پوسٹ تلاش کریں

اسلامی نظام کا درست تصور کیا ہے؟

اسلامی نظام کا درست تصور کیا ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

اسلامی نظام کا درست تصور کیا ہے؟

سعودی عرب کی بادشاہت، ایران کی اسلامی جمہوریت اور افغانستان کی امارت اسلامی کو کس چیز کا نام دیا جائے؟۔ کیاایک وہابی اسلام ہے، دوسرا شیعہ اسلام ہے اور تیسرا حنفی اسلام ہے؟۔

کس اسلام کو قبول کرنے کیلئے عالم اسلام اور عالم انسانیت تیار ہے؟۔ اگر یہ مسلمان اور انسان کیلئے رول ماڈل نہیں بن سکتے تو پھر سوچنا چاہیے کہ اس کا متبادل کیا ہے جس کو نہ صرف مسلم ممالک بلکہ پوری دنیا اپنا رول ماڈل تسلیم کرلیں؟۔اگر کسی ملک کو اپنی عوام پر بھروسہ نہ ہو اور عوام اپنے حکمران پر بھروسہ نہ رکھ سکیں تو دوسروں کیلئے وہ قطعی طور پر بھی رول ماڈل نہیں بن سکتے ہیں۔

محمد بن عبدالوہاب نے توحیدو شرک اور مذہبی رسوم کے حوالہ سے اسلام کا جو تصور پیش کیا تھا تو سعودی عرب نے اسی کو اسلام سمجھ لیا۔ اسلامی انقلاب ایران نے شیعہ کے اسلام کو اسلام سمجھ لیا اور امارت اسلامی افغانستان نے حنفی اسلام کو اصل اسلام اور اس کا نظام سمجھ لیا ہے۔ ان تینوں ممالک کی سب سے بڑی خرابی آزادیٔ رائے پر پابندی ہے۔ جس نظام میں آزادیٔ رائے کیساتھ عدل نہیں ہو وہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی نظام ہوسکتا ہے لیکن اسلامی نظام قطعی طورپر نہیں ہوسکتا ہے۔

جب رسول اللہ ۖ نے غزوہ بدر کے قیدیوں پر مشاورت کی تو اکثریت کا مشورہ یہ تھا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے اسلئے کہ ہوسکتا ہے کہ ہدایت پا جائیں اور اگر ہدایت نہیں پاتے تو پھر دوبارہ ہم ان کو پکڑ کر مار سکتے ہیں۔ 70سرکردہ لوگ مارے جاچکے تھے ،70قیدی بنالئے گئے تھے اوربقیہ اپنی جان بچاکر بھاگ چکے تھے جن کی تعد اد مسلمانوں کے مقابلے میں پھر بھی بہت زیادہ تھی۔

حضرت عمر اور سعد بن معاذ کی رائے یہ تھی کہ جو جس کا قریبی رشتہ دار ہے وہ اس کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردے۔ فلاں میرے حوالے ہو ۔ عباس کو علی تہہ تیغ کردے۔ ابوبکر، عثمان اپنے اقارب کو تہہ تیغ کردیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ عمر کی رائے حضرت نوح کی طرح ہے اور ابوبکر کی رائے ابراہیم کی طرح ہے اور مجھے ابراہیم کی رائے پسند ہے اور رحم دلی کے مطابق فیصلہ فرمادیا۔ ارشادفرمایا کہ ”میری امت میں سخت ترین انسان عمر اور رحم دل ترین انسان ابوبکرہیں”۔

پھر آیات اُتریں کہ ماکان لنبیٍ ان یکون لہ اسرٰی حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یریدالاٰخرة واللہ عزیز حکیم O” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ زمین میں خوب خون نہ بہادے ۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے”۔(سورہ انفال :آیت67)……

اس آیت میں نہ صرف آزادی ٔ رائے کی تائید ہے بلکہ ایک طرف صحابہ کرام کا جمع غفیر تھا اور دوسری طرف دو صحابی تھے۔ نبی اکرم ۖ کی رائے بھی جمع غفیر کیساتھ ہی تھی لیکن یہ آیت آزادیٔ رائے کی جس انداز کی تائید کررہی ہے اس کی مثال دنیا لانے سے بالکل قاصر ہے۔حالانکہ انسانی فطرت بھی قیدیوں کو تہہ تیغ نہیں کرتی۔قرآن نے بھی پھر روک دیا لیکن یہاں کئی محرکات تھے۔

نبی کریم ۖ نے حدیث قرطاس لکھنے کا فرمایاتو حضرت عمر نے منع کردیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب قرآن کافی ہے۔ قرآن وحدیث اور صحابہ کرام کی زندگی آزادیٔ رائے سے عبارت ہیں اور اس کے اثرات جب تک مسلمانوں پر قائم رہے تو مسلمان قرآن کی روح کے مطابق عمل پیرا تھے۔ حضرت ابوبکر نے باغ فدک کے معاملہ میں اور حضرت عمر کی نامزدگی کے مسئلے میں اس آیت کی روح پر عمل کرکے دکھادیا۔ حضرت عمر نے اپنے بعد اپنے بیٹے پر پابندی لگاکر اقرباء پروری کی بنیاد کو ختم کردیا۔ بنوامیہ اور بنوعباس کا خاندانی نظام اس آیت کی روح کے برعکس تھا اور شیعہ فرقہ تو اقرباء پرستی کا شاہکار ہے۔ آزادیٔ اظہار رائے اور آیات کی درست تفسیرعوام کے سامنے رکھی جاتی تو پھر اسلامی نظام کی طرف زبردست پیش قدمی ہوسکتی تھی لیکن اس طرف دھیان نہیں ہے۔
٭٭

سورہ انفال کی آیات کی درست تفسیر و تبلیغ میں نجأت

جاوید غامدی کے دادا استاذ حمیدالدین فراہی کا استاذ شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی تھا۔ جس نے کئی کتابیں الفاروق اور سیرت النبیۖ لکھی ہیں۔

شبلی نعمانی نے اہل سنت کے علماء کو مشورہ دیا تھا کہ حدیث قرطاس کا انکار کیا جائے تو شیعوں سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس سے حدیث کا انکار لازم آئے گا۔ خیانت اور دیانت کی بڑی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے اور سرسیداحمد خان نے بھی کچھ معجزات کا انکار اسلئے معتزلہ کے افکار پر کیا تھا کہ غیر مسلموں کے سخت اعتراضات کا سامنا کرنے سے بچ جائیں لیکن یہ قدامت پسند علماء کرام کا کمال تھا کہ کسی کا اعتراض خاطر میں لائے بغیر بالکل ڈٹ گئے تھے۔

معجزات کا انکار آخر کار وحی و بعثت تک پہنچا کر ہی دم لیتا۔اللہ تعالیٰ نے علماء حق سے دین کے تحفظ کا بہت بڑا کام لیا ہے ۔جن کے ہم شکر گزار ہیں۔

معجزات پر ایمان بالغیب رکھنا قرآن کا تقاضہ ہے لیکن فقہ وشریعت اور سیاست وحکمت میں قرآن کی رہنمائی سے جاہل ہونا بہت بڑی بد بختی ہے۔ فقہ وشریعت میں غسل، وضو، نماز اور نکاح وطلاق کے احکام میں فرائض اور حلال وحرام پر اختلافات اور ڈھیر سارے تضادات ہیں۔ جن کو متحد ومتفق اور وحدت کی راہ پر گامزن ہوکر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر رسول اللہ ۖ نے ماحول کا فتویٰ وحی اور خاتون کی رائے سے چھوڑنے کا سبق دیا لیکن کوئی فرقہ ومسلک کی تقلید کو قرآن وسنت کے مقابلے میں قربان نہیں کرسکتا تو یہ بہت بڑی بے راہ روی ہے۔دیوبندی بریلوی فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر متحد ومتفق ہیں مگر مستحسن پر جنگ و جدل کا بازار گرم کیا ہواہے۔ مثلاً غسل ، وضو ، نماز اور نکاح وطلاق کے احکام ایک ہیں لیکن سنت نماز کے بعد دعا مستحسن ہے یا بدعت ؟۔ اس پر ایک دوسرے کو معاف کرنے کیلئے تیار نہیں، حالانکہ بریلوی مکتب کے مولاناامجد علی نے لکھ دیا ہے کہ ” غسل، وضو اور نماز وغیرہ کے فرائض ظنی ہیںاور دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرنا جائز ہے”۔(بہار شریعت)شافعی ، مالکی ، حنبلی سے حنفی مسلک کے یہ اختلافات ہیں۔ شریعت میں اختلافات کی بھرمار ہے تو سیاسی حکمت میں اختلاف کو ناقابل برداشت سمجھنا جہالت ہے۔

سورہ انفال کی آیت میں سیاسی مسئلے پر اختلاف کی نشاندہی ہے۔ اکثریت کی رائے تھی کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے اور حضرت عمر کی رائے برعکس تھی اور نبیۖ نے اکثریت کی رائے پرہی عمل کیا تھااور یہ شرعی نہیں سیاسی حکمت عملی ہی کا اختلاف تھا۔

نبیۖ کی رائے کو سیاسی بنیاد پر اللہ نے بالکل نامناسب قرار دے دیا ۔ جس سے حلال وحرام اور جائز وناجائز کا تصور قائم نہیں ہوتا۔ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی رائے میںاختلاف تھا لیکن اللہ نے حضرت نوح کی رائے کو قبول فرمایاتھا۔

سورہ انفال کی آیت میں اللہ نے جس بنیاد پر مخالفت کی تھی تو اس میں نیت کا مسئلہ تھا۔ حضرت ابوبکر کے بیٹے نے کہا کہ آپ میری تلوار کی زد میں آگئے لیکن میں نے چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر نے کہا کہ میری تلوار کی زد میں آتے تو تجھے نہ چھوڑتا۔ عبدالرحمن نے للکارا تھا تو ابوبکر مقابلے کیلئے نکلے مگر نبیۖ نے روک دیا اور عبدالرحمن نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اسلام کو قبول کیا تھا۔ ابوبکر نے نبیۖ کی محبت میں آپۖ کے رشتہ داروں کو قتل سے بچانے کیلئے فدیہ لیکر چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا اور صحابہ کرام کی اکثریت بھی ایسی تھی لیکن کچھ اقرباء کی وجہ سے بھی یہ مشورہ دے رہے تھے ۔اللہ نے فرمایا: لو لا کتاب من اللہ ابق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم O اگر اللہ پہلے سے لکھ نہ چکا ہوتا تو جو تم نے لیا ہے اس پر بڑا عذاب پکڑ لیتا۔ پس جو تمہیں غنیمت میں حلال وطیب ملا ہے اس کو کھاؤ۔اور اللہ سے ڈرو !، بیشک اللہ بخشنے والا رحم والا ہے۔ اے نبی! جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں خیر ہے تو اس سے بہتر عطا فرمائے گاجو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری مغفرت بھی کردے گا۔ اللہ معاف کرنے والا رحم والا ہے۔اور اگر ان کا ارادہ خیانت کرنے کا ہو تو پھر یہ پہلے بھی خیانت کرچکے ہیں پھر ان میں بعض کو گرفتار کرادیا ہے اور اللہ علم حکمت والا ہے۔(الانفال :68تا 71 )

ان آیات میں مسلمانوں کو مال کی محبت اور اقرباپروری کے ناجائز جذبے کیساتھ اس بات سے بھی ڈرایا گیا کہ نبیۖ کی قرابتداری کی بنیاد پر نبیۖ کی ذاتی محبت نہیں بلکہ دین کی بنیاد پرمحبت کا تعلق ہونا چاہیے۔ جیسے اسماعیلی اور امامیہ شیعہ بھی یہ بات بہت اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔

ان آیات میں سیاست شرعیہ کا ایک تقاضا مسلم سیاستدانوں کو سمجھا نا تھا اور دوسری طرف دشمنوں کو بھی پیغام دینا تھا کہ چھوٹ جانے کے بعد یہ مت سمجھو کہ اللہ کی دسترس سے نکل جاؤگے۔ سیدھے رہو گے تو اللہ اس ذلت اور مالی نقصان کی جگہ بہتر بدلہ دے گا اور نہیں سدھروں گے تو پھر دوبارہ معافی کی توقع بھی مت رکھنا۔ کاش علماء آیات کو سمجھتے اور لوگوںمیںانکی روح اچھی طرح پھونک دیتے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

اداریہ نوشتہ دیوار شمارہ مئی 2025
پیراورنگزیب شاہ ،پیر رفیق شاہ، سیدارشد حسین ، حافظ عبدالقادر، خالد آفریدی سمیت13شہداء
ہندو مذہب کی کتب میں مہدی کا نام ”برہمن کلا”