چوہدری نثار کے بیان پر تبصرہ : ایڈیٹرنوشتۂ دیوار: اجمل ملک
ستمبر 16, 2016
جاویدپراچہ نے انکشاف کیاتھا کہ شہباز تاثیر کی اطلاع طالبان نے چوہدری نثار کو دی تھی، پھر سلیم باجوہ کو کیوں بدنام کردیا ؟
پہل کرنے میں چوھری کی عزت ہے ورنہ پھر شکوہ ہوگا کہ ’’ بڑے بے آبرو ہوکے اس کو چے سے ہم نکلے‘‘ایڈیٹر:اجمل ملک
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کا بیان آیا ، تو چودھری نثار نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ سول حکومت قومی ایکشن پلان پر عمل نہیں کرتی ہے۔ چوہدری نثار کی بات درست ہے تو ناصر جنجوعہ کو کیوں آخر میں ذمہ داری سونپی گئی ہے؟۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس میں کس قسم کی دلچسپی کب ظاہر کی ہے؟۔ اگر نوازشریف اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیتے تو سانحہ کوئٹہ کے موقع پر حکومتی صفوں میں بدمزگی پیدا کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ مولانا محمد خان شیرانی اور محمود اچکزئی کا تعلق حکومتی اتحاد سے ہے۔ وزیرداخلہ کا محمود اچکزئی کے بیان کا نوٹس لینا اور مولانا شیرانی کے بیان کا نوٹس نہ لینا وزیراعظم کی طرف سے عدمِ دلچسپی کا ثبوت ہے۔ وزیردفاع اور وزیرداخلہ کا آپس میں رابطہ نہیں ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل ’’ ضربِ عضب‘‘تک محدود ہے۔
جن لوگوں نے ساری زندگی فوجی امریت کے سایہ میں گزاری ہو، جو دہشت گردوں سے ہمدردی رکھتے ہوں ان کو قومی ایکشن پلان کے تقاضوں کا کوئی پتہ بھی کہاں سے چلے؟۔یہ عرفان صدیقی جیسے مشیروں کے مرہونِ منت ہیں، جس نے حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں کہاتھا کہ ’’ رفیق تارڑ نے کلاشنکوف بردار جرنیلوں کے سامنے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ نہ دیا تھا‘‘۔ حامد میر نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے مزاحیہ انداز میں پوچھا ’’ رفیق تارڑ نے‘‘۔ جنکے مشیر عرفان صدیقی جیسے لوگ ہوں، وہ وزیراعظم اور سول حکومت کو کس طرح قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرائیں گے؟۔ عرفان صدیقی کا مشیر ہونا اس بات کی غمازی کرتاہے کہ قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کرنے کے ذمہ دار وزیراعظم نوازشریف نے دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’’ہماری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں، عرفان صدیقی کو اپنا مشیر رکھنا اس کا بین ثبوت ہے۔ فوج کو الجھانے کیلئے محمود خان اچکزئی ، مولاناشیرانی اور مولانا فضل الرحمن کو اپنی حکومت اور اتحادیوں میں شامل رکھنا بھی اس کی ایک وجہ ہے‘‘۔
جب سلمان تاثیر کے صاحبزادے کو رہائی مل گئی تو بلوچستان حکومت کی طرف سے یا جوبھی ذریعہ تھا، آئی ایس پی آر سلیم باجوہ نے بیان دیا کہ’’ ایک فوجی ایکشن کے ذریعہ سے شہباز سلمان کو رہائی دلائی گئی ہے‘‘۔ چوہدری نثار نے آئی ایس پی آر کو ذلیل کرنے کیلئے باقاعدہ انکوائری کمیٹی کا اعلان کیا تاکہ اس قسم کے جھوٹ سے آئندہ قوم محفوظ رہے۔ بڑی اچھی بات ہے، عزیر بلوچ کا اعلان ہوا کہ کراچی میں داخل ہوتے وقت رینجرز نے اپنی تحویل میں لیا تو چوہدری نثار کو چاہیے تھا کہ وضاحت کرتا کہ کسی نے ان کو حوالہ کردیا ہے ۔ سچ قوم کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن شہباز تاثیر کی خبر پر اتنا بڑا ایکشن کیوں لیا گیا تھا ؟،اس حقیقت تک جانے کی سخت ضرورت ہے۔
کوہاٹ کے جاوید ابراہیم پراچہ نے ایک ٹی وی چینل پر خصوصی انٹرویو دیا تھا کہ ’’ شہباز تاثیر کی رہائی کے معاملہ سے وزیرداخلہ کو آگاہ کیا تھا‘‘۔ اگر جاوید ابراہیم پراچہ کی خبر درست ہے تو مطلب یہ ہوا کہ وزیرداخلہ کو اطلاع مل چکی تھی، طالبان سے اس کے ذاتی مراسم فوج ، ریاست اور حکومت سے زیادہ ہیں، پھر اس کی ذمہ داری تھی کہ خواجہ آصف کے ذریعے یا براہِ راست آئی ایس پی آر کو آگاہ کردیتا، ایک تو اس نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور دوسرا یہ کہ سلیم باجوہ کو ذلیل کرنے پر کمیٹی تشکیل دینے کی بجائے قوم کو سچ بتاتا کہ ’’ اس کو طالبان نے اطلاع دی تھی، اسلئے سلیم باجوہ کو غلط اطلاع کسی نے دی ہے‘‘۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا محمد خان شیرانی کو چاہیے کہ وزیرداخلہ کی خبر لیں، تعلقات اس نے بحال رکھے ہیں اور الزام تراشی فوج پر ہورہی ہے؟۔
جنرل راحیل شریف کی بات سوفیصد درست ہے کہ قومی ایکشن پلان پر اسکی روح کیمطابق عمل کرنا ہوگا۔ چوہدری نثار جس ولی خان اور محمود اچکزئی کی شخصیت سے متأثر ہیں، اس میں خود کوئی صلاحیت ہوتی تو ان لوگوں سے کیوں متأثر ہوتا۔ رؤف کلاسرا کے انکشاف کو درست ثابت کرنے کیلئے شاید وزیرداخلہ چوہدری نثار نے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف کے بیان کی تردید کردی ہے، اگر وہ جنرل راحیل کے بیان کی تردید نہ کرتا تو کیسے ثابت ہوتا وہ ان شخصیات سے واقعی متأثر تھا۔ جب الیکشن ہورہے تھے تو چوہدری نثار نے ایک حلقہ سے اپنی آزاد حیثیت سے بھی حصہ لیا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نوازشریف اور پارٹی پر پورا اعتماد نہیں کرتاتھا اور پارٹی کا اسکے خیال میں اس پر بھی سوفیصد اعتماد اور بھروسہ نہیں ، ایک حلقے سے آزاد الیکشن لڑنا کوئی کم ثبوت نہیں ۔ تحریکِ انصاف اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں سے لیکر مختلف مواقع پر اس کو اپنی مشکوک حیثیت کا طعنہ دیا گیا، بعض اوقات اس نے صفائی بھی پیش کی، اگر عمران خان سے اقتدار کی امید ہوتی تو شاید ایاز صادق کی طرح ادھر سے ادھر بھی ہوجاتا۔ کسی پارٹی میں قیادت کی ناراضگی کے باوجود اہم ذمہ دار عہدوں پر رہنا بھی تو بڑے ہی دل گردے کا کام ہے، یہ تو وہ جانے جس پر بیتے، اللہ تعالیٰ تمام مؤمنین ومؤمنات، مسلمین ومسلمات، خواتین و حضرات سارے انسانوں کو ایسے کرب و بلا کی صورتحال سے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین یا رب العالمین۔
بالکل آخری مرحلے میں جب چوہدری نثار نے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھی محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کی بھی مخالفت مول لے لی، پھر نہ جانے کیا ہوا کہ’’چوہدری نثار نے جنرل راحیل شریف کے بیان کی تردید کو ضروری خیال کیا؟‘‘، آخری مرحلہ میں وقت بتائے گا کہ اچھا کیا یا برا؟۔ اپنے سابقہ بیانات کی تلافی کرنی تھی یا خورشیدشاہ کو ساتھ بٹھانے پر جنرل راحیل کو بھی طیش اور انتقام کا نشانہ بنایا؟۔ وزیراعظم سے بروقت چوہدری نثار لاتعلقی کا اعلان کردیں۔ نہیں تو وہ وقت قریب لگتا ہے کہ شکوہ کرینگے کہ ’’ بڑے بے آبرو ہوکے اس کوچے سے ہم نکلے‘‘۔
لوگوں کی راۓ