پوسٹ تلاش کریں

عبرت آموزتاریخی اور معروضی حقائق کو نظرا نداز نہ کریں

عبرت آموزتاریخی اور معروضی حقائق کو نظرا نداز نہ کریں اخبار: نوشتہ دیوار

صلح حدیبیہ کے معاہدے پر صحابہ کرامؓ جذباتی ہورہے تھے لیکن رسول اللہﷺ نے اپنی صوابدید پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرکے عالم انسانیت کو حوصلے کا زبردست سبق سکھایا، فتح مکہ کے موقع پر دشمن زیردست تھے مگر رسول اللہﷺ نے دشمن سردار ابوسفیانؓ کو عزت بخشی، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کاش ! نبی ﷺ کے پاس پہنچنے سے پہلے میرے ہاتھ لگ جاتا تو اسکی گردن اڑا دیتا، جب حضرت ابوبکرؓ کی خلافت قائم ہوئی تو حضرت ابوسفیانؓ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ ’’ ابوبکرؓ ایک کمزور قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اسکو مل کرہٹاتے ہیں، آپ خلیفہ بن جائیں، میں تمہاری مدد کرتا ہوں‘‘۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’ابھی تک تمہارے دل سے اسلام کی دشمنی نہیں نکلی ہے؟‘‘۔ حضرت عمرؓ نے امیرمعاویہؓ کی صلاحیت کی وجہ سے وہ ذمہ داری سپرد کردی ،جس پر پہلے سے ایک مکی صحابیؓ مأمور تھے، جن کو رسول اللہﷺ نے مقرر کیا تھا۔
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل نے اسلام قبول کیا تو دل میں بھی باپ کی شکست پر خفا نہ ہوئے اور نہ اپنی اولاد میں دشمنی کا کوئی خواب چھوڑا، اسلئے کہ ابوجہل مردانہ وار لڑا اور بدر میں قتل ہوا، لڑنے میں کوئی مارا جائے یا دوسرے کو مار دے، اس میں عزت کی خرابی کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے، اسکے برعکس ابوسفیانؓ کے قصے روایات کا حصہ ہیں، یزید نے بھی ضرور سنے ہونگے، اسلئے کربلا کے واقعہ کے باوجود اس کا دل ٹھنڈا نہ ہوا، اس کے علاوہ روایات میں اہلبیت کے مقابلے میں بھی سفیانی کا ذکر ہے ایک روایت میں تین سفیانی کے مقابلے میں تین مہدیوں کا ذکرہے۔
جنرل ایوب نے میر جعفر کے پوتے سکندر مرزاکو صدارت سے ہٹاکر بنگال کو علیحدہ کرنے کی بنیاد ڈالی، ذوالفقار علی بھٹو نے لسانیت کو ہوا دینے کی بنیاد رکھ دی ۔ جنرل ضیاء نے فرقہ واریت و لسانیت کی آبیاری کی، پرویزمشرف نے تناور درختوں کے پھل کھائے، دنیا نیوز کے اینکرکامران شاہدنے ایک پروگرام میں دکھایا کہ ISI ذوالفقار علی بھٹو کے مرنے پر اس کے ختنہ کی تصویر لے رہے تھے تاکہ اس کو ہندو اور کافر ثابت کیا جاسکے۔ یہ بھونڈی حرکت اس قائد عوام سے روا رکھی گئی جس نے بڑی تعداد میں انڈیا سے گرفتار فوج کو آزادی دلائی تھی اور کراچی میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی کا شاندار استقبال کروایا تھا۔ جنرل ضیاء کے سیاسی فرزند اور پاک فوج کے خود ساختہ رہبر صحافی ہارون الرشید میں قربانی کااتنا جذبہ تھا کہ کامران شاہد کو کہہ سکتے تھے کہ کیمرہ مین نے اصل میں انکے دماغ کا ایکسرے کیا ہے ، یہ ا سکے سر کی تصویر تھی، ہارون الرشید تو اب بھی کہے گا کہ’’ ختنہ سے کیا ہوتا ہے ،بھٹو تو ہندو تھا‘‘۔
کامران شاہد کے پروگرام میں جوابدہ کے افتخاراحمد نے جنرل راحیل شریف کی تعریف شروع کی تو ہارون الرشید کا فق چہرہ دیکھنے کے قابل تھا، عجیب قسم کی آہ بھی نکلی مگر جب افتخاراحمد نے کہا کہ جنرل راحیل کو توسیع نہیں لینی چاہیے تو ہارون کی جان میں جان آئی۔ شہبازشریف کامران کیانی کے ساتھ کرپشن کرپشن کھیلتا تھالیکن ہارون الرشید اور شریف برادران کو صرف زرداری کی کرپشن کا وایلا مچانا آتاتھا۔ اگر عوام کو شعور نہیں دیا گیا تو کینسر کی حیثیت رکھنے والے سیاستدان اور چاپلوس صحافی پاکستان کو ہر محاذ پرکافی اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائیں گے۔ جو صحافی ہیجڑوں کی طرح حرکات کرتے ہیں ان کی وجہ سے عوام میں کبھی شعور بیدار نہ ہوگا۔
جب جنرل نیازی مرحوم نے ہتھیار ڈال کرانڈیا کے سامنے پاکستان کی ناک کاٹ دی تو حکومت اور ریاست اس کو اپنے ملک میں لانے کی بجائے بھارت سے سیدھا کسی دوسرے ملک میں بھیج دیتے، کراچی میں استقبال کی بجائے چند ٹماٹر کے وار بچوں سے بھی کروادئیے جاتے تو عوام کا شعور اجاگر ہوتا۔جنرل نیازی کے استقبال کیلئے کراچی کے جو بے شعور عوام نکلے تھے ،یہی تو الطاف حسین کے مرید ہیں؟۔ آدھا ملک ڈبونے سے زیادہ کیا نشہ کے نعروں کا حساب ہوسکتا ہے؟۔جب ریاست شعور بڑھانے کا اہتمام کریگی پھر پیروں، فقیروں اور لیڈروں کے جھانسے میں بھی لوگ نہیں آئیں گے۔ صحافیوں نے پیسہ نہیں کھایا ہے تو کچھ اس طرح کا سوالنامہ مرتب کریں کہ ایم کیوایم کے لوگوں کو عدل واعتدال نظر آئے۔
طالبان نے پورے پاکستان میں قتل وغارتگری کا بازار گرم کرکے جی ایچ کیو، آئی ایس آئی ملتان، مہران کراچی سے لیکر کیا کچھ نہیں کیا؟۔ اس وقت پاکستان کا درد رکھنے والے وہ رہنما کہاں تھے جو ہاتھ میں تسبیح لیکراداکارہ کی طرح میک اپ کرکے سج دھج کر ٹاک شوز میں بیٹھتے ہیں؟۔ ڈاکٹر عامر لیاقت پر رحم آرہا تھاجب یہ منظر دکھایا جاتا تھا کہ صحافی اس کا چھلکا اتار رہے ہیں، اسی سے مجبور ہوکر اعلان کردیا کہ ’’میں نے سیاست چھوڑ دی ہے‘‘۔ اگر وہ اتنی بات کرتا کہ میں فوج اور ایم کیوایم کے درمیان دوریاں ختم کرنا چاہتا تھا لیکن یہ میرے بس میں نہیں،یہ میری اوقات نہیں کہ کردار ادا کرسکوں تو بہتر ہوتا۔ اس نے ایک آنکھ ایم کیوایم کے کارکنوں کو ماری کہ ’’ میں غدار ہوں، اپنی اوقات دیکھ لی، تمہارے لئے کام نہیں کرسکتا‘‘تو دوسری اسٹیبلشمنٹ کو ماری کہ ’’بول نہیں سکتا لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، ایم کیوایم الطاف کے بغیر چل نہیں سکتی اور رابطہ نہ رکھنا بس میں نہیں‘‘۔
اب تو لوگوں کو یقین ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت پر دباؤ پڑجائے کہ تم مذہب کا نام کیوں لیتے ہو؟۔ عالم آن لائن پروگرام کیوں کیا؟۔ تو بیگم نواز ش علی کی طرح خاتون کا کردار ادا کر کے بہترین ڈانس بھی دکھائے گا اور کہے گا کہ میں تو مذہب کو بھی اسی پیشے کی طرف ہی لارہا تھا۔ اگر صحافی اسکے پیچھے نہ پڑتے تو ایم کیوایم میں رہ کر اچھا کردار ادا کرسکتا تھا۔ خواجہ اظہار سے ترجمانی کی اس میں زیادہ صلاحیت ہے مگر صحافیوں نے اس کو نہ ادھر کا چھوڑا نہ ادھرکا، حالانکہ دونوں کو ضرورت تھی۔
نوازشریف نے بھارت میں جاکر کھلے عام اپنے فوج کی مخالفت کی تھی، کیا یہ رویہ الطاف حسین کی طرف سے اپنے کارکنوں میں نشہ سے دھت ہوکر بکواس کرنے سے کم ہے؟۔ عمران خان نے اسوقت جب ضرب عضب آپریشن ابتدائی مرحلہ میں تھا، دھرنے کے دوران کہا کہ ’’پنجاب پولیس کو ہم طالبان کے حوالہ کردینگے‘‘۔ حکیم اللہ محسود کی ویڈیو کلپ ’’سلیم صافی‘‘ نے جرگہ میں دکھائی تھی جب وہ قاضی حسین کو مسلمان نہیں قوم پرست قرار دے رہا تھا، اسلئے کہ امریکہ کے اتحادی افغان فوج اور پاک فوج میں تفریق کرنا اسلام نہیں قوم پرستی ہے لیکن طالبان قیادت سے شہباز اور چوہدری نثار کی ہمدردیاں کسی تعارف کی محتاج نہ تھیں۔ چوہدری نثار نے بار بار میڈیا پر اس بات کو دہرایا کہ پرویزمشرف چیف آف آرمی سٹاف تھے تو لندن میں الطاف بھائی کو مروانے کا منصوبہ بنارہے تھے مگر میں نے روکا کہ ریاست بدنام ہوگی۔
کراچی میں پولیس اور میڈیا پر ایم کیوایم کے کارکنوں نے حملہ کیا اور اسلام آباد میں دھرنے کے دوران پولیس کے افسر اور پی ٹی وی پر بھی حملہ کروایا گیا لیکن عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری پر انگلیاں نہیں اٹھائی گئیں۔ الطاف حسین کا دماغ بہت خراب ہے اسلئے اپنوں نے بھی اس سے دستبرداری کا اعلان کیا لیکن وہ سیاست میں نوازشریف ، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرح نہیں ۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو دیکھ لیں ، جس کا شمار ایم کیوایم کے بانیوں میں ہوتا ہے، مشکل حالات میں متوازن فیصلے کرکے پاکستان میں سیاست کی نئی بنیاد رکھ دی ہے۔
اگر جنرل راحیل شریف الطاف حسین کو پیار سے پاکستان لائیں تو اس کو ایسا ہی ماحول مل جائیگا جس سے نہ صرف سندھ کے شہری علاقوں بلکہ پاکستان میں بھی نئے انداز کی سیاست کا آغاز ہوجائیگا۔ جب طالبان کو موقع دیا گیا تو ایم کیوایم کے قائد کو بھی ضرور یہ موقع ملنا چاہیے۔ امید ہے کہ مثبت تبدیلیاں اسکے ذریعہ آئیں گی۔عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟