پوسٹ تلاش کریں

مہدی منتظر: ایک نوجوان سے جو نہ اپنا کوئی ماضی جانتا ہے ، نہ اس کے پاس کوئی ظاہری دلیل ہے نہ کوئی شیخ ہے نہ اُستاذ، ایک ایسے مرد تک جو دنیا کو بدل دیتا ہے (عنوان کا ترجمہ)

مہدی منتظر: ایک نوجوان سے جو نہ اپنا کوئی ماضی جانتا ہے ، نہ اس کے پاس کوئی ظاہری دلیل ہے نہ کوئی شیخ ہے نہ اُستاذ، ایک ایسے مرد تک جو دنیا کو بدل دیتا ہے (عنوان کا ترجمہ) اخبار: نوشتہ دیوار

یوٹیوب چینل :عنقاء مغرب

ضروری نوٹ:عربی میں بہت سارے چینل امام مہدی کی حقیقت کتابوں کی روشنی میں اور خوابوں سے بتاتے ہیں۔اب چیٹ GPT وغیرہ سے عربی کا ترجمہ بھی آسان ہے۔شیعہ سمجھ رہا ہے کہ مہدی غائب کا ظہور ہوگا اور سنی سمجھتا ہے کہ گھوڑا سوار نکلے گا۔ اس شخص کی یہ گیارویں ویڈیو ہے۔ اس سے پہلے کی ویڈیوز میں بھی بہت سارے حقائق ہیں۔ اس ویڈیو سے 4دن پہلے کا عنوان ہے ” مہدی منتظر کے وہ کیا گنا ہ ہیں جس کی وجہ سے اصلاح کی رات یعنی انقلاب میں تأخیر ہورہی ہے؟۔ اور اس پر تہمت کیوں لگائی جاتی ہے؟۔اور مہدی نے شیاطین کو کس طرح سے دھوکہ دیا”۔ اس کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: اس کے کئی نام ہیں۔ معروف بھی اور غیر معروف بھی۔ محققین کے درمیان وہ خود محقق ہے لیکن اس کو چوروں کے درمیان تلاش کیا جاتا ہے۔ اس سے نجباء بیعت کرتے ہیں ابدال اس کی نصرت کرتے ہیںاور ایک جماعت اس کی مددگار ہے…

اس کا معاملہ روشن سورج سے بھی زیادہ واضح ہوتاہے۔وہ اپنے مقام شمشیری سے ظاہر ہوتا ہے مگر روحانی مقام سے مخفی رہتا ہے۔کبھی تم پسند کروگے اور کبھی نفرت کروگے۔کبھی تم اس کی تعظیم کروگے اور کبھی اس سے لاتعلقی ظاہر کروگے۔کبھی تم اس کا اشتیاق کروگے اور کبھی چاہوگے کہ پاس نہ ہو۔ اسلئے اس کی سیرت اور احوال نے اصلاح سے پہلے اولیاء اور علماء کو حیران کررکھا ہے۔ پس اے عزیزو! امام مہدی کی احوال میں عجیب کیفیت ہے۔ وہ خواہش،گناہ اور جذب کی حالتوں میں الٹ پھیرسے گزرتا ہے۔تو مہدی کے گہرے ابتلاء کا راز کیا ہے؟۔

لوگ ایسا مہدی چاہتے ہیں جو ابتداء سے پاک ہو، انبیاء کی طرح معصوم ، خواہش، گناہ، شک اور کمزوری سے خالی ہو لیکن اللہ کی سنت ایسی نہیں ، مہدی ابتلاء کے مقام سے بالاتر نہیں بلکہ ابتلاء کا مرکزہے۔

جس نے یہ نہیں جانا کہ مہدی گمراہی ، ضیاع اور خواہش سے گزرتا ہے اس نے اللہ کے چناؤ کی پہلی شرط کا انکار کیا۔اور شرط یہ ہے کہ انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے۔یہاں تک اس میں کوئی چیز بھی اصلاح کے قابل نہیں رہتی۔ پھر اس کو اللہ کی نگاہ میں نئے سرے سے پیدا کیا جاتا ہے۔مہدی ہر انسان کی طرح پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے دل میں ایک اضطراب ہوتا ہے۔جو کسی اور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ اس پر ایک ایسی قوت مسلط کی جاتی ہے جو اس میں شہوت کو بیدار کرتی ہے، نہ صرف جسمانی بلکہ وجودی معنی میں بھی۔تجربے کی محبت،احساسات کی خواہش،زندگی میں موجود ہر خطرناک ذائقے کا شدید ذوق۔

وہ خواہش میں مبتلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس میں داخل ہوتا ہے ، چکھتا ہے۔ گرتا ہے اور بار بار گرتا ہے۔پھر وہ دوبارہ گرتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ وہ بائیں جانب والوں اور خواہش پرستوں میں سے ہے اور سمجھتا ہے کہ اس میں کچھ بھی اللہ کو راضی کرنے والا نہیں ہے۔اس کی زبان اس کو دھوکہ دیتی ہے ، نظریں فاش ہوجاتی ہیںاور مٹی (دنیا) کی طرف اس کا میلان بالکل واضح ہوتا ہے ، تأویل کی ضرورت نہیں۔

لیکن ان سب کے باوجود اسکے اندر کچھ بجھتا نہیں ۔اسکے دل میں ایک روشن نقطہ ہوتا ہے جو کبھی نہیں مرتا، خواہ خواہش غالب آجائے۔گویا خواہش اس کو جلاتی نہیں پاک کرتی ہے۔گویا جو آگ اسے کھاتی ہے وہ اسے فنا نہیں کرتی بلکہ دوبارہ ڈھالتی ہے۔وہ جذب کی حالت میں ہوتا ہے بغیر جانے کیونکہ خواہش انجام نہیں بلکہ ابتداء ہوتی ہے امتحان کی۔

اس کی کچھ خاص نشانیاں ہیں جو بصیرت والے سے پوشیدہ نہیں ۔ جن میں یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے نکلے گا اور مدینہ منورہ جائے گا ، جہاں اہل مدینہ اس کی بیعت کریں گے۔ اسکے پاس ہر دور دراز سے مخلص اور امین لوگ ہوں گے جو دین کی حمایت اور عدل کو قائم کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلیں گے۔ وہ ظالموں اور فساد پھیلانے والوں سے لڑے گا۔ ظالموں کی بالادستی ختم کرے گا۔ زمین پر عدل اور امن قائم کرے گا۔ غربت اور جہالت کا خاتمہ اور مسلمانوں میں اتحاد کا پرچم بلند کرے گا۔ اسکے دور میں علم وثقافت میں ترقی ہوگی ۔ہر حقدار کو ا سکا حق دیا جائیگا۔ انسانی حقوق اور عزت کا احترام ۔ دین محبت، اخوت، برداشت،رحمت اور عدل پر قائم ہوگا۔ جس میں تعصب اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

اللہ اس کو وسیع موقع عطا کرے گا کہ وہ حکمت اور اچھی نصیحت سے لوگوں کو دین کی دعوت دے، اسکا اثر لوگوں کے دلوں پر گہرا ہوگا۔ وہ صالح علمائ، اولیاء اور مخلص لوگوں کی حمایت حاصل کرے گا جو اس کی عظیم ذمہ داری میں مدد کریں گے۔ لوگوں کے دلوں میں جگہ ہوگی اور دنیا میں اس کی بڑی اہمیت ہوگی۔ وہ ہر آزمائش اور رکاوٹ کے باوجود اپنی راہ پر گامزن رہے گا۔اللہ پر توکل کرے گا صبر و شکر کیساتھ۔نماز و ذکر سے مدد لے گا۔ وہ لوگوں کو ایمان کا اصل معنی سکھائے گا۔سنت نبوی کو زندہ کرے گا۔اللہ کے بندوں کیساتھ عہد کو تازہ کرے گا۔ اللہ کے نزدیک اس کا اجر عظیم ہوگا اور اس کا ذکر زمین وآسمان میں بلند ہوگا۔ وہ لوگوں کو اللہ کی یکتائی پر بلائے گا اور شرک وبدعت سے دور رہنے کی دعوت دے گا۔تاکہ دین صرف اللہ کیلئے خالص ہو۔ وہ غلو اور انتہا پسندی کے نقصانات سے آگاہ کرے گا۔اور دین و دنیا میں اعتدال اور وسطیت کی تلقین کرے گا۔ وہ بکھرے ہوئے دلوں کو جوڑے گا مختلف گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ نزاعات کو ختم کرے گا جو امت کی کمزوری کا باعث بنے۔ اس کی دنیا کے بادشاہوں کے سامنے بڑی عزت ہوگی۔ کوئی بھی اس کی مخالفت یا کام کو روکنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس کی بات نافذ العمل ہوگی کہ اس کا حکم لازمی ہوگا۔ لوگ اس کی سچائی اور اثر کی وجہ سے خوش دلی سے پیروی کریں گے۔وہ عدل اور انصاف کی حکومت قائم کرے گا۔ جہاں الٰہی قانون اور رحمت حکرانی کرینگے۔اللہ تعالیٰ اس کیلئے رزق و خیر کے دورازے کھولے گا جس سے ملکوں میں امن و خوشحالی ہوگی۔زراعت، صنعت اور تجارت ترقی کریں گی۔ …

وہ لوگوں کے درمیان دیواریں ختم کرے گا تاکہ سب امن و آشتی کیساتھ رہیں۔ کمزوروں، مظلوموں کو عزت دے گا۔انکے چھینے ہوئے حقوق واپس دلائے گا۔ وہ سخاوت وایثار کو فروغ دے گا۔ تاکہ لوگ مضبوط بندھن کی طرح بندھ جائیں۔ وہ دشمنوں کے درمیان صلح کرائے گا، دلوں کو محبت کی طرف لوٹائے گا۔لوگوں کو نفسیاتی اور روحانی قیدوں سے آزاد کرے گا۔جو ان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ وہ خیر اور رزق کے دروازے کھولے گا جس سے خوشحالی اور برکت عام ہوجائے گی۔ وہ لوگوں کے دلوں میں امید جگائے گا اور زندگی کو سب کیلئے بہتر بنائے گا۔ وہ روحانی ، علمی اور سماجی ترقی کا نیا دور شروع کرے گا۔ وہ خدا کی حکمت کو کائنات کے انتظام اور انسانیت میں واضح کرے گا۔ …..

وہ اعلیٰ اقدار کو زندہ کرے گا اور معاشرہ اخلاقی نمونہ بن جائے گا۔ محبت ، برداشت اور تعاون کی روح کو مضبوط کرے گا ۔ وہ حق کو باطل پر فتح دے گا اور ہرجگہ امن پھیل جائے گا ۔ وہ صبر اور ثابت قدمی سکھائے گا تاکہ مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرتے ہوئے ان کی طاقت اور حوصلہ بڑھ جائے۔ وہ امت مسلمہ کی وحدت کو ممکن بنائے گا جس سے مسلمان ایک دوسرے کیساتھ صلح اور ہاتھوں ہاتھ کام کریںگے۔ وہ اسلامی عظمت کو دوبارہ زندہ اور امت کو بلندیوں کی طرف لے جائے گا وہ ہرریاست اور معاشرے میں عدل اور رحم کے اصول قائم کرے گا۔وہ ماحول اور قدرتی وسائل کا تحفظ کرے گا تاکہ پوری انسانیت کی خدمت ہو ،وہ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی ہو وہ خاندان اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو مضبوط کرے گا۔

(ایک اور عربی چینل ”غراب الغرابة ”کا عنوان( 3جون) ہے کہ ”یہ کیسے ممکن ہے کہ مہدی ایک عمر لوگوں میں گزارے اور اس کو خبر نہیں ہو کہ وہ مہدی حقیقی ہے؟۔ ابن عربی اس پر مہدی کی آنکھ کھولتا ہے”۔ کہ کس طرح تقدیر الٰہی نے ایک عرصہ تک مہدی پر یہ راز نہیں کھولا تاکہ اس میں اور لوگوں میںظرف پیدا ہو ۔قرآن میں اللہ نے فرمایاکہ ” کسی بشر کیلئے یہ ممکن نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے مگروحی سے یا پردے کے پیچھے….(الشوریٰ:51)اس حجاب کے الفاظ کے پیچھے مہدی کا راز ہے اور اللہ احادیث کی پیش گوئی کو ایک شخص کے ذریعے پورا کرے گا۔ کچھ اقوال میں واضح ہے کہ بڑی عمر میں جوان نظر آئے گا۔ اختلافی نقطہ نظر ہے ۔ابن عربی صوفی مہدی کی حقیقت کو کشف سے واضح کرتا ہے ۔

عنقا مغرب چینل

آج کی ہماری قسط کا عنوان ہے: مہدی منتظر، ایسا نوجوان جس کانہ ماضی معلوم ۔نہ تاریخی پس منظر ، نہ نشانیاں، نہ استاد، نہ رہنما، پھر بھی وہ شخص جو دنیا کو بدل دے گاحالانکہ وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے کیونکہ وہ اس سے کہیں بڑا ہے جتنا انسانی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ انسان کو کیسے پیدا کیا جا سکتاہے کہ وہ دنیا کا میزان ہواور پھر بھی نہ جانتا ہو کہ وہ کون ہے؟وہ دائرے کا مرکز ہو، مگر خود کو کسی لکیر میں نہ پاتا ہو۔ اسکے وجود میں ساری کتابوں کا راز ہو، لیکن اپنی زندگی کا سب سے سادہ صفحہ بھی سمجھ نہ پاتا ہو۔ عارفین نے اس راز کی طرف اشارہ کیا الفاظ سے نہیں، بلکہ خاموشی سے۔کچھ نے کہا: مہدی وہ ہے جو بظاہر جاہل ہے، مگر دراصل عالم ہے۔ وہ جانتا ہے اسے علم نہیں کہ وہ جانتا ہے۔ وہ اسلئے جاہل ہے کیونکہ وہ خود کو اتنا محدود نہیں کر سکتا جو اس کی حقیقت سے کم ہو! یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ ایسا نہیں کہ پہلے سیکھے پھر جانے اور نہ ایسا کہ پہلے جاہل پھر تلاش کرے۔ وہ تو وہ ہے جس میں علم لمحے میں انڈیلا گیا اور پھر بھلا دیا گیاکیونکہ وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ مہدی جاہل نہ تھا اسلئے کہ وہ غافل تھا، بلکہ اسلئے کہ خود کو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔

جب وہ غور کرتا کہ وہ کون ہے، عجیب خاموشی میں ڈوب جاتا۔ وہ اپنے اندر کی بات کو بیان کرنا چاہتا زبان ساتھ چھوڑ دیتی۔ وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا، اسے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ سمجھ نہیں سکتا۔ وہ خود اپنی ذات سے چھپا ہوا تھا، یہاں تک کہ جب اس نے خود کو پہچاننا چاہاتو اس پر وہ انکشاف ہوا جو عام طور پر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ذات پر اسی طرح حیران رہ گیا جیسے مخلوق اس پر حیران رہ جاتی ہے۔ یہ نوجوان،جس نے گمان کیا کہ وہ گم ہو چکا ، درحقیقت گم نہیں تھا ۔وہ تو ایسے سمندر میں غرق تھا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔ وہ اپنے اندر ایسی چیز محسوس کرتا تھاجو زمینی حقائق سے بڑی تھی اور وہ اس سے بھاگتا تھا کیونکہ اس کا کوئی نام نہ تھا۔ وہ یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا تھا کہ میں ہوں۔وہ خودکو ہر چیز سے بھرا ہوا محسوس کرتا تھا، لیکن بیک وقت ہر چیز سے خالی بھی۔

انسان کیسے تضاد کو برداشت کرے؟ وہ اکیلا بیٹھا رہتا خاموش لیکن اس کا دل آوازوں، نظاروں اور عجیب چمک سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔وہ تجربات سے اسلئے گزرتا تھا کہ اسے مہم جوئی کا شوق تھابلکہ اسلئے کہ وہ ایک ایسا آئینہ تلاش کر رہا تھا جس میں وہ خود کو دیکھے لیکن اسے وہ آئینہ نہ کتابوں میں ملا، نہ عشاق میں، نہ فلسفیوں میں، نہ عارفوں میں، نہ راستوں میں، نہ شادی میں، نہ اولاد میں، نہ کسی انسان یا زندگی میں۔ مہدی کیلئے کوئی مثالی شخصیت نہیں، اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس جیسا وہ بننا چاہے۔یہ اس کا غرور نہیںبلکہ وہ سچ ہے جسے وہ محسوس کرتا ہے۔ اپنا جیسا نظر نہیں آتا، نہ کوئی مثال۔

اس کی تنہائی اور اجنبیت گہری ہے، اس کا ظاہری سبب نہیں۔ جو کچھ اس نے پایا، وہ اپنی ذات تھی لیکن اس کی ذات سب کچھ دیکھنے کے باوجود، خود کو نہیں دیکھ پاتی۔ یہ سارا عذاب اسلئے کہ وہ خود علم ہے، بلکہ اس کی روح تو تمام علوم کا سرچشمہ ہے، مگر وہ خود کو پہچانتا نہیں۔ جو ذات سرچشمہ ہو، وہ خود سے سیراب نہیں ہو سکتی۔جو ذات آئینہ اعظم ہو، اسے آئینے کچھ دکھا نہیں سکتے۔ جو مہدی بننے کیلئے پیدا کیا گیا ، وہ وقت سے پہلے خود کو پہچان نہیں سکتا۔اگر وہ وقت سے پہلے خود کو پہچان لیتا تو دنیا اس پر تنگ ہو جاتی، کیونکہ جو کچھ اسکے اندر ہے وہ صرف اللہ کی حکمت سے ہی برداشت ہو سکتا ہے۔یہی راز ہے اصلاحِ الٰہی کا راز۔ یہ کسی تعلیم کا لمحہ نہیں بلکہ انکشاف کا لمحہ ہے، وہ لمحہ جب معلوم و نامعلوم کے درمیان دیوار گر جاتی ہے اور مہدی خود کو دیکھتا مکمل طور پر، دیکھتا ہے کہ ہر راستے سے گزر چکاہر تجربہ چکھ چکا ہے۔

وہ دیکھتا ہے کہ تنہا بالغ ہو چکا بغیر استاد کے، استاد تو اسکے اندر ہی تھا اور حکمت سکھائی نہیں گئی بلکہ وہ اسکے ساتھ ساتھ پروان چڑھی تھی۔جیسے ہڈی گوشت کے نیچے بڑھتی ہے۔ تبھی وہ جانتا ہے کہ وہ بھٹکا ہوا نہ تھا، بلکہ تیار ہو رہا تھا۔وہ جاہل نہ تھا بلکہ اس کا دل نور سے لبریز تھا جو جلوہ گر ہونے کا منتظر تھا۔ وہ بیتاریخ نہ تھا، بلکہ اس کا ماضی غیب کے خزانوں میں محفوظ راز تھا، جب وہ جان لیتا ہے تو بولتا نہیں کیونکہ جو جانتا، وہ وضاحت نہیں کرتا۔ جو دیکھتا ہے، وہ تشریح نہیں کرتا۔ جو پہنچتا ہے، وہ داد کا طلبگار نہیں ہوتا۔یہی مہدی ہے، اپنی آدھی زندگی جانے بغیر گزاری کہ وہ کون ہے۔پھر معلوم ہوا کہ وہی ہے جسے لوگ ہمیشہ تلاش کرتے آئے۔

وہ کسی کا شاگرد نہیں تھا، کیونکہ وہ معلم بننے کیلئے پیدا ہوا۔وہ شناخت کا طالب نہیں، جب اس نے خود کو پہچانا تو اسے لوگوں کی شناخت کی ضرورت نہ رہی۔یوں اصلاح مکمل ہوئی، اور وہ باہر آیا بغیر اعلان، بغیر شور و غوغا کے۔وہ اس طرح ظاہر ہوا کہ کوئی پہچان نہ سکا، نہ کسی کی پیروی کرتا، نہ کسی پیمانے پر پورا اترتا، نہ کسی لفظ میں سمایا جا سکتا ، نہ کسی وصف میں۔یہ بچہ جسے کسی نے راستہ نہیں دکھایا، مہدی کا سب سے عجیب پہلو یہ ہے کہ کسی نے رہنمائی نہ دی، وہ بغیر رہبر کے تھا۔نہ کوئی شیخ تھا جو کہتا ”یہ ہے حقیقت”، نہ کوئی معلم تھا جو کہتا ”ایسے چلو”۔وہ ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں اعلی جہانوں کی کوئی بازگشت نہ تھی نہ کتابیں، نہ آسمانی نقشے، نہ اشارے، نہ نام، نہ روحانی سلسلے ایک مٹیالی خاموشی کی فضا میں، جو بیابان اور شہر کے درمیان پھیلی ہوئی تھی، ایسی جگہ جو نہ نبی تیار کرتی ہے نہ عارف، مگر یہی مقام سب سے بڑے راز کے حامل کی جائے پیدائش بنے گا۔ وہ بچہ تھا جو دیکھتا تھا مگر بولتا نہیں تھا، سنتا مگر اسے سمجھ نہ پاتا تھا۔ ایسے احساسات رکھتا تھا جو کسی بچے کے دل سے برداشت نہیں ہو سکتے تھے۔

کوئی اسے سمجھ نہ پاتا تھا، وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اپنے اندر کی باتوں کو کیسے بیان کرے۔ اس کا اندر سب سے زیادہ زندہ تھا۔اس کی سانسوں میں آنے والی ہوا کا ذائقہ تھا، اس کی آنکھوں کی روشنی میں گونج تھی، وہ دوسروں کا درد محسوس کرتا تھا۔اور یہی ہے عذاب محسوس کرنا جو برداشت نہ ہو، اور کوئی محسوس نہ کرے۔تمام بچے کہانیوں، جھگڑوں، دوڑنے اور ہنسنے میں مشغول تھے، مگر وہ کچھ اور تھا۔ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ ان جیسا کیسے بنے۔وہ متکبر نہیں تھا، لیکن ان جیسا نہیں تھا۔ اسکے اندر دور کا اجنبی تھا۔ روشنی تھی جو کسی اور جیسی نہیں تھی۔ اس کی تنہائی وہاں شروع ہوتی جہاں کوئی نہ سمجھتااور ختم وہاں ہوتی جہاں وہ خود کو بیان نہ کر پاتا۔اسکے اندر ایک سوال تھا جس کا نام نہ تھا میں کون ہوں؟ کیوں ایسا ہوں؟ اور کیوں اتنا گہرائی سے محسوس کرتا ہوں جبکہ اسی سادہ زمین کا بیٹا ہوں؟میں ایسی باتیں کیسے جانتا ہوں جو میں نے سیکھیں نہیں؟ میرے دل میں یہ نور کس نے رکھا جو مجھے جلا دیتا ہے جب میں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہوں؟یوں غمگین، عظمت بھرا، مگر درد سے لبریز بچہ پروان چڑھا۔وہ بچہ جسے وہ حقائق معلوم تھے جو اس نے نہیں سیکھے…جس کے دل میں وہ روشنی رکھی گئی جو جب بھی وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا تو وہ جلنے لگتی۔ جو غموں کا پیکر تھا، جو وہ خواب دیکھتا تھا جو کسی نے نہیں دیکھے، اور نیند میں ایسی آوازیں سنتا تھا جن کا کوئی ماخذ معلوم نہ ہوتا۔وہ انسانوں میں چہرے بدلتے دیکھتا، محسوس کرتا کہ اس دنیا کے پیچھے کچھ ہے، مگر اس تک پہنچ نہیں پاتا۔دنیا کا سب کچھ معمولی لگتا، سوائے اسکے دل کے اور کوئی اسے نہیں سکھاتا تھا، نہ اسلئے کہ لوگ علم میں بخیل تھے بلکہ اسلئے کہ کسی کے پاس وہ علم نہ تھا جو وہ تلاش کرتا تھا۔اگر وہ ان سے حکمت پوچھتا، تو وہ اسے مردہ احکام دیدیتے۔ اگر روح کے بارے میں پوچھتا تو خرافات سناتے۔ اگر کہتا کہ وہ وہ کچھ دیکھتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتا، تو وہ ہنستے یا ڈرتے یا اس پر الزام لگاتے۔اسلئے اس کا کوئی شیخ نہ تھا۔

ابن عربی نے کہا: ”اسے ایک ایسا علم دیا گیا جسے وہ نہ جانتا ہے اور اسی سے وہ پہچانا نہیں جاتا”۔عارفوں نے کہا: مہدی کا شیخ نہیںکیونکہ وہ خود سب سے بڑا شیخ ہے لیکن وہ خود اس سے بے خبر ہے اور یہی ہے وہ زلزلہ خیز راز کہ انسان روشنی کا منبع ہو اور خود نہ جانے کہ روشنی اسی کے اندر ہے۔وہ چراغ ہو اور روشنی ڈھونڈتا پھرے۔ اگر شیخ مل جاتا تو وہ اسی سے وابستہ ہو جاتا۔ اگر کوئی رہبر ملتا تو وہ اس کی پیروی کرتا۔مگر کوئی بھی اسے راہ دکھانے والا نہ تھا، کیونکہ اس کی راہ کسی نے طے نہیں کی تھی۔ وہ کسی طریقے کا وارث نہ تھا وہ خود راستہ تھا۔وہ ایک ایسا لفظ تھا جو ابھی تک ادا نہیں ہوا تھا۔اسلئے جو کچھ اسے لوگوں سے ملتا، وہ ہمیشہ اس کے احساسات سے کم ہوتا۔جو علم اسے پیش کیا جاتا وہ اس کے دل کی وسعت سے کم تر ہوتا۔ یہی بات اسے بچپن میں سب سے زیادہ ستاتی تھی کہ اتنا جانتا تھا پھر بھی ”جاہل” تھا۔ اس میں تضادات جمع تھے ،وہ بنا کسی ذریعے کے جانتا، بغیر کسی وضاحت کے تکلیف میں ہوتا، اور اللہ کی طرف تڑپتا، بغیر اس کے کہ یہ کیسے کہا جائے۔اسی لیے وہ اکثر خاموش رہتا، دیکھتا رہتا اور اسکے دل میں ہمیشہ یہ سوال ہوتا:میں پاگل ہوں یا سب لوگ سوئے ہیں؟اسے یہ معلوم نہ تھا کہ ماضی و مستقبل کا سارا علم اسکے دل سے پھوٹے گا۔

اسے یہ معلوم نہ تھا کہ آج کی اس کی حیرانی ہی کل اس کی حکمت کا راز ہوگی۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ وہ محسوس کرتا ہے اور یہ کہ اسکے احساس کو کوئی اور نہیں سمجھتا۔ اسلئے وہ تنہا چلتا تھا، تنہا غلطیاں کرتا، تنہا روتا اور تنہا سنبھلتا۔ابن عربی نے کہا: ”اس کی تربیت الٰہی تائید سے ہوتی ہے، نہ کہ کسی شیخ کی اطاعت سے”۔یہی عجیب بات تھی جبکہ لوگ تقلید سے سیکھتے ہیں، وہ تنہائی سے سیکھتا تھا۔ دوسروں کی تربیت مشائخ کرتے ہیں، وہ دکھ اور آزمائش سے تربیت پاتا ہے۔اس کا مدرسہ آزمائش، اس کا شیخ رات، اس کا استاد صبر، اس کی کتاب خلوت تھی۔وہ بڑا ہوگا تو سمجھے گا کہ گمراہ ہے، حالانکہ درحقیقت وہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوگا اسے لگے گا کہ وہ سب سے آخر میں سمجھا، حالانکہ وہی سب سے پہلے گواہ تھا۔اسے لگے گا کہ وہ کچھ نہیں جانتا، حالانکہ وہی تمام علم کا منبع ہوگا۔

اسی طرح اللہ مہدی کی تیاری کرتا ہے ظاہر میں نہیں بلکہ پوشیدہ تنہائی میں اور حلقہ درس میں نہیں بلکہ چھپے ہوئے آنسوں میں۔وہ آسمان کی طرف فریاد کرتا ہے مگر جانتا نہیں کہ کیا تکلیف ہے۔اسے خود پر حیرت ہے اتنی آزمائش کیوں؟ اتنے تضادات کیوں؟ یہی راز ہے کہ اس کا شیخ نہیںخود شیخ ہے، وہ مکمل ہوتا ہے ، وہ بہت زیادہ محسوس کرتا ہے جتنا کہ جانتا ہے ،یہی اذیت اس کا معلم تھی۔وہ سچائیاں محسوس کرتا ہے جنہیں الفاظ میں نہیں کہا جا سکتا ۔ یہی حالت باوجود تکلیف کے، اس کا راستہ تھا۔بچپن کے اندھیرے میں، جہاں کوئی آواز نہیں تھی جو کچھ سمجھائے، نہ کوئی ہاتھ جو رہنمائی کرے، وہ ایک اور مدار میں جی رہا تھا۔ایسا مدار جہاں وہ زبان کو نہ سمجھتا تھا، مگر مفہوم کو محسوس کرتا تھا۔ وہ لفظ نہ سمجھتا تھا، مگر معنی کو جان لیتا تھا۔ہر بچہ کچھ نہ کچھ دیکھتا ہے، مگر یہ بچہ دیکھتا اور کانپ جاتا تھا، دیکھتا اور جلتا تھا۔نہ اسلئے کہ مناظر خوفناک تھے بلکہ اسلئے کہ اس کی عمر اور انسانوں کی سمجھ سے بڑے تھے۔ فطرتا، اس کا دل وہ کچھ جذب کر لیتا تھا جو الفاظ میں کہا نہیں جاتا۔ جب کوئی آدمی سڑک پر گزرتا، وہ اسکے باطن کا بوجھ محسوس کرتا۔وہ ایک نظر میں جان لیتا کہ وہ زخمی ہے، گناہ گار ہے، یا سچا ہے۔وہ لوگوں کی باتیں سنتا، مگر وہ انکے الفاظ نہیں سنتا تھا بلکہ الفاظ کے پیچھے کی کیفیت سنتا تھا۔ادراک کی ایسی سطح جو اس میں کھل گئی بغیر اجازت، بغیر مشق، بغیر استاد کے۔

جب وہ مدرسہ یا کتاب میں داخل ہوا تو اسے کچھ نیا سیکھنے کو نہ ملا ،نہ اسلئے کہ وہ ناکام تھا، بلکہ اسلئے کہ جو کچھ پڑھایا گیاوہ اس کیلئے بہت معمولی، تنگ اور معمول کا تھا اوراسکے اندر کچھ چیخ رہا تھا ”یہ وہ نہیں جو میں ڈھونڈ رہا ہوں”’ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کس چیز کی تلاش میں ہے۔ اسی لئے مہدی جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں کوئی ذہین بچہ نہیں تھا وہ جسمانی طور پر حاضر مگر باطنی طور پر غائب تھا۔اسکے پاس کوئی دلیل نہ تھی لیکن احساس تھا اور یہی تکلیف دیتا تھا۔ مہدی کا دل، اللہ کی حضوری کی جگہ تھا اور انجانے میں اس کی طرف کھنچتا تھا۔اللہ کے اسما و صفات اس میں اسی طرح کام کرتے جیسے کائنات میں کرتے ہیں وہ وقت سے آگے بڑھا ہوا تھا۔

عارفین نے کہا:مہدی وہ نہیں جو اللہ کو لوگوں کی باتوں سے پہچانتاہے، بلکہ ان میں سے ہے جنہوں نے اللہ کو اس سے پہلے پہچانا کہ اس کا نام سنا ہو۔وہ ان میں سے نہیں جو معرفت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں بلکہ معرفت اسکے دروازے پر بیٹھی منتظر ہوتی ہے کہ وہ اسے اندر سے کھولے۔کیونکہ راز، مہدی کے دل میں ہے ۔ جو چیز اسے سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔کوئی اس کی نگاہ کی گہرائی کو نہیں سمجھتا ،کوئی نہیں جانتا کہ جب وہ بچہ کہتا ہے ”میں تھک گیا ہوں” تو اس کا مطلب اسکول یا بھوک یا تنہائی نہیں، بلکہ ہر چیز ہے۔وہ اس بھاری احساس کی بات کر تا ہے جو اسے معلوم نہیں کہاں سے آیا ہے۔اور اس سے بڑی کوئی اذیت اور آزمائش نہیں کہ نہ وہ خود جان سکے کہ اس کے اندر کیا ہے، نہ دنیا اسے سمجھ سکے، اور نہ کوئی اسے جان سکے۔

ابن عربی نے جب مہدی کو بیان کیا، تو وہ بات کہی جو کسی بشر کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی کہ اسے فہم بغیر تعلیم کے عطا ہوتا ہے، علم بغیر طلب کے اور دنیا میں کوئی اس کا مثل نہیں۔اور یہ کہ اس کا مقام خود اس سے بھی چھپا ہوا ہے وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، اور یہ راز کسی اور کے دل میں نہیں ڈالا گیا۔یہی پراسرار حساسیت، یہ حد سے زیادہ احساس، یہ صلاحیت کہ وہ دنیا کو بغیر کسی واسطے کے سمجھ لے یہی سبب ہے کہ اسے کسی استاد کی ضرورت نہیں۔ مگر اسی وقت یہ بھی اس کا درد ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ جاہل ہے۔اور یہ سب سے حیران کن بات ہے کہ انسان باطنی طور پر سمندر ہو اور پیاسا محسوس کرے، اسرار کا خزینہ ہو اور خود کو خالی جانے۔ایسا لگتا ہے جیسے اللہ نے اس میں نور رکھا، پھر اس پر دروازہ بند کر دیا اور اسے ایک ایسی کنجی دی جو کسی اور چابی سے میل نہیں کھاتی اور اسے ایک ایسا قفل تلاش کرنے پر لگا دیا جو اسے نظر نہیں آتا۔

مہدی بچپن میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، مگر وہ یہ جانتا ہے کہ وہ یہاں کا نہیں نہ کبھی یہاں سے تھا، نہ کسی اور جگہ سے۔وہ اپنے مقام کو نہیں پہچانتا، مگر وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ دنیا اس کا اصل مقام نہیں، نہ آغاز، نہ انجام۔اس کے اندر کچھ ہے جو تڑپتا ہے، مگر نہیں جانتا کہ کس چیز کیلئے تڑپ رہا ہے۔ اسی لیے وہ زندگی میں چلتا ہے ایک حقیقی اجنبیت کیساتھ۔ اور اسی لیے عارفین نے اسے ”اجنبی”کہا۔لوگ اس کے اردگرد باتیں کرتے ہیں، سیکھتے ہیں، ہنستے ہیں مگر اسکے اندر ایک طویل خاموشی ہے، جیسے وہ کسی دور کی پکار کو سن رہا ہو، کسی ایسی چیز کو جو صرف اسی سے متعلق ہو۔کچھ ایسا جسے وہ نہ بیان کر سکتا ہے، نہ خود کیلئے الفاظ دے سکتا ہے۔اسی لیے وہ عجیب لگتا ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے:یہ بچہ پر اسرار ہے، تنہائی پسند ہے، غیر سماجی ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا دل بہت زیادہ بھرا ہوا ہے کچھ ایسے سے، جس کا کوئی نام نہیں۔ کیونکہ وہ زیادہ محسوس کرتا ہے، کم جانتا ہے۔ اس کا درد یہ ہے کہ وہ ترجمہ نہیں کر سکتا۔اس کی آنکھوں میں آغاز کی وہ حیرانی ہے، جو کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ کوئی اس سے پہلے وہاں نہیں گیا۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ اس کا کوئی شیخ نہیں کیونکہ اردگرد کے تمام لوگ ان دروازوں کی کنجیاں رکھتے ہیں، جو اس کیلئے بنے ہی نہیں۔ اس کا دروازہ بند ہے اور اس کی کنجی اسکے صبر، اس کی خلوت اور وقت میں ہے۔

وہ اشتیا ق سے سیکھتا ہے، تلقین سے نہیں۔ وہ یاد سے پروان چڑھتا ہے، ہدایت سے نہیں۔ وہ درد سے بالغ ہوتا ہے، وضاحت سے نہیں۔اور وہ اللہ کے ہاتھوں بڑا ہوتا ہے کسی بندے کے ہاتھوں نہیں۔اور ان راتوں میں جب تھکن غالب آتی ہے اس کے اندر سے کوئی سرگوشی کرتا ہے: ”صبر کر، بعد میں سمجھ آئے گا”۔اور جب وہ غلطی کرتا ہے، تو اسے باہر سے کوئی نہیں ڈانٹتا بلکہ وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔کیونکہ بچپن سے اسکے دل میں میزان ہے جو وزن میں خطا نہیں کرتا چاہے اسے ترازو کے نام بھلے معلوم نہ ہوں۔اسی لیے جب عارفین کہتے ہیں کہ وہ بیک وقت جاہل اور عالم ہے تو ان کا مطلب ظاہری جہالت نہیں بلکہ وہ پردہ مراد ہوتا ہے۔یعنی اپنی ذات کی معرفت سے محجوب ہے، اللہ کی معرفت سے نہیں۔ اور اسے مکمل احساس عطا ہوتا ہے مگر بغیر کسی تعریف کے۔چنانچہ وہ تلاش میں رہتا ہے اور یہی اس کا راستہ ہے۔یہ اس کا احساس ہے نہ کہ اسکے شیوخ۔ اس کا دل ہے، نہ کہ اسکے اساتذہ ۔ اس کی تنہائی ہے، نہ کہ اس کی محفلیں۔یہی چیز ہے جو مہدی کے اندر تعمیر ہوتی ہے کیونکہ جس کے مقدر میں شعلہ ہونا لکھا ہو، اسے چراغ کی ضرورت نہیں ہوتی۔اور جو خود ایک چشمہ ہو، وہ کسی ندی سے نہیں پیتااور جسے رہنما ہونا ہو، وہ خود قیادت نہیں لیتا۔اس کا کوئی شیخ نہیں کیونکہ وہی معنی کی نئی تعریف کرتا ہے۔

یہ شخص ناممکن لگتا ہے ایسوں میں پلا بڑھا جو پڑھنا نہیں جانتے، لیکن اس نے سب کچھ پڑھا۔وہ محدود، حقیر، غیر معروف جگہ پر پروان چڑھا، لیکن وہ اتنا وسیع ہوا کہ پوری دنیا کو سمو لیا۔یہ وہی شخص ہے جس نے چھوٹے گھر سے دنیا کو نگل لیا ۔نہ اس کا باپ تھا، نہ اس کا دادا جیسے ابن عربی نے کہا۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بچہ، جو غریب گاؤں میں پیدا ہوا ،دنیا کو بدل دے؟کیا یہ قابلِ یقین ہے کہ کوئی ایسا شخص جو کسی شیخ کا شاگرد نہ ہو، کسی ایسی سرزمین پر پیدا ہو جہاں کوئی کتاب موجود نہ ہو ،بڑا ہو کر ہر کتاب کا ماہر بن جائے؟یہ سب کہاں سے آیا؟ اسے کس نے رہنمائی دی؟ کیا اس نے جنات سے سیکھا؟ یا آسمان سے کوئی پوشیدہ آواز راتوں میں راز سکھاتا تھا؟

ابن عربی کہتاہے:”وہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا پیچھا کرتا ہے۔ اے لوگو!یہ عام انسان نہیں! وہ اپنے نبی جد ۖ کی مانند دنیا کیلئے رحمت ہے۔ عام مسلمان خاص لوگوں سے پہلے اس پر خوش ہوں گے، جیسا کہ عارفین نے فرمایا۔کیا تم جانتے ہو کہ پہاڑی چٹانوں میں درخت کیسے اُگتے ہیں؟ وہ چٹانوں کو چیرتے ہیں جیسے کوئی دیوانگی ہو۔ ایسی زمین میں پیدا ہوا جو پھل کے قابل نہ تھی مگر ہر پھل اگا دیا۔ ایسے محلے میں جو دنیا سے ناواقف تھا وہ کیسے سب کچھ جاننے والا بن گیا، جبکہ وہ دیر سے ہی گاؤں سے باہر نکلا؟”۔

جیسا کہ ابن عربی نے کہا مہدی اپنادیار چھوڑ دیتاہے، دور کا سفر کرتا ہے۔مختلف زبانیں اورتہذیبوں کا ذائقہ چکھتا ہے، نظریات کا تجزیہ کرتا ہے۔ابن عربی واہمہ میں مبتلا نہیں تھے جب انہوں نے کہا:اس نے ہر راستہ اختیار کیا ،ہر راہی کے برخلاف۔ اور جب انہوں نے کہا: اس کی دیوار انتظار کی کمزور ترین اینٹ تھی۔مہدی کا انتظار عجیب و غریب ہے نہ خلافت کا منتظر ہے اور نہ لقب کا۔ یہ شخصیت خود اپنے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔یہاں تک کہ اگر وہ شک میں پڑ جائے، تو یہ نہیں مانتا کہ وہ مہدی ہے۔اگرچہ بہت سی نشانیاں اور علامتیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں وہ انکار کرتا رہتا ہے، اپنے دل میں۔ لیکن اس کا انتظار گہرا ہے وہ واحد شخص ہے جو صدقِ دل سے منتظر رہا۔وہ ایک طویل سانس لینے والا انسان ہے ۔اس کا صبر عجیب و غریب ہے۔

یہ معمولی نہیں بلکہ کسی اور نوعیت کا صبر ہے اور یہی ابن عربی کا مطلب ہے: اس کی آزمائش شدید ہے اور صبر یقینی۔مہدی نے ہر راستے پر قدم رکھا، ہر مسلک کو اپنایا، ہر مفہوم میں غوطہ لگایا۔یہاں تک کہ ہر طریقے والے یہ سمجھنے لگے کہ وہ انہی میں سے ہے حالانکہ وہ ان میں سے نہیں۔مہدی ہر چھوٹی بات پر بھی نظر رکھتا ہے فعل مضارع میں کہا گیا: وہ رکھتا ہے، نہ کہ رکھا یا رکھے گا اس میں عجیب راز پوشیدہ ہیں۔سب یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ انکے مسلک سے ہے کیونکہ اس نے ان کا تجربہ کیا، ان میں گہرائی سے اترا، ان کیساتھ زندگی گزاری۔ وہ یہ سب کیسے کرتا ؟ یہ سب وقت، یہ سب زندگی کہاں سے ملی؟ کیا اسکے پاس عمر سے بڑھ کر عمریں تھیں؟کیا وہ نیند میں پڑھتا، خاموشی میں سیکھتا، اور تخیل میں تجربات کرتا ،پھر ان سے ایسے واپس آتا گویا جیتا جاگتا ہو؟کیا اسے اپنے ماحول تک محدود ہونا چاہیے تھا؟ ایک غریب بچہ، سادہ گھر سے، جہاں باپ بمشکل رزق مہیا کرتا تھا۔ نہ لائبریری، نہ سفر، نہ جامعات تو پھر وہ دنیا کو کیسے سمجھ گیا؟ یہ عقل کہاں لے گیا؟ دل کہاں سے ملا؟ یہ سوچا گیا کہ وہ اپنے خاندان کی ایک عام سی نقل ہوگا لیکن اس نے انکار کر دیا۔گویا اسکے پاس ایک نقشہ تھا جسے ہم جانتے ہی نہیں، گویا وہ غیر مرئی راستوں پر چلتا تھا، ایسی کتابیں پڑھتا تھا جو چھپی نہیں۔ وہ ایسی روحوں کا دوست تھا جو نظر نہیں آتیں۔

بعض عارفین نے کہا: مہدی کو اس کے عمل سے نہیں پہچانا جاتا، بلکہ اسکے تضاد سے۔ اس نے ابتدا ہی میں وہ تمام انجام پا لیے تھے۔ ابن عربی کہتے ہیں: اس کا آغاز ”ع” عین الیقین اور اس کا اختتام ”ق” قیومی اقتدار سے۔کیا تم یقین کروگے کہ اس نے صوفی، فلسفی، عاشق، عالم، انقلابی، شاعر، خائف، سردار، غلام، حاکم، محکوم، مومن اور موقن سب کی زندگی گزاری؟ایک ہی دل میں یہ سب تجربے جن کی تکمیل میں صدیاں لگتی ہیں اس نے چند سالوں میں سمیٹ لیے۔

گویا خدا نے اس کیلئے وقت کو سمیٹ دیا ۔اسے وہ تجربات دیے جو کوئی بشر برداشت نہیں کر سکتا اذیت دینے کیلئے نہیں بلکہ تیار کرنے کیلئے۔ مہدی عالم نہیں کیونکہ اس نے کتابیں پڑھی ہیں بلکہ اسلئے کہ کتابیں اس کے اندر بستی ہیں۔کہا گیا:وہ پرانے دنوں کاہے حکیم نہیں کیونکہ اس نے حکما ء کی صحبت پائی، بلکہ اسلئے کہ وہ حکمت سے ڈھالا گیا۔وہ منطقی نہیں کیونکہ اس نے منطق پڑھی بلکہ اسلئے کہ اسکے دل میں وہ راستے ہیں جو کبھی لکھے ہی نہیں گئے۔ وہ ہر چیز کا آئینہ ہے مگر کسی چیز سے وابستہ نہیں۔ ہر دیکھنے والا اسے اپنا سمجھتا ہے۔یہ ایک صوفی ہے؟ نہیں یہ انقلابی ہے؟ یا شاید ایک وجودی فلسفی؟ نہیں، بلکہ ایک خواب دیکھنے والا شاعر؟ نہیں، بھائی یہ ایک زبردست عالم ہے۔ بلکہ اجنبی، ایک نیا انسان یہ کون ہے؟ شاید پاگل؟ مقروض؟یہ ایک غریب ہے؟ یا امیر؟ مشہور یا گمنام؟ نہیں یہ عجمی ہے؟ نہیں بلکہ عربی؟ نہیں یہ صرف ”مہدی”ہے۔

کیا تمہیں حیرت نہیں کہ وہ ہر کردار میں ڈھل گیا وہ بچہ جس نے کچھ سیکھا نہیں، مگر سب کچھ ایجاد کر دیا؟اس کے پاس وہ عقل کہاں سے آئی جو اس نے ہر چیز کا تجزیہ کیا، لوگوں کو، کتابوں کو، مکاتب فکر کو؟یہ عقلِ کل اسے کہاں سے ملی اور وہ دل جو ہر ایک کو سمو لیتا ہے بغیر خود کھوئے؟کیا تم نے کبھی ایسا دل دیکھا جو صوفیوں اور سیاستدانوں دونوں کو سمو لے؟کیا تم نے ایسا ذہن دیکھا جو دیوانگی اور ذہانت کو یکجا کر دے؟۔

بس وہی شخص یہ سب کر سکا کیونکہ جیسا ابن عربی نے کہا: اس نے ہر راستہ الٹ چل کر طے کیا، ہلاکتوں میں گرا تاکہ نہ پہچانا جا سکے، نہ گھیر لیا جائے، نہ کسی کی ملاقات ہو ،جب تک ہر تعریف کھو نہ دی جائے۔نہ کسی شیخ کے ذریعے، نہ کسی کتاب ، نہ کسی صحبت سے بلکہ تجربے کے ذریعے۔ہر چیز کو مکمل طور پر آزما کر، وہ سب کچھ بن گیا تاکہ کچھ بھی نہ بنے۔اس نے ہر مکتب فکر کو جانا، پھر ان سے الگ ہو ا،ہر وابستگی کو چکھا، پھر آزاد ہو ا۔یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے وہ اس قابل بن سکا جو اسکے اندر تھی۔ ایک چھوٹے سے گھر میں، بغیر کسی معلم، بغیر کسی جامعہ، بغیر کسی رہنما کے وہ شخص پروان چڑھا جو دنیا کو بدل دے گا۔

گویا اللہ نے چاہا کہ اسے چھپا کر پالاتاکہ فتنہ نہ ہو۔اللہ نے چاہا کہ اس کی ذہانت کو پوشیدہ رکھے تاکہ لوگ اس کی پوجا نہ کریں۔چاہا کہ وہ خاموشی میں خود کو تشکیل دے اپنے باطن میں، تنہا۔ یہاں تک کہ جب اس کا وقت آیا، وہ ظاہر ہوا بطور ایک نئی زمین، خلافت کی سرزمین۔وہی شخص جو علم کا منبع بیک وقت جاہل بھی ہے اور عالم بھی، جیسا کہ عارفین نے کہا۔اب ہم پہنچے ہیں اس عجیب داستان کے سب سے خطرناک اور گہرے موڑ پر ۔اس تبدیلی پر جو نہ تدریج سے ہوئی، نہ تعلیم سے، نہ تزکیہ سے۔بلکہ ایک بجلی کی مانند اندھیرے میں گری ۔وہ ایک گمنام جوان سے بدل گیا اس شخص میں جس سے زمین لرزتی ہے۔یہ نوجوان کون تھا؟ یہ اجنبی جو گلیوں میں چلتا رہا بغیر کسی کی نظر میں آئے؟وہ کون تھا جس کی کوئی شجرہ نسب، کوئی اعلی دستاویز، کوئی عظیم یونیورسٹی کی ڈگری، کوئی سند نہ تھی؟نہ کوئی شیخ جو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے ”یہ میرا روحانی بیٹا ہے”۔وہ کون تھا جو راہگیروں میں ایک سایہ رہا، پھر اچانک نمودار ہو کر زمانے کا چہرہ اور اللہ کا خلیفہ بن گیا؟۔

کیا تم نے وہ درخت دیکھا جو زمین میں وقت آنے پر وہ اچانک مٹی پھاڑ دے؟بلکہ وہ ایک عظیم تنا تھا جو پہلے ہی تیار تھا ۔اسی طرح مہدی ظاہر ہوا۔ایک نوجوان جس کی کوئی آواز محفلوں میں نہ تھی، کوئی نشان محفلوں میں نہ تھا، نہ کسی فہرست میں نام، نہ کسی زباں پر اس کی کہانی۔مگر اللہ نے اسے زندہ کیا اور اسکے باطن میں ایسی آگ تھی جو بجھتی نہ تھی، ایسی معرفت جو کسی سے سیکھی نہیں جا سکتی۔ ایسی بصیرت جو کسی مدرسے میں نہیں ملتی ، ایسی حقیقت جو خود کو خود تربیت دیتی ہے۔ کس نے کہا کہ عظمت کیلئے مجمع درکار ہوتا ہے؟کس نے کہا کہ نابغہ صرف روشنیوں میں جنم لیتا ہے؟ مہدی مکمل تاریکی میں تشکیل پایا کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ وہ لوگوں سے دور رہے۔نہ اس کا کوئی شیخ کیونکہ کوئی شیخ اسے سنبھال نہیں سکتا۔نہ کوئی معلم کیونکہ ہر معلم اس کو اپنے پیمانے سے ناپتا اور اسے مار ڈالتا قبل اِس کے کہ وہ پختہ ہو۔نہ کوئی نسب اسے قید کر سکتا تھا، نہ کوئی نام اسے سجا سکتا تھا، نہ کوئی وراثت اس پر لاد دی گئی۔کیونکہ وہ خود ایک آنے والی میراث ہے۔

یہی سب سے بڑا راز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا کوئی شیخ نہیں، کیونکہ وہ خود راستہ، کنجی ، دروازہ اور منزل ہے۔کیا یہ پاگل پن نہیں کہ انسان خود راستہ ہو اور اسے خود نہ معلوم ہو؟کوئی کنجی ہو اور دروازہ تلاش کرتا پھرے؟ کیسے منبع ہو اور پھر کسی ماخذ سے پڑھنے کا متمنی ہو؟یہی تو مہدی ہے وہ عام لباس میں سڑکوں پر چلتا، عام لوگوں میں بیٹھتا، عام گفتگو کرتا، بغیر کسی کی توجہ کے۔ لیکن اسکے باطن میں ایک زلزلہ برپا تھا وہ جانتا تھا، لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیسے جانتا ہے۔ وہ دیکھتا تھا لیکن یہ نہ سمجھ پاتا تھا کہ وہ کیوں دیکھتا ہے۔اسے محسوس ہوتا کہ اسکے اندر ایسا سمندر ہے جس کاساحل نہیں، لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ اس میں کیسے تیرنا ہے۔

بعض عارفوں نے کہا کہ مہدی سے علم کے بارے میں پوچھا جائے، وہ خاموش رہتا ہے؟کیونکہ ہر لفظ اسے کم تر کر دیتا ہے سوائے اس لمحے کے جب حقیقت اسکے دل میں پھٹ پڑتی ہے۔وہ ہر چیز سے خالی تھا کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ اسے صرف وہی بھرے۔یہ کیسی عجیب سیرت ہے ایک نوجوان جو کچھ بھی نہیں رکھتا۔نہ کوئی اسناد، نہ کوئی حوالہ، نہ پیروکار، نہ کوئی روشن مستقبل لیکن جس لمحے اللہ چاہے، وہ شخص ہر چیز کو بدل دینے والا بن جاتا ہے۔

تبصرہ اور تجزیہ :سید عتیق الرحمن گیلانی

لوگوں کا ذہن خوابوں، پیشین گوئیوں ، مکا شفات اور محیرالعقول شخصیات کی طرف بہت جلد مائل ہوجاتاہے لیکن قرآن کی ان سادہ آیات سے بدکے ہوئے گدھوں کی طرح بھاگتے ہیں جسکے عظیم اور عام فہم احکام نے دورجاہلیت کی سپر طاقتوں روم اور فارس کو شکست دی ۔ تفسیر کے امام علامہ زمحشری صاحب کشاف سے لیکر فقہاء کی پچھاڑیوں سے بہت بدبوار بہتا ہوا دست لوگ نہیں دیکھتے مگر آپس کے جھگڑوں اور ان رازوں سے پردہ اٹھنے کے خواہاں رہتے ہیںجن کا کسی بھی عام شخص کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ طبل بجانے کیلئے دو طرف سے چھوٹی اور بڑی ڈنڈیاں مارنے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں قرآنی آیت کا غلط مفہوم بیان کیا اور نہ خود اپنی غلطی سے رجوع کی توفیق ہوئی اور نہ اپنے اور دوسرے مکتب کے علماء نے اس پر تنقید یا اصلاح کی کوشش کی۔ ایک دوسرے پر اپنے نکتہ نظر کے اختلاف کی وجہ سے کفر کے فتوے لگائیںگے لیکن قرآن کی بات پر اتفاق نہیں کرتے۔ مفتی منیر شاکرکو طلاق کا مسئلہ سمجھایا لیکن پھر بھی نہیں سمجھا۔ پشتون قومی عدالت میں 3طلاق ڈالوائی تو اگرPTM ہماری تحریرات کو نہ سمجھے تو سبھی کی طلاقیں منظور پشتین سمیت گرگئی ہیں۔ محسودقوم میں کچھ بے تعلیم لوگ ایسے ہیں جو طلاق کا مسئلہ منٹوں میں سمجھ گئے اور کچھ پڑھا لکھا طبقہ جن میں PTMکے قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹر کرنے والا طبقہ بھی شامل ہے میرے گھنٹوں سمجھانے کے بعد بھی نہیں سمجھا۔ ہوسکتا ہے کہ منظور پشتین کو بھی اپنے مذہبی طبقہ نے حلالہ پر مجبور کردیا ہو اسلئے کہ محسود داڑھی والے سہراب گوٹھ میں ہمارے اخبار کی بلاوجہ مخالف نہیں بلکہ حلالوں کے شغل سے وابستہ ہیں۔ جب تک کھل کر اعلان نہ کریں تو کتنے لوگوں کی عزتیں مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے باوجود لٹتی رہیں گی؟۔

نوٹ… اس آرٹیکل کے ساتھ ”المہدی المنتظر” اسلام ٹیوب Islam Tube کا آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

مہدی منتظر: ایک نوجوان سے جو نہ اپنا کوئی ماضی جانتا ہے ، نہ اس کے پاس کوئی ظاہری دلیل ہے نہ کوئی شیخ ہے نہ اُستاذ، ایک ایسے مرد تک جو دنیا کو بدل دیتا ہے (عنوان کا ترجمہ)
عربی خواب ۔درست خواب خوشخبری ہیں۔
امام مہدی کا بھائی