برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے واضح نقصانات اور اصل فوائد کا آئینہ
اکتوبر 11, 2017
تقسیم ہند کے زبردست اور واضح نقصانات
1: انگریز و یہود کے سودی نظام کو کمیونزم سے خطرہ تھا اسلئے برصغیر پاک و ہند کو تقسیم کرنے کا بھرپور ساتھ دیا۔ جنہوں نے آزادی کیلئے جیل کاٹی اور نہ بغاوت کا سامنا کیا۔ ’’لڑاؤاور حکومت کرو ‘‘ کی سیاست کا حق اداکیا۔ انہیں اپنے ایجنڈے کیلئے استعمال کیا۔ آج وہی انگریز و یہود اسلام کو سوشلزم کیخلاف استعمال کرنے کے بعد اسلامی ممالک کو تباہ کرتے کرتے یہانتک پہنچا ۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام کے بعد پاکستان پر دستک دی جا رہی ہے اور ہم ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ اگرتقسیم ہند نہ ہوتا تو یہ کھیل بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ برمی اور کشمیری مسلمانوں کو پاکستان سے الحاق کی کوشش نے بد حال بنادیاہے اور ہمارا یہ حال ہے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر شہری گولیاں کھاتے کھاتے عادی ہوگئے ۔ آرمی چیف نے کہا کہ مشرق مغرب کے دشمن سن لیں ان کا بارود ختم ہوجائیگا مگر ہمارے جوانوں کے سینے ختم نہ ہونگے‘‘۔ اگر بہادری نہیں کرسکتے تو کلبھوشن کو کنٹرول لائن کے پاس باندھ دیتے تاکہ ان کا اپنا ہی کوئی گولہ ان کو لگ جاتا۔ اقوام متحدہ نے کشمیر پر ہمیں دھوکہ دیا مگر پھر بھی کلبھوشن کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں چل رہا ہے۔ یہ کہنا کہ ’’لاالہ کے امین ہونے پر فخر ہے‘‘ مگر دشمن کے پیر وں کی جوتی بن کر بھی یہ رٹ ہے۔
2: افغانستان میں روس و امریکہ کی جنگ نہ لڑی جاتی، سپر طاقت روس کا خاتمہ نہ ہوتا۔ پڑوسی بھارت ،افغانستان اور ایران سے دوستی رہتی۔امریکہ ونیٹواس خطے کو اسلحہ فروخت کرنے اور ہیروئن کاشت کرنے کیلئے ٹھکانے نہ بناتے۔ منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ سے امریکی CIA اور اسکے گماشتے ذاتی اکاؤنٹ بناتے ہیں جس کاخمیازہ غریب ممالک بلکہ پوری انسانیت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان تباہ ہواتو بھارت کے مسلم و ہندو بڑے پیمانے پر امریکی و عالمی ایجنڈے کی زد میں آئیں گے۔جب تک بھارت اور پاکستان کو لڑاکر دم نہ لیں ،امریکہ اور یہودی اپنے مشن کی تکمیل نہیں کرسکتے ۔ پاک فوج بہت کمزور یا متحمل مزاج ہے۔ بھارت نے لاہور پر ہلہ بول دیااگر بھارت پاکستان کو فتح بھی کرلیتا تو مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بننا تھا، مغربی پاکستان کیا بنتا؟۔ نیٹو افغانیوں کو نہیں سنبھال سکتا تو بھارت کیا کرسکتا تھا؟ البتہ کارگل کی طرح نہیں بڑے پیمانے پر پاک فوج کشمیر پر ہلہ بول دیتی تو کشمیری نے بھارتی فوج کوپکڑ کر وہی کرنا تھا جو بنگالیوں نے پاک فوج کیساتھ کیا۔ یہ تمام کی تمام رنجشیں تقسیم ہند کا شاخسانہ ہیں۔ بھارت میں مسلمان اور ہندو برادری ایک ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کیساتھ رہ سکتے ہیں ، پاکستان میں بھی رہ سکتے ہیں تو پھر تقسیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ ہندو سیکولر اچھوت سے غیر انسانی برتاؤ کرتے ہیں۔اسلام ذات پات، عرب عجم ، کالے گورے نہیں کردا کو ترجیح دیتا ہے۔ عرب انگریز کو آقا اور برصغیر کے لوگوں کو غلام سمجھتے ہیں ۔سیکولر ہندو اور روشن خیال مسلمانوں نے مل کر ہندوستان سے انسانیت اور اسلام کو دنیا میں امامت کے مقام پر فائز کرنا تھا۔
3: اسلام کا درست تصور پیش ہوتا، کمیونزم کیخلاف محاذنہ بنتا تو متحدہ ہندوستان اسلام اور انسانیت کی بہتر تصویر پیش کرتا۔ اقبال نے کمیونزم پر فرشتوں کا گیت ’’جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی ، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو‘‘ نظم لکھ دی تھی۔ روس کے بارے میں اسلام قبول کرنے کی پیش گوئی کی تھی۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے اظہارِ خیال کیا تھا کہ شیطان کو اصل خطرہ آنیوالے کل میں کمیونزم نہیں اسلام سے ہے۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ پاکستان نے امریکہ کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا مگر صلہ کیا ملا؟۔ دنیا بھر کے علاوہ بھارت میں ان مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو مغلیہ کے دور میں حکمرانی کرچکے ہیں۔ خلافت بحالی کیلئے انگریز کیخلاف ہندو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ تحریک چلارہے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر’’کامریڈ‘‘ کے نام سے صحافت کرتے تھے، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان نظریاتی مسلم لیگیوں کا رحجان انگریز ویہود کے سودی نظام نہیں روس کی طرف تھا۔ قائداعظم بھی پہلے کانگریس میں تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کانگریس میں شمولیت اسلئے اختیار کی تھی کہ ہندو نے انگریز سے آزادی کیلئے جدوجہد شروع کی تھی ۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے کہا ’’ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں مگر تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے‘‘۔
پاکستان بننے کے زبردست اور واضح فوائد
1:مسلمانوں کی سب سے اہم کتاب قرآن مجید میں فاتحۃ الکتاب کے بعد پہلی سورت البقرہ ہے، جس میں گائے ذبح کرنے کو کسی واقعہ میں مسئلے کا حل بتایا گیاہے۔ پاکستان نہ بنتا تو حیلہ ساز علماء نے جس طرح اسلام کی تعلیم کو سود وغیرہ سمیت مسخ کرکے رکھ دیا ہے یہ بھی دیکھنے کو مل سکتا تھا کہ اکبر بادشاہ کی روحانی اولاد ہمارے درباری علماء و مفتیان فتوے جاری کردیتے کہ متحدہ ہندوستان میں قرآن کی سورۂ بقرہ کی تعلیم پر پابندی ہے جس میں گائے ذبح کرنے کاذکر ہے۔ عوام اور علماء کا قرآن سے براہِ راست رابطہ نہ تھا مگر جب قرآن کا ترجمہ عام ہونا شروع ہوا تو اس پر پابندی کے خطرات بھی منڈلاتے۔ ہندو بھائی چارے میں مسلمان پڑوسی اور برسرِ اقتدار طبقے کا خیال رکھتے ،تب بھی گائے ذبح کرنے پر پابندی کو دنیا قبول نہیں کرسکتی تھی۔ بھارت سب سے زیادہ گائے کا گوشت ایکسپورٹ کرنیوالا ملک ہے۔ پاکستان کا وجود بھارتی ریاست کو آکسیجن فراہم کررہاہے۔ گاؤ ماتا بوجھ بن کر بھارت کیلئے مسائل کھڑے کرتی ۔ مہاتما گاندھی کو انتہاپسند ہندو نے موت کے گھاٹ اُتارا۔ انگریز کو مصنوعی انتہاپسند مسلمان سے چڑہے توحقیقی انتہاپسند ہندو کو کہاں برداشت کریگا؟، رسول ﷺ نے اقراء کے سبق سے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا۔ اب پھر مسلمانوں کو جہالت کے اندھیرے نے گھیر لیاہے اور پاکستان بہتر تجربہ گاہ بن کر نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ ایشاء اور پوری دنیا کو بھی حقیقی روشنی فراہم کرسکتا ہے۔
2: دارالعلوم دیوبند و جمعیت علماء ہند نے ہندوؤں کیساتھ حکومت کی تحریک چلاکر نہ صرف دین اکبری کی پوزیشن کو زندہ کرنے کی کوشش کی بلکہ اسلام کو اقتدار سے بھی الگ کردیا تھا۔اکابر دیوبند نے کانگریس کے سیکولر نظام کو اسلام کا تقاضہ قرار دیا جبکہ پاکستان میں جمعیت علماء ہند کی بچی جمعیت علماء اسلام کا مؤقف سیکولر طبقات کے خلاف اسلام کے نام پر مذہبی محاذ تھا۔ جس طرح جمعیت علماء ہند نے بھارت میں کانگریس کا ساتھ دیا، اسی طرح جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا مگر موجودہ جمعیت علماء اسلام دراصل مسلم لیگ کی وہ حامی جماعت نہیں بلکہ جمعیت علماء ہند والوں نے اس پر قبضہ کرلیا ہے۔ مسلم لیگ کے نااہل نوازشریف اور دیوبند کے نااہل وارث مولانا فضل الرحمن ہیں۔ مسلم لیگ کی مودی سے یاری زروروں پر ہے۔شعور واآگہی سے ایک عظیم انقلاب آسکتاہے۔
3: بھارت کی پاکستان سے دشمنی یہ ہے کہ ملک تقسیم کیوں ہوا؟۔ تقسیم ہند کا مقصد یہ نہ تھا کہ اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوں کی محبت میں ایکدوسرے سے دشمنی کی جائے بلکہ مسلمانوں کا تعلق ملت اسلامیہ سے تھا، جو عرصہ سے اقتدار میں رہے ۔ اقتدار سے متعلق شرعی حدود اس بات کا تقاضہ کررہے تھے کہ مسلمانوں کی خود مختار حکومت ہو۔ یہ بھارت کے حق میں بھی بہتر تھا ورنہ بنگال، بلوچستان، سندھ، پنجاب، پختونخواہ، کشمیر اور وسط ہند یوپی، بہار اور دیگر مسلم اکثریتی حصوں میں اسلام کیلئے ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہتا۔ جب بارِ حکومت مسلمان کے کاندھے پر پڑگیا تو بھارت نے بھی سکھ کا سانس یقیناًلیا تھا۔ بھارت جموں و کشمیر پاکستان کے حوالہ کرکے تحفے میں دیدے تو دشمنی کی ساری بنیادیں دوستی میں بدل جائیں گی۔ بھارت کو پاکستان سے راہداری مل گئی تو ایران اور وسط ایشاء کے خزانوں سے خود بھی مالامال ہوگا اور اپنی ساری چیزیں وہاں ایکسپورٹ کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ جس طرح مشرکین مکہ اور مدینہ کے مسلمان مہاجرایک قوم قریش تھے اور آخر کار شیروشکر ہوکر پوری دنیا پر غالب آگئے، اس طرح پاک وہند نے مل کر دنیا کو فتح کرنا ہے۔ کشمیر اتنا بڑا مسئلہ نہیں اس میں بنگلہ دیش کا بدلہ بھی ہم چکالیں گے مگرنیٹو نے پاکستان کو تباہ کیا تو بھارت کی تباہی یقینی ہے۔ اتنے مسلم ممالک تباہ ہوگئے لیکن مسلمان پھر بھی اپنی موجودگی ظاہرکر رہاہے مگر بھارت تباہ ہوا تو ہندو کا نام اور نشان تک مٹ جائیگا۔
ہندو مذہبی ’’ویدوں‘‘ کی پیش گوئی میں نبیﷺ اور مہدی کے حوالہ سے معاملہ خلط ملط نہ ہوتا تو ہندو اسلام قبول کرلیتے۔مشرکین مکہ ابراہیم ؑ توہندو نوحؑ کے دین پر ہیں،حرم پاک سے اسلام کی نشاۃ اوّل ہوئی، ارض پاک سے نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوگا۔ علامہ اقبال نے ہندوستان کا گیت گایا تھا جہاں سے نبیﷺ کو ٹھنڈی ہوا آئی۔ ریاست مدینہ کی طرح پاکستان سے اسلام کا ماڈل پیش ہوگااور دنیا خلافت سے امن و سلامتی کا گہوارہ بنے گی۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے
پاکستان میں بڑا کھیل شروع ہوچکا۔اپریل 2018ء تک ملک توڑنا بھارت وامریکہ کی سازش ہے۔ بلوچستان کاخلفشار، سندھ و پختونخواہ میں بد اعتمادی توپنجاب و مرکز میں بھی ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضاء ہے، میڈیا بدترین وکالت سے شعلوں کو مزیدبھڑکا تا ہے۔
کبھی نبیﷺ کے فیصلے و اکثریت کے منافی وحی نازل ہوتی تھی ، جس سے قیامت تک آنیوالے مسلمان اعتدال سے نہیں ہٹ سکتے۔صلح حدیبیہ میں قوم کا جذبہ اور مشورہ رسولﷺ کی رائے کیخلاف مگر اللہ نے فتح مبین کہا، جسے صحابہؓ نے ذلت قرار دیا۔ بدر ی قیدیوں پر فدیہ لینے میں اکثریت کا مشورہ اور نبیﷺ کا فیصلہ ایک طرف تھا اور 2 حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ نے رائے مختلف دی۔ اللہ تعالیٰ نے 2 کی رائے کو درست ،نبیﷺ کافیصلہ نامناسب قرار دیا ۔ کیا کوئی اپنی اوقات نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر سمجھ سکتا ہے؟۔نااہلوں کی کوئی فرعونیت نہیں چلے گی!۔
حکومت کے دربار میں عمرؓ اورسعدؓ جیسا ایک بھی ہوتا تو نوازشریف کے کان میں سہی لیکن بول دیتا کہ ’’ پارلیمنٹ میں کہا کہ سعودیہ ودبئی کی مِلیں بیچ کر 2006ء میں لندن کے فلیٹ خریدے ، جسکے تمام دستاویزی ثبوت اللہ کے فضل وکرم سے موجود ہیں۔ عدالت کے ججوں نے آخر تک کہا کہ اگر لندن فلیٹ کے کاغذات دکھا دو تو ہم کیس کو خارج کردینگے لیکن میاں جی! آپ نے نہیں دکھائے۔ یہ بیٹے سے تنخواہ وصول کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ مقدمہ یہی تھا کہ آپ اور بیٹوں کی جائیداد ایک ہے۔ اپنے مال سے کوئی بھی تنخواہ نہیں لیتا۔ مال آپ کا ہے اور نام بیٹوں کا‘‘۔
عدالت میں اس اندازسے راجہ رنجیت سنگھ پیش نہ ہوتا جیسے نوازشریف مسلح جتھے کیساتھ پیش ہوا۔رُول آف لاء کی رَٹ والاوزیرداخلہ احسن اقبال اس پر استعفیٰ دینے کی دھمکی دیتا تو جمہوریت مستحکم ہوتی۔ روزنامہ جنگ اور دیگر اخبارات کی شہہ سرخیاں تھیں کہ عدالت کو رینجرزکی تحویل میں دیا گیا، وزیروں اور جتھے پر پابندی ہے تو وزیر داخلہ کیسے بے خبر تھے؟۔ پولیس میں نوازشریف کے مسلح جتھے کو روکنے کی ہمت نہیں تھی تواسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
وزیرداخلہ اعلان کرتا کہ ’’ عدالتی پیشی پرہماری نااہلی سے بد مزگی کی وہ ناخوشگوار فضاء پیدا ہوئی کہ ایس ایس پی پولیس اسلام آباد کو اپنی بے بسی کی بنیاد پر رینجرز طلب کرنی پڑی ۔ فوجی تربیت قانونی تقاضہ نہیں سمجھ سکتی۔ وہ صرف حفاظت کرنا جانتی ہے،اسلئے نوازشریف کا وکیل بھی روک دیا گیا تھا۔ اس میں کسی اور نہیں وزیرداخلہ کی غلطی ہے‘‘۔
احسن اقبال اخلاقی جرأت سے کہے کہ ’’ نوازشریف کی عدالت میں پیشی کو قانونی و اخلاقی تقاضوں کے مطابق بنانا میرا کام تھا۔ شرمندگی نہیں قابلِ فخر ہے کہ پولیس نے رینجرز سے مدد مانگ لی اور قوم کو دکھا دیا کہ اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے درمیان گٹھ جوڑ ہے اور نہ گھٹیا مراسم کہ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑا جائے اورہماری فورسز تماشائی بن کر بیٹھ جائیں۔ رینجرز کے کمانڈر کو شاباش دیتا ہوں ، جس نے اپنافرض اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرکے دکھایا ہے‘‘۔
ایک بادشاہ نے تربیت یافتہ نوکر رکھا۔ پیشہ ور نوکر نے کہا کہ مجھے ڈیوٹی کی فہرست لکھ دی جائے۔بادشاہ نے ڈیوٹیوں کی لسٹ تھمادی۔ بادشاہ نوکر کو شکار پر لے گیا اور بادشاہ گھوڑے سے گر پڑا تو پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔ گھوڑا بادشاہ کو روند کر گھسیٹ رہا تھا ، بادشاہ مدد کیلئے چیخ رہا تھا لیکن نوکر اپنی ڈیوٹی کی فہرست دیکھ رہا تھا کہ اس کی ڈیوٹی میں یہ شامل ہے یا نہیں؟۔یہی حال حکومت، فوج اور عدالت کا ہے کہ پاکستان تباہ ہورہاہے اور یہ ڈیوٹی کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہماری ڈیوٹی کیا ہے؟۔ مریم نواز نے یہ کہا کہ ’’میں بھی نوازشریف ہوں، تم بھی نوازشریف ہو ۔ I LOVE YOU+ I LOVE YOU 2 ‘‘مگر قوم اور ملک کو اس عاشقانہ انداز میں نہیں چلایا جاسکتا۔
1906ء کو مسلم لیگ نواب وقارالملک اور سر آغا خان نے بنائی تھی۔نوازشریف تقریر کرتے کہ’’ 2006ء میں لندن فلیٹ خریدنے کے جھوٹ پر مجھے پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار دیاگیا۔ اعتراف کرنے میں حرج نہیں کہ مجھ سمیت سب کو مسلم لیگ کا صد سالہ جشن منانے کا خیال اسلئے نہ آیا کہ ہم موسم لیگی شروع سے اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں۔ہم نے تعصبات کی بنیاد پر تقسیم کا ایجنڈہ پورا کیااورہم اب بھی عالمی قوتوں کیساتھ تقسیم کے ایجنڈے پر کھڑے ہیں۔تعصب مفاد کانام ہے نظرئیے کا نہیں‘‘۔
یہ وقت ہے کہ بلوچی گاندھی کے نمائندے محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو کہیں کہ ’’بابا اسٹیبلشمنٹ مخالف کا کردار ہم نے اسلئے ادا کیا کہ جھوٹ ، لاقانونیت ، کرپشن اور ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہو۔ ایسی گورنری اور بلوچستان کے اقتدار میں شمولیت کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں جہاں جمہوریت کے لبادے میں کھلے عام یہ سب کچھ ہورہاہے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن و اسفندیارولی کہیں کہ ’’ سرحدی گاندھی غفار خان، بااصول سیاستدان ولی خان اورجمعیت علماء ہند و مفتی محمود کی ارواح کوعدالتی کٹہرے میں بدمعاشی اور عوام کے سامنے ڈھٹائی سے جھوٹ کے باوجودنوازشریف کا ساتھ دینے پر تکلیف پہنچے گی۔ تاریخ کے اس موڑ پر ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم کسی کے مہرے اور مفادپرست پہلے تھے ،نہ آج ہیں۔ جو اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ بنکے فوج کو بدنام کرتے تھے وہ آج جمہوریت کی لاش سے کفن کھینچ کر قوم کے سامنے خود بھی برہنہ پا، برہنہ سر اور برہنہ دھڑ کھڑے ہیں الحفیظ والامان‘‘جس سے پاکستان، جمہوری نظام اورخطے کو استحکام ملتااور تاریخ کے داغ دھبے بھی دورہوتے۔ ملازم اور ایجنٹ میں فرق ہوتاہے۔ مسلم لیگی پہلے انگریز دور میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ تھے اور پاکستان میں بھی ہمیشہ رہے۔ فوج انگریز ی دور میں ملازم رہی اور آج بھی ملازم ہے۔ علماء کا فتویٰ تھا کہ انگریز کی ملازمت جائز نہیں مگر مولانا فضل الرحمن کاوالد ملازم تھا اور مولانا اشرف علی تھانوی پر بھائی کی وجہ سے الزام لگاتھا۔
صحافیوں پر پردے کے پیچھے پہلے بھی الزام لگتا تھا مگر اب حالت بہت خراب ہوئی ہے۔’’ عرب لڑکی نے فون کیلئے رعایت مانگی، دکاندار نے کہا: برقعہ اٹھایا توملے گی۔ اس نے برقعہ اٹھایا تو برہنہ تھی۔ یہ رعایت کی قیمت تھی‘‘۔ پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پر شیخ رشید و جماعت اسلامی نے ختم نبوت کے مسئلے پر خوب آواز اٹھائی۔ میڈیا پہلے سے آواز اُٹھا چکا تھا ، شہباز شریف نے کہا کہ وزیر برطرف کیا جائیگا مگرکامران خان اپنے شومیں یہ سب کچھ دیکھ کر جان بوجھ کرکہہ رہاتھاکہ ’’کمپیوٹر کی غلطی سے جو لفظ مٹ گیا ، وہ صحیح کردیا گیا مگر سب نے اس پر خوب سیاست کی‘‘۔ اس ننگِ صحافت پرکامران خان نے عرب دوشیزہ کی طرح قیمت وصول کی ہے یا بڑھاپے کی وجہ سے ذہن کام نہیں کررہاہے ؟۔یہ بہر حال المیہ ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ