کے عوض کرتے تھے۔ یہ ان کا واحد مقصد تھا۔ بہت سی یزیدی لڑکیوں کو واپس خریدنے کیلئے ہزاروں ڈالر ادا کئے۔ بہار کو دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے خریدنے اور آزاد کروانے پر تقریباً20ہزار ڈالر لاگت آئی۔ ان کی عمر اب40سال ہے لیکن وہ اپنی عمر سے بہت بڑی نظر آتی ہیں۔ انکے سر کے اسکارف کے نیچے زیادہ تر بال سفید ہوچکے ہیں۔ وہ آزاد ہونے کے بعد گذشتہ8سال سے ایک کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ اپنے خیمے کے فرش پر ایک پتلے گدے پر بیٹھی وہ اپنے لاپتہ کنبے کے افراد کی تصویر کا البم نکالتی ہیں۔ وہ حقیقت میں نہیں جانتیں کہ ان کے شوہر اور بڑے بیٹے کا کیا بنا؟۔ اسکے ساتھ بار بار ریپ کئے جانے کے صدمے نے انہیں جسمانی اور جذباتی طور پر بہت کمزور اور بیمار کردیا ہے۔ انکے بچ جانے والے بچے اب بھی انکے ساتھ ہیں۔ بہار بتاتی ہیں کہ انکے بچے اب بھی صدمے میں ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔ میری بیٹی کو مار پیٹ کے نتیجے میں کافی زخم آئے تھے مگر مجھے لڑتے رہنا ہے اور چلتے رہنا ہے۔ اور اس وقت جس حالت میں ہم لوگ رہ رہے ہیں وہ زندہ لاش ہونے کے مترادف ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز