پوسٹ تلاش کریں

احمد شاہ ابدالی کی پہلی دُرّانی آزاد پشتون ریاست تاریخی حقائق کی روشنی میں

احمد شاہ ابدالی کی پہلی دُرّانی آزاد پشتون ریاست تاریخی حقائق کی روشنی میں اخبار: نوشتہ دیوار

احمد شاہ ابدالی کی پہلی دُرّانی آزاد پشتون ریاست تاریخی حقائق کی روشنی میں

کانیگرم میںسید اور یزید کی اولاد سُفا خیل کے درمیان معرکہ آرائی سے خلافت راشدہ کادوبارہ آغاز ہوگا؟ یزیدت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا ہوگا۔

ڈھٹائی کی اگر کوئی حد ہے تو اس سے بھی پرے ہو تم
وہی جڑ کاٹتے ہو جس کے ہونے سے ہرے ہو تم

احمد شاہ ابدالی کا تعلق ملتان سے تھا۔ جس نے پختون قوم کی پہلی آزاد ریاست قائم کی۔ ابدالی قبیلہ درانی کا حصہ تھا اسلئے احمدشاہ ابدالی نے اس کا نام درانی حکومت رکھ دیا۔ درانی قبیلہ صحابی قیس عبدالرشید کی نسل سے ہے۔ملتان کے بہادر لوگوں نے ایران اور مغل بادشاہوں کے علاوہ چنگیز خان کی مزاحمت میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان کو فتح کیا اور پھر احمد شاہ ابدالی نے پہلی مرتبہ پختون قوم کی دنیا میں آزاد حکومت قائم کردی۔ ایک طرف روس پیش قدمی کررہاتھا اور بخارا وسمر قند اسلامی دنیا ہڑپ کرتا جارہا تھا تو دوسری طرف برطانیہ نے ”ایسٹ انڈین کمپنی ” کے نام سے اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ جب شجاع پاشا کی افغانستان میں حکومت اندورنِ خانہ چپقلش کا شکار ہوگئی تو برطانیہ کی چاہت تھی کہ ایسی حکومت افغانستان میں قائم ہو کہ روس یہاں قبضہ نہ کرسکے۔ جب ایران نے افغانستان کے ہرات پر قبضہ کرلیا تو برطانیہ نے دوست محمد خان کو پیشکش کی کہ ” اپنی افواج بھیج کر ایران کو ہرات سے نکال دیں گے”۔ افغان بادشاہ دوست محمد خان نے یہ شرط رکھی کہ راجہ رنجیت سنگھ سے خیبر پختونخواہ و بلوچستان کے علاقے وا گزار کرکے دے تو یہ پیشکش قبول ہے ۔ برطانیہ نے کہا کہ راجہ رنجیت سنگھ دوست ہے، اس کے خلاف مدد کی شرط قبول نہیں ہے اور خلیج فارس کے راستے سے اپنی افواج کو ہرات پہنچادیا اور ایران کو وہاں سے مار بھگایا۔ برطانیہ کو خطرہ تھا کہ اگر ایران نے افغانستان کو کمزور کیا تو روس قبضہ کرلے گا۔ پھر1839سے1842تک رنجیت سنگھ کی مدد سے افغانستان پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا لیکن بہت بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ امیر دوست محمد خان کی چاہت تھی کہ روس اور برطانیہ کی پروکسی کا فائدہ اٹھاکر اپنا اقتدار قائم رکھے۔1863میں اس کی وفات کے بعد امیر شیر علی بادشاہ بن گیا جو برطانیہ کا سخت مخالف تھا۔1877میں محسود قبائل کا وفد سیدامیرشاہ کی قیادت میں گیا ۔ پھر چند ماہ بعد بیٹنی قبائل کا وفد سیداحمد شاہ کی قیادت میں گیا۔ امیر شیر علی نے1878میں روس کا وفد کابل بلایا اور پھر برطانوی ہند کے انگریز حکمران نے مطالبہ کیا کہ ہمارا وفد بھی آئیگا لیکن امیر شیر علی نے مستر د کردیا۔ جس کے بعد انگریز نے دوبارہ افغانستان پر قبضہ کرلیا اور پھر دوست محمد خان کے بیٹے یعقوب خان سے معاہدہ کیا۔ برطانیہ کی طرف سے سالانہ6لاکھ گرانٹ طے ہوا۔ افغانستان کی خارجہ پالیسی برطانوی ہند کی پابند بنادی۔ پھر گرانٹ12لاکھ اور آخر میں18لاکھ سالانہ کردی ، ڈیورنڈ لائن کے معاہدہ پر دستخط کرائے ۔ یہ معاہدہ1833میں رنجیت سنگھ اور شجاع پاشا کے درمیان ہوا تھا کہ رنجیت سنگھ شجاع پاشا کو افغانستان کے اقتدار پر بٹھانے میں فوجی طاقت سے مدد کرے گا اور اس کے عوض خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ان علاقوں کو رنجیت سنگھ کے حوالے کرے گا۔ یہ مقبوضہ علاقہ رنجیت سنگھ نے طاقت کے زور سے فتح کیا تھا۔ پھر انگریز نے رنجیت سنگھ کے بعد قبضہ کرلیا۔ پشتون قوم پرست اور مذہبی طبقے میں نظریاتی کشمکش رہتی ہے جس کی بڑی بہترین ترجمانی شاعرعبدالباری جہانی نے کی ہے۔
”ملا اور پشتون” کے عنوان سے جس طرح کی شاعری کی ہے تو دل چاہتا ہے کہ ملا کی جگہ پشتون قوم پرست بہت اچھا ہے۔ ملا کے بارے میں کہا کہ بہت تقویٰ دار تھا۔ جہنم کے عذاب کا بتاتا تھا کہ کیسے بچھو اور سانپ ہوںگے۔ ایک سانپ کے70ہزار سر اور ایک سر کے70ہزار دانت ہوں گے۔ جنت میں حوروں کی فوجیں ہوں گی اور غلمان خدمت گزار کھڑے ہوں گے اور گھوڑوں کی دوڑ ختم ہوگی مگر ایک ایک جنتی کی زمین ختم نہیں ہوگی۔ملا بہت مقبول تھا ،لوگ بڑی تعداد میں اس کی بات سنتے تھے اور اس کے گرویدہ تھے۔ پشتون نے کہاکہ جب جنت میں کوئی دشمنی نہیں ہے، اپنے عزیزوں کے ساتھ اصل اور کم اصل کا جھگڑا نہیں۔ آباء واجداد پر فخر نہیں اور قتل وغارتگری نہیں ہے تو پھر جنت میں مُلا جائے گا یا مرزا ۔ یا کوئی بے غیرت ۔ پشتون کو مفت کی روٹی اچھی نہیں لگتی۔ جب تک بندوق ، گولیاں اور چیلنج کا سامنا نہ ہو تو ایسی زندگی مجھے نہیں چاہیے۔
پشتون قوم کی پہلی آزاد ریاست احمد شاہ ابدالی سے شروع ہے ۔ جو ایرانی فوج کا عام سپاہی تھا پھرقابلیت سے سپاہ سالار بن گیا اور پھر ایک آزاد افغانستان کی سلطنت قائم کردی تھی۔ افغانستان کے بادشاہوں میں دو کمزوریاں ہمیشہ رہی ہیں ایک آپس کی قتل وغارت گری اور بد اعتمادی اور دوسرا بیرون ملک سے مدد وامداد کے ذریعے اپنے اقتدار کا قیام اور اپنے لوگوں کو دبانے اور کمزور کرنے کی بدترین سازشیں۔ اسلام اور پشتون ولی کا استعمال بھی مفادات کیلئے کیا ہے۔ عبدالصمد خان شہید اور خان عبدالغفار خان کے بچوں اور عام پشتونوں میں بہت فرق تھا۔ ایک طرف تعلیم یافتہ ، مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے اور دوسری طرف روٹی کو ترسنے والے جاہل پشتون تھے۔ لیڈر عوام میں سے نہ ہو تو پھر فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔یا توپشتون قوم کی بیٹیاں اور بیگمات بھی تعلیم وشعور میں قیادت کے درجے کوپہنچتے اور یا پھر قیادت کی اولاد بھی انہی کی طرح ان پڑھ ،جاہل اور غربت کی لیکر کے نیچے رہتے۔ اقبال نے باغی مریدکا کہا تھا کہ
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا چراغوں سے ہے روشن
اگر پشتون عورت کو حقوق اسلام اور غیرت کی بنیاد پر دئیے جاتے تو عالمی دلالوں ،مقامی قذاقوں ، بھڑوہ گیری سے نجات ملتی۔اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور اپنا حال درست کرنا ہوگا اور اپنے بہتر مستقبل کیلئے ایک لائحۂ عمل تشکیل دینا ہوگا۔تاریخ مرتب کرنی ہوگی کہ پختونوں سے کیا غلطیاں ہوئیں؟ ۔ ہر چیز دوسروں کی گردن پر ڈالنے سے اصلاح نہیں ہوتی بلکہ تکبر و غرور اور اکڑ پن سے زوال کی طرف معاشرہ جاتا ہے۔ اگر موٹر سائیکل ، گاڑی اور جہاز کا سیلینسر خراب ہوجائے تو اس کے ٹھیک کرنے سے موٹر سائیکل اور گاڑی چلے گی اور جہاز بھی زبردست اُڑان بھرے گا۔ عوام میں زوال کی انتہاء ہوگئی ہے لیکن جس دن ان کے سیلینسر کھل گئے تو پھر تخریب وفساد سے نکل کر تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہونا شروع ہوجائیں گے۔ قبض والے کو پچکاری لگے تو مرنے سے بچت ہوجاتی ہے۔
امیر امان اللہ خان نے وزیرستان میں برطانیہ پر حملہ کیا تو بھاگتے ہوئے انگریز فوج کو قتل کرنا آسان تھا مگر انکے ساز و سامان اور راشن کی طمع میں قتل نہ کر سکے۔ بدرکیلئے نبی ۖ اور صحابہ مال بردار قافلے کی غرض سے گئے لیکن وہاں اپنے سے کئی گنا لشکر کا سامنا اللہ نے کرادیا تو فتح سے نواز دیا ۔البتہ فدیہ لینے کا مشورہ دینے پر بہت سخت ڈانٹ بھی پلادی تھی۔
لاہور کے صحافی انوار ہاشمی نے وزیرستان پر کتاب لکھ دی تو ان کی مہربانی ۔ بہت حقائق بھی پیش کردئیے۔ البتہ اس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پختونوں کو وحشی کی جگہ مفاد پرست لکھنے میں حرج نہیں لیکن جنگ عظیم دو ئم میں جرمنی کیخلاف آل انڈیا مسلم لیگ نے انگریز فوج کی غیر مشروط حمایت کی۔ کانگریس نے حمایت کیلئے آزادی کی شرط لگائی تھی۔ تاریخ سچی واضح کرنا چاہیے کہ انگریز نے کانگریس کا مطالبہ نہیں مانا اورانکے قائدین کو جیلوں میں بند کردیا مگر کیا جنگ میں فوج کی شمولیت نے آزادی دلائی ہے؟۔یا مسلم لیگ خدا واسطے انگریز کی پٹھو تھی؟
صحابہ کرام میں بدری صحابہ کے درجات بلند ہیں مگرقرآن میں ان کو ڈانٹ اسلئے پڑی کہ انہوں نے موودة فی القربیٰ کے جرم کا ارتکاب کیا تھا؟۔ موودة فی القربیٰ کیا ہے؟۔ : قل لا اسئلکم علیہ اجرًا الا الموّدة فی القربیٰ ” کہہ دو کہ میں تم سے اس پر اجر نہیں مانگتا مگر قرابتداری کی محبت”۔
اگر قریش مکہ قرابتداری کی محبت کے مطابق سلوک کرتے تو مدینہ ہجرت اور مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے حسد سے کنویں میں ڈالا۔ بدر میں نبی ۖ کے چچااور داماد کا لحاظ کرکے قتل نہیں کیا اور پھر فدیہ لیکر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے فرمایا: ماکان للنبی ان یکون لہ اسریٰ حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید اللہ لاٰخرة ” نبی کیلئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہائے ۔ تم لوگ دنیا کے معاملات چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔
مشرکین مکہ دشمنانِ اسلام نے فطری قرابتداری کے جذبے کا لحاظ نہیں رکھا تو اللہ نے رسول اللہ ۖ سے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ میں اپنی تحریک پر کوئی معاوضہ نہیں لیتا لیکن کم ازکم قرابتداری کی فطری محبت کا تو لحاظ رکھو۔ دوسری طرف بدر میں جب مسلمانوں نے اس فطری محبت کا لحاظ رکھا تو ڈانٹ پڑگئی۔ یہی وہ اعتدال کا جذبہ ہے جو صراط مستقیم ہے جس کو نماز کی ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے اندر اللہ سے ہم مانگتے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ، مغل ، خاندان غلاماں ،درانی، رنجیت سنگھ، انگریز اور موجودہ حکمران تک اعتدال کا لحاظ رکھنا ایک فرض تھا اور اُحد میں مسلمانوں کو زخم پہنچا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کا بہت سخت بدلہ لیں گے۔ اللہ نے کہا کہ ”کسی قوم کے انتقام کا جذبہ یہاں تک نہ ابھارے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ” ۔
آدمی غلطی نہیں مانتا تو اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ کانیگرم میں قبائلی جائیداد کا تعلق موروثی نظام سے ہے۔ جو نفع ونقصان کی بنیاد پربھی ہوتا ہے اور اخلاقی اقدار کے رہینِ منت بھی۔
کانیگرم پہاڑی علاقہ میں ہم پیروں کا آٹھواں حصہ ہے۔ سوال ہے کہ آٹھواں کب سے ہے؟۔ ہمارامرکزی کردار تھا۔ پیسوں کے لحاظ سے مضبوط تھے ، نقصان کا آٹھواں حصہ اٹھاتے تھے مگر نفع نہ اٹھاتے ۔ جنگلات کی کٹائی کھلتی تھی تو ہم لکڑیاں کاٹنے کے بجائے خریدتے۔ کانیگرم کی عوام اسلئے اپنے حدود سے زیادہ ہماری عزت وقدر بھی کرتی تھی۔ عزیزوں کی قبریں تھیں اور نہ موروثی جائیداد۔ جو کچھ ہے خریدا ہواہے یا ہماری عطا ہے۔سید تو دور کی بات برکی و پشتون روایت پر پورے نہیں اترتے۔انکے کرتوت سے ہم بھی بدنام ہوگئے ہیں۔دَم تعویذ بیچنے اور بدمعاشی کی ہر حد پارکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
میرے آباء واجداد نے گدی نشینوں کا نظام نہیں بنایا۔ جو کردارونسل کی بدولت بابائے قوم کا درجہ رکھتے تھے۔ قبائلی لڑائی کے فیصلوں پر عمائدین و علماء باقاعدہ اجرت لیتے تھے۔ ہمارے آباء واجدادنے ہمیشہ بغیر اجرت کے فیصلے کئے ہیں۔
میرے والدکی7پھوپیاں تھیں۔ سبحان شاہ کے تین بیٹے صنوبر شاہ، مظفر شاہ ، منور شاہ کی بیگمات۔ چراغ شاہ کی والدہ جو ڈاکٹر آدم شاہ کے والد تھے ۔محمد علی شاہ کی والدہ جو شیر علی شاہ، نثار (ٹاپو)اور اقرار شاہ کے والد تھے۔ باغ ماما پیر کی والدہ ۔
کانیگرم کی رہائشی پھوپیوں کو جائیداد نہ دی مگر تنگی بادینزئی پھوڑ سے آنے والی تینوں پھوپیوں کو کانیگرم میں زمینیں دیں۔ منورشاہ ،اسکے بیٹے نعیم شاہ ، پوتے پیرخالام کے پا س رہائش اور زمین تھی ۔ مظفرشاہ اسکے بیٹے میر محمد شاہ کے پاس کانیگرم کی زمین پر گھر ہے اور پیر کرم شاہ و سرور شاہ کے پاس زمینیں ہیں۔ صنوبر شاہ کے بیٹوں سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین شاہ کو جو زمین دی تھی وہ انہوں نے چھوڑی جو ہمارے پاس ہے۔ مگرمیرے نانانوسر باز سلطان اکبر شاہ نے مرکزی گھربیچ دیا۔ تین بھائیوں کو گھر بنانے کیلئے میرے دادا سیدامیر شاہ بابا نے پیسہ دیا تھا۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔
کانیگرم کا ایک مشہور بدمعاش مغوب شاہ تھا ،جس نے ان بے وطن یتیموں سے لڑائی کی تو میرے پردادا سید حسن شاہ بابو نے کہاکہ اس کو کالی رات کی بلا کھائے گی اور پھر اس کی بیگم کو بھی اپنے عقد میں لوں گا اور پھر ایسا ہی ہوگیا تھا۔
سبحان شاہ کے یتیموں کو ہم نے سنبھالا تھا، پھر ان کو چوہوں کی طرح شہر کی بدمعاش بلیوں سے بچایا تھا۔ پھر جب انہوں نے اپنی جائیداد خریدی اور اپنے گھر بنانے کیلئے ہمت کی تو ہم نے بھیڑیوں سے ان کو بچایا۔ ہمارے بل بوتے پر شیر بننے والے چوہوں کی اپنی فطرت نہیں گئی ، جہاں بھی موقع ملتا ہے تو اپنے محسنوں کے پروں کو کترڈالتے ہیں۔
مظفر شاہ کے بیٹوں نے کوڑ کی زمین محمد علی شاہ کے پیسوں سے خریدی جب ان سے7ہزار کی رقم مانگ لی تو انہوں نے کہا کہ شیر علی شاہ کی تعلیم پر ہم نے خرچ کردئیے۔ ابھی تک شیر علی شاہ اور اس کے بھائی نثار ٹاپو اپنے حق کو حاصل نہیں کرسکے اور پرائے حق پر کوڑ کی زمین میں سبھی پریشان ہیں۔ فیروز شاہ نے میر ے چچاسید انور شاہ سے600روپے پہلے لئے تھے کہ سستی زمین خرید کر دیتا ہوں۔ پھر فیروز شاہ نے زمین اپنے لئے خرید لی اور پیسے یہ کہہ کر واپس کئے کہ کھلے دوں یا بندے نوٹ؟۔ سید ایوب شاہ کے پیسے پیر فاروق شاہ نے ہڑپ کرلئے جو اس کے بچوں نے اینٹ مارنے کے زور پر زمین پر قبضہ کیا۔ جہاں بھی جس کو موقع ملا اور بس چلاہے تو فراڈ اور دھوکہ دیا ہے۔
ماموں غیاث الدین نے مہمان ماموں افغان مہاجرین کو بھی نہیں بخشا۔ یہ لوگ اس کو بہادری اورکمال فن سمجھتے ہیں۔
ہمارے آباء واجداد نے چوہوں کیساتھ احسان کیاتو طاقت پرواز سے محروم ہوگئے۔ انکے کرتوت اور بداعمالیوں کے نتائج سے ہم بدنام ہوگئے اور لوگوں کی نظروں میں جو قدرومنزلت رکھتے تھے وہ سبھی کھودیا اور آخر کار ان کی بدولت طالبان نے بھی ہمیں مار دیا تھا۔ جب طالبان کو پتہ چلا کہ انہوں نے غلط جگہ ہاتھ ڈالا ہے تو پوری قوم کے ساتھ معافی کیلئے بھی آگئے۔
ایک چوہے نے پیر سے کہا کہ بلی تنگ کرتی ہے بلا بنادو۔ پیرنے شوف کیا تو چوہا بلا بن گیا۔ پھر آیا کہ کتے تنگ کرتے ہیں کتا بنادو۔ پیر نے کتا بنادیا۔ پھر کہا کہ بھیڑیا بنادو،پیر نے بھیڑیا بنادیا اور پھر کہا کہ آئندہ نہیں آؤں گا مجھے شیر بنادو۔ اس نے شیر بنادیا۔ پھر آیا کہ تم نے چوہے کو شیر بنادیا۔اب تجھے ہڑپ کرنے آیا ہوں تاکہ دوسرا شیر نہ بناؤ۔ پیر نے اس کو شوف کرکے چوہا بنادیا۔ میرا ماموں سب سے بڑا شیر تھا اور ہمارے ملنگ دادا نے اس کو چوہا بنادیا تھا۔ پھر اس نے میرے معذور بھائی جلال سے کہا کہ تم نے میرے شہتیر چوری کئے، حلف اٹھاؤ۔ اس نے محسود کا گھر بتایا کہ اس سے لئے ۔محسود نے کہا کہ میں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سرائے لیا، دوسرے افراد کو بھی بیچے ہیں ۔ پھر دوسرے بھائی ممتاز سے ٹانک میں کہا کہ دکان میں مہنگی چیز بیچتے ہو۔ ممتاز نے کہا کہ ابھی تمہاری اوجھڑی کی بد بو تجھے آجائے گی تو اس نے فرار کی راہ اختیار کی۔ پھر اسکے مزارع نے ممتاز کو بھوسہ کی پیشکش کی تو ممتاز نے کہا کہ میرے گھر کے قریب ہے مگرپہلے اپنے مالک سے پوچھ لو ، یہ نہ ہو کہ پھر وہ کوئی معاملہ اٹھائے۔ اس نے غیاث الدین ماما سے پوچھ لیا۔ ماموں نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں۔ ممتاز بھوسہ گھر لایا تو ماموں نے پیغام بھیجا کہ بھوسہ نکالو ، مجھے لینا ہے۔ ممتاز نے کہا کہ صرف اپنی زبان سے بھوسہ کا لفظ میرے سامنے لے تو بھوسہ نہیں میری بیوی بھی اس کی ہوگئی مگر پھر اس نے ہمت نہ کی۔ ایک مرتبہ ماموں سعدالدین لالا نے ممتاز سے کہا کہ تم دو نمبر دوائی بیچتے ہو۔ اس نے دوائی کی بوتل دے ماری جس پر اورنگزیب نے ممتاز پر غصہ کیا۔ ممتاز نے کہا کہ اورنگزیب لاکھوں کا آدمی ہے مگر ماموں کے سامنے ہندو ہے۔
ممتاز سے سریر نے کہاکہ اپنے لئے گھاس اُگاؤ۔ ماموں غیاث الدین نے حاجی سریر سے کہا کہ یہ زمین مجھے دیدو۔ زمین ناکارہ تھی تو اس نے زمین دیدی۔ پھر حاجی سریر نے اپنا مکان قریب میں بنایا اور زمین کمرشل ہوگئی۔ تو کہا کہ میں نہیں دیتا۔ غیاث الدین نے کہا کہ آپ دے چکے ہو۔ سریر نے کہا کہ بدلے میں آپ نے کچھ نہیں دیا۔ غیاث الدین نے کہا کہ ابھی تک زمین کی کہیں تقسیم نہیں ہوئی ۔ حاجی سریر نے ریاض سے کہا کہ مجھ سے زمین کھیتی باڑی کیلئے مانگی ،پھر قابض ہوگیا۔ ریاض نے ماموں سے کہا کہ میں زمین کا مالک ہوں اور تمہارا قبضہ نہیں مانتا۔ ماموں نے کہا کہ زمین میں قدم رکھوتو تمہارے ساتھ…۔ پھر ریاض مشکل میں پڑا تو اشرف علی سے کہا کہ یہ زمین میرے ماموں کے بیٹوں کی ہے۔ میں نے کہا کہ اتنا حصہ تو ریاض کی والدہ کا بھی حق بنتا ہے۔ تمہارے پاس اور حاجی سریر کے پاس جتنی زمین ہے تو دونوں جگہ ہماری بہنوں کا وراثت کا اتنا حق ہے۔ میں نے نثار سے کہا :ریاض نے پیغام دیا اور میں نے یہ جواب دیا تو نثار نے کہا کہ ریاض نے یہ حربہ تلاش کیا ہے۔ پھر ممتاز پر دھاوا بول دیا تو سوچا کہ یہ کمینہ پن کی انتہاء ہے۔ پھر پتہ چلا کہ ریاض نے ممتاز سے بھی کہا تھا کہ ہم نے پیسہ نہیں دیا ، یہ زمین تم لے لو۔ پھر180ڈگری سے بدل جانا کہ ممتاز ہمارے ساتھ زیادتی کررہاہے؟۔
حسین شاہ پاگل نے اپنی بیوی اور مزدور کو قتل کردیا۔ شک تو دوسروں پر تھا لیکن پاگل بھی کمزور شکار تلاش کرتاہے۔ ممتاز بھائی کو پولیس نے ہتھکڑی لگائی تو سکون کی نیند سویا۔ چلو وہ پاگل تھا۔ اسکے دوسرے بھائی سلطان اکبر شاہ اور محمد امین شاہ نے بھی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ انگریز کی عدالت میں گھر کی بچیوں کو گواہ بنادیا کہ زنا کرتے ہوئے دیکھا ۔ حالانکہ کوئی غیرتمند، عزتدار اوربا ضمیرہوتے تو پاگل بھائی کو پھانسی دینے پر عزت بچ سکتی تھی۔ محسود بیوی تو گھر کی عزت تھی لیکن کم ازکم بے گناہ مزدور کو تو دیت دیتے لیکن اللہ نے غیرت نہیں دی۔
ماموں لوگ کہتے ہیں کہ بھائیوں کی تعلیم ان کی انویسٹمنٹ ہے۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ اور دروغ گوئی کی انتہاء ہے۔ ان کو ہمارے بھائیوں کے پیسے کھانے ہوں تو شوق سے کھائیں مگر غلط بات کرنے کا منہ توڑ جواب دینا ہمارا حق بنتا ہے۔
پہلی بار ماموں سعدالدین لالا نے3ہزار والا صوفہ سیٹ لیا تو بھائی اورنگزیب نے5ہزار والا صوفہ لے لیاتھا۔ اورنگزیب رسول کالج منڈی بہاؤ الدین میں تھا تو اسکے ایک کلاس فیلو نے حال سنایا کہ باپ سے رقم کیلئے مجھے بھیجتا تھا اور گالیاں دیتا تھا کہ اتنی زیادہ رقم کا کیا کرتا ہے؟۔ پھر پیسے دیدیتا اور کہتا تھا کہ ”اورنگزیب کو بتاؤنہیں، دریائے سندھ میں خود کشی کرے گا”۔
کانیگرم شہر میں بکری پالنا مشکل کام تھا اور میرا والد دو، دو بھینسیں زیادہ سے زیادہ دودھ دینے والی لے جاتا تھا۔ جب ایک مرتبہ پولیس والے نے زیادہ راشن لے جانے پر تنگ کیا تو اس کو دھمکی دی کہ ”تمہارے پیچھے روس لیکر آتا ہوں”۔ کوئی نیا سپاہی تھا وہ جانتا نہیں تھا اور پھر معذرت بھی کرلی تھی۔
کانیگرم اور گومل میں گھر کے خرچہ سے زیادہ مہمانوں کے خرچے ہوتے تھے۔ ان کی وفات پر دور دراز سے ایسے لوگ آئے تھے جن کی مدد کی تھی اور ان کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ ایک ملاعمر کی قوم” ہوتک” قبیلے کے شخص کو جس کو ”کوتک ” کہا جاتا تھا کانیگرم میں ایک اچھی فیملی کی خاتون سے شادی کرادی تھی۔ دوسروں کے بچے پالنے والے کے بچے کوئی اور پالتا تھا؟۔
ماموں کے ہاں پیر عالم شاہ خان بابا کے گھر کا خرچہ اٹھانے کی بھی غلط الزام تراشی کی گئی ۔ وہ ماموں لوگوں سے زیادہ خود اچھے کھاتے پیتے تھے۔ بس اور ٹرک چلتے تھے۔ ماموں کے گھر کی شفٹنگ میں گومل سے کانیگرم ان کا ٹرک استعمال ہوتا تھا تو کرایہ تو دور کی بات ہے ڈیزل کے پیسے بھی نہ دئیے ہونگے۔
نثار کی شادی پر مجھے کراچی میں بڑا گھر لینے ، بارات کا جہاز کے ذریعے آنے جانے کا اورنگزیب نے کہا تھا۔ ماموں نے کہا کہ بہن نے شادی کیلئے پیسہ مانگے۔ ماموں ، بھانجوں اور عزیزوں نے جھوٹ کا توپخانہ کھول دیا مگر حقائق حقائق ہیں۔

ہم نے کانیگرم وزیرستان سے تحریک خلافت کا آغاز1991ء سے کردیاتھا

شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنے مرشد سیدا حمد بریلوی کی قیادت میں خراسان سے خلافت کا آغاز کیا مگر سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ کچھ معتقدین کا عقیدہ تھا کہ سیداحمد بریلوی زندہ غائب ہیں اور واپس آکر خلافت قائم کرے گا اور یہ عقیدہ شیعوں کا اپنے امام کے بارے میں ہے۔
میں نے مولانا اشرف خان سے تحریک خلافت کی بشارتوں کا ذکر کیاتھا تو بہت خوش ہوگئے اور کامیابی کا یقین بھی دلانے لگے۔ پھر مولانا شاداجان کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ” مولوی محمد زمان نے اگر بات مان لی تو سب ٹھیک ہوجائے گا، مجھ پر اس نے قادیانیت کا فتویٰ لگادیا تھا”۔ میں نے مولوی سے کہا کہ” ڈبل قانون فساد کی جڑ ہے۔ دو فریق میں جس کے مفاد میںہو تو وہ شریعت پر فیصلہ چاہتا ہے اور جس کے مفاد میں ہو تو پشتو پر فیصلہ چاہتا ہے۔ اگر ایک قانون ہوگا تو فساد کی جڑ ختم ہوجائے گی”۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ” یہ تو بڑی زبردست بات ہے۔ صرف شریعت کا قانون ہوگا تو یہ فساد کی جڑ کو ختم کردے گا”۔ میں نے کہا کہ” شریعت میں چور، زنا کار، بہتان اور ڈکیٹ کی سزائیں ہیں۔ قرآن کے مطابق سزا دیں گے تو پھر اللہ کے حکم بھی زندہ ہوجائیں گے”۔ اس پر مولوی محمد زمان کی خوش ہوگئے ۔وزیرستان آزاد تھا۔ شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ نہ تھی۔ ریاست پاکستان کی چور ، ڈکیٹ اور بدامنی پھیلانے والوں سے جان چھوٹ جاتی۔ یہی تجربہ دیکھ کر پورے پاکستان میں بھی شرعی عدالتیں قائم ہوسکتی تھیں۔
مولوی محمد زمان نے کہا کہ” یہاں جلسہ میں میرے مدرسہ کیلئے چندے کا اعلان بھی کرنا ہوگا۔ کانیگرم سب سے آگے تھا لیکن اب علم میں پیچھے رہ گیا”۔ میں نے کہا کہ یہ تو چھوٹی بات ہے لیکن اس سے پہلے ہم نے کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔ پہلا اقدام یہ ہوگا کہ پیر، مولوی اور تبلیغی جماعت والے سب سے پہلے اپنے اوپر شریعت نافذ کریں گے۔ وہ کہنے لگے کہ کیا ہم شریعت پر نہیں چلتے ؟۔ میں نے کہا کہ اگر چلتے ہوں تو اچھی بات ہے لیکن اگر نہیں چلتے ہوں تو چلیں گے۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ بطور مثال ۔ میں نے کہا کہ ” بیٹیوں کو بیچنا چھوڑ دیں گے۔ حق مہر زیادہ ہو یا کم لیکن اسکے رکھنے کی والد اور بھائی کو اجازت نہیں ہوگی۔ 70ہزار کی جگہ کروڑ روپے ہو مگر سارے پیسے دلہن کے ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ بیٹیوں اور بہنوں کو جائیداد میں شریعت کے مطابق حق دیں گے۔ تیسرا یہ کہ رسمی نہیں شرعی پردہ کرنا ہوگا۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھا ہے کہ جو لوگ شرعی پردہ نہیں کرتے ۔وہ فاسق ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھ لی تو واجب الاعادہ ہوگی”۔ مولانامحمد زمان نے کہا: ”یہ تو بہت مشکل ہے”۔ میں نے عرض کیا کہ” دوسروں کو سنگسار کرنا، انکے ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا آسان اور اپنی بیٹیوں کو حق دینا مشکل ہے؟۔ہم ہر جمعہ کے خطبہ میں پڑھتے ہیں کہ نبیۖ نے فرمایا: تمہارے اوپر میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت لازم ہے۔ ہم اس پر عمل کریں تو بات بن جائے گی”۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ اس پر عمل نہیں ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہم کرواکر دکھائیں گے ۔ انشاء اللہ العزیز
پھر ہمارے پڑوسی سید بادشاہ کیساتھ کچھ تبلیغی میرے گھر پر آئے۔ ایک نے پوچھا کہ” میرا بیٹا کراچی میں ٹائر پنچر کا کام کرتا ہے ۔کیا میرے لئے اس کی کمائی جائز ہے؟”۔ میں نے کہا کہ ” اگر وہ کوئی فراڈ نہ کرتا تو بالکل جائز ہے”۔ اس نے کہا کہ ”میری بیوی، بہو اور بیٹیوں نے روزمرہ کے فرائض کی تعلیم حاصل نہیں کی ۔ اگر رائے ونڈ سے مستورات کی جماعت آئے اور ہماری خواتین کو فرائض سکھائے تو جائز ہے؟۔ میں نے کہا : ”بالکل نہیں! اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ”۔ فرائض کی تعلیم تمہارا فرض ہے اور اگر خواتین کی جماعت رائیونڈ سے آگئی اور ڈاکوؤں نے اغواء کرلیا تو پھر اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟”۔
پھر میرے خلاف انواع واقسام کے پروپیگنڈے شروع کئے گئے کہ قادیانی ہے، بریلوی ہے ، شیعہ ہے۔ آخری مہدی کا دعویٰ کیا ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک دن مسجد کا امام نہیں تھا ، امامت کیلئے تبلیغی مصلہ پر کھڑا ہوا تو ظفر شاہ نے پکڑ کر پیچھے کردیا اور میرا کہا کہ یہ اتنا عرصہ سے علم کیلئے گیا تھا اور تم چلہ یا چار مہینے لگاکر پھر میڈیکل سٹور بھی کھول دیتے ہو۔ (جس میں جعلی دوائیاں بیچتے ہو) مجھے آگے کردیا تو نماز پڑھانے کے بعد میں نے اپنی زبان میں تقریر کی ۔ جو پشتو نہیں ارمڑی ہے۔ میں نے کہا کہ ” ہمارا عقیدہ بہشتی زیور کے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی اور بانی تبلیغی جماعت مولانا محمدالیاس والا ہے۔جو ذکر کرتے ہیں یہ بھی مولانا اشرف علی تھانوی کے سلسلے کا ہے۔ یہاں لوگ کھلی ندی میں ننگے نہاتے ہیں۔ جو حرام اور غیرت کے خلاف ہے۔ سود، ملاوٹ اور دیگر منکرات میں مبتلاء ہیں۔ تبلیغی جماعت فضائل کی تبلیغ کا کام کرتی ہے، اس کا طریقۂ کار فرض، واجب اورسنت نہیں ۔یہ ایک مستحسن کام ہے۔کرلیا تو بھی ٹھیک اور نہیں کیا تو بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ میں وضاحت اسلئے کررہاہوں کہ تم نے میرے پیچھے نماز پڑھی اور مجھ پر لوگ بہتان لگارہے ہیں کہ قادیانی ہے، شیعہ ہے، بریلوی ہے وغیرہ لیکن یہ بہت بے غیرت ہیں جو چھپ کر یہ کام کوتی میںکرتے ہیں اور میرا گریبان نہیں پکڑتے۔ (کوتی لیٹرین کیلئے مخصوص کمرے ہیں جو بند ہوتے ہیں) تبلیغی جماعت کا نائب امیر گل ستار اٹھ گیا اور اس نے کہا کہ ”مفتی زین العابدین نے فتویٰ دیا ہے کہ تبلیغی جماعت کا کام فرض عین ہے۔ میں پہلی بارندی میں ننگا نہایا ہوں”۔ حاضرین کا اتفاق کیا کہ” جس کی بات غلط ہوگی تو اس کو کانیگرم بلکہ وزیرستان سے نکالا جائے گا”۔ میں نے کہا تھا کہ شہر کے علماء کو بلالیتے ہیں۔ لیکن تبلیغی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ میں میرانشاہ جاؤں تو یہ یہاں علماء سے جلسہ کروائیں۔ ایک دن میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کل میں چلا جاؤں اور پھر دوسرے دن گھر سے نہیں نکلا۔ تبلیغی جماعت نے سمجھا کہ گیا ہوں تو علماء کو جمع کرنا شروع کیا۔ میں نے بھانجے عبدالواحد اور حافظ عبدالقادر شہید کو بلایا اور ٹیپ ریکارڈر ساتھ لانے کا کہا۔ جب میں مسجد پہنچ گیا اور علماء سے کہا کہ مجھ سے بات کرنی ہے تو بتاؤ، ورنہ میرانشاہ جانے کا پروگرام ہے؟۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم مشورہ کرلیتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا مسجد کے قریب گھر میں بات کرتے ہیں، میں نے کہامسجد میں بات کریں تاکہ سب کو پتہ چل جائے مگر وہ گھرمیں چلے گئے۔ میں نے سوچا کہ ٹیپ ریکارڈر ساتھ ہے تو بات ٹیپ کرلیتے ہیں۔ وہ ٹیپ کی اجازت نہیں دے رہے تھے تو میں نے کہا کہ میرے مرشد حاجی عثمانسے بھی علماء ومفتیان نے ملاقات کی پھر بہتان باندھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ میں نے کہا کہ تمہارا یہاں سنت کے بعد کی دعا پر مناظرہ ہوا تھا تو دونوں نے ڈھول بجاکر اپنی جیت کا اعلان کیا تھا۔میں میراثی نہیں کہ ڈھول بجاؤں۔ آپ نے اس پرقادیانی کا فتویٰ لگایا تھا؟۔ جس کا مولوی محمد زمان نے اقرار کیا اور بہت منت سماجت کی کہ جو فیصلہ بھی ہوگا اس کو ہم تحریری لکھیں گے۔ پھر پوچھا کہ آپ نے مہدی آخرزمان کا دعویٰ کیا ہے؟۔ میں نے کہا کہ وہ مدینہ میں پیدا ہوں گے ، نام محمد ، والدین کا نام آمنہ وعبداللہ اور بیت اللہ میں بیعت ہوگی۔ میں نے حجاز دیکھا بھی نہیں ہے تو یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہوں؟۔ البتہ شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ خراسان سے بھی ایک مہدی آئے گا۔ جب کتاب دکھائی تو مولوی محمد زمان نے کہا کہ یہ وزیرستان ہے خراسان نہیںہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے کہا کہ مہدی ایک ہی ہے دوسرا نہیں تو یہ بحث نہیں کہ یہ خراسان ہے یا وزیرستان؟۔ پھر انہوں تبلیغی جماعت کا پوچھا تو میں نے کہا کہ یہ مستحن کام ہے فرض نہیں۔ مولوی زمان نے اپنے ہاتھ سے میری باتیں لکھیں کہ میں نے مہدی آخرزمان کا دعویٰ نہیں کیا۔ تبلیغی جماعت کا کام مستحسن ہے۔ وغیرہ ۔ میرے دستخط کے بعد سب حاضرین نے بھی اس پر دستخط کردئیے۔ تبلیغی جماعت نے پر تکلف کھانا تیار کیا تھا وہ بھی سب نے کھالیا اور دعا خیر کے بعد رخصت ہوگئے۔بعد میں انہوں نے مشہور کیا کہ پیر صاحب کو توبہ کروایا ہے۔ میں نے کہا کہ فیصلے والے کاغذ کی فوٹو کاپی تقسیم کرلیتے ہیں۔ معاملہ تو تبلیغی جماعت کے خلاف تھا اسلئے کہ انہوں نے کہا کہ فرض عین کی بات غلط ہے۔ مولوی زمان نے وہ تحریر دینے سے انکار کیا اور لکھا کہ مسجد کی امامت کرو۔ ہمارے پاس بھی مسجد ہے۔
میں نے جواب میں لکھ دیا کہ بے غیرت ایک لکھا ہے کہ نیا دین نہیں چل سکتا اور دوسری مسجد کی امامت کا کہہ رہے ہو؟۔ نئے دین والے کے پیچھے نماز ہوتی ہے؟۔ میں مسجد نہیں دنیا کی امامت کروں گا۔جب تمام پاکستان کے اکابر علماء ومفتیان بھی حاجی عثمان کے حق میں تھے ،تب بھی تبلیغی جماعت مخالفت کرتی تھی۔ جس کی وجہ سے مفتی تقی عثمانی نے تقریر اور تحریر میں تبلیغی جماعت کے اکابرین اور اصاغرین پر فتویٰ بھی لگایا تھا کہ یہ درس قرآن کے خلاف ہیں اور تبلیغی جماعت کو کشتی نوح سمجھتے ہیں۔ بہر حال انشاء اللہ سب کے چہرے کھل جائیں گے۔

کانیگرم میں یزید کی اولاد مشہور تھی لیکن کیا وہ سفیان خیل سے سفا خیل تو نہ تھی؟ نام کیساتھ سید بادشاہ ، سید عالم شاہ یا پھر ظفر شاہ اور ظاہر شاہ سے نسلی سید مراد نہیں

امریکہ کی ریسرچ اسکالر خاتون نے لکھا:” عباسی دور میں سادات کی نسل کشی ہورہی تھی تو کچھ لوگ انکے ساتھ تحفظ کیلئے وزیرستان کے شہر کانیگرم آگئے۔”۔ سادات سے ان لوگوں کو بہت عقیدت و محبت تھی لیکن پھر بھی مشہور تھا کہ کانیگرم میں یزید کی اولاد ہیں۔ ایک طرف اس بات کی بھی شہرت تھی کہ کانیگرم میں اہل تشیع تھے تو دوسری طرف یہ بھی مشہور تھا کہ کانیگرم میں یزید کی اولاد ہیں۔ ان دونوں باتوںکا تضاد اسلئے قابل قبول تھا کہ کوفہ میں حنفی اور شیعہ موجود تھے لیکن حسین کے دشمن یزیدی بھی کوفیوں کو ہی سمجھا جاتاہے ۔حالانکہ حنفی اور شیعہ اہل بیت و سادات سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے ہیں ۔ حال ہی میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک فاضل نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں کتاب لکھی ہے اور اما م اعظم کو شہید اہل بیت قرار دیا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے اسلئے یہاں سے برپا ہونے والے قرآنی حنفی انقلاب کو ایران بھی قبول کرلے گا۔
ہزارہ شیعہ اپر کانیگرم میں تھے جبکہ لوئر کانیگرم میں برکی اور پیروں میں روایتی بغض و عناد تھا۔ پیروں کی دو شاخیں ہیں ایک ہماری شاخ بابو ویل جن سے برکی قبائل بہت عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ دوسری شاخ سبحان ویل جن کو لوگ بادینزئی سمجھتے ہیں۔ جب اُلو کے پٹھے آئے ہم عزتِ سادات سے بھی گئے۔ ہمیں قتل بھی کروادیا اور قاتلوں کو صحابہ کرام کا درجہ بھی دے دیا۔ ممکن ہے کہ یزید کی اولاد نے کانیگرم کے سید کا لبادہ اوڑھا ہو اور سفیان خیل سے سفا خیل بن گئے ہوں۔
کمینہ پن ، مفاد پرستی ، خود غرضی اور اپنی طاقت کے غلط استعمال کے بھی کچھ حدود و آداب ہوتے ہیں۔ چڑھتے سورج کے پجاری ،ہر ظالم طاقتور کے ساتھی اور مظلوم کا دشمن بننا بھی بہت بڑا زوال ہے۔ کوڑ والے پیر میدان میں ظالموں کیساتھ تھے اور منہاج کی بزدلی اور نسوانیت مردِ میدان کی نہیں تھی بلکہ گھرمیں قاتلوں کی بہت خدمت کرتاتھا۔کوڑ کے پیر بجا طور پر ان لوگوں کومنافق کہتے تھے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید لکھتے ہیں :
لیت شعری کیف اُمتی بعدی حین تتبختر رجالھم و تمرح نساء ھم ولیت شعری حین یصیرون صنفین صنفاً ناصبی نحورھم فی سبیل اللہ و صنفاً عمالاً لغیر اللہ
(ابن عساکر عن رجل کنز العمال ص219،ج14)
کاش میں جان لیتا کہ کیسے میری اُمت اس حال کو پہنچے گی کہ جب انکے مرد اکڑ کر چلیں گے اور انکی عورتیں اتراتی پھریں گی۔ کاش کہ میں جان لیتا کہ جب لوگ دو قسموں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جو اللہ کی راہ میں سینہ سپر ہوں گے اور ایک قسم ان کی ہوگی جو غیر اللہ کیلئے سب کچھ کریں گے۔ (عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں)
جب2006ء میں ہمارے اوپر قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو اس کے بعد جٹہ قلعہ میں پیر منہاج سفا خیل کی بیٹھک طالبان کے گڑھ کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ کالے شیشے والی بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں کاروائیاں کرتے ،پھرپر تکلف کھانے ، آرام کرنے اور پراٹھے کھانے کیلئے اپنے اس ٹھکانے پر پہنچ جاتے تھے۔ عوام کا دل بے گناہوں کیخلاف دہشتگردی پر بہت دکھی ہوتا تھا لیکن خدمت گزار مرد سڑک پر اکڑ کر چلتے تھے اور ان کی خواتین ظالموں کی خدمت پر اتراتی پھرتی تھیں۔
یہ نسل سید اور پختون تو دور کی بات یزید کی بھی یہ اصلی اولاد نہیں ہوسکتی۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کیا تھا۔ استعارہ کے طور پر ان کو یزید کی اولاد کہنا درست ہوگا۔ بنو اُمیہ نے مظالم کے پہاڑ توڑے تو وہ ہر ممکن اپنے مفاد کا تحفظ چاہتے تھے۔ ایک کردار مستقبل میں ائمہ اہل بیت اور سادات کا ہے ،دوسرا انکے مقابل سفیانیوں کا ہے۔ طرز نبوت کی خلافت کے قیام سے پہلے سادات اور ان میں گھس بیٹھئے سفیانیوں کے درمیان امتیاز بہت بڑا مرحلہ ہے۔ حضرت ابوبکر، عمر اور حضرت بلال کا تعلق نبی ۖ کے خاندان سے نہ تھا ۔ ابو لہب نبی ۖ کا چچاتھا وہ اور اس کی بیوی شدید مخالف تھے۔ جس کا قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے نام لے کر دونوں کا ذکر کیا ہے۔
سورہ القلم میں اللہ تعالیٰ نے زبردست آئینہ دکھایا ہے کہ
” ن ، قلم کی قسم اور جو سطروں میں لکھتے ہیں ، آپ اپنے رب کی نعمت سے مجنون نہیں ہیں۔ اور آپ کیلئے بے شمار اجر ہے۔ اور آپ اخلاق عظیم پر ہیں۔ پس عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون فتنہ میں مبتلاء ہے؟۔ بیشک تیرا رب جانتا ہے کہ کون راستے سے گمراہ ہے اور وہ جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔ پس جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانو۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ چشم پوشی کریں تووہ بھی چشم پوشی کریں۔ اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہنا مت مانو۔ طعنہ دینے والا، چغلی کرکے چلنے والا، نیکی سے روکنے والا، حد سے تجاوز کرنے والاگناہ گار، گنوار پن کے علاوہ بد اصل بھی۔اگرچہ وہ مال اور اولاد والا ہے۔جب اس کے سامنے ہماری آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں۔ عنقریب ہم اس کو ناک پر داغیں گے۔ بیشک ان کی مثال باغ والوں کی ہے جب انہوں نے قسم کھائی کہ ہم ضرور سویرے اس کا پھل کاٹیں گے لیکن استثناء (انشاء اللہ) نہیں کیا۔ پھر تیرے رب کی طرف سے اس پر ایک جھونکا چلا اور وہ سوئے تھے۔ پھر وہ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہوگیا۔ پس صبح پکارنے لگے۔ سویرے چلو اگر تم نے پھل توڑنا ہے۔ پھر وہ آپس میں چپکے چپکے یہ کہتے ہوئے چلے کہ تمہارے باغ میں آج کوئی محتاج نہ آنے پائے۔ اور وہ سویرے اہتمام کے ساتھ پھل توڑنے پر قدرت کا خیال رکھتے ہوئے چل پڑے۔ پس جب انہوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ بیشک ہم تو گمراہ تھے بلکہ ہم محروم ۔ان میں سے معتدل مزاج اچھے نے کہا کہ میں نے تمہیں پہلے کہا نہیں تھا کہ اگر ہم تسبیح کرتے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا رب پاک ہے اورہم ہی ظالم تھے۔ پھر ایکدوسرے کی طرف متوجہ ہوکر ایکدوسرے کی ملامت کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر افسوس کہ ہم سرکش تھے ہوسکتا ہے کہ ہمارا رب اس کا بدلہ اس سے بہتر دے۔ہم اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح عذاب ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب بڑا ہے اگر جان لیں۔پس کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کردیں گے؟۔تمہیں کیا ہوا،کیسے حکم لگاتے ہو؟۔ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟۔ تمہارے لئے اس میں لکھا ہے کہ تم جو چاہو اپنے لئے مرضی کے نتائج مرتب کرو؟۔ (سورہ قلم آیت1سے38)
اس واقعہ میں حق اور باطل کا بھرپور آئینہ دکھایا گیا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

پاکستان امام کا کردار ادا کرے تو نہ صرف ایشیاء ، یورپ، افریقہ اور امریکہ بلکہ مشرق و مغرب کی حالت بدل سکتی ہے
کیادنیا اسلام سے خوفزدہ ہے کہ خلافت قائم ہوگی تو کفار کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو لونڈیاں بنالیا جائیگا؟
طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!