اسلامی شریعت کے نظام عدل کا حلیہ بگاڑ کر پوری دنیا کو ظلم وجور سے بھرنے کی ذمہ دارنام نہاد اُمت مسلمہ ہے۔
فروری 27, 2021
اسلامی شریعت کے نظام عدل کا حلیہ بگاڑ کر پوری دنیا کو ظلم وجور سے بھرنے کی ذمہ دارنام نہاد اُمت مسلمہ ہے۔ اگر اُمت کی اصلاح ہوگی تو پوری دنیا کی اصلاح میں دیر نہیں لگے گی۔ مولوی ظلم کی شریعت سے فائدہ اُٹھاتا ہے!
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اگر جبری و رضامندی کی بدفعلی پر چار افراد کی چشم دید گواہی ضروری ہو اور ان سے کم افراد کو گواہی دینے پر کوڑے مارے جائیں اور بدکار پاکدامن ہو تو پھر ماحول کس قدر بگڑجائیگا؟
دنیا نے مسلمانوں کی جابرانہ ذہنیت سے عدل کا نہیں ظلم وجبر کا نظام سیکھا ہے۔ آج اگر پاکستان میں شریعت کی درست تعبیر سامنے آجائے تو ہم ہی نہیں پوری دنیا بھی بدل جائے گی!
جب بنوامیہ نے خلافت کو اپنی لونڈی بنالیا اور پھر بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کے خاندانوں نے اپنی اپنی بادشاہت قائم کی تب پوری دنیا کے سامنے اسلامی اقتدار کا سورج بھی آب وتاب کیساتھ چمک رہا تھا۔ دنیا میں اس سے پہلے ادیان اور مذاہب کی بالکل مسخ شدہ شکلیںموجود تھیں۔ اسلام کا مذہب اورنظام عدل دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھا لیکن حکمرانوں کا طرزِ حکمرانی بہت بگاڑ اور فتنہ و فساد کا آئینہ تھا۔ مولوی حضرات کا مذہب بھی ظالم حکمرانوں کو راستہ دئیے جاتا تھا۔ شریعت کا حلیہ بگاڑنے میںبھی مذہبی طبقات کا بنیادی کردار ہوتا تھا۔ بنی امیہ کے یزید نے حضرت حسین کی کربلا میں شہادت پر انصاف فراہم نہیں کیا اور یہ اس کی اپنی فوج کی کاروائی تھی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کی لاش کو بھی مکہ میں چند دن لٹکائے رکھا جو حضرت ابوبکر کے نواسے تھے۔ دنیا نے اس سے یہی سبق سیکھ لیا کہ حکومت کے استحکام کیلئے ظلم وجبر کا انتہائی قدم بھی ایک مجبوری ہے آزاد مذہبی طبقے نے اس ظلم وجور کو شرعی جواز فراہم نہیں کیا تھا، البتہ اہل اقتدار کے حاشیہ برداروں کا ٹولہ اس کو اسلام کا تقاضہ قرار دیتا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ لوگوں نے بنی امیہ کو اپنے اقتدار سمیت بہت خراب انجام تک پہنچایا اور پھر بنوعباس اقتدار میں آگئے ۔ پھر ان کا حشر نشر ہوا اور ایک دن سقوطِ بغداد سے بہت برے انجام کو پہنچ گئے۔
جب دنیا میں یہ روایت بن گئی کہ ایک ظالم کو ختم کرنے کیلئے دوسرے ظالم نے اس سے زیادہ مظالم کے پہاڑ توڑ کر اقتدار حاصل کیا تو مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان تفریق مٹ گئی۔ اس وقت ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں کس طرح ایک بادشاہ نے اقتدار تک پہنچنے کیلئے دوسرے پر مظالم کے پہاڑ توڑے بلکہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ظالمانہ اقدامات کیساتھ ساتھ علماء ومفتیان نے شریعت کو بدلنے میں کیا کردار کیا تھا؟۔ جب مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے باپ شاہجہان کو جیل میں قید کرکے اپنے سارے بھائیوں کو قتل کردیا تو سرکاری مذہبی طبقہ اور میڈیا نے اس ظالمانہ اقدام کو کیسے جواز بخشا تھا اور شریعت میں کیا تبدیلی کر ڈالی تھی؟۔ وقت کے پانچ سو علماء ومفتیان نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کیا تھا جن میں حضرت شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم کے دستخط بھی تھے۔ جب ہمارے خلاف ڈیرہ اسماعیل خان کے ملاؤں نے مولانا فضل الرحمن کی ایماء پر یہ فتویٰ دیا تھا کہ ”مہدی کی بات کوئی مسئلہ نہیں لیکن امت کا اجماع ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور یہ شخص اس اجماع کو نہیں مانتا ہے اسلئے گمراہ ہے”۔ اس پر مولانا فتح خان صاحب نے دباؤ میں آکر تائید ی دستخط کئے تھے لیکن مولانا عبدالرؤف امیر جمعیت علماء اسلام ف اور شیخ محمد شفیع شہید امیر جمعیت علماء اسلام س اور تحفظ ختم نبوت کے امیر مولانا غلام محمد نے اس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ مولانا فتح خان سمیت ٹانک کے اکابر علماء کی ہماری کھلی تائید کے باوجود جس طرح مخصوص طبقہ ہمارے خلاف سرگرم تھاوہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
بہرحال یہاں بنیادی بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ” فتاوی عالمگیریہ ” میں یہ لکھ دیا گیا کہ ” بادشاہ پر قتل، زنا ، چوری، ڈکیتی اور ہر طرح کے مظالم ڈھانے کے باوجود کوئی شرعی حد نافذ نہیں ہوگی کیونکہ وہ دوسروں پر حد نافذ کرتا ہے ،اس پر کوئی حد نافذ نہیں کرسکتا ہے”۔
جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس نے بھی حاکموں اور محکوموں کیلئے جدا جدا قانون نافذ کردئیے۔ لوگوںنے مجبوری میں اسلئے ان قوانین کو قبول کرلیا کہ اکبر بادشاہ کے آئین اکبری سے فتاویٰ عالمگیریہ تک بادشاہوں نے امتیازی رویہ سجدہ تعظیمی سے لیکر قتل کو معاف کرنے تک کیا کچھ نہیں کیا تھا؟۔ غلام در غلام ریاستی مشینری میں پنپنے والے اوریا مقبول جان جیسے لوگ شریعت اور آزادی کی تڑپ ضرور رکھتے ہوں گے لیکن شب کور کیلئے رات کے اندھیرے میں کچھ دکھائی نہ دینا مرض ہے اور اس مرض کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب طلوع سورج سے دنیا میں رات کا اندھیرا بالکل ختم ہوجائے۔
جب حضرت امام حسین نے کربلا میں یزید کی بیعت سے انکار کرکے اپنی جان ، کنبے اور ساتھیوں کی قربانی پیش کرکے ذبیح اللہ کی طرح خواب کی تعبیر پیش کردی تو اس وقت کے شیعہ اور سنی دونوں نے صرف تماشائی بننے کا کردار ادا کیا۔ ظالم حکمرانوں سے ٹکرانا حضرات انبیاء کرام کی سنت ہے۔ اس سنت کو زندہ کرنا مشکل کام ہے،اسلئے کہ حکمرانوں نے کچھ بدقماش پال رکھے ہوتے ہیں اور جونہی کسی سے خطرہ محسوس کرتے ہیں تو فوج کشی سے لیکر بدمعاش اور غنڈے طبقے تک ایک اشارے پر سب کچھ کرگزرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ سوال اٹھانے کی جرأت بھی کسی میں نہیں ہوتی ہے۔ نوازشریف نے مجھے کیوں نکالا کی رٹ لگائی اور اس کو جرأت کا انتہائی قدم قرار دیا گیا لیکن نوازشریف سے کسی صحافی اور سیاستدان سے لیکر عدالت اور ایوانِ اقتدار تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ پارلیمنٹ میں لکھی ہوئی تقریر اور قطری خط لکھنے اور اس سے مکر جانے کی آخر کہانی ہے کیا؟۔
بہر حال ہمارا موضوع حالات کا مرثیہ پڑھنا نہیں بلکہ کچھ ایسے حقائق کی طرف توجہ مبذول کرانی ہے کہ اگر ہم نے بروقت اپنے مفاد کیلئے اس کی اصلاح کردی تو پاکستان کی حالت بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک وکیل نے بتایا کہ ایک مولوی نے ایک لڑکے کیساتھ زیادتی کی تو وہاں کے مفتی صاحب کوبلایا گیا تاکہ شریعت سے رہنمائی کرے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ ” دخول ثابت ہے مگر خروج نہیں”۔ یہ شریعت دین اسلام کی ترجمانی کرتی ہے یا مفتی صاحب کی اپنی خواہش کی وکالت کا آئینہ ہے؟۔ جامعہ دارلعلوم کراچی کے ایک فاضل میرے دوست ایرانی بلوچ نے بتایا کہ ایک عورت کا ایک مولوی نے حلالہ کیا تھا، جب کچھ دنوں کے بعد مولوی صاحب کا اس عورت سے سامنا ہوا تو اس سے پوچھ لیا کہ تجھے مزا آیا تھا، عورت نے کہا کہ نہیں۔ مولوی نے کہا کہ پھر تو آپ حلال نہیں ہوئی ہو،اسلئے کہ حدیث میں آتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کامزا چکھ لیں ۔ پھر دوبارہ اس کو لے جاکر معاملہ کرلیا اور پوچھا کہ اب مزا آگیا؟۔ عورت نے کہا کہ ہاں!۔ جب دوسروں کوپتہ چل گیا تو مولوی کو ڈانٹ دیا کہ یہ کیا خباثت کی ہے۔ تمہارے اوپر دو حق مہر کی رقم بھی ضروری ہے لیکن اس نے کہا کہ میری جیب میں ایک روپیہ تک نہیں ہے۔
یہ انفرادی معاملات بھی چھوڑ دیجئے۔ جب دارالعلوم کراچی سے فتویٰ دیا جاتا تھا تو آیات اور احادیث کو سیاق وسباق اور اصل حقائق سے ہٹاکر نہ صرف حلالے کا فتویٰ دیا جاتا تھا بلکہ شرعی گواہوں کی موجودگی اور فقہ کی کتابوں سے التقاء الخطانین کا حوالہ دے کر یہ تأثر دیا جاتا تھا کہ یہ کام مذہبی طبقہ کے علاوہ دوسرے کے بس کا نہیں ہے۔ جب ہم نے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی وضاحت کردی کہ دارلعلوم کراچی کے فتاویٰ میں اس کا بالکل غلط حوالہ دیا جاتاہے تو پھر انہوں نے فتوے کو اس بات تک محدود کردیا کہ ” تمہاری طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہے اورحلالہ ضروری ہے”۔ باقی لوازمات زبانی بتاتے ہیں تاکہ فتوے پکڑ میں نہیں آسکیں۔ طلاق سے بغیر حلالہ کے رجوع کا مسئلہ عوام وخواص پر بہت اچھی طرح واضح ہوجانے کے بعد بہت سے لوگوں کو ہم نے اس لعنت سے بچایا ہے۔
اس وقت ہمارے موضوع کا مقصد اپنے داخلی تنازعات پر گفتگو کرنا نہیں ہے لیکن اس تمہید سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس طرح وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان سے لیکر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، مفتی زر ولی خان اور سب اکابر واصاغر علماء و مفتیان نے سود کو جواز فراہم کرنے کے خلاف کتابیں لکھ دیں اور بالمشافہ سمجھایا تھا لیکن ریاست کے علاوہ عالمی قوتوں کی سرپرستی نے مفتی محمد تقی عثمانی کو شیخ الاسلام بنادیا ہے، اسی طرح سے پہلے بھی علمائِ حق کے کردار کو مسترد کرکے درباری ملاؤں نے ہردور میں اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے ، یہاں تک کہ اسلام دین نہیں رہاہے بلکہ مولوی کی خورد بین بن گیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے یوٹیوب پر ایک توہین آمیز فلم بن گئی تھی جس کی وجہ سے بہت سارے اسلامی ممالک میں احتجاجاً یو ٹیوب بند کردیا گیا لیکن یوٹیوب نے کوئی معافی نہیں مانگی اور آخر کار پاکستان، سعودی عرب اور ایران وغیرہ کو اپنا احتجاج ختم کرکے یو ٹیوب کو بحال کرنا پڑگیا۔ اب فرانس کے خلاف حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان سفیر کو نکالنے کی تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے لیکن ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا ہے کہ یوٹیوب کے بائیکاٹ کا کیا ہواتھا؟۔ ہمارا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ فرانس کا سفیر نکالنے کیلئے تاریخ پر تاریخ دینے کا حق کس کو ہے اور کس کو نہیں ہے؟۔ لیکن ایک ایسے موضوع کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ جس سے پوری امت مسلمہ کا ماضی ، حال اور مستقبل وابستہ ہے۔ اچھی قسمت ہماری یہ ہے کہ ہمارے قومی ترانے میں ”ترجمانِ ماضی، شانِ حال ، جان استقبال، سایۂ خدائے ذوالجلال” ہے۔ پاکستان اسلام کا مرہون منت ہے۔
فرانس نے اسلام پر نئی پابندیاں بھی لگادی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سلسلہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ ساتھ تما م غیر مسلم ممالک تک پھیل جائے۔ دنیا کی نمبر1پاک فوج نے دہشت گردوں سے نمٹنے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ نیٹو کو افغانستان اور عراق وغیرہ میں حاصل نہیں ہوسکی ہے لیکن جب دنیا کے میڈیا کے سامنے پاک فوج کے ترجمان کو یہ وضاحت دینا پڑتی ہے کہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کے کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں اور احسان اللہ احسان کے فرار میں ایک سے زیادہ فوجی ملوث تھے جن کو سزا ئیں دی جاچکی ہیں اور اس کی تفصیلات سے عنقریب ہم میڈیا کو آگاہ کرینگے تو دیکھنا یہ ہے کہ دنیا نے ہم پر ریاستی دہشت گردی کی تہمت لگائی ہے یا حقیقت ہے ؟۔فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے۔
دنیا یہ جانتی ہے کہ نائن الیون (9/11)سے لیکر دہشت گردی کے خاتمے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اپناکردار بھی پاکستان سے زیادہ مشکوک ہے لیکن پاکستان کو جرم ضعیفی کی سزا مل رہی ہے۔ جب تک پاکستان ایک مضبوط اور توانا پوزیشن والا ملک نہیں بن جاتا ہے تو کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتا ہے۔ہمارا اصل موضوع یہ بھی نہیں ہے لیکن اصل موضوع کیلئے یہ ایک ماحول بنانے اور تمہید کی بات ہے۔ اصل موضوع کی طرف تفصیلی رہنمائی اور نشاندہی اندرونی صفحات پر موجود ہے یہاں صرف اس کا خلاصہ اور ان حقائق کی نشاندہی کرنا مقصد ہے جس کی وجہ سے امت مشکل کا شکار ہوسکتی ہے۔
ہمارے ایک مہربان سپین جماعت (سفید مسجد) مردان کے خطیب وپیش امام علامہ پیر شکیل احمد قادری صاحب نے کہا کہ ” شہیر سیالوی اس وجہ سے مصیبت میں آگئے ہیں کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے کے خلاف اقدام اُٹھایا تھا”۔ ہمیں اس کہانی سے بالکل بھی اتفاق نہیں تھا لیکن اُمت کو مشکلات سے نکالنے میں کردار ادا کرنا ہوگا اور سب اس میں اپنا حصہ اس وقت ڈال سکتے ہیں کہ جب ہم اس کی نشاندہی میں بخل نہ کریں۔
حضرت عائشہ پر بہتان لگانے سے زیادہ اذیت رسول اللہۖ کو طائف کے اندر پتھروں کی بارش سے بھی نہیں ملی تھی۔ جس کا جتنا بڑا رتبہ ہوتا ہے ،اس کی آزمائش بھی اتنی بڑی ہوتی ہے۔ پہلی اُمتوں میں اہل حق کو آروں سے چیرا گیا۔ اسلام کی پہلی شہیدہ حضرت سمیہ سے کیا سلوک ہوا؟۔ ایک ٹانگ ایک اونٹ اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھ کر زندہ خاتون کو اس طرح جاہلوں نے شہادت کی منزل پر پہنچایا تھالیکن حضرت عائشہ پر بہتان کا معاملہ حضرت عائشہ، رسول اللہۖ اور حضرت ابوبکر کیلئے اس سے بھی زیادہ اذیتناک تھا۔ بچہ جننے کی تکلیف ہر عورت کوہوتی ہے لیکن حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ کو جن لیا تو پکار اُٹھی کہ اے اللہ مجھے میری ماں نے جنا نہ ہوتا اور میں اس سے پہلے مر جاتی اور میرا نام ونشان بالکل مٹ کر لوگوں کے ذہنوں سے نکل چکا ہوتا۔
حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو اس بہتان سے پاک قرار دینے کیلئے کیا یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا جو مولوی کی خود ساختہ شریعت کا لب لباب ہے کہ اگر چار گواہ نہیں لائے تو پھر جس کے خلاف گواہی دی جائے وہ پاک ہے اور گواہی دینے والے مجرم ہیں؟۔
قرآن وسنت میں حضرت عائشہ کی برأت کیلئے مولوی کی خود ساختہ شریعت کا سہارا نہیں لیا گیا ، جس میں چوری اور سینہ زوری کا تصور اُبھرتا ہے بلکہ ایک ایسا عادلانہ تصور دیا گیا ہے کہ دنیا کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے تو نہ صرف اسلام کے چہرے سے اس اجنبیت کی کالک ہٹ جائے گی بلکہ دنیا میں پاکدامنی اور نظامِ عدل کا ایک ایسا تصور قائم ہوگا کہ پوری دنیا کو ظلم وجور اور بے حیائی سے پاک کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ انشاء اللہ
مولانافضل الرحمن ووٹ مانگتا ہے تو لوگوں سے جمعہ کی تقریر میں کہتا ہے کہ آپ سمجھتے ہو کہ اسلام سخت مذہب ہے۔ اگر دوافراد بدکاری کے مرتکب ہوں۔ ایک آدمی دیکھ لے تو بھی کوئی سزا نہیں ۔ دو آدمی دیکھ لیں تو بھی کوئی سزا نہیں اور تین آدمی دیکھ لیں تو بھی کوئی سزا نہیں ۔ بلکہ بیک وقت چار آدمی یہ ماجراء دیکھ لیں اور اس میں بھی شفاف آئینے کی طرح جو الٹراساونڈ کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے اور الٹرا ساونڈ لگاکر دیکھنا معتبر بھی نہیں ہے۔
حالانکہ یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بہت بڑی کالک ہے جس کو واضح کرنا ہے
NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat
لوگوں کی راۓ