فرشتوں کا آدم کو اور بھائیوں کا یوسف کو سجدہ شرک نہیں تھامگر اپنے فتویٰ سے حلال اورحرام کو تبدیل کردینا شرک ہے
جنوری 17, 2025

لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجکOقد فرض اللہ تحلة ایمانکمO” کیوں حرام کرتے ہو جو اللہ نے آپ کیلئے حلال کیا اپنی ازواج کی خوشنودی کیلئے بیشک اللہ نے مقررکردیا تم لوگوں کا عہدوپیمان حلال کرنا”۔(التحریم)
ولاتجعل اللہ عرضة لایمانکم ان تبروا وتتقواوتصلح بین الناس واللہ سمیع علیم”اورمت بناؤ اللہ کواپنے عہد وپیمان کا ذریعہ کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سننے والا علم والاہے”۔ (سورةالبقرہ:224)
عام مسلمان نکاح وطلاق کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے مگر سودکو توسمجھتے ہیں
مفتی محمد تقی عثمانی سے سوال تھا ”بیوی کو حرام کہنا طلاق بائن کیوں ہے جس میں نکاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے؟”۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا کہ ” یہ سمجھنے کیلئے آپ کو اسلامی مدارس میں تعلیم حاصل کرنی ہوگی”۔(فتاوی عثمانی جلد دوئم) اسلئے کہ مفتی محمد تقی عثمانی اورا کابرین دیوبند سبھی مقلدین ہیں۔
حرام کہنا حضرت عمر کے ہاں ایک طلاق رجعی اور حضرت علی کے نزدیک یہ3طلاق ہیں۔( اجتہادات خلفاء راشدین )
صحیح بخاری میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ حرام کے لفظ سے جو نیت کی جائے۔ بعض علماء نے کہا کہ یہ تیسری طلاق ہے اور یہ کھانے کی چیزوں کی طرح نہیں کہ کفارہ سے حلال ہو۔ جبکہ ابن عباس نے کہا کہ بیوی کو حرام کہنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے نہ طلاق ،نہ حلف اور نہ کفارہ اور یہی نبیۖ کی سیرت ہے۔
امام ابوحنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل کے درمیان بھی اختلافات کو علامہ ابن تیمیہ نے فرقہ واریت قرار دیا مگر مسئلے کا حل نہیں نکالا۔ ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے تو20اجتہادی مسالک حرام کہنے پر اپنی کتاب ”زاد المعاد ” میں لکھ دئیے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو اللہ نے ہر چیز کوو اضح کرنے کا کریڈٹ دیا ۔ وانزلنا الکتاب تبیانًا لکل شی ئٍ تو کیا بیوی کوحرام کا لفظ کہنے پر کوئی واضح حکم نہیں نازل کیا؟۔
جواب یہ ہے کہ نبی ۖ نے حضرت ماریہ قبطیہ جب اپنے اوپر حرام قرار دی تو اللہ نے اس پر سورۂ تحریم نازل فرمائی اور تحریم کا مطلب ہی ”حرام قرار دینا” ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اللہ نے عورت کے اختیار کو بہت اچھے طریقے سے واضح کیا مگر مولوی خر دماغ کا ذہن عورت کا اختیار ماننے کو آمادہ نہیں ہوتا۔
نبی ۖ کے ایلاء سے رجوع پر اللہ نے فرمایا کہ ازواج کو علیحدگی کا اختیار دو۔ اللہ نے عورت کے اختیار کو واضح کیا ہے۔ اللہ نے مختلف آیات میں عورت کے اختیار کو واضح کردیا ہے مگر فقہاء ومحدثین نے قرآن سمجھے کی طرف رجوع بالکل نہیں کیا۔
سورہ تحریم میں عورت کو حرام قرار دینے کا مسئلہ واضح کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ” تمہارے عہدو پیمان (اَیمان) کو اللہ نے حلال کرنافرض قرار دید یا ہے”۔ تاکہ مولوی کا دماغ کھل جائے کہ مذہب کے نام پر صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
پھر طلاق کے مسائل کا مقدمہ ان الفاظ میں بیان کیا:
”مت بناؤ اللہ کواپنے عہدوپیمان کا ذریعہ کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔(البقرہ:224)
جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی عنوان،الفاظ اور فتویٰ سے میاں بیوی کے درمیان اللہ کو صلح کیلئے رکاوٹ نہیں بنایا جاسکتا۔
” اور اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا مگر جو تمہارے دلوں نے کمایاہے۔ (البقرہ:225)۔اس کا تعلق حلف سے نہیں۔ سورہ المائدہ میں واضح ہے کہ یمین کا تعلق اگر حلف سے ہوگا تب کفارہ ہوگا۔یہ طلاق کے احکام ہیں۔ حلف کے نہیں۔ یعنی طلاق صریح وکنایہ کے جتنے الفاظ ہیں ان پر اللہ کی طرف سے کوئی پکڑ نہیں۔البتہ عورت پکڑسکتی ہے اور اصل مسئلہ عورت کے اختیار کا ہے اسلئے حدیث میں مذاق کی طلاق معتبر ہے۔
جو اپنی عورتوں سے ایلاء کریں تو ان کیلئے چار ماہ ہیںپس اگر آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے۔ (البقرہ:226)
ایلاء کی عدت نہ تھی۔ اللہ نے سب سے پہلے اس کی عدت4ماہ مقرر کردی ۔جو طلاق سے ایک ماہ زیادہ ہے۔ اس میں طلاق کا اظہار نہیں تھا۔ یہ بھی واضح کیا کہ ”اور اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے والا علم والاہے”۔ (سورہ البقرہ227)
یعنی اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ طلاق کے اظہار کے بعد عورت کو3ماہ کی عدت کا انتظار کرنا پڑرہاتھا۔1ماہ کی اضافی اذیت بھی اللہ کیلئے قابل قبول نہیں اور جمہور فقہاء ومحدثین نے تو بالکل حد کردی کہ ساری زندگی انتظار کرنا ہوگا جن کے مقابلے میں حنفی بہتر ہیں اسلئے کہ انہوں نے4ماہ گزرنے پر طلاق کا حکم لگادیا ہے اور پھر3ماہ طلاق کی عدت گزارے گی۔ جمہور کے نزدیک شوہر کا نکاح برقرار ہے ۔ حنفی فقہاء کے نزدیک4ماہ بعد نکاح قائم نہیں رہاہے۔ کیا اتنا بڑا اختلاف ایک قرآن وسنت کو ماننے والوں میں ہوسکتاہے؟۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ اللہ نے عورت کا اختیار واضح کیا ہے کہ اگر وہ عدت میں بھی رجوع نہیں کرنا چاہے تو شوہر زبردستی نہیں کرسکتا۔ عدت گزرنے کے بعد عورت چاہے تو دوسرا نکاح کرے اور چاہے تو اسی شوہر سے رجوع کیلئے راضی ہو۔ فقہاء نے غلط تخمینہ لگایا کہ شوہر نے اختیار استعمال کیا ہے یا نہیں؟۔
٭٭٭
للذین یؤلون من نسائھم تربص اربعة اشہرفان فأوا فان اللہ غفور رحیمO”ان لوگوں کیلئے جو اپنی عورتوں سے نہ ملنے کا عہد کرتے ہیںچار مہینے ہیںپھر اگر وہ آپس مل گئے تو اللہ معافی والا رحم والا ہے”۔(سورہ البقرہ:آیت226)
اللہ اور فقہاء کا اسلام جدا جدا؟
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
حنفی مسلک ہے کہ” ایلاء میں چار ماہ تک شوہر نے رجوع نہیں کیا تو عورت طلاق ہے ”۔جمہور فقہائ و محدثین ، علامہ ابن تیمیہوابن قیم اور اہل حدیث واہل تشیع کا مذہب یہ ہے کہ” چار ماہ کے بعد بھی نکاح قائم ہے جب تک شوہر طلاق کا واضح الفاظ میں اظہار نہیں کرتا ہے”۔ ہر چند کے حنفی مسلک قرآن کے مطابق نہیں مگر قریب ہے کیونکہ پھرتو آیت میں چار ماہ کی وضاحت بالکل بے فائدہ بن جاتی ہے ۔
پھر اس ستم ظریفی پر اپنا سر پیٹ کر ماتم کرلیجئے کہ
جب عورت کا شوہر گم ہوجائے توحنفی فقہاء کے نزدیک وہ80سال تک انتظار کرے گی۔امام مالک کے نزدیک انتظار کی مدت 4سال ہے۔ جب ایک حنفی عورت عیسائی بن گئی کہ80سال تک انتظار نہیں ہوسکتا تو مولانا اشرف علی تھانوی نے ” حیلہ ناجزہ” کتاب لکھ دی اورمالکی مسلک پر فتویٰ دے دیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حنفی مسلک میں انتظار کی مدت کم اور مالکی مسلک میں زیادہ ہوتی اسلئے کہ ایلاء میں حنفی مسلک نے4ماہ بعد طلاق کا حکم جاری کیا ہے اور جمہور نے تاحیات انتظار کا حکم دیاہے لیکن معاملہ بالکل الٹ کردیا۔ امام مالک ایلاء کو قسم و حلف کیساتھ خاص نہیں سمجھتے بلکہ ناراضگی بھی ایلاء ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسم جاہلیت ختم کرنے کیلئے وہ صورت واضح کردی کہ جس میں شوہر طلاق کا اظہار نہیں کرتا اور عورت کو عمر بھر انتظار کرنا پڑتا ہے اور وفات کی عدت4ماہ10دن مقرر کی اور جب شوہر زندہ ہو اور طلاق کا اظہار نہیں کیا ہو تو عورت کی عدت4ماہ رکھ دی اور اس میں بھی شوہر کو اس صورت میں دل کا گناہگار قرار دیا جب اس کا طلاق کا عزم تھا۔ اللہ نے اس میں عورت کو 4ماہ کی عدت کے بعدکسی اور نکاح کا اختیاردیا۔
آیت228البقرہ میں طلاق کی عدت3ادوار (یا3ماہ) ہے۔ جس میں باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن فقہاء نے عورت کے حق کو نظر انداز کرتے ہوئے طلاق رجعی سے شوہر کو ایک طرف غیر مشروط رجوع کا حق دیا اور دوسری طرف طلاق مغلظہ سے باہمی صلح سے بھی رجوع کا حق ختم کردیا۔
٭٭٭
کما انزلنا علی المقتسمینOالذین جعلوا القراٰن عضینOفو ربک لنسئلنھم اجمعینO”جیسا کہ ہم نے بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ۔ جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا۔ پس تیرے رب کی قسم کہ ہم ان سے ضروربضرور پوچھیں گے۔ (سورہ حجر:90،91،92)
وقال الرسول یارب ان قومی اتخذواھذا القرآن مھجورًاO
” اور رسول کہیںگے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ ( سورہ الفرقان آیت:30)
مذکورہ بالا آیات میں فقہاء اور عوام کے خلاف دوFIRدرج ہیں!
رسول اللہ ۖ نے نشاندہی فرمائی تھی کہ ”میری امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی ” ۔ (صحیح بخاری و مسلم)
حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق پرسے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا تو اسکے پیچھے قرآن کا فلسفہ عورت کا اختیار تھا۔جب عورت راضی ہو تو معاملہ حکمران کے دربار میں کیوں جاتا؟۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ایک بلکہ تین طلاق کے بعد بھی طلاق رجعی ہے تو یہ بہت بڑی جہالت ہے۔ شیعہ فاروق اعظم کی مان لیںگے۔ عورت صلح کیلئے راضی ہو تو حلالہ قرآن کے احکام، عورت کی عزت و ناموس اور انسانی فطرت کو کچل کر رکھ دینا ہے۔
حنفی فقہ ” فتاویٰ قاضی خان ”کا حوالہ فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے کہ ”ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تیری شرمگاہ میری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو تجھے طلاق اوربیوی نے کہا کہ اگر تیری شرمگاہ سے میری شرمگاہ خوبصورت نہ ہوتو میری لونڈی آزاد۔ اگر دونوں نے کھڑے ہوکر یہ بات کہی ہے تو بیوی طلاق ہوجائے گی اسلئے کھڑے ہونے کی صورت میں عورت کی شرمگاہ خوبصورت ہوتی ہے۔ اگر دونوں بیٹھے ہیں تو عورت کی لونڈی آزاد ہوجائے گی اسلئے کہ بیٹھنے کی صورت میں مرد کی شرمگاہ خوبصورت ہوتی ہے اور اگرشوہر کھڑا ہے اور عورت بیٹھی ہوئی ہے تو مجھے بھی پتہ نہیں کہ پھر کیا حکم ہے ؟۔ البتہ فضل بن ابوبکرنے کہا کہ مناسب ہے کہ دونوں کا عہد و پیمان(ایمانھما) واقع ہو۔اسلئے کہ کھڑے ہونے کی صورت میں مرد اور بیٹھنے کی صورت میں عورت کی شرمگاہ خوبصورت نہیں ہے۔ شوہر کی طلاق واقع ہو اور بیوی کی لونڈی آزاد ہو”۔ یہ فتاویٰ کوئٹہ سے بھی چھپا ہوا ہے۔ایوارڈ ملنا چاہیے۔
سلیم انسانی فطرت کے منافی مذہبی مسائل سے مغرب کی بغاوت ٹھیک ہے۔ نبیۖ نے فرمایا: ”اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ الساعہ آجائے”۔ (صحیح مسلم ) الساعہ سے مراد قیامت نہیں بلکہ خلافت کے قیام کا انقلاب ہے
جاہلیت کے مسائل کا حل قرآن وسنت نے پیش کردیا۔
1:ظہار میں بیوی کو حقیقی ماں سمجھ لیا جاتا تھا تو سورۂ مجادلہ و سورہ احزاب میں اس کا بہترین حل پیش کردیا۔
2:عورت کو حرام قرار دیاتو سورہ تحریم میں حل پیش کردیا۔
3: عورت سے نہ ملنے کے عہدوپیمان کو صلح میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا تو اللہ نے اس کو البقرہ224میںجڑ سے ختم کردیا۔
4: اکٹھی تین طلاق کے بعد حلالہ ضروری تھا تو سورہ البقرہ آیت228میں رجوع کا تعلق اصلاح کیساتھ جوڑ دیا۔
5: عدت میں طلاق رجعی کا غیر مشروط تصور تھا تو آیت228اور229میں اصلاح ومعروف کی شرط سے جوڑ دیا۔
6: طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کا حق طاقتور شوہر نہیں دیتا تھا تو آیت230میں مکمل جان چھڑادی۔
حالانکہ آیت226،228اور229میں بھی جان چھڑائی تھی اسلئے کہ ایلاء اور طلاق کے بعد عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا لیکن فقہاء کو عورت کا مفاد اور اللہ کے واضح احکام سمجھ میں نہ آئے جونہی آیت230البقرہ میں حلال نہ ہونے کا دیکھ لیا تو اس کو پکڑکر بیٹھ گئے۔ حالانکہ یہ تین طلاق کے بعد اور فدیہ کی اس صورتحال سے مشروط تھا جس میں فیصلہ کرنے والے اور وہ دونوں آئندہ رابطے کی بھی کوئی صورت نہ چھوڑیں اور پھر اللہ نے عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف اور باہمی رضامندی کی شرط پر حلالہ کے بغیر رجوع کی اجازت دی اور سورہ طلاق کی دو آیات میں ایک مختصر جامع خلاصہ بھی پیش کردیا لیکن حلالہ کی لذت میں گرفتار پھر کہاں سنتے تھے؟۔
7: اللہ نے محرمات کی فہرست میں سب سے پہلے آباء کے نکاح والی عورتوں کو منع کیا مگر یہ کہ جو پہلے ہوچکا ہے۔
ابو حنیفہ کے شاگرد شیخ الاسلام ،مفتی اعظم خلافتِ عباسیہ اور قاضی القضاة ( چیف جسٹس ) نے بڑی بھاری رقم کا معاضہ لیا اور بادشاہ کیلئے اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دے دی ۔
شکر ہے کہ نالائق تھا اور سورہ مجادلہ سے حکم کا استنباط نہیں کیا کہ ”مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے جنا”۔ لونڈی اور سوتیلی ماں کا جواز ہے۔ توراة عبرانی زبان میں تھا اور یہودی علماء اس کا عربی میں ترجمہ کرتے تھے اسلئے نبیۖ نے فرمایا کہ ان کی تصدیق اور تکذیب مت کرو۔ (صحیح بخاری)۔ مفتی کامران شہزاد نے اپنی ویلاگ میں بزرگ کااپنے مرید کو شرمگاہ سے مارنے اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تائید کا ذکرکیا ہے۔ بس بہت ہوچکا ۔اللہ کیلئے قرآن وسنت کی طرف پلٹ جاؤ!۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ