پوسٹ تلاش کریں

برصغیرمیں دو نظام تعلیم ہیں:ایک لارڈ میکالے اور دوسرا مدارس1866ء سے دارالعلوم دیوبندکا ۔مولانا فضل الرحمن

برصغیرمیں دو نظام تعلیم ہیں:ایک لارڈ میکالے اور دوسرا مدارس1866ء سے دارالعلوم دیوبندکا ۔مولانا فضل الرحمن اخبار: نوشتہ دیوار

شاہجہاں کا بڑا بیٹا دارا شکوہ یہودی سے مسلمان بننے والے صوفی ”سرمدی” کا مرید تھا جو ننگا رہتا تھا اور آدھا کلمہ لا الہ پڑھتا تھا۔ اورنگزیب بادشاہ نے جس کو پھانسی پر چڑھادیا تھا۔ اورنگزیب نے باپ کو قید اور بھائیوں کو قتل کیا۔5سوعلماء سے فتاویٰ عالمگیریہ کی تصدیق کرائی جن میں شاہ ولی اللہ کے باپ شاہ عبدالرحیم شامل تھے۔ جو آئین تھا کہ ”بادشاہ پر قتل، چوری، زنا اور کسی جرم کے تحت حد جاری نہیں ہوسکتی ہے”۔
جمعیت علماء ہند آئین اکبری کی طرح متحدہ ہندوستان میں سیکولر اقتدارکی علمبردار تھی اور جمعیت علماء اسلام فتاویٰ عالمگیریہ کے تحت تقسیم ہند کی حامی تھی اور اسلام کا حلیہ امام ابوحنیفہ کے بعد انکے شاگرد امام ابویوسف کے وقت سے بگاڑکا شکار تھا۔
مفتی تقی عثمانی نے فقہی مقالات اور تکملہ فتح المہلم میں لکھ دیا کہ ” صاحبِ ہدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں لکھا ہے کہ سورہ الفاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے اگریہ یقین ہو کہ علاج ہوجائیگا۔ میں نے امام ابویوسف کی کتابوں میں تلاش کیا مگر یقین کی شرط نہیں ملی”۔ ہم نے مفتی تقی عثمانی کایہ فتویٰ اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اسکے خلاف فتویٰ شائع کیاتو بڑا کہرام بریلوی مکتب نے مچایا۔ جماعت اسلامی اور دیوبندیوں کی ہمدردیاں قرآن کی توہین سے زیادہ مفتی تقی عثمانی کیساتھ تھیں۔MQMکے رہنما سیکٹر انچارج سے ڈاکٹرفاروق ستار تک قرآن کیساتھ کھڑے ہوئے اور کھل کر بیانات دیدئیے۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام سے علاج کا کیا چکرہے؟۔ فقہ کی پہلی کتاب ”مالابدمنہ” ہے کہ ”اگر گدھا نمک کی کان میں گر جائے اور نمک بن جائے تو پاک ہے”۔ گوبر کے راکھ بننے پر بھی اس کی نجاست پاکی میں بدل جاتی ہے۔ادویات کا تعلق کیمیائی تبدیلی سے ہوتا ہے ۔پانیH2,Oہاہیڈروجن اور آکسیجن میں بدل جائے تو ماہیت بدل جاتی ہے۔ اللہ کی عطاء اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی برکت سے درجہ اولیٰ میں مجھے مفتی تقی عثمانی سے زیادہ فقہی مہارت ملی تھی۔ حرام سے علاج کا تعلق خنزیر کے گوشت سے ہو تب بھی بقدر ضرورت جائز ہے۔ لیکن سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا تعلق علاج نہیں قرآن کی دشمنی سے ہے۔ فتاوی قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ سب نے یہ بکواس کرکے قرآن سے دشمنی اور اپنی حماقت کا ثبوت دیا ہے۔
اس حماقت کی تعلیم مدارس کا درسِ نظامی ہے ۔ پہلے مجھے بھی بات سمجھ نہیں آئی اور اساتذہ کو بھی لاعلم اور جاہل پایا۔ درجہ اولیٰ میں مفتی عبدالسمیع شہید سے میری بحث ہوئی تھی جس پر مجھے علامہ تفتازانی قرار دیا جانے لگا تھا،جو میں جانتا بھی نہیں تھا۔
قرآن کی تعریف: المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلاً متواتراً بلاشبہ ۔ ”جو صحائف میں لکھا ہواہے جو نقل کیا گیا ہے متواتربلاشبہ” ۔صحائف میں لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ۔کیونکہ لکھا ہوامحض نقش ہے ۔نقل متواتر سے غیر متواتر آیات خبر احاد اور مشہور نکل گئیں اور بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گیا اسلئے کہ اگر چہ صحیح یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے۔ (نورالانوار: ملاجیون)
1: جب لکھائی قرآن نہیں تو پھر پوٹی یا پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔ یہ کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی نہیں تھا کہ مصاحف میں لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے؟۔ جبکہ قرآن کی ڈھیر ساری آیات میں لکھے ہوئے کو قرآن اور اللہ کا کلام قرار دیا ہے۔ لیکن جب اصول فقہ میں قرآن کی تعریف بھی قرآن کے خلاف ہو اور فقہ میں یہ مسئلہ پڑھاجاتا ہو کہ اگر قرآن کی قسم کھائی تو حلف کا کفارہ دینا ہوگا مگر قرآن کے مصحف پر قسم کھائی تو کفارہ نہیں ہوگا اسلئے کہ مصحف قرآن نہیں ہے۔
یہ علم الکلام کی گمراہی کا مسئلہ تھا جس سے امام ابوحنیفہ تائب تھے لیکن پھر بھی ان کے نام پر درباری علماء نے یہ سلسلہ چلایا۔ قاضی القضاة ابویوسف سے ملاجیون تک سب درباری تھے۔
2: جب قرآن میں شک اورغیرمتواتر آیات بھی ہیں تو قرآن کی حفاظت پر ایمان رکھنا عجیب حماقت ہوگی؟۔
3: صدر وفاق المدارس مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کشف الباری شرح صحیح البخاری میں لکھ دیا ہے کہ ” حضرت علی سے ابن عباس نے نقل کیا کہ رسول اللہۖ نے قرآن مابین الدفتین کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا۔یہ بخاری نے شیعہ کی تردید کیلئے نقل کیا ہے کہ تم تحریف کا عقیدہ رکھتے ہولیکن تمہارے علی تحریف کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے لیکن اصل میں قرآن کے اندر تحریف ہوئی ہے۔ ابن مسعود نے حضرت عثمانکی طرف سے کسی حسین لڑکی کیساتھ نکاح کی پیشکش کو اسلئے قبول نہیں کیاکہ اس کو جمع قرآن میں شریک نہیں کیا تھا۔
4: علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں لکھا” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہے لیکن لفظی بھی ہے عمداً کی گئی ہے یا مغالطہ سے”۔جس پر قاضی عبدالکریم کلاچی کا اضطراب اور مفتی فرید اکوڑہ کا غیر تسلی بخش جواب” فتاویٰ دیوبندپاکستان” میں شائع ہوا ہے۔اور مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے کفر کا فتویٰ بھی لیا ہے۔
5: حنفی مسلک میں خبرواحد آیت بھی قرآن کے حکم میں ہے لیکن خبرواحد کی حدیث کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔شافعی کے ہاں قرآن کے علاوہ کسی خبرواحد آیت پر ایمان کفر اور قرآن میں تحریف ہے البتہ خبرواحد کی حدیث معتبر ہے۔نورالانوار میں قرآن کی تعریف سے خبرواحد کی آیت کو قرآن سے باہر کیا مگر پھر آیت بھی قرار دیا۔ جس سے دین کا کباڑ خانہ بنادیاہے۔
اگروزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی مدارس کی کفریہ تعلیم کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میںچیلنج کریں توفرقہ واریت ختم ہوگی۔ پاکستان ، افغانستان ، بھارت ، ایران اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بحران سے نکالنے میں بڑی مدد ملے گی۔ پہلے بھیMQMکی کاوش سے شیعہ، سپاہ صحابہ ، بریلوی اور دیوبندی اکٹھے بیٹھ جاتے تھے۔فرقہ وارانہ آگ کوMQMنے بجھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب اگر تعلیم کی سطح پر نظام درست ہوگیا تو اسلام کی خاطر ہجرت اور قربانی دینے والے مسلمانوں کے آباء واجداد کی روحوں کوبہت تسکین مل جائے گی۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے کراچی کو مرکز بنانے کا لکھا ہے ۔کراچی کے مدارس ہدایت و گمراہی میں پورے پاکستان ، خطے اور عالم اسلام کی قیادت کرتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی و مفتی عبدالرحیم ” ٹام اینڈ جیری کارٹون” کے پیچھے ایک فلسفہ بھی ہے۔ مولانا زین العابدین لسوندی کا تعلق وزیرستان کے ایک معروف مذہبی گھرانے سے ہے اور اس کو ایک تنخواہ حکومت اور دوسری بیرون ملک سے مسجد کی مل رہی تھی۔ رمضان کے بعد عید کا فطرانہ جمع ہوا تو مولانا نے کہا کہ ”گاؤں میں جو غریب بیوہ ہے اس کو دے دو”۔ لوگ حیران ہوگئے کہ کیا غریب بیوہ کو فطرہ کی رقم دی جاسکتی ہے؟۔ مولانا نے کہا کہ کیوں نہیں،بالکل دی جاسکتی ہے۔لوگوں نے کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ یہ صرف استاذ(مولوی)کا حق ہے۔بہت خوش ہوگئے اور فطرہ کی رقم بیوہ کو دیدی۔ پھر عیدقربان آیا تو اس نیکی کا بدلہ دینے کیلئے لوگوں نے قربانی کی کھالیں مولاناکیلئے جمع کردیں۔ مولانا نے کہا کہ یہ بھی بیوہ کو دے دیں۔ مجھ سے زیادہ اس کو ضرورت ہے ،چھوٹے یتیم بچے ہیں۔ لوگ حیران اور خوش ہوگئے کہ قربانی کی کھالیں بھی بیوہ کو دی جاسکتی ہیں۔
علماء کو پتہ چلا کہ نئی روایت پڑگئی تو مولانا زین العابدین اور اسکے بھائی کو طلب کرلیا۔گاؤں والے سمجھ گئے۔ عمائدین اور25بندوق بردار جوان مولانا کیساتھ ہوگئے ۔ عمائدین نے کہا پہلے علماء کے گاؤں کے عمائدین سے بات کرتے ہیں۔ ان کے پاس گئے تو کہا کہ ہمیں بہت شریف مولانا مل گئے ہیں اور اب تمہارے علماء اسکے پیچھے پڑگئے ہیں۔خدارا اپنے علماء کو روک لو۔ انہوں نے کہا کہ ان دلوں سے ہم بھی تنگ ہیں اگر تم نے ان کو ہرادیا تو ہم خود ہی ان کو علاقہ سے نکال دیں گے۔
مولانا زین العابدین نے مخالف علماء سے کہا کہ تم نے ہر جگہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا تو میں نے سوچا کہ بدنام ہوا مگر اب بزدل نہ کہلاؤں، کسی نے بکرے کا سرمٹکے سے نکالنے کیلئے پہلے بکرا ذبح کیا اور پھرمٹکا بھی تھوڑ دیا۔ آپ نے ذبح تو کردیا ہے اور اب مٹکا سلامت رہ جائے تو بھی صحیح ہے۔ میں ایک معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھتا ہوں۔ دادا مشہور عالم تھا اور والد اور چچا بھی علماء ہیں۔ میں یہاں مہمان آیا ہوں تو آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کسی چیز کی ضرورت ہے؟۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری واقعی غلطی ہے۔ مولانا نے کہا کہ اب آپ میرے مخالف فریق بن گئے ہو اسلئے تم فیصلہ نہیں کرسکتے۔ آپ کے اور ہمارے گاؤں کے عمائدین کے سامنے بات رکھ لیتے ہیں توپھر وہ جو بھی فیصلہ کریں۔ علماء بہت پریشان ہوگئے ،ایک نے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اب گاؤں اس کے ساتھ ہے اس کو اکیلامت سمجھو۔ ان کی پریشانی کو دیکھ مولانا نے رحم کیا اور ان کو سمجھایا کہ کسی کے عقیدے پر شک ہو تو لکھوالو کہ یہ عقیدہ ہے پھر کوئی منافق بھی ہوگا تو اس کے آپ ذمہ دار نہیں ہو۔ وہ کہنے لگے کہ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ مولانا کے بھائی نے کہا کہ ان سے میں صلح نہیں کرتا تو اس نے بھائی کو سمجھایا کہ گاؤں کے عمائدین ان کے مخالف ہیں تو ہمیں موقع نہیں دینا چاہیے ۔
مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق سے مدرسہ کیلئے پیسے بھی بٹورے تھے اورمدرسہ سے متصل کھیلنے کا میدان بھی لے لیا تھا۔ یہ تو شروع سے سرکاری ودرباری ملاؤں کی شہرت رکھتے ہیں۔2019ء کے معاہدے تک ساتھ تھے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مفتی عبدالرحیم نے احسن آباد میں غریبوں کو فیملی پارک کیلئے مدرسے کا پلاٹ دیا ہے ۔یہ سخاوت مفتی تقی عثمانی سے ہضم نہیں ہورہی ہے۔ مولوی لینا جانتے ہیں مگر دینا نہیں جانتے۔جب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ دارالعلوم کراچی کے قریب غریب لوگ بھوک سے مررہے ہیں اور یہ زکوٰة وخیرات کے پیسوں پر گلچھرے اڑاکر اللے تللے میں مصروف ہیں۔ تو دنیا جاگ جائیگی۔ ایک مشہور دیوبندی عالم نے کہا کہ ”دارالعلوم کراچی کے علماء تھانوی ہیں اور یہ اتنے کنجوس ہیں کہ اپنا بخار بھی کسی کو نہیں دیں”۔ کنجوس کے علاوہ جھوٹے بہت ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ”بھارت سے ہجرت کرتے وقت ہماری خواتین کے زیورات بھی چھین لئے تھے اور کچھ بھی پاس نہیں چھوڑا تھا لیکن اس کے بیٹے نے وش قرآن چینل کو بتایا کہ ہمارے ساتھ بہت دھوکہ ہوا تھا ۔جب دادا صاحب سنار کے پاس سونے کی گٹھڑی لیکر گئے توسارا سونا کھوٹ نکل گیا”۔
1824ء میں انگریز نے عربک کالج دہلوی کو اسلام، ہندو مذہب، بدھ مت اور عیسائیت کے علاوہ دیگر زبانوں سنسکرت، انگریزی اور عربی وغیرہ کیلئے اوپن کردیا تھا۔ جب1857ء میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے آزادی کی جنگ لڑی تو انگریز نے پہلے چند سال دہلوی کالج بند کیا اور پھر عربی ،سنسکرت وغیرہ کی تعلیم ختم کردی اور1860ء سوشل ایکٹ نافذ کردیا۔ جس میں غیرسیاسی فنی تعلیمی ادارے بھی شامل تھے۔ صحافی رانا مبشرJUIکی خاتون رہنما سے بار بار سوال کررہاتھا کہ مدارس میں ڈرامے، فنون لطیفہ اور گانے ڈانس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے؟۔
1870ء میں ایسٹ انڈین کمپنی سے برطانوی ہند نے خود حکومت لی۔ دہلوی کالج میں عربی کی تعلیم ختم ہوگئی تو دہلوی کالج کے فاضل ذوالفقار علی (والد شیخ الہند )، فضل الرحمن عثمانی ڈپٹی انسپکٹر محکمہ تعلیم ہند( والد مفتی عزیز الرحمن عثمانی وعلامہ شبیراحمد عثمانی) سید عابد حسین اور قاسم نانوتوی نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ جس کے پہلے مہتمم سید عابد حسین مقرر ہوئے تھے۔
سلیم صافی نے ”باچا خان کی یادگارپروگرام” میں کہا تھا کہ ”باچا خان نے مفتی محمودکو ایک مرتبہ وزیراعلیٰ بنادیا تو مفتی کے خاندان نے ایسا قبضہ کیا کہ باچا خان اور اس کی پارٹی باہر اور مولانا فضل الرحمن اور اس کی فیملی ابھی پکا قبضہ کرکے بیٹھ گئی”۔
قاسم نانوتوی کے بعد بیٹا حافظ احمدپھر پوتا قاری محمد طیب1930ء سے1980ء تک مہتمم تھا۔ پڑپوتا مولانا سالم قاسمی کی خواہش پوری نہ ہوسکی تو پھر قاری طیب نے یہ نعت پڑھی۔
نبی اکرم شفیع اعظم دکھے دلوں کا پیام لے لو
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو
شکستہ کشتی ہے تیز دھارا نظر سے روپوش ہے کنارا
نہیں کوئی ناخدا ہمارا خبر تو عالمی مقام لے لو
قدم قدم پہ ہے خوف رہزن زمیں بھی دشمن فلک بھی دشمن
زمانہ ہوا ہے ہم سے بدظن تمہی محبت سے کام لے لو
یہ کیسی منزل پہ آگئے ہیں نہ کوئی اپنا نہ ہم کسی کے
تم اپنے دامن میں آقا آج تمام اپنے غلام لے لو
یہ بریلوی طرز کی نعت ہے ۔ ”یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے”۔ اگر دیوبندی مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی کتاب ”فیصلہ ہفت مسئلہ” پر عمل کرتے تو فرقے نہ بنتے ۔ اکبر بادشاہ نے کانیگرم میں مقبرہ بنایا مگر وہ کاروبار نہیں بن سکا۔ وزیرستان کی وجہ سے دیوبند کو فروغ ملا ہے۔ مدارس کا دین سے تعلق کم اور دنیا کمانے سے زیادہ ہے۔
1982 میں پھر دار العلوم دیوبند وقف بھی بن گیا ۔ جب مدارس تجارتی مراکز ہیں تو نصاب ٹھیک کرنے اور لوگوں کے ایمان کو بچانے کی کاروباری ملاؤں کو کیا ضرورت ہے؟ ۔ اگر عوام نے سوال اٹھانا شروع کیا تو اصلاح ہوگی۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

کیادنیا اسلام سے خوفزدہ ہے کہ خلافت قائم ہوگی تو کفار کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو لونڈیاں بنالیا جائیگا؟
اسلام کی نشاة ثانیہ اور کانیگرم :پیر عابد
برصغیرمیں دو نظام تعلیم ہیں:ایک لارڈ میکالے اور دوسرا مدارس1866ء سے دارالعلوم دیوبندکا ۔مولانا فضل الرحمن