پوسٹ تلاش کریں

مسلم امہ دہشت گردی کا شکار کیوں ہے؟ حقائق جانے بغیر دہشتگردی پر قابو پانا مشکل ہے: عتیق گیلانی

مسلم امہ دہشت گردی کا شکار کیوں ہے؟ حقائق جانے بغیر دہشتگردی پر قابو پانا مشکل ہے: عتیق گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

مسلم اُمہ اور دنیا دہشتگردی کا شکار کیوں ہے؟۔ ہم دہشتگردوں کی حمایت کا تصور بھی نہیں کرسکتے مگر حقائق جانے بغیر دہشتگردی پر قابو پانا مشکل ہے۔ اسلام میں ایک رحمن کا تصور ہے اور دوسرا شیطان کا۔ شافعیؒ و مالکؒ بڑے امام اور مشہور ہستیاں ہیں، انکے نزدیک نماز قضاکرنے پر قتل کاحکم ہے۔ نمازکی عبادت اللہ اور بندے کے درمیان تعلق ہے، کوئی مجبور کرے تو بے وضو اور بے غسل بھی نماز پڑھی جائیگی اور اگربندوں کے خوف یاریا سے نماز پڑھی جائے تو یہ اللہ کی نہیں بندوں کی عبادت ہوگی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانامحمد خان شیرانی نے کہا: ’’طلاق کا مسئلہ چھوڑ یں، نماز پر بات کرلیتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا : بہت اچھا، آپ کا تعلق سیاسی جماعت سے ہے، کل اقتدار میں ہوں تو بے نمازی کو کیا سزا دینگے؟۔ اگر بے نمازی کی سزا قرآن و سنت میں ہوتی تو چار ائمہ کا اس پر اختلاف کیوں تھا؟۔ خوف سے پڑھی جائے تویہ نماز ہوگی؟۔ مولانا شیرانی نے کہا :میرا مقصد نماز کے فضائل پر بات تھی۔ میں نے کہا: اس کی ضرورت نہیں،صحابہؓ سے غزوہ خندق میں متعدد نمازیں قضاء ہوئی تھیں ، تبلیغی جماعت میں وقت لگاتے تو کوئی نماز قضاء نہ ہوتی، نبیﷺ کو خندق میں چھوڑ دیتے۔ مولانا شیرانی نے کہا: یہ درست ہے، معیشت پربات کرلیتے ہیں (کافی دیر گفتگو کے بعد)میں نے کہا :درجن کے بدلے دو درجن اخروٹ سود نہ ہومگر کلو کے بدلے دو کلو سودہوتو یہ منطق دنیا کو کیسے سمجھ آئیگی؟، ذرا بتاؤتوسہی!۔
بے نمازی کو قتل کرنے کا فتویٰ دینے والے مقدس ہوں تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پامال کرنیوالے کافرو ظالم طبقے کیخلاف خود کش حملے کرنیوالوں مجاہد ہیں یا دہشت گرد ؟۔ زبردستی سے کلمۂ کفر پر مجبور کیا جائے تو اللہ اس پر نہیں پکڑتا، اگر بے نمازی کو قتل کرنیوالے بڑے امام تو نظام کیلئے قربانی دینے والے زیادہ مقدس نہ ہونگے؟۔ میرا گھر ہوا تو بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل بھی توڑ ے،GHQپرقبضہ کے علاوہ کیا کچھ نہ ہوا؟۔ مولانا فضل الرحمن نے حضرت ابوبکرؓ سے منقول صحاح ستہ کی حدیث کے مطابق دہشتگردوں کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تو کسی میڈیا چینل نے وہ بیان نشر نہ کیا بلکہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کالم لکھ دیا: ’’مولانا فضل الرحمن پر مجاہد خود کش کرنا چاہتے ہیں مگر ایک خود کش سے مارا نہیں جاسکتا اور دو طالبان اس پر ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ آج ڈاکٹرشاہدمسعودکی حیثیت دھوبی کے کتے کی ہے، جو گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ عطاء الحق قاسمی پی ٹی وی پر حامد میر کا گن گا رہاہے تو وہ ڈاکٹرشاہد مسعود کا بھی گن گاتا رہاہے۔حامد میر نے مولانا فضل الرحمن کو جشنِ دیوبند کانفرنس کے بعد اسامہ کی دھمکی دی، مولانا عطاء الرحمن کے جواب میں لکھا: ’’شیشہ کے گھرسے پتھر نہ پھینکنا، مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لو،GHQ کون لیکر گیا ؟‘‘حامد میر اور عطاء الحق قاسمی کا یہ تأثرغلط ہے کہ حامد میر وہ مجاہد ہے جو دہشتگردوں اور فوج کے نشانے پر رہ کر بہادری سے جی رہاہے۔ اعترافِ جرم قوم کا نشانِ منزل ہو تو بات بنے۔ شدت پسندی کو اسلام سمجھ کرہم نے آبیاری کی تو اس کی تلافی کیلئے وہ نہ کرسکے جسکا حق تھا، انھم یکیدون اکیدًا واکید کیدًا ’’ دشمنون نے اپنی چال چلی اور اللہ نے اپنی چلی‘‘، اسلام کے عادلانہ نظام پر نہ صرف مسلمان بلکہ عالمِ انسانیت بہت خوشی سے متفق ہوگی۔
اگر نوازشریف و شہباز پولیس و گلوبٹوں سے بندوں کو قتل کروائیں تو ریاستی دہشتگردی سے ان کا جرم زیادہ نہیں جو ظالمانہ نظام ختم کرنے کیلئے سربکف ہیں، جن کو اداروں نے پالا، نواز شریف اور عمران خان نے انکی کھل کر حمایت کی ۔ جنرل راحیل سے پہلے فوج کا مورال اپنے کرتوت سے ڈاؤن تھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے لوگ اپنی عزت نہ بچاسکے، جن کا حال یہ تھا کہ الطاف بھائی کی ٹانگوں میں سر دیا تو الطاف جیسا لیڈر دنیا میں کوئی نہ تھا اور ذرا ہٹ کر دیکھا تو رویہ بدل دیا۔ سلمان حیدر کا کہا کہ انڈیا میں ہے مگرکسی نے نہ پوچھا کہ گھر کیسے پہنچا؟۔الطاف بھائی کارویہ بدلنا پڑیگا کہ اپنوں کو شہید اور دوسرے کوہلاک کہو، افغانستان کی مسجد میں جمعہ پڑھنے والا بم سے ہلاک اور اپنا حادثے کا شکار ہو تو شہید؟۔
سب سے غلطیاں ہوئیں مگر خودسے زیادہ دوسروں کیلئے ایماندارانہ جواز کی ذہنیت رکھتے ہیں،خود سزا کھالی، دوسروں کیلئے سزا کی تجویز نہیں۔ ہم سے زیادہ قوم کو سزا مل گئی ۔ افغانستان اپنے لئے دہشتگردوں کو کنٹرول نہیں کرسکتا تو ہمارے لئے کیا کریگا؟۔ افغانی دَلّے حکمران و عوام نے اغیار کیلئے اپنے وطن، قوم اور ملت کی قربانی دی اور ہمارے دَلّوں نے بھی وہی کیا۔ کسی پراحسان کے بجائے اپنے مفاد کیلئے خود کو اور دوسروں کو بھی تباہ کیا۔ ایکدوسرے کے گھر میں گند کو احسان کہنا حماقت ہے۔غلامانہ ذہنیت والے صحافی اور سیاسی ومذہبی لیڈر قوم کی رہنمائی کریں تو تباہی و بربادی کیلئے یہی کافی ہے۔ ایران اور پاکستان کیخلاف سازشوں کا آغاز ہوچکا۔سعودیہ پر بھی بُرا وقت ہے۔ ہم نے غیرتمندو بے غیرتوں کو دہشتگرد بنایا، مولوی فضل اللہ کوسوات میں کس نے بغل میں پالاتھا؟۔ خواجہ آصف نے حافظ سعیداورپرویزمشرف نے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دیا۔ محمود خان اچکزئی جو کہتا تھا وہی کیا جارہاہے اور ایجنٹ ہونے کی گالیاں بھی صرف اسی کو دی جارہی ہیں۔ پوری قوم کی حمایت طالبان کو حاصل تھی تو فوج نے کیا کرسکتی تھی؟ نیٹو نے بھی اپنی رسم و راہ بنالی تھی، طالبان کے جذبے سے عالمی قوتوں کے عزائم خاک میں مل گئے۔
کالعدم تنظیموں سے ریاست مخالفین کوقابو کرتی ہو ،حکمران کا کردار قابلِ ستائش نہ ہو، با صلاحیت صحافی بکاؤ مال بنے تو ناکارہ مجاہد، ناکارہ صحافی، ناکارہ سیاستدان کے بل بوتے پرریاستی مشنری چلتی ہے۔اندھیر نگری چوپٹ راج میں قوم کے خون پر خرچے شاہانے ہوتے ہیں۔ بڑوں کے باہر ٹھکانے،غیرت و ضمیر کے الگ پیمانے ہوتے ہیں۔انسانی اقدارومذہبی روح سے بیگانے ان ماڈلز نے نمائش کے چکر لگانے ہوتے ہیں۔اغیار کیلئے ایکٹنگ کے افسانے چہرے جانے پہچانے ہوتے ہیں، مفاد پرست چالاک سیانے وہاں جاتے ہیں جہاں دانے ہوتے ہیں۔ رہنما اور لیڈر دجال سے زیادہ کانے ہوتے ہیں۔ مکھیوں کی بیٹھک رستے ناسور کے خزانے ،ابن الوقت قلابازی کے زمانے ہوتے ہیں۔ مخدوم شاہ محموداور مخدوم فیصل حیات جیسے آستانے ،مولانا فضل الرحمن کے بہانے اقتدار کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ دانیال عزیز،امیرمقام ، جہانگیر ترین،فوادچوہدری ہر دور کے ہرجانے ہوتے ہیں۔ لیگ و پیپلز پارٹی نے اپنے معاملے مکانے ہوتے ہیں۔جماعتِ اسلامی کی خدمات کسی کے ہاتھ بٹھانے ،عمران خان کے مسکے امپائر کے انگل اٹھانے ہوتے ہیں۔ کس کے ہاتھ پر قوم اپنا لہو تلاش کرے کہ سبھی نے پہن رکھے دستانے ہوتے ہیں۔ مجرم رہنماہرجگہ کھسیانے اور متعصبانہ جذبے عوام میں بھڑکانے ہوتے ہیں۔ آذانِ سحر سے ہو آغاز تو خواب بھی سہانے ہوتے ہیں،نسیم صبا چلے توگُلوں پر بلبلوں کے گیت چہچہانے ہوتے ہیں ۔دارارقم انقلابیوں کے آشیانے ا وربوجہل بولہب کی نظر میں رحمت للعالمینﷺ دیوانے ہوتے ہیں۔ وماصاحبکم بمجنون اے پاک حرم کے باسیو! یہ تمہاری بھول تھی کہ تمہارے صاحب مستانے ہوتے ہیں۔ہردورمیں سازش کے الگ الگ تانے بانے ہوتے ہیں، ڈور ڈنگر سے بدترانسان سدھانے اورانسانی فطرت کے جوہر جگانے ہوتے ہیں۔پہلے طعنے ہی طعنے اورپھر ترانے گانے ہوتے ہیں۔ عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!
چوہے کی بل سے آواز ایک بڑا راز ؟ فیس بک پر انگریزی کی تحریر کا ارود ترجمہ اور اس کاجواب!
پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح ہے اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں