پوسٹ تلاش کریں

اسلام دنیا کو انسانیت کے حقوق سکھانے نازل ہواتھا! اداریہ شمارہ جنوری 2019

اسلام دنیا کو انسانیت کے حقوق سکھانے نازل ہواتھا! اداریہ شمارہ جنوری 2019 اخبار: نوشتہ دیوار

ایرانی نژاد امریکی شیعہ خاتون نے عورت کے حقوق پر اسلام کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مسلمانوں کے موجودہ حالات کے پیش نظر اس کا نکتہ نظر سو فیصد درست ہے لیکن چونکہ اسلام اجنبی بن چکا ہے اسلئے اسلام کے بارے میں مغالطہ کھایا ہے۔ اس خاتون نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’اسلام میں عورت کی حیثیت ایک مملوکہ اور لونڈی کی ہے ۔ عورت شوہر سے نکاح کرلیتی ہے تو عورت کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ ایران میں ایک عورت نے 40 ہزار تمن حق مہرکے عوض نکاح کیا تو اس کے شوہر کو لواطت کی لت پڑی تھی۔ عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی تو اس نے خلع کا مطالبہ کیا ۔ شوہر نے خلع سے انکار کیا تو اس نے 50ہزار تمن کی پیشکش کی جس پر شوہر طلاق دینے کیلئے راضی ہوا۔ لونڈی کی حیثیت مملوکہ کی ہوتی ہے اسلئے اس سے نکاح کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ازدواجی تعلق ویسے ہی جائز ہوتا ہے۔ متعہ کے نام پر عورت سے لوگ خواہشات پوری کرتے ہیں مگر اس سے نکاح نہیں کرتے اور بہت گرا ہوا سمجھتے ہیں۔ اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے‘‘۔ ایرانی نژاد امریکی خاتون نے جو لکھا وہ معلومات کے مطابق تھا۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ البتہ اسلام ایسا نہیں ہے۔
جب عورت لونڈی ہوا کرتی تھی تو اسلام نے اس کی ملکیت کا خاتمہ کرکے وہ حیثیت دی جو ایک گروی فرد کی ہوتی ہے۔ جس طرح جانور اور مال و اشیاء کسی کی ملکیت ہوسکتے تھے اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کو بھی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسلام نے ملکت ایمانکم ’’جسکے مالک تمہارے معاہدے ہیں‘‘ میں بدل دیا تھا۔ اس لفظ کا اطلاق حلیف قبیلہ اور کاروباری شراکت دار پر بھی ہوتا ہے۔ جس کیساتھ باقاعدہ نکاح کے بجائے ایرانی متعہ یا سعودی مسیار کی طرح ایگریمنٹ ہو تو اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسلام نے حق مہر کو نکاح کی سیکورٹی کیلئے ضروری قرار دیا ہے۔ اگر مغرب میں آدھی جائیداد کے بجائے باہمی رضامندی سے حق مہر کا تعین کیا جائے تو بہت سے رشتے نکاح کرتے نظر آئیں گے۔
امریکہ و یورپ اور برطانیہ و آسٹریلیا سمیت تمام نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں ایک لڑکی کے ساتھ بیک وقت کئی افراد کی دوستی قانونی طور پر درست ہے۔ جسکے نتیجے میں مرد اپنی اولاد کے یقینی ہونے پر شک کرتا ہے۔ عمران خان نے جس کی وجہ سے امریکی عدالتوں کا سامنا کیا تھا۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ باپ اپنے بچے کا منکر ہو اور عدالت کے ذریعے وہ بچے کو اپنا بچہ کہنے پر مجبور ہو۔ اسلام عورتوں کو کسی ایک سے رشتے کا پابند بنا کر بے راہروی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بچانے کا ذریعہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر خواتین کو لونڈی بنانے کے بجائے یہ اجازت دی کہ جو ایگریمنٹ کرنا چاہے وہ ایگریمنٹ کرسکتا ہے۔ جبری طور پر لونڈی بنانے کے مقابلے میں باہمی رضامندی سے ایگریمنٹ کا طریقہ اسلام کا دنیا پر احسان عظیم ہے۔ اگر اسلامی قوانین کی حقیقت دنیا کے سامنے آگئی تو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا میں ایک اسلامی معاشرتی انقلاب آئے گا۔
اسلام نے عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں بھی آدھا حق مہر فرض کردیا ہے۔ ہاتھ لگانے کے بعد پورے حق مہر کے تعین میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ قرآن نے بار بار یہ بھی واضح کردیاہے کہ طلاق کی صورت میں حق مہر کے علاوہ بھی جو کچھ دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے ، چاہے خزانے ہی کیوں نہ دئیے ہوں۔ یہ مسلمانوں کیلئے افسوس اور بے غیرتی کا مقام ہے کہ عورتوں سے بچے جنوانے کے باوجود جب ان کو طلاق دیتے ہیں تو جو حق مہر مقرر ہوتا ہے وہ دینے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خلع کی صورت میں بھی واضح کردیا ہے کہ عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو۔ اور نہ ان کو جانے سے اسلئے روکو کہ بعض دی ہوئی چیزوں کو واپس لے لو۔ جب خلع کی صورت میں حق مہر اور دی ہوئی چیزیں واپس لینا جائز نہیں تو طلاق میں یہ گنجائش کیسے نکل سکتی ہے کہ اس کے حق مہر پر بھی قبضہ جمالیا جائے؟ ۔
مغرب اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ قانون ہے کہ طلاق مرد دے یا عورت مگر دونوں کے درمیان آدھی آدھی جائیداد تقسیم کی جائیگی۔ یہ غیر فطری اورنا انصافی کا معاملہ ہے۔ جرم ایک کرے اور سزا دونوں کو ملے۔ اسلام میں معاملہ انصاف کے عین مطابق ہے۔ اگر شوہر طلاق کا فیصلہ کرتا ہے تو عورت کو حق مہر اور تمام دی ہوئی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کے علاوہ ہر دی ہوئی چیز دے دی جائے گی لیکن اگر عورت نے خلع کا فیصلہ کیا ہو تو حق مہر اورمنقولہ مال و اشیاء وہ لے جاسکتی ہے لیکن گھر ، زمین اور دکانیں وغیرہ وہ اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ عورت خلع کا فیصلہ بھی خود کرے اور شوہر کو مکان و جائیداد سے بھی بے دخل کردے۔ البتہ اگر شوہر طلاق دیتا ہے تو پھر وہ اپنے لئے الگ راستہ ناپے گا۔
مسلمان خواتین کی حق تلفی کا رونا آسمان کے فرشتے بھی روتے ہونگے اور نبی ﷺ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد فرمائیں گے و قال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھٰذا القرآن مہجوراً ’’اوررسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قو انفسکم و اھلیکم ناراً ’’اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ‘‘۔ بیوی اور بچے رعایا کی طرح ہی ہوتے ہیں اور ان کی حق تلفی کی گئی تو قیامت کے دن اللہ پوچھے گا۔ مسلمانوں کے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ دوسری قوموں کی طرف سے مظالم کا رونا رو رو کر بد حال ہوچکے ہیں مگر خود جو مظالم کرتے ہیں اسکا ذرا بھی احساس نہیں رکھتے ہیں۔ اسلام دنیا میں انسانیت کے حقوق بحال کرنے کیلئے نازل ہوا ہے۔
مسلمانوں نے اپنے گھر سے ابتداء کرنی ہے اور پھر پوری دنیا کو مظالم سے بچانا ہے۔ عالمی اسلامی خلافت کا قیام اس وقت ممکن ہے کہ جب پوری دنیا کو یہ یقین آجائے کہ مسلمان دنیا کے مسیحا بن کر آرہے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ چین کو اپنے لئے روس سے زیادہ خطرہ قرار دے اور ہمارے ہاں کے بہروپیا امریکہ کی خواہشات پر چلنے کا نام لینے کے بجائے یہ کہنا شروع کریں کہ چین ظالم ہے اور اس سے بدلہ لینا ہے تو اس سے بدرجہا ہماری ریاست کے کرتے دھرتے بہتر ہوں گے جو برملا کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے مفاد میں اپنے فیصلے کرنے ہیں۔
اگر دنیا کو یقین ہو کہ مسلمانوں نے سب کی ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بیویوں کو لونڈیاں بنانا ہے تو وہ مسلمانوں کی تذلیل کیلئے طرح طرح کے اقدامات ہی کریں گے۔ اگر مسلمانوں نے اسلام کی درست تصویر پیش کی اور اپنے عمل سے اس آئینے کا عکس دکھایا تو نہ صرف مسلمان معاشرہ خوشیوں کی برسات دیکھے گا بلکہ دنیا بھی ہمارے معاشرتی نظام کیلئے دل و جان سے ترسے گی۔ کوئی خوشامد کام آئیگی اور نہ کوئی آپس کی دشمنی بلکہ حق کی بالادستی واحد نسخہ ہے۔ عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز