پوسٹ تلاش کریں

پاکستان میں مخدوش سیاسی صورتحال کا تجزیہ اور اس کے حل کیلئے کچھ بنیادی تجاویز

پاکستان میں مخدوش سیاسی صورتحال کا تجزیہ اور اس کے حل کیلئے کچھ بنیادی تجاویز اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان میں مخدوش سیاسی صورتحال کا تجزیہ اور اس کے حل کیلئے کچھ بنیادی تجاویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” فساد ظاہر ہوگیا بحروبر میں بسبب اس کے جو لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے کمایا ہے”۔ سورہ ٔ نور میں اللہ تعالیٰ نے افواہ کی بہت سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جب صحابہ کرام اور نبی رحمتۖ کے دور میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے خلاف بہتان کی افواہ اُڑی تھی تو اللہ نے اچھے اچھے عقلمندوں اور نیکوکاروں کو تنبیہ فرمائی کہ اگر تم یہ کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے۔ سوشل میڈیا پر خواتین اینکر، سیاستدانوں کی بیٹیوں اور عورتوں کے خلاف کیا سے کیا بیہودہ بہتان طرازیاں نہیں ہورہی ہیں لیکن ہماری ریاستی مشنری کبھی میدان میں نہیں اتری ہے اسلئے کہ وہ پاک فوج زندہ باد کا نعرہ بھی لگا دیتے ہیں۔ اگر ان پر بروقت گرفت کی جاتی تو آج پاک فوج کے خلاف بھی یہ افواہیں پھیلانے کا سلسلہ کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر یہ قانون بنایا جاتا کہ سورۂ نور کے مطابق غریب وامیر اور طاقتور اور کمزور کیلئے ایک قانون ہے تو بھی یہ بد سے بدترین سلسلہ رُک سکتا تھا۔ آج بھی اگر پارلیمنٹ میں برابری کا قانون لایا جائے تو پارلیمنٹ کے نظام کو لاحق خطرات ٹل سکتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے نام پر اقتدار کرنے والے عمران خان اس قانون کو لاتا تو لوگ تبدیلی سرکار کو سلام پیش کرتے۔مولانا فضل الرحمن حکومت کے روح رواں ہیں۔ مذہبی امور کے وزیرمفتی عبدالشکور بیٹنی قرآن وسنت کا واضح خاکہ پارلیمنٹ میں پیش کریںگے تو کام بنے گا۔ جمہوری انداز میں مشاورت کا بہترین موقع ملتا ہے۔ قرآن کے ہتک عزت کے قانون کی حمایت پارلیمنٹ، اشرافیہ، جرنیلوں ، ججوں اور تمام عوام کی طرف سے ہوگی اور یہ جمود کو توڑنے میں ہوا کاپہلا جھونکا ہوگا۔
کسی کی عزت اربوں میں اور کسی کی عزت اتنی بھی نہ ہو کہ وہ عدالت میں وکیل کی فیس کا خرچہ ادا کرنے کے قابل ہو۔ امیر کیلئے10کروڑبھی کوئی سزا نہیں اور غریب کیلئے10لاکھ بھی بڑی سزا ہے لیکن80،80کوڑوں کی سزا سب کیلئے برابر ہے۔ انگریز نے نوابوں ،پیروں، خانوں کو جائیدادیںدی تھیں اور کانگریس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ بحق سرکار سب زمینیں ضبط کی جائیں گی لیکن مسلم لیگ کو خانوں، نوابوں اور پیروں نے اپنے باطل مقاصد جائیداد کو ضبط ہونے سے بچانے کیلئے سپورٹ کیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ”ہندوستان میں مسلمانوں کی خیر نہ ہوگی اور پاکستان میں اسلام کی خیر نہ ہوگی ” اور ان کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی ہے۔ اسلام کا پہلے بھی بہت کباڑہ کیا گیا اور اسلام کی نشاة ثانیہ والوں کو حکومت، عوام اور خواص نے سپورٹ نہیں کیا تھا ۔
نبی ۖ کے زمانے میں یہود ونصاریٰ کے علماء ومفتیان کی اجارہ داری تھی۔ انہوں نے اپنے احبار ورھبان کو اللہ کے علاوہ اپنا ارباب بنالیا تھا۔ اہل کتاب کے مذہبی طبقات نے دین میں تحریف کر ڈالی تھی اور عوام ان کے حلال وحرام کو حلال وحرام سمجھتے تھے اور یہی ارباب بنانا تھا۔ اللہ نے نبیۖ سے فرمایا تھا کہ لن ترضی عنک الیہود والنصاریٰ حتی تتبع ملتھم ”یہود ونصاریٰ آپ(ۖ)سے کبھی راضی نہیں ہونگے یہاں تک آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں”۔ دینِ خالص کے مقابلے میں تحریف شدہ دین کو یہودونصاریٰ کے مذہبی طبقات بھی قائم رکھنا چاہتے تھے۔ فارس وروم دو بڑی سپر طاقتیں تھیں اور مسلمانوں کی ہمدردیاں فارس کے مقابلے میں روم سے تھیں اسلئے کہ آگ کی پوجا کرنے والے ایرانیوں کے مقابلے میں روم کے اہل کتاب عیسائی زیادہ مسلمانوں کے قریب تھے۔ خلافت راشدہ نے دونوں سپر طاقتوں کو شکست دی اور ایرانی سب مسلمان ہوگئے لیکن اٹلی سے اسپین تک مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے کے باوجود گورے عیسائی من حیث القوم مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
ہندوستان کی قوم حضرت نوح علیہ السلام کے امتی تھے۔ اہل کتاب و شرک کے درمیان کھڑے ہندوستانیوں میں کافی تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر بھی بڑی تعداد نے اسلام قبول نہیں کیا کیونکہ ان پر بھی اہل کتاب کے کچھ نہ کچھ اثرات تھے۔ اسلام کی نشاة ثانیہ کے دور میں تمام ہندو وسکھ قوم نے اسلام کو قبول کرنا ہے۔ اسلام کی بگڑی ہوئی شکل کی وجہ سے گرونانک نے ہندو و مسلمان کے درمیان ایک تیسرے مذہب کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اگر اسلام کی صحیح شکل پیش کی جائے تو ہندوستان پورے کا پورا ہندوانہ رسم ورواج کو چھوڑ کر مسلمان بنے گا اور اس کی خوشخبری ہندؤوں کی اپنی کتابوں میں موجود ہے۔
ڈاکٹر شہناز خان اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر لکھتی ہیں کہ ”حکومت مہنگائی کے جن پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس جن کو قابو کرنے کیلئے پہلے کچھ اور جنوں کو جنہوں نے 70سال سے عوام کو مختلف طریقوں سے قابو کیا ہے بند کرنا پڑے گا۔ لیکن کسی میں ہمت ہے کہ یہ بات بھی کرے۔ یہ وہی کرسکتا ہے جس کا ان جنوں سے کوئی رشتہ نہ ہو”۔ سوشلسٹ پاکستان کے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ”شخصیت پرست قوموں کا زوال ان میں عدم برداشت کے عروج پر پہنچنے سے ہوتا ہے”۔ مزید لکھا ہے کہ ”فسادی ایجنڈہ ؟ عوام کو جذبانی بناؤ ، حقیقی مسائل سے انکی توجہ ہٹاؤ ، انہیں تعمیری کے بجائے تخریبی سرگرمیوں میں الجھاؤ”۔ مزید لکھتے ہیں ”ہر وہ شخص بوڑھا ہوچکا ہے جس کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں اس کی عمر چاہے20سال ہے اور چاہے70اور80۔ لیکن جس کے پاس مقصد موجود ہے وہ جوان ہے اگر مقصد بڑا ہو تو جوانی بھی اتنی تروتازہ ہوگی”۔ پاکستان انقلابی پارٹی۔ مزید لکھتے ہیں ”اگر فسادی نے 4سالہ دورِ حکومت میں فساد کے بجائے درخت ہی لگائے ہوتے تو اس سال گرمیوں نے یوں شعلے نہ بھڑکائے ہوتے”۔ شفیق خنباطی نے فیس بک پر لکھا ہے ”میں نے پوچھا سنی ہو یا شیعہ؟ ۔ بھیانک ترین جواب ملا ، صاحب بھوکا ہوں۔ اگر آپ کا پڑوسی دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ یا کچھ اور ہے تو اس کا حساب وہ خود دے گا لیکن اگر وہ بھوکا مرگیا تو حساب آپ کو دینا ہوگا”۔ ”واجب القتل” کے عنوان سے فیاض صالح حسین لکھتے ہیں کہ ”دیکھو اس کند ذہن دنیا میں آنکھوں پر پٹی باندھ لو اور کولہو کے بیل کی مانند بس ایک ہی دائرے میں چلتے رہو کیونکہ تم اگر سوچو گے تو صاحب عقل ہوجاؤ گے اور واجب القتل ہوجاؤ گے”۔ فوجی وردی میں ملبوس خاتون کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے ”اگر بلوچ ماؤں بیٹیوں نے بلوچ جہد آزادی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھالی تو بلوچ سرزمینوں پر دشمنوں کے نشان تک ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے”۔ فدائی شاری بلوچ۔
فیصل آباد کے علامہ حامد رضا کی تقریر ہے کہ ”فوج ہمیں بتاتی رہی کہ رانا ثناء اللہ بیشمار لوگوں کا قاتل ہے تو آج اس کو قوم پر مسلط کردیا ہے۔ سیکورٹی ایجنسی کے اہلکار ہمیں یہ بتاتے تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں رانا ثناء اللہ نے شہباز شریف کے کہنے پر14بندوں کو شہید کیا ہے۔ داتا دربار اور دیگر بم دھماکوں میں جو بینڈ آرگنائزیشن ہیں اس کا پروموٹر رانا ثناء اللہ ہے۔ آپ ہمیں یہ بھی بتاتے تھے کہ کوئٹہ میں بم دھماکوں میں ملوث کونسے لوگ افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ہمیں ڈاکو منٹس دیتے ہیں۔ میرے والد پرویز مشرف کے خلاف اور نواز شریف کے حامی تھے تو نواز شریف نے حرم کے سامنے بیٹھ کر قرآن کا حلف لیا کہ میں نے کوئی ایگریمنٹ نہیں کیا ہے۔ مجھے وہ ایگریمنٹ آپ نے دے دیا۔ توپھر میرا یہ سوال نہیں بنتا کہ جن لشکرنواز لوگوں کیخلاف جن طالبان کے حامیوں کیخلاف، جن کالعدم تنظیموں کے سرپرستوں کے خلاف ، جن ریاست دشمن عناصر کیخلاف ہمیں ثبوت دئیے گئے آج ان کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ آپ ہمیں یہ بتاتے رہے کہ یہ پاکستان کے غدار ہیں۔ اگر یہ پاکستان آگئے تو مودی کا ایجنڈا لیکر آئیں گے۔ تو آج جب وہ یہاں پر آگئے ہیں تو آپ ان کو سیلوٹ کس منہ سے کررہے ہیں؟۔ پھر اس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے اندر غیر ملکی طاقتوں اور سامراج کا ایجنٹ بن کر آپ اپنی عزت بھی کرواسکتے ہیں آپ ایوان اقتدار میں بھی پہنچ سکتے ہیں………۔
جنرلز آف پاکستان آرمی کے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ
وردی میں بہتا خون ہی ہے
اس وردی میں پشتون بھی ہے
ہے قوم و ملک کی رکھوالی
وردی میں جوش و جنون بھی ہے
اقبال کا شاہیں وردی میں
سر سید کا مضمون بھی ہے
پنجابی ، سندھی، بلوچی جواں
اس وردی میں مدفون بھی ہے
اس وردی کو گالی نہ دو
اس پر شہداء کا خون بھی ہے
وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر اسلام آباد میں دھرنے والے افغان مہاجرین کا احتجاج ”ہمیں ماردو ” جاری ہے۔ عبد الستار ایدھی نے کہا تھا کہ حمید گل اور عمران خان میرے پاس آئے تھے اور میرے کندھے پر بینظیر بھٹو کی حکومت گرانا چاہتے تھے جس کا میں نے انکار کیا اور لندن راتوں رات منتقل ہوگیا تھا۔ سوشل میڈیا پر ”انصاف اور اُصول کی جنگ لڑنے والی اُم رباب کے قصے اور عزائم کا اظہار ہے”۔ فضل اکبر نے فیسبک اکاؤنٹ پر ”اپیل ” کے نام سے لکھا ہے کہ ”اگرIMFسے قرض لینا مجبوری ہے اور ملکی مفاد میں ہے تو ضرور لیں لیکن کیوں نہ اس بار اس قرض کا بوجھ عوام پر نئے ٹیکس لگانے کے بجائے یہ کیا جائے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی و سینٹ کے تمام ممبران اور صوبائی و وفاقی وزراء اور وزیر اعظم و صدر ، آرمی چیف اور تمام جج صاحبان اور تمام افسر شاہی سے سوائے اپنی تنخواہ کے علاوہ تمام تر مراعات واپس لے لی جائیں۔ ان کا ہاؤس رینٹ ، بجلی و گیس بل ، ڈیزل و پٹرول خرچ ، ماہانہ لاکھوں الاؤنس اور ریفریشمنٹ خرچ ، گاڑیاں، پروٹوکول، سب کچھ اپنی جیب سے برداشت کریں۔ پھر دیکھتے ہیں مہنگائی کم ہوتی ہے یا بڑھتی ہے۔ ملکی خسارہ کم ہوتا ہے یا بڑھتا ہے۔ ملک پر قرض کا بوجھ کب تک رہتا ہے؟؟؟؟ ”۔
ماہنامہ نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا کہ جب تنگی کا زمانہ آتا ہے تو سب سے پہلے ہم اپنے اضافی خرچوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور دال روٹی پر گزارہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ملک میں بڑے بڑے خرچوں کو چھوڑ کر چند سال فیصلہ کرلیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ عوامی اور حکومتی سطح پر خرچوں کو چھوڑ کر ملک کے قرضوں کو چکائیں گے تو بہت جلد سُودی قرضوں سے نجات ملے گی۔
یکم مئی یوم مزدور پر یاور عظیم کا علامہ اقبال کی نظم ”خضر راہ ” سے اقتباس
بندۂ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیغام کائنات
اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تک تیری برات
دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰة
ساحر الموط نے تجھ کو گیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات
نسل ، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
کٹ مرا نادان خیالی دیوتاؤں کے لئے
سکر کی لذت میں تو لٹواگیا نقد حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھاگیا مزدور مات
سید محمد علی ایڈوکیٹ فیس بک اکاؤنٹ پر لکھتے ہیں ”عمران خان صاحب اور شہباز شریف صاحب جلسوں پر اربوں روپیہ خرچ نہ کریں بلکہIMFکا قرضہ اتارنے کیلئے اپنے اپنے بینکوں سے پیسہ نکالیں اور جو کم پڑے اپنے اپنے ووٹروں سے فی کس1000روپیہ جمع کریں اورIMFکے منہ پر مار کر قوم کو آزاد کرائیں دونوں حضرات کے 2کروڑ سے زیادہ ووٹر ہیں۔ دیکھتے ہیں دونوں میں سے کونIMFکا قرضہ اتار کر عوام کا دل جیت لیتا ہے۔ میں اس سلسلے میں10ہزار روپے دینے کیلئے تیار ہوں۔ صرف اسلئے کہ ہمارے ملک کا قرضہ اترے۔ اور ہم اپنے فیصلے خود کرسکیں”۔
نواز شریف نے کلچر و تہذیب کو بدلنے کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا ہے مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اور ان کی وفات کے بعد جو گالی گلوچ ذو الفقار علی بھٹو کو نواز شریف دیتا تھا اور پھر سعودیہ سے جلاوطنی کے بعد شہباز شریف نے جو کلچر بنایا تھا اور اس کے درمیان جو کچھ بھی شریف برادران کا کردار رہا ہے وہ کسی طرح سے بھی عمران خان سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حیران ہوگی کہ کونسے پتر کے کرتوت پر فخر کرسکتی ہوں؟۔ دونوں نے اسلامی جمہوری اتحاد سے لے کر ریاست مدینہ تک خوب گل کھلائے ہیں۔ ایک نے مولانا سمیع الحق پر میڈم طاہرہ کے اسکینڈل کا الزام اسلئے لگایا کہ سودی نظام کیخلاف مولانا نے اپنا مطالبہ رکھا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے انقلابی شاعر سید امین گیلانی نے عابدہ حسین اور تہمینہ کے خلاف جس دور میں اشعار گائے تھے اس تہذیب کی ادنیٰ جھلک بھی تحریک انصاف میں نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے بلاول بھٹو سے لے کر ن لیگ اور اے این پی کے رہنماؤں تک مولانا ڈیزل کہہ کر جرم کیا ؟۔
شیخ رشید کو جس طرح پارلیمنٹ جاتے ہوئے گریبان سے پکڑا جاتا تھا اور جو الفاظ حنیف عباسی شیخ رشید کیخلاف استعمال کرتا ہے کہ50ہزار انعام دوں گا جو اس کی وگ اتار کر لائے۔ گھسیٹنے ، پیٹ چاک کرنے اور چوکوں پر لٹکانے کی بات شہباز شریف کرتا تھا۔ ماڈل ٹاؤن میں پر امن لوگوں کو جس طرح پولیس کے ذریعے شوٹ کیا گیا اتنا تو پاک فوج نے قبائل میں دہشت گردوں کیخلاف کسی آپریشن میں بھی نہیں کیا ہے۔ پنجاب میں جس طرح کی بدمعاشی کا کلچر ہے اور اس کی سرپرستی ن لیگ کرتی ہے اس کی ادنیٰ مثالISIکے ایک افسر کو پیٹ ڈالنا ہے۔ گاؤں دیہاتوں سے لیکر شہروں تک بدمعاشی کا سلسلہ ہے۔
ڈکیٹیٹر شپ کی پیداوار اور تربیت یافتہ سے جمہوری طرز کی اُمید لگانا اندھے کو کسی آئینے میں منہ دکھانے کی طرح جھوٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ پاکستان کے اصحاب حل و عقد کو فی الفور اسلامی قوانین کی طرف توجہ کرکے اپنے معاشرے کا رُخ درست سمت میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بلا ٹل گئی تو پھر اس سے زیادہ بھیانک صورت میں دوبارہ سر اٹھائے گی اور پھر اس پر قابو پانے میں بھی کامیابی کی کوئی گارنٹی مشکل سے دی جاسکے گی۔
ہمارے مرحوم محمد حنیف عباسی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں7نومبر2021کولکھا تھا ” مغربی ممالک میں امیروں کے ٹیکس سے غریبوں کی کفالت ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں غریبوں کے ٹیکس سے امیروں کی کفالت ہوتی ہے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟