قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن نے قرآنی آیت کی بہت کھل کرتحریف کردی ،مذہبی طبقے کی خاموشی جہالت ہے یا مفاد پرستی؟،فوری توبہ اور اصلاح کا اعلان کریں ورنہ پھر مجبوراً عدالتی کیس کرنا پڑے گا
اپریل 6, 2025

مولانا فضل الرحمن کا اصل بیان آخر میں ہے جس پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
تبصرہ : سید عتیق گیلانی
مولانا فضل الرحمن پریہ ضرب المثل فٹ ہے کہ ”چور چوری سے جائے ،ہیراپھیری سے نہ جائے”
اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ مولانا فضل الرحمن کا نونہال ٹبر مالا مال اور نہال ہوا مگر ہیرا پھیری کی عادت نہیں جارہی ہے۔ اندھے پن کی انتہا ہے کہ شور مچانے کی بھی غلط تشریح کی اور قرآنی آیت کے ظاہری الفاظ تک میں تحریف کا ارتکاب کردیا ہے۔
سری نماز اور جہری نمازکا مسئلہ دنیا جانتی ہے مگر اس میں شور مچانے ، چیخنے اور چلانے کی بات کہاں سے آگئی؟۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ ” اللہ کسی کا بولنا برائی سے پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم ہوا ہو”۔ ہدف جہر نہیں بلکہ ”برائی ” ہے۔ مثلاً مولانا فضل الرحمن نے قرآن پر ظلم کیا تو برائی سے تذکرہ کرنا جائز اس کو اللہ پسند کرتا ہے۔ جہر نہیں بلکہ برائی مقصد ہے۔ مولوی جمعہ کے دن کتنا چیختے ہیں ؟۔کس نے ان پر ظلم کیا؟۔ مولوی ڈھیٹ بن گئے یا مستقل مزاج؟۔ فیصلہ عوام اور خداکو اپنے کٹہرے میں کرنا ہے۔
ہوا کے خارج ہونے کیلئے بھی سری اور جہری کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ بھلے بالکل ہلکی آواز ہو۔
جب جمعیت علماء اسلام اور متحدہ مجلس عمل کے ہاتھ میں پختونخواہ کا اقتدار تھا تو وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات آج سے بدتر تھے۔ مولانا اپوزیشن لیڈر ، کشمیر کمیٹی چیئر مین اور پختونخواہ میں پورا اور بلوچستان میں آدھااقتدار مل گیا تھا تو منہ سے لڈو پھوٹتے تھے۔2006میں ریاست کو بلیک میل کرنا تھا توبجٹ کی تقریر دیکھو۔2014میں ن لیگ کی حکومت میں شامل اور افغانستان کے دورے سے واپسی پر امتیازعالم نے انٹرویو لیا تو اس میں واضح کیا کہ حکومت بچاری مجبور ہے۔IMFقرضہ اور بجٹ بناکر دیتی ہے۔زرداری کیساتھ کیا چین کے مغربی روٹ کا افتتاح نہیں کیا؟۔پھر نواز کے سامنے ڈٹ کیوں نہیں گئے کہ بلوچوں کو ورغلایا کہ سوئی گیس تمہیں نہیں دی پنجاب کو دی؟، پھر وہی حرکت جو چین اور پاکستان کے مفاد میں نہیں؟۔
مگر مولانا کو حکومت کی چوسنی اور چاشنی ملتی ہے تو سویلین بالادستی کے ڈھول نہیں بجاتے ہیں۔ عمران خان کے دور میں میراISIکے کرنل نے فون نمبر مانگا تھا جو اجمل ملک نے نہیں دیا۔ جب کراچی آیا تو کرنل سے ملنے گیا۔ اس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت چلے۔ مولانا فضل الرحمن سے اگر آپ کا تعلق ہے اور کہہ دیں کہ ابھی احتجاج نہیں کریں۔ میں نے کہا کہ مولانا کے پیچھے تو تم لوگ نہیں کھڑے ہو؟۔ اس نے کہا کہ ملک کی حالت ایسی ہے کہ حکومت کو چلنے دیا جائے۔ جب مولانا فضل الرحمن تیاری کررہے تھے تو شاید عمران خان کو ڈرایا گیا تھا کہ احتیاط کرو۔ چنانچہ عمران خان تقریر میں مولانا کے خلاف بات دبا گیا تو اس کا منہ بھی ٹیڑھا ہوگیا۔ ہم نے اس کی وہی تصویر چھاپی ۔ مولاناکے احتجاج کی بڑی خبر لگائی۔ جب مولانا اسلام آباد پہنچ گئے۔ پشاور موڑ سے شاہ فیصل مسجد تک جانے پر بھی تیار نہیں تھے۔ محمود خان اچکزئی سے ملاقات میں کہا کہ کچھ اسلامی نکات اٹھاؤ۔ بنی گالہ ایسے کنٹینر لگائے گئے تھے جیسے بڑا حملہ ہو رہا ہو۔DGISPRجنرل آصف غفور نے بیان دیا کہ ہم آئندہ الیکشن میں بھی نہیں آئیں گے۔ جیسے مولانا کے دباؤ سے کوئی آسمان پھٹ رہاہو۔ پھر پتہ چلاکہ نوازشریف کیلئے یہ سیاست کی گئی۔ نواز شریف کی آنیاں جانیاں بھی ایک سیاستدان کا کرشمہ ہے ۔ ظلم بھی عدلیہ نے کیا اور ازالہ بھی اس نے کیا۔ عدالت کا یہ رخ بھی دیکھ لیا۔ سیاستدان کا بھی رخ دیکھ لیا۔ عمران خان بھی کس کی مدد سے آئے، کس کے عدم تعاون سے گئے اور کس کیلئے ترس رہے ہیں؟۔ جب سبھی وردی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں تو کتنے نکاح اور کتنے حلالے کرکے سیاستدان خود اس حصار سے باہر نکلیںگے؟۔
سیاستدان دن رات کی طرح بدلتے ہیں جس کی وجہ سے عوام نے ان کو پہچان لیا ہے۔ کار کنوں اور عوام کی مقبولیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ عمران خان جس دن اقتدار میں آیا تو فوج کے بوٹ کے نیچے اپنا کردار بہت خوشی سے ادا کرنے پر تیار ہوگا۔ رہنمااورکارکن تو پنجاب میں اپوزیشن نہیں کرسکتے۔
منظور پشتین نے ساری مذہبی سیاسی جماعتوں کو مشاورت میں بلاکر فوج اور طالبان سے نکلنے کا بڑا مطالبہ کیا۔ پولیس نے احتجاج کیا کہ فوج نکلے اور اب واویلا ہے کہ فوج نہیں ہے اور پولیس محصور ہے اور حکومت کو خبر نہیں ہے؟۔ سیاسی قائدین کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اقتدار کے بغیر بھی امن وامان کو قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقتدار ملتا ہے تو پھر مزید بہتری پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور جب سیاستدان اقتدار کی بھوک کے مریض بن جائیں تو عوام کیساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن جنرل ضیاء الحق کے دور میں بندوق اٹھانے کی بات کرتا تھا کہ نظام کیلئے بندوق ضروری ہے اور جب1990کے الیکشن میں اس کو ناکامی ملی تھی تب بھی عوام سے بندوق اٹھانے کی بات کرتا تھا۔1997میں الیکشن ہارا تو باقاعدہ انقلابی سیاست کا فیصلہ جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بھاری اکثریت سے کیاتھا۔
اب یہ کہنا کہ اگر ہمیں قبائل میں جانے دیا جاتا تو لوگ بندوق نہ اٹھاتے؟۔ قبائل میں جمعیت ہی کےMNAتھے۔ جب جنرل فیض حمیدنے لانے کا فیصلہ کیا تو مولانا صالح شاہ نے ویلکم کیا تھا۔
جس طرح مولانا فضل الرحمن نے آیت کا غلط مطلب پیش کیا تو کل اس پر قانون سازی ہوگی کہ کس کو چلانے اور چیخنے کا حق ہے اور کس کو نہیں؟۔ اسی طرح فقہاء نے فقہ اور اصول فقہ کے نام پر بھی بڑا گند کیا ہے۔ جس دن یہ گند ہٹ گیا تو لوگ پھر اسلام کے گرویدہ بن جائیں گے۔
مولانا نے بلوچستان کے کچھ اضلاع کی بنیاد پر کمال کی بلیک میلنگ کی ہے۔ جو دل سے زیادہ یہ پیٹ کا درد لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کو اگر مدد کرنی ہوتی تو کشمیر کی کرتا جو عالمی قوتوں کا ایجنڈا ہوسکتا ہے۔
رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں بغیر کسی مستقل ریاست ، عدالت ، فوج ، پولیس، سول بیوروکریسی ، انتظامیہ اور باقاعدہ حکومت کے کس طرح مسلم قوم کو منظم کیا ، یہود کے ساتھ میثاق مدینہ اور مشرکین کے ساتھ صلح حدیبیہ کی بہترین داخلی و خارجی پالیسی سے دنیا کو روشناس کرایا؟۔ سیاسی قیادت کا کمال یہ ہونا چاہیے کہ اقتدار سے دور رہ کر بھی امن و امان کا قیام یقینی بنائیں۔ وزیرستان کی سینکڑوں سال کی تاریخ اعلیٰ ترین معاشرے کی ایک بڑی مثال ہے لیکن سیاستدان صرف اقتدار کا فیڈر مانگتے ہیں۔
اللہ چیخ چیخ کر بولنے کو پسند نہیں کرتالیکن مظلوم کی چیخ وپکار کو اللہ سننے کیلئے تیارہے ”لایحب اللہ الجھر”مولانا فضل الرحمن
میں پہلے یہ بات کہہ چکا اور دوبارہ جاننا چاہوں گا۔ ملک کی سا لمیت کے حوالے سے بند کمروں میں ماورائے حکومت، سیاست، پارلیمان پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ ہمیں ایک لمحے کیلئے اجازت نہیں کہ ریاست کی بقا ء ، سالمیت پر بات یا تجویزدے سکیں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مسلح گروہوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ دو صوبوں میں حکومت کی رٹ نہیں۔ آج وزیراعظم یہاں ہوتے تو بصد احترام عرض کرتا کہ قبائل ، متصل اضلاع، بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ تو شاید وہ کہتے کہ مجھے علم نہیں۔ اگر میرا حکمران اتنا بے خبر ہے اور مجھے یاد ہے ایک زمانہ میں ہم نے مل کر کام کیا۔ افغانستان ہمارے جرگے جاتے تھے اور میں نے پوچھا تو ان کو علم نہیں تھا۔ کون ، کہاں فیصلے کیے جاتے ہیں؟، ذمہ دار تو کل پاکستان ،اپوزیشن اور پارلیمان ہوگا عوام کی نظر میں ہم ذمہ دار ہیں۔ حقیقت میں کوئی سویلین اتھارٹی نہیں۔ نظریاتی سیاست نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے بند کمروں میں فیصلہ پرحکومت کو انگوٹھا لگانا پڑتا ہے۔ نکلنا ہوگا یا انہی دبیز پردوں کے پیچھے سیاست کرنی ہوگی؟۔ ہم نے ملک کو چلانا ہوگا ۔جناب اسپیکر! میرے علاقے میں ایسے ایریاز ہیں جو فوج ، پولیس خالی کر چکی تھی۔ ایوان کو بتانا چاہتا ہوں۔ جہاں پر جنگ ہو ،پولیس اور فوج نہ ہو تو کس کے قبضے میں اور کس کارٹ ہوگا؟۔ اور دل پہ ہاتھ رکھ کر انتہائی دردِ دل کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت بلوچستان کے 5سے 7 اضلاع اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر وہ آزادی کا اعلان کر دیں اگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کر لیا جائیگا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا ۔کہاں کھڑے ہیں ہم لوگ ؟، میری گفتگو کو جذباتی نہ سمجھا جائے ۔ حقائق تک پارلیمنٹ اور حکومت کو بھی پہنچنا ہوگا۔ اس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں چوکیوں میں پولیس عملہ محصور ہے۔ سڑکیں، علاقے اور گلیاں مسلح قوتوں کے ہاتھ میں۔ آج کوئی بقاء کا سوال پیدا کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو برا منایا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت بھی چیخ چیخ کر بولنے کو پسند نہیں کرتا لیکن مظلوم کی چیخ و پکار کو اللہ بھی سننے کیلئے تیار ہے۔لا یحِب اللہ الجہر بِالسوء ِ مِن القولِ اِلا من ظلِمکوئی شخص بھی اونچی آوازاور چیختی آواز کیساتھ بات کرے اللہ کو پسند نہیں ہے سوائے اس آدمی کے جس پر ظلم ہوا، جس کیساتھ زیادتی ہو رہی ہے جو مضطرب پریشان ہے ۔یہاں قانون سازیاں کی جا رہی ہیں۔ پہلے ریاست اور رٹ کو تو مضبوط کرو۔ قانون پاس ہوتے ہیں۔ پورا ملک آپ کے ہاتھ میںہوگا تو نافذ العمل ہوگا۔ قانون کس کیلئے ؟۔ صوبائی اسمبلیاں عوام کی نمائندہ نہیں ہیں۔ بغاوتیں پیدا ہوتی ہیں عوام نکلتے ہیں تو کوئی منتخب نمائندہ پبلک کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں خواہ کتنی اچھی پوزیشن کیوں نہ ہو ۔ سیاست میں جنگ نظریات کی نظریات کیساتھ ہوتی ہے۔40سال پروکسی جنگ لڑی فوج نے اپنی ریاست کو جنگوں میں دھکیلا۔ دنیا کہتی تھی کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔ ہم سارا غصہ افغانستان پر نکالتے ہیں لیکن اپنی کمزور پالیسیوں سے لوگوں کی آنکھیں دوسری طرف پھیرتے ہیں تاکہ قوم ہماری غلطیوں پر بات نہ کر سکے اور پڑوسی کو ہی مجرم سمجھتے رہیں۔ نام نہاد عالمی دہشتگردی کے خلاف امریکہ اور ناٹو کے اتحادی بن گئے۔ ہمارے اڈوں سے ہوائی جہاز اڑتے، افغانستان میں بمباری کرتے۔ کیا کبھی افغان طالبان نے کہا کہ امریکہ کے جہاز آپ کی ایئرپورٹ سے کیوں اڑ رہے ہیں۔ ہم پہ بمباری کر رہے ہیں؟۔ ……..ہماری معیشت بین الاقوامی اداروں کے حوالے کر دی گئی۔ آج ہماری معیشت کو آئی ایم ایف اور اے ٹی ایف اور قرضے دینے والے ادارے کنٹرول کرتے ہیں ہمیں ایک طرف قرضوں میں جکڑا ۔ سارا بوجھ دو طبقوں پر آتا ہے ایک کاروباری اور دوسرا سیاستدان تاکہ ایک حکومتی پارٹی کو بدنام کیا جائے دوسرے کو اس کی جگہ دی جائے اس مقصد کیلئے بین الاقوامی ادارے مداخلت کر رہے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ میرا پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لیکر مغرب چلا جاتا ہے۔ میرے نظام سے تنگ یورپ کاروبار اور تجارت کر تا ہے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ انڈیا کا پیسہ انگریز لے گیا اس نے گلستان کو آباد کیا اور ہمیں بھوکا چھوڑ دیا ۔دفاعی معاملات پہ جائیں حضرت ایٹم بم ، میزائل میرا ہے لیکن بین الاقوامی ادارے مجبور کر رہے ہیں اس پہ دستخط کرو اور مجھے بین الاقوامی معاہدات پر دستخط کرنے کے بعد یہاں پہنچایا جا رہا ہے کہ ایٹم بم، میزائل، طیارہ ، لڑاکا سامان میرا ہوگا لیکن استعمال کرنے کا اختیار بین الاقوامی معاہدات کے تحت ان کو ہوگا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن یا بینک اکانٹس کا ایک قانون بین الاقوامی اداروں کیلئے تحفظ کا باعث ہے۔ عالمی جنگ :روس آیا امریکہ نے قوت استعمال کی۔ دریائے آمو یہاں کی معدنیات پر قبضہ کرنے کیلئے افغانوں نے لڑ کر نکال دیا۔آج چائنا بھی رسائی چاہتا ہے۔ افغانستان اور ہمارے فاٹا اور پختونخوا کے علاقوں میں دو قسم کے معدنیات ہیں ایک وہ جس کیساتھ عام لوگوں کی معیشت کا تعلق ہے گیس کوئلہ تیل چاندی سونا کاپر وغیرہ۔ کچھ پتھر جو خلا میں جانے والے راکٹوں ، میزائلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ جو ساڑھے 4 سو کی ہیٹ پر بھی تحلیل نہیں ہوتے اس سے الٹا جائیں تو اتنی ہی سخت سردی میں بھی وہ منجمد نہیں ہوتے۔ اگر ہمارا ایوان حکومت ، اپوزیشن سنجیدہ خود اعتمادی کیساتھ وطن عزیز کیلئے سوچ کر فیصلے کرے ویژن، دلیل، رائے اور تحقیق موجود ہے ہم اس ملک کو بہتربنا سکتے ہیں۔ ہم اس حد تک گر چکے کہ ایک قدم اٹھاتے ہیں تو بھی اشارے کے محتاج ہیں کیا کسی لمحے ہمارے ضمیر پر کچھ گزرتی ہے یا نہیں؟۔ سال میں باجوڑ جہاں ہم90لاش بیک وقت اور روزانہ دو دو تین تین جنازے اٹھ رہے ہیں۔ ہر ایجنسی سے لڑائیاں جاری ہیں۔ ایک ایجنسی ایسی نہیں رہی کہ جن کے لوگ میرے گھر نہ آئے ہوں۔ایک بھیک مانگ رہے ہیں کہ امن دو۔ میں کہاں سے امن دوں؟۔ پارلیمنٹ کی نہیں سن رہا۔ ایک فضل الرحمن کی کون سنے گا، ابھی پشاور میں تمام قبائل کا جرگہ ہوا ایک ہی بات کہ خدا کیلئے ہمیں امن دو، دربدر ہیں2010سے وہ مہاجرہیں بھیک مانگ رہے ہیں ۔ قبائل اپنی روایات رکھتے ہیںخواتین گھروں سے نہیں نکلتی آج وہ گلی کوچوںمیں بھیک پر مجبور ہیں ۔ پشتونوں کی روایات اور عزت کا لحاظ نہیں۔ بلوچوں کی عزت کا لحاظ نہیں ۔حوالے کرو صحیح لوگوں کے تاکہ معاملات بہتری کی طرف جائیں ہم ملک کیلئے سب کچھ قربان اور پوری طرح تعاون کیلئے تیار ہیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ