پوسٹ تلاش کریں

Dr. Abdul Razzaq Sikandar and Mufti Mohammad Naeem were my teachers and sometimes they would call me and ask about the situation.Syed Atiqur Rehman Gilani

Dr. Abdul Razzaq Sikandar and Mufti Mohammad Naeem were my teachers and sometimes they would call me and ask about the situation.Syed Atiqur Rehman Gilani اخبار: نوشتہ دیوار

ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر اور مفتی محمد نعیم میرے استاذ تھے اور کبھی مجھے خود فون کرکے حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر میرے استاذ تھے ۔ جامعہ بنوری ٹان میرا مادرعلمیہ ہے۔ مفتی محمد نعیم (mufti naeem)بھی میرے استاذ تھے اور مجھے کبھی خود فون کرکے حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے مگرڈاکٹر صاحب واقعی ایک نابغہ تھے۔علم و تقوی،اخلاق وکردار، قابلیت وتحمل اورشرافت واعتدال میں بالکل ممتاز و یکتائے روز گارہستی تھے۔
جامعہ بنوری ٹان میں نماز ِ مغرب کے بعدپڑھائی شروع ہوتی ہے۔جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے لیکن کبھی مغرب میں اچانک حاضری تک لگتی ہے۔ رات گئے تک جامع مسجد نیوٹان کے حال، برآمدے اور صحن میں طلبہ پڑھنے کے پابند ہیں۔ اساتذہ نگرانی کیلئے گھومتے ہیں تاکہ پڑھائی کی جگہ طلبہ گپ شپ نہ لگائیں۔ رات گئے رہائشی بلڈنگ کے تالے کھولے جاتے ہیں ۔ بعض طلبہ دیر تک پڑھائی میں مشغول رہتے ہیں۔ کچھ طلبہ تہجد کی پابندی کرتے ہیں۔فجر کی نماز باجماعت کیلئے زبردستی سے سب کو مسجدپہنچنا ہوتا ہے۔ دارالاقامہ کے ناظم صبح سے رات بلکہ (24) گھنٹے طلبہ کے شب وروز نگرانی میں رکھتے ہیں۔ نماز فجر کے بعدقرآن کی تلاوت ،پڑھائی، ناشتہ کرسکتے ہیں۔ صبح سے دوپہر تک چار گھنٹے درسگاہوں میں علوم و فنون کی مشکل ترین کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ دوپہر کھانے اور آرام کرنے کا وقت ہوتا ہے اور پھر نماز ظہر باجماعت کیلئے مسجد میں پہنچنا ہوتا ہے۔
نماز ظہر اورنماز عصر کے درمیان پھر دو گھنٹے درسگاہوں میں پڑھائی ہے۔ عصر کی نماز کے بعد پھر مغرب تک کھانے اور کھیلنے کی چھٹی ہوتی ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد پھر فورا اسباق کی تکرار اور یاد کرنے کا شغل ہوجاتا ہے۔ دن بھر میں جو اسباق پڑھے ہوتے ہیں ان کو دھرانے کیلئے طلبا کی مختلف ٹولیاں بنتی ہیں۔ ہر مشکل کتاب کی تکرار ہوتی ہے۔ کوئی قابل طالب علم درسگاہ میں پڑھے ہوئے سبق کو دھراتا ہے اور پھر باری باری سبھی ساتھیوں سے سبق سنتا ہے۔ کمزور طلبہ سبق سمجھنے نہیں تو رٹنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ مشکل پڑنے پر نگران اساتذہ سے پوچھ لیتے ہیں۔یہ بہترین تعلیمی نظام دنیا کی اچھی یونیورسٹی میں مشکل ہے۔ آئندہ آنے والے سبق کا مطالعہ ضروری ہے تاکہ پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ میں نے جامعہ میںسالوں گزارے۔ مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ افسوسناک ہے۔ عربی مقولہ ہے کہ المر یقیس علی نفسہ ” آدمی جیسا خود ہو، دوسرے پر بھی وہی گمان رکھتا ہے”۔مدارس کا پاکیزہ اور نورانی ماحول دنیا کے گھپ اندھیرے میں بجلی سے روشنی پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہے اور دنیا میں قرآن وسنت ، اخلاقیات ،روحانیت اور انسانیت دینی مدارس کے ہی دم سے ہیں۔ جانوروں کے مقابلے میں انسانوں کے جنسی ملاپ میں اخلاقی قدریں بحال رکھنے کا سب سے اہم کردارمدارس ہیں ۔الحمدللہ علی ذلکجب دنیا میں مذہب کا کردار ختم کردیا گیا تو مغربی معاشرے اور جانوروں میں فرق نہیں رہا۔ مدارس نہ ہوتے تو مفتی عزیز اور صابرشاہ کے اسکینڈل کی اہمیت بھی نہ رہتی۔
امریکہ ، یورپ، افریقہ اور دنیا بھر کے (50)ممالک سے زیادہ طلبہ کا صرف جامعہ بنوری ٹان کراچی میں تعلیم کیلئے آمد کس قدر خوش آئند ہے؟۔ طلبہ جب بنوری ٹان کراچی کے باہر اپنی ضروریات کیلئے جائیں توان کی حسین چہروں والی خواتین اور لڑکیوں پر نظریں پڑتی ہیں لیکن اپنی نظریں جھکا کر چلتے ہیں۔ انواع واقسام کے کھانوں کا مرکز سمجھا جانیوالا علاقے میں کاروں، موٹر سائیکلوں اورپبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے فیملیاں بھی آتی ہیں۔ یہ رہائشی علاقہ بھی ہے۔
(60)سال سے زیادہ عرصہ ہوا کہ جامعہ بنوری ٹان کراچی میں مسافر طلبہ کی رونقیں لگتی ہیں لیکن کبھی کسی نے ایک مرتبہ بھی شرارت کی شکایت نہیں کی۔ کیا ان طلبہ اور علما میں نفسانی خواہشات نہیں ؟۔ لیکن ایک پاکیزہ نورانی ماحول میں رہنے کاتقاضہ مختلف ہوتا ہے۔ جب عورت اپنی عزت بچاتی ہے تو یہ فطرت کا حصہ ہے لیکن جب وہ گراوٹ پر اتر آتی ہے توپھر اپنا سب کچھ کھو دیتی ہے۔نبی کریم ۖ کی شرم وحیا کو کنواری لڑکی سے تشبیہ دی جاتی تھی اور نبیۖ کے جانشین بننے والے طلبہ نے بھی اپنے ماحول کی وجہ سے ایک باکردار کنواری لڑکی کی طرح اپنی حیا کو باقی ہی رکھنا ہوتا ہے۔ کسی سے بھی ہم
بقیہ…….. ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اورجامعہ بنوری ٹان کراچی
اس معاملے میں انصاف کی بھیک نہیں مانگتے۔البتہ انسان کو احتیاط کی بہت سخت ضرورت ہے۔ نفس، شیطان اور ماحول حضرت آدم و حوا کو جنت سے نکلواسکتا ہے تو ہمیں بھی ننگا کرسکتا ہے۔مدرسہ کے ماحول میں استاذیا طالب پنچ وقتہ نماز باجماعت پڑھتا ہے۔ نماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم پر چلنے کی دعا مانگتا ہے۔ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد اللہ تعالی کی حمدو ثنا کے بعد سورہ فاتحہ پڑھتا ہے۔ حلف نامہ کی طرح عہد وپیمان کو دھراتا ہے۔ پھر سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کی دوسری سورہ پڑھتا ہے، پھر رکوع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے۔پھر قومہ میں کھڑے ہوکر اللہ کو یاد کرتا ہے۔ پھر دوسجدے کرنے کے بعد دوبارہ اس عمل کو دھراتا ہے۔ پھر قاعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھتا ہے۔ دو، تین اور چار رکعت فرائض کے علاوہ پنج وقتہ نماز کی سنتوں اور نوافل کی بھی پابندی کرتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس تسلسل سے انسان کتنے اعلی معیار کی بلندیوں پر پہنچتا ہوگا؟۔
مدارس میں علوم کی مشکل کتابیںدرسِ نظامی میں پڑھائی جاتی ہیں اور مقصد یہ نہیں کہ علم کی تکمیل ہوگئی بلکہ درسِ نظامی سے علم حاصل کرنے کی استعداد اور صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ طالب علم عالم اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب وہ پڑھانا شروع کردیتا ہے ۔تب اس کو وہ علم سمجھ میں آنا شروع ہوجاتا ہے۔
بعض اساتذہ مذاق اڑاتے کہ ”کہا جاتا ہے کہ میں فارغ التحصیل ہوں۔ حالانکہ اس کو بالکل کچھ نہیں آتا ”۔ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر جامع مسجد نیوٹان میں طلبہ کو عربی پڑھانے آتے اور پھر جامعہ کے استاذ بن گئے اور طالب علم بھی۔ فراغت کے بعد کتنا علم ہوگا؟۔ لیکن پھر مدینہ یونیورسٹی گئے۔ کتنے بڑے عالم بن گئے ؟۔ پھر جامعہ ازہر گئے اور آپ کتنے بڑے عالم بن گئے ہوںگے؟۔
مولانا فضل الرحمن کا بھائی مولانا عطا الرحمن (molana attaur rehman)چوتھے درجے میں فیل ہوا تو جامعہ بنوری ٹان چھوڑ کر گیا، تاکہ نالائق مدارس سے سند مل جائے؟۔ یہ بڑے بڑے شیخ الحدیث، مفتی اعظم، شیخ الاسلام ، فقیہ العصر اور محدث العصرکی ساکھ رکھنے والے خود بھی انتہائی نالائق ہوتے ہیں اور طلبہ کو بھی نالائق ہی بناتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب عربی کے واقعی عالم تھے ۔ مدینہ یونیورسٹی میں چھوٹی داڑھی والے اور جامعہ ازہر میں داڑھی منڈے اساتذہ تھے۔فرماتے تھے کہ ہم نے داڑھی پر مشکلات برداشت کیں۔ بازار میں سبزی فروش پوچھتے تھے کہ یہودی ہو؟۔ ہم جواب دیتے کہ مسلمان ہیں تو وہ کہتے تھے کہ ”پھر داڑھی کیوں رکھی ہے”۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر میں اعتدال و تحمل اسلئے تھا کہ ایک طرف جامعہ ازہر کے شیوخ اساتذہ تھے اور دوسری طرف شیخ بنوریجیسے سخت گیر شخصیت سے واسطہ پڑا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ الا تطغوا فی المیزان ”اعتدال سے تجاوز مت کرو”۔ اعتدال کا میزان و توازن چھوٹی چیز سے لیکر بڑی چیز تک کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ اللہ نے سورہ رحمن میں سورج وچاند، درخت و بیل کی مثال دیکر بتایا کہ درخت کی کٹائی سے فضائی حدود کی آلودگی تک انسانوں کو اعتدال کے میزان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ جنگلات کٹیں گے تو پاکستان قدرت کی عظیم نعمت پانی کی دولت سے بالکل محروم ہوجائیگا۔ہمارے شفقت علی محسودکو وزیرستان کی فکر ہے لیکن بڑے بڑوں نے گدھوں کی طرح تعلیم کی کتابیں لاد رکھی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی شخصیت کابڑا کمال عربی تعلیم اوراعتدال تھا۔ ہمیں اپنی لکھی ہوئی کتاب ”الطریق العصری” پڑھائی تھی۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے قدیم طریقہ تعلیم کے مقابلے میں زبردست جدت پیدا کرکے مجھے دینی احکام کی سمجھ کے قابل بنادیا ۔ شیخ بنوری اللہ والے تھے مگر عالم کیلئے عربی کی لغت کو عرب کی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔علامہ انورشاہ کشمیری سے لیکر شیخ بنوری کے بعد ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر سے پہلے جتنے شیخ الحدیث اور تحریک ختم نبوت کے امیر گزرے وہ عربی کماحقہ نہیں سمجھتے تھے ،عربی کارٹا لگایاتھا۔ ختم نبوت کے امیرمرکزی کو ”مرکزیہ” کہنا بھی جہالت ہے۔ امیر کیساتھ صفت مذکر آئیگی اور دارالعلوم کراچی کیساتھ جامعہ کا لفظ لگانا بھی جہالت ہے۔ دارالعلوم مذکر ، جامعہ منث ہے اور دونوں الفاظ کا ایک ہی معنی ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کا معنی یہ ہے کہ دارالعلوم کراچی کا جامعہ ۔ تف ہے علما ومفتیان کی ایسی جہالتوں پر۔
صحیح بخاری میں نبیۖ کی حدیث ہے کہ ” نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا مگر مبشرات”۔ عرض کیا گیا ”مبشرات ” کیا ہیں؟ فرمایا” صالح خواب ”۔
رسول اللہ ۖ کے بعد نبوت کوئی ایسی چیز نہیں کہ عوام کو اطلاع کی جائے کہ یہ بس سروس بند ہوگئی ۔ اللہ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا اور نبوت کا دروازہ بند کردیا ۔نبوت اعلی مشن ہے ۔ہوائی جہاز کا سلسلہ چلے گا تو نظر بھی آتا رہے گا۔ رسول اللہۖ کے ذریعے اللہ تعالی نے نبوت کی ایسی تکمیل کردی کہ اس پر بحث فضول ہے۔ مزرا قادیانی(ghulam ahmed qadyani) جاہل مولوی نہ ہوتا تو نبوت کا دعوی نہیں کرتا لیکن اگر جاہل نہ تھا تو اس نے فرنگی سازش سے جہاد ختم کرنے کیلئے ہی نبوت کا دعوی کیا ہوگا۔ علامہ اقبال نے اس کو ”مجذوب فرنگی ” قرار دیا تھا۔ قرآن نے لوگوں کو چیلنج کیا ہے کہ کوئی دس یا ایک سور ایسی بناکر دکھا۔ نبیۖ نے ابن صائد کو نبوت کے دعوے پر کوئی گزند تک نہیں پہنچائی تھی۔ نبوت ایسی چیز نہیں کہ کوئی اچک لے اور نبوت کے دعویدار جھوٹے انجام کو خود پہنچ جائیںگے۔ مرزائیوں کو ساری قوت مخالفت سے ملتی ہے،اگر مخالفت نہ ہوتی توقادیانیت بالکل ختم ہوجاتی ۔
بخاری پڑھانے والے جاہل شیخ الحدیث کا جب یہ عقیدہ ہوگا کہ نبوت میں چالیسواں حصہ رہ گیا تو کیا ختم نبوت پر اسکا ایمان ہوگا؟۔ غلام احمد پرویز حدیث کا انکار کرتا۔ شیخ بنوری کے شاگرد مولانا طاہر مکی نے شیخ بنوریسے بخاری کی حدیث پر اشکال پوچھا تو اس کی تھپڑوں سے تواضع کردی ۔ بخاری کی اس حدیث کی کیا کیا شرحیں لکھی گئیں؟۔ غسل کے فرائض سے لیکر ایک ایک معاملے پر اجتہاد کا بھرکس نکالنے والوں نے فقہ واصولِ فقہ کی کتابوں میں جاہلیت کے پھول کھلائے بلکہ بدبودار پوٹیاں کی ہیں۔ شیخ سکندر کا احسان ہے کہ عربی سیکھنے کیلئے زبردست بنیاد فراہم کردی اور طریقہ العصریہ کی طرزپر عربی کی تعلیم سے معلوم ہوگیا کہ خواب کی نبوت کا معنی غیبی خبر ہے۔ بخاری کی حدیث سے یہ مراد لینا کہ نبوت باقی ہے، کفرو گمراہی کا عقیدہ ہے ۔ اس سے بہتر تو حدیث کا انکار تھا لیکن حدیث صحیح ہے اور صالح خواب سے مراد جو شیطان سے محفوظ ہو۔ وحی کا سلسلہ بند ہے،صرف وحی شیطان کی مداخلت سے محفوظ تھی ۔خوابی خبریں جھوٹی ہوسکتی ہیں۔ مرزائی، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت اور شیعہ و مذہبی طبقے خواب دیکھیں تو اس پر سو فیصد یقین کرلینا غلط ہے۔ پہلے حدیث کی درست وضاحت سمجھ لیں ،پھر اپنا اعتقاد درست کرلیں اور پھر اپنے خوابوں پر بھی سوفیصد یقین نہ کریں۔ورنہ تو پیر پنجر سرکار کی طرح روزانہ سب شگوفے چھوڑیںگے کہ ”ہوا میں اڑتا جائے، میرا لال دوپٹہ ململ کا”۔
عربی خواب کی نبوت سے غیبی خبر مراد لیتے ہیں۔ جاہل گدھا طبقہ (40) فیصد نبوت کا باقی رہنا مراد لے گا اور اس کی انتہائی غلط تشریح کرے گا تو اسکا ضمیر نہیں کہے گا کہ نبوت کا نعوذباللہ کچھ حصہ باقی ہے؟ جو یہ اعتقاد رکھے تو وہ ہدایت یافتہ ہے یا گمراہ؟ غلط تشریح پر اس امیدپرگزارہ کرنا کہ مہدی آئیگا اور ہمارا عقیدہ ٹھیک کریگا اہل تشیع سے بڑی گمراہی ہے۔ میری یہ دعوت ہرگز نہیں کہ مجھے مان لو!۔ قرآن وسنت کی درست تشریح کی دعوت دینا فرض ہے۔ میں نے خلافت کے قیام کیلئے کہا تھا کہ میں گمراہ نہیں کیونکہ نبیۖ نے خلفا راشدین مہدیین کی پیروی کا حکم دیا ہے اور خلافت راشدہ والے صحابہ کرام مہدی تھے اور آئندہ بھی خلافت راشدہ قائم کرنے والے مہدی ہونگے۔شیخ سکندر نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ” قیامِ خلافت سے پہلے امت کی اصلاح کیلئے وہی طریقہ اپنانا ہوگا جو اس امت میں اسلام کی نشا اول کا تھا۔ امام مالک نے فرمایا کہ اس امت کی اصلاح نہیں ہوگی مگر جس چیز سے پہلے اس کی اصلاح ہوئی تھی”۔ اپنی کتاب ”عورت کے حقوق ” کا آخری جملہ یہ لکھا تھا کہ ”تمام مکاتبِ فکر کی تائیدایک طرف مگر استاذ کی نصیحت سب پر بھاری تھی جس پر آج ہم عمل پیرا ہیں”۔ مولانا سرفراز خان صفدر، مولانا یوسف لدھیانوی، مولاناخان محمد کندیاں، مفتی ولی حسن ٹونکی ، مفتی احمد الرحمن ، مولانا سلیم اللہ خان، مفتی زر ولی خان ، مولانا محمد امین ہنگو کوہاٹ ، مولانا فتح خان ٹانک، مولانا فضل الرحمن، مولانا شیرانی اور قبلہ ایاز وغیرہ کو قریب سے دیکھا۔ مدینہ یونیورسٹی میں (PHD) کی ڈگریاں کرانے والے پاکستانی پروفیسروں سے ملا ہوں ان کوبھی ڈفرپایاتھا ۔ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر نے ہماری بنیاد ٹھیک رکھ دی۔ شیخ بنورینے مدرسے کی بنیاد تقوے پر رکھ دی تھی اور اسلام کی نشا ثانیہ بھی یہیں سے ہوگی۔انشا اللہ العزیز
قرآن سلیس اور واضح عربی زبان میں ہے مگر اس کی طرف مذہبی طبقے بالکل بھی توجہ نہیں دیتے ۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے ” آسان ترجمہ قرآن” اور اس کی مختصر تفسیر میں نہ صر ف روایتی غلطیوں کو دھرایا ہے بلکہ انتہائی جہالت کا مظاہرہ بھی کردیا ہے۔ قرآن کے ترجمے میں لفظی تحریف کا بھی ارتکاب کر ڈالا ہے۔
قرآن کی سورہ بقرہ آیت(231،232)اور سورہ طلاق کی آیت(2)میں ایک جملہ ہے کہبلغن اجلھن ”پس جب طلاق شدہ عورتیں اپنی مدت پوری کرلیں ” لیکن شیخ الاسلام نے فقہی مسائل کی بنیاد پر الفاظ کے ترجمے میں تحریف کر ڈالی ۔ طلاق ریاضی کا نہیںمعاشرتی مسئلہ ہے۔ قرآن میں طلاق کی عدت ہے ۔طلاق کی عدت میںایک مدت چار ماہ،دوسری مدت تین طہرو حیض اور تیسری مدت تین ماہ اور چوتھی مدت حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے۔
جب طلاق کیلئے اللہ نے عدت کی مختلف مدتیں رکھی ہیںتو انسان کا ذہن کھلنا چاہیے تھا کہ عدت معاشرتی مسئلہ ہے ریاضی کا نہیں۔ جب اللہ نے مختلف آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد دونوں صورتوں میں باہمی رضا مندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے تو اس سے بھی یہ واضح ہے کہ عدت ریاضی کے حساب کتاب کا نہیں بلکہ معاشرتی مسئلہ ہے۔
قرآن کی تفصیلی آیات کے باوجود اس کو معاشرتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے ریاضی کا مسئلہ بنانے والوں نے لکھ دیا کہ ” اگر عورت کو حمل ہو اور آدھے سے کم بچہ باہرآیا ہو تو رجوع ہوسکتا ہے ۔اگر آدھے سے زیادہ بچہ باہر آیا ہو تو پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔( فقہ وفتوے کی کتابیں) قرآن کا صحیح ترجمہ وتفسیر سمجھ میں آجائے تو فقہا کی لایعنی بکواس مسائل گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو لگیں گے۔
فقہا نے نہ صرف قرآن کو سمجھنے میں غلطی کی بلکہ ریاضی کو بھی غلط پیش کیا ۔ اصولِ فقہ میں ہے کہ ” قرآن میں تین کا عدد خاص ہے۔ طہر میں طلاق مشروع ہے اور جو لمحہ طلاق سے پہلے گزرے تو 3طہر شمار کرنے سے عدد میں کمی آئے گی اور عدد ڈھائی بن جائیگا اسلئے حیض کو شمار کیا جائے تاکہ تین کا عدد مکمل شمار ہو”۔
حالانکہ اس طرح سے تین حیض کے عدد پر بہت سارا اضافہ ہوگا اسلئے کہ تین حیض کے علاوہ وہ پاکی کے ایام بھی انتظار کی عدت میں شامل ہونگے جس کی وجہ سے تین سے معاملہ ساڑھے تین سے بھی او پر چلاجائیگا۔ مولانا بدیع الزمان نے ہمیں اصولِ فقہ اور قرآن کی تفسیر پڑھائی تھی اور مجھے بڑا حوصلہ بھی دیاتھا۔صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ کے مقف کی بات تو بہت دور کی ہے ،حنفی اصولِ فقہ میں صحیح احادیث کو قرآن کے مقابلے میںناقابلِ عمل قرار دینے کی تربیت ملتی ہے۔ اگر خوابوں میں نبوت باقی رہنے کی بات اصولِ فقہ میں پڑھائی جاتی تو احناف اس کو رد کردیتے کہ اللہ کے دین کی تکمیل ہوچکی اور نبوت کے کچھ حصے کا باقی ہونا قرآن کی آیت سے ہی متصادم ہے الیوم اکملت لکم دینکم ” آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے”۔پھر مختلف مذاہب میں فرائض کی تشکیل اور ان کے فرائض ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف کو کیا نام دیں گے؟۔
قرآن میں اللہ نے نشے میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے، یہاں تک کہ جو نمازی کہہ رہاہے اس کو وہ سمجھے بھی اور جنابت کی حالت میں بھی مگر جب کوئی مسافر ہو ،یہاں تک کہ غسل کرلے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنابت سے غسل کرنا ضروری ہے۔ عربی میں غسل نہانے کو کہتے ہیں۔ اللہ نے نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا ہے اور پھر ساتھ میں یہ فرمایا ہے کہ جب تم جنابت میں ہو تو پھر اچھی طرح سے پاکی حاصل کرلو۔ قرآن کی آیات سے معلوم ہوا کہ وضو کرنے کے مقابلے میں نہانا ہی اچھی طرح سے پاکی حاصل کرنا ہے۔ جب حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے کیلئے قرآن کے صفحات مانگے توبہن نے کہہ دیا کہ پہلے نہالو۔ نہانا انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کو بھی آتا ہے۔
صحاح ستہ کا پہلا اردو ترجمہ علامہ وحید الزمان نے کیا تھا۔ نبیۖ نے فرمایا بدا الاسلام غریبا فسیعود غریبا فطوبی للغربا ”اسلام کی ابتدا اجنبیت سے ہوئی ۔ یہ پھرعنقریب اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا،پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ علامہ وحید الزمان (wahidulzaman)نے اردو کا غریب بنادیا۔ اسلئے اقبال نے جواب شکوہ میں کہا ” نماز پڑھتا ہے تو غریب اور پردہ کرتا ہے تو غریب”۔
مرزا قادیانی نے اپنے خود ساختہ شیطانی الہامات میں پنجابی اور اردو سے عربی بنانے کی کوشش کی تھی۔ محمدی بیگم (muhamdi begam)کے حوالے سے لکھاہے کہ” اگر یہ عورت (اس عاشق نامراد) کو نہیں دی گئی تواس کے گھر پر، دیواروں پر، بیٹھک میں آنے جانے والوں پر آسمان کے نیچے سے لعنتیں برسیں”۔ عربی لغت میں من تحت الارض کی طرح من تخت السما کا لفظ نہیں آتا ۔نزل من السما ہوتاہے مگر نالائق نے اردو یا پنجابی پر قیاس کرکے عربی بنائی تھی۔پشتو میں کہا جاتا ہے کہ زہ ستاپیذار پپخو کم ”میں تمہارے جوتے پہن لوں”۔ پشتو میں کپڑے کیلئے پہننے کا لفظ ہے اور جوتا پہننے کیلئے پاں کے لفظ کی آمیزش ہے۔ پنجاب سے میرا ایک دوست میرے ساتھ کانیگرم وزیرستان گیا تھا تو میرے بھانجے نے اس کی چپل پہننے کی اجازت مانگتے ہوئے کہا کہ ”میں تمہارے چپل پپاں کروں”۔ کھیرے کاچھلکا ہٹانے کیلئے پشتو میںسفید کرنے کا لفظ ہے۔ بسا اوقات اردو سمجھنے والوں پشتون کی زبان سے بھی ”چند کھیرے سفید کرلو” کے الفاظ بے ساختہ نکل جاتے ہیں۔ ارود میں فلاں شخص فوت ہوا اور انتقال کرگیا۔ عربی میں ریح کیلئے حدث اور احدث کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ جسکا معنی ریح خارج ہونے اور خارج کرنے کے ہیں۔ اردو والوں کو نہیں پکڑا جاسکتا کہ فوت ہوگیا یا انتقال کرگیا۔ عجم فقہا نے نماز کے آخر میں احدث کا لفظ پکڑکر عجیب مسئلہ بنادیا تھا۔ ایک ایک مسئلے پر اسلام کو ایسا اجنبی بنادیا گیا ہے کہ بقول علامہ اقبال (allama iqbal)کے علما و صوفیا کا بہت احترام ہے کہ انکے ذریعے دین ہم تک پہنچا لیکن اللہ ، رسولۖ اور جبریل حیران ہونگے کہ یہ وہی دین ہے جو اسلام کے طور ہمارا تحفہ تھا؟۔
اہل حدیث اور اہل تشیع کا ایک بہت بڑا طبقہ حنفی فقہ کی کتابوں سے مسائل نکال نکال کر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہاہے۔ مدارس کے علما ومفتیان کو ان عبارات کا پتہ نہیں ہے اور جو پڑھاتے ہیں وہ سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبان نے حکومت قائم کی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن تک کو کہنا پڑا تھا کہ” یہ خراسان سے نکلنے والے دجال کا لشکر ہے”۔ جب تک مدارس کے نصاب تعلیم کو درست کرکے نئے خطوط پر نہیں لکھا جائیگا تو ہمارے مدارس خانقاہوں کی طرح تربیت کے مراکز ہوسکتے ہیں لیکن دین کی روشنی ان سے نہیں پھیل سکتی ہے۔
بنوری ٹان کراچی کے فاضل بونیر کے مولانا اسحاق(molana ishaq) نے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے انتقال پر کہا کہ ”جامعہ میں ڈاکٹر صاحب اور مفتی عبدالمنان ناصر(mufti abdulmanan nasir)) تھے جو شاہ صاحب کی تائید کرتے تھے”۔ تائید والے دوسرے اساتذہ بھی ہونگے مگر ڈاکٹرصاحب نے جامعہ کے لیٹر پیڈ پر تحریری تائید لکھ دی۔ یہ بہادری کی بہت انتہا تھی۔ مولانا فضل الرحمن سے بھائیوں جیسے مراسم تھے لیکن تحریری تائیدنہیں کرسکتے تھے۔ ساتھی ڈاکٹر احمد جمال نے بتایا کہ شیخ سکندر سے متعلق مجھے معلوم نہیں تھا کہ” وہ اتنے بڑی شخصیت تھے۔ مجھے اپنے گھر کی بیٹھک میں عزت سے بٹھایا اور فرمایا کہ میں اخبار پڑھتاہوں۔ اگر انکے صاحبزادے نہ آتے تو تائید ی بیان لکھ کر بھی دیتے”۔بلند اخلاق ڈاکٹر صاحب ہمارے روحانی باپ تھے۔
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز