عورت کے بارے میں اللہ فتویٰ دیتا ہے
مئی 17, 2025

ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن ومایتلٰی علیکم فی الکتاب النساء:127
فی یتٰمی النساء الٰتی لاتؤتؤنھن ما کتب لھن وترغبون ان تنکحوھن والمستضعفین من الولدان و ان تقومواللیتٰمٰی بالقسط وما تفعلوا من خیرٍ فان اللہ کان بہ علیمًا
اور آپ سے عورتوں کا فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اللہ انکا فتویٰ دیتاہے اورجو تم پر قرآن پڑھاجاتا ہے
آیت نکتہ نمبر1: ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن”یہ لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ اللہ انکے بارے میں فتویٰ دیتا ہے”۔ (النساء:127)
سورہ مجادلہ میں نبیۖ سے عورت شوہر کے بارے میں جھگڑرہی تھی تو اللہ نے عورت کے حق میں مروجہ مذہبی فتویٰ کیخلاف وحی نازل فرمائی۔ اسلئے کہ عورت کے بارے میں اللہ فتویٰ دیتا ہے۔
سوال :اگر شوہر نے طلاق طلاق طلاق ایک مجلس میں یا صبح کو طلاق ، پھر دو پہر کو طلاق اور پھر شام کو طلاق کہا تو اللہ تعالیٰ کیا فتویٰ دیتا ہے؟۔
جواب: اللہ فرماتا ہے کہ اگر عدت میں دونوں صلح واصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کیلئے راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے نہیں تو نہیں ہوسکتا۔ المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قرواء …وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والیاں 3ادوار تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں……اور انکے شوہر اس عدت میں اصلاح کرناچاہیں تو ان کو لوٹانے کازیادہ حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ: آیت:228)
دربارعمرکو3 طلاق کا فیصلہ پہنچاتو شوہر رجوع کا خود کو اصلاح کے بغیر بھی حقدار سمجھتا تھا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی اسلئے حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ جس پرصحابہ کرام نے اتفاق کیا تھا۔
جب ایک شخص نے بیوی کو حرام کہہ دیا لیکن پھر وہ میاں بیوی رجوع کیلئے راضی ہوگئے تو عمر نے ان کے درمیان رجوع کا فیصلہ کردیا تھا۔
علی کے دور میں کسی نے بیوی کو حرام کہہ دیا اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہوئی تھی تو حضرت علی نے رجو ع نہ کرنے کا فیصلہ کردیا تھا۔
قرآن، سنت اور صحابہ کرام ایک ہی مؤقف پر متفق تھے۔ رسول اللہ ۖ نے ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تو ایک ماہ بعد رجوع کرنے پر سب کی خوشی تھی لیکن اللہ نے حکم دیا کہ ازواج کو علیحدگی کا مکمل اختیار دیں ۔ تاکہ امت پر قیامت تک واضح ہوجائے کہ رجوع کیلئے عورت کی رضا شرط ہے۔
بخاری میں ہے کہ حرام سے رجوع ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہے کہ نہیں ہوسکتا۔ مکی دور کو 13سال بھی قرار دیا اور10سال بھی۔ مولانا اشرف جلالی ، اہلحدیث علماء اور حنفی علماء علمی حقائق کو سمجھتے ہیں۔
”بخاری والی سرکار ” کے ہاتھوں صدیوں سے حلالہ کے نام پر شلواریں اترواکر شہد چٹوا چکے ہیں اسلئے بخاری رسول اللہ ۖ پر بہتان طراز ہے کہ باب” جس نے تین طلاق کو جائز قرار دیا” رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ پھر اس عورت نے عبدالرحمن زبیر القرظی سے نکاح کیا اور نبیۖ سے اپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر عرض کیا کہ اس کے پاس اس کی مثل ہے۔نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو؟ نہیں یہاں کہ وہ تیرا شہد چکھ لے جیسے پہلے شوہر نے چکھا اور تو اس کا شہد چکھ لے جیسے تونے پہلے کا چکھا”۔
اس روایت کی وجہ سے ”علمی کتابی جاہل مرزا ” جیسے نے کتنی عزتوں کو لٹوایا اور مزید کتنی لٹیں گی؟۔ جس کا کوئی قائل نہیں اور کسی نامرد کیساتھ لذت اٹھانے پر مجبور کرنا بابے تو کیا کوئی چیلہ بھی نہیں کرسکتا۔ بھلے علی مرزا ہیرونچی پکڑکرلائے ۔ عرب علماء نے حلالہ کو سزاکہا تو ممکن ہے کہ کچھ علماء نے یہ نئی سزا ”حلالہ والی سرکار” تجویز کی ہو؟۔
علماء کرام اور جہلاء بے لگام میںیہ فرق ہے کہ علماء کرام اپنے اندر بہت لچک رکھتے ہیں اور فتویٰ کے آخر میں لکھ دیتے ہیں کہ یہ میری معلومات ہیں اور ٹھیک بات اللہ جانتاہے۔ جاہل کی دستار اس کی دم ہوتی ہے جس کو اٹھاکر وہ کہتا ہے کہ اولی العلم قائم بالقسط میں ہوں۔مرزا جی کہتا ہے کہ اگر صحابہ کرام کے دور میں ہوتا تو خلافت کا اہل خود کو قرار دیتا۔ ایک عالم سمجھتا ہے کہ شکر ہے کہ اس دور میں ہم نہ تھے پتہ نہیں کہاں کھڑے ہوتے؟۔
آیت کا نکتہ نمبر2: وما یتلٰی علیکم فی الکتٰب ” عورتوں کے بارے میں اللہ کا فتویٰ وہی ہے جوتمہارے اُو پر کتاب میں تلاوت کیا جاتاہے”۔
نبی ۖنے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت کی حال میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا۔ خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے” ۔
دورِ جاہلیت میں عورت کو اکٹھی تین طلاقیں دی جاتی تھیں توحلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا اور ایک طلاق دی جاتی تھی تو بیوی کی رضامندی کے بغیر بھی رجوع ہوسکتا تھا۔ اللہ نے قرآن سے ان دونوں باطل رسموں کو اڑاکر واضح کر دیاکہ ”طلاق شدہ عورتوں کی عدت تین ادوار ہیں۔ اگر اللہ نے انکے پیٹ میں حمل پیدا کیا ہو تو ان کیلئے حلال نہیں کہ اس کو چھپائیں ،اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور اس عدت میں ان کے شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حق ہے اگر وہ اصلاح چاہتے ہوں۔ اور عورتوں کیلئے اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ان پر حق ہے معروف طریقے سے اور مردوں کیلئے ان پر ایک درجہ ہے۔اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔ (البقرہ آیت228)
عورتوں کیلئے وہی حقوق ہیں جو ان پر مردوں کے ہیںمعروف ۔ البتہ مردوں کیلئے ان پر ایک درجہ ہے۔ اور ایک درجہ سے مراد ایک درجہ ہے 10یاپھر2درجات نہیںہیں۔اور وہ بالکل واضح ہے کہ عورتوں پر عدت ہے اور مردوں پر عدت نہیںہے اسکے علاوہ کوئی درجہ بالکل بھی نہیں۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا ” عورت معاشی مستحکم ہوگی تو مرد کا یہ درجہ ختم ہوگا۔ رسول اللہ ۖ کی پہلی زوجہ خدیجة الکبریاور مریم نوازشریف کا معاشی استحکام عدت کو ختم نہیں کرتا۔
شوہرکو طلاق کے بعد اصلاح کے بغیر رجوع کا اختیار مل جائے یا پھر صلح کے باوجود حلالہ کرنے پر مجبور کیا جائے تو یہ جاہلیت دوبارہ رائج ہوگئی ہے۔ اسلئے اسلام دوبارہ اجنبیت کا قریب کے دور سے ہی شکار ہوگیا ، ہم اس کو نکال رہے ہیں۔ علماء کرام بڑے پیمانے پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔
جاہل دانشوروں نے دانش جدید سے اسلام کو تباہی کی طرف لیجانے میں بڑا کردار ادا کیا اور علماء جعل ساز صوفی ،نام نہاد دانشور علماء بنتے جارہے ہیں۔جو علم کی طاقت سے ہی ٹھیک ہوں گے۔
سورہ بقرہ آیت229میں228کی مزید تفسیر ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے۔ طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ احسان کیساتھ رخصت کرنا ہی قرآن میں تیسری طلاق ہے۔ فقہاء نے معروف کو منکر بنادیا۔ نیت نہ ہو تو جماع شافعی کا رجوع نہیں۔ نیت نہ ہوتو شہوت کی نظر حنفی کا رجوع ہے۔ بخاری نے جذبہ وکالت سے سرشار ہوکر کہ آیت229کی دو مرتبہ اور تیسری مرتبہ کی طلاق کو اکٹھی تین طلاق کے جواز کیلئے نقل کیا ہے۔ جس کے بعد کم ازکم خلع کی کوئی گنجائش نہیں ۔مگر جاہلوں نے آیت230البقرہ کی طلاق سے پہلے کی فدیہ کی صورت کو خلع بنادیا۔ حالانکہ مفتی تقی عثمانی نے اس کو مشکل قرار دیا لیکن سید مودودی اور جاویداحمد غامدی جیسے جاہلوں نے صریح اور سلیس الفاظ میں خلع کا ترجمہ کردیا۔ پہلے جاہلیت مخفی تھی اور جاہلوں نے تصریح کردی ہے۔ نام نہاد دانشوروں نے علماء اور مولوی نے جعلی صوفی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ علماء حق کو میدان میں اُترنا پڑے گا۔مسئلہ بگاڑا ہے تو سدھار بھی سکتے ہیں۔
آیت کا نکتہ نمبر3: ” یتیم عورتوں کے بارے میں جن کو تم فرض حق مہر نہیں دیتے اور نکاح کی رغبت رکھتے ہو”۔ ( ترجمہ تک بھی غلط لکھا گیا ہے)
آج تک علماء ومفتیان نے حق مہر کا مسئلہ نہیں سمجھا کہ یہ کیا ہے؟۔مولاناعتیق الرحمن سنبھلی نے مفتی تقی عثمانی کو خط لکھا کہ حق مہر بنیادی کیا ہے؟ تو مفتی تقی عثمانی نے جواب دیا : ” یہ اعزازیہ ہے” ۔
حالانکہ قرآن میں اجر یعنی بدلے کا ذکر ہے اور حدیث میں ہے کہ روزے کا بدلہ بندے کیلئے اللہ کی ذات خود ہے۔ عورت بیاہ ہوکر اپنے خاندان کی کشتیاں جلاکر آتی ہے تو اسکا حق مہر شوہرپر اس کی حیثیت کے مطابق ہے۔ اللہ نے استطاعت کے مطابق امیر وغریب پر بھی حق مہر کی وضاحت کی اور یہ بھی فرمایا کہ ”ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے ان پر فرض کیا ہے”۔ اللہ تعالیٰ سے کون اپنا مالی اثاثہ چھپا سکتا ہے۔ لڑکی کا باپ زندہ ہوتا ہے تو وہ حق مہر کیلئے استطاعت کے مطابق مطالبہ کرتا ہے۔ اگر کوئی یتیم لڑکی لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ حق مہر کیا بس سہارا دینا ہی کافی ہے۔ امت کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر اپنی لڑکیوں کو بیچ دیتے ہیں اور پنجابی قوم کا المیہ ہے کہ جہیز کی ڈیمانڈ بھی رکھتے ہیں۔ لڑکی جب مرضی سے کورٹ میرج کرتی ہے تو حق مہر اور جہیز کی پرواہ نہیں کرتی لیکن پھر بھی ماردی جاتی ہے۔
اگر قرآن کی آیات سے عورت کے حقوق کی واضح ہدایات عوام کے سامنے نہیں لائی جائیں تو عورت رسم ورواج اور مولوی کے جھوٹے فتوؤں کے نیچے رُلتی رہے گی۔ احادیث صحیحہ سے قرآن کی درست تشریح ہوتی ہے لیکن علماء ومفتیان نے الٹی گنگا بہاکرامت کو زوال وپستی کا شکار کیا۔
قدعلمنا مافرضناعلیھم فی ازواجھن آیت کا فقہاء نے مذاق اڑایا۔ چور کا ہاتھ کٹنے کیلئے جتنی رقم 10درہم یا درہم کا چوتھائی۔ اتنی رقم پر شوہر عورت کے ایک عضوکا مالک بنتا ہے اور چور بھی اتنی رقم میں ایک عضو سے محروم ہوجاتا ہے۔
آیت کا نکتہ نمبر4: ”اور کمزور بچوں کو تحفظ اور یتیموں سے انصاف کیلئے کھڑے ہوجاؤ اور اگر کوئی زیادہ اچھا کرے تو بیشک اللہ تمہاری خبر رکھتا ہے”۔
پاکستان کی حکومت کے فنڈز اور علماء و مفتیان کے چندے اور این جی اوز کے نام پر کام کرنے والے اور دیگر چندہ خور طبقات اگر صحیح معنوں میں بڑے پیمانے پر وصول ہونے والے پیسے کمزوروں اور یتیموں پر لگاتے تو آج پاکستان کے حالات بہت زیادہ مختلف ہوتے لیکن مایوسی نہیں ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ