جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا، سواد اعظم کا اتباع اور امت کا گمراہی پر اکھٹے نہ ہونے کی خوشخبری
جون 22, 2024
جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا، سواد اعظم کا اتباع اور امت کا گمراہی پر اکھٹے نہ ہونے کی خوشخبری
فرمایاۖافضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے
قال رسول اللہ ۖ افضل الجہاد کلمة الحق عندالسطان الجائر۔
ترجمہ: ”رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ افضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے”۔ اور یہ ہے کہ نبیۖ نے دریافت کرنے پرفرمایاکہ ”افضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ عدل ہے”۔
پاکستان میں گزشتہ سال 9مئی کاواقعہ ہوا۔ اگر پاکستان کی فوج عوام کے سامنے سرنڈر ہوجاتی تو عمران خان کو امام انقلاب اور امام خمینی قرار دیا جاتا لیکن اب حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کا پارٹی چھوڑنے اور کارکنوں کا اذیتیں اٹھانے کے بعد ایک طرف کہا جارہاہے کہ فوج نے یہ خود کیا ہے اور دوسری طرف عوامی مقبولیت کا فائدہ اٹھاکر سوشل میڈیا پر نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے اور پاکستان اس سے اپنے بھیانک انجام کی طرف جارہاہے۔ پاکستان وہ گدھا بن چکا ہے جس نے اونٹ نہیں ریل مال گاڑی کا بار اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے سب مل بیٹھ کر ایک ایسا لائحہ ٔ عمل تشکیل دیتے اور نفرتوں کی جگہ سنجیدگی کو فروغ ملتا۔
اگر حکومت وریاست اور مقتدر طبقات کے سامنے کلمہ ٔ عدل اور حق کی بات پیش کی جائے تو ہم موجودہ مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ نوازشریف کے دور میں بھی سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تھا اور عمران خان و ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں نے بھی پارلیمنٹ پر حملہ اورPTVپر قبضہ کرلیا تھا۔ فوج نے جن کو ناز ونخروں سے پالا تو انہوں نے اس کا جواب اس وقت طاقت سے دیا کہ جب ان میں ہمت پیدا ہوگئی ۔ البتہ جب تک عدالت اور پارلیمنٹ نشانہ تھے تو ان کو برداشت کیا گیا۔ پہلی مرتبہ جب عمران خان اور اس کے کارکنوں کی جانب سے مقتدرہ فوج کو نشانہ بنایا جارہاہے تو وہ برداشت نہیں۔
عمران خان اور نوازشریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن بھی دی اور برا بھلا بھی کہہ دیا۔ مولانا فضل الرحمن معتدل اور متوازن شخصیت ہیں۔ 44سالوں سے آئین پر عمل کا کہہ رہے ہیں۔
فرمایا ۖ ”سواد اعظم (بڑی جماعت، پارٹی) کا اتباع کرو”
قال رسول اللہۖ اتبعواالسواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار
ترجمہ:” رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ بڑی جماعت کے پیچھے چلو ،جو پھسلا وہ آگ میں پھسلا”۔
جمہور کی اصطلاح اسلامی کتب میں اسلام کے شروع دور سے موجود ہے۔ جمہور صحابہ نے ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی کی خلافت قبول کرلی۔ لیکن سعد بن عبادہ نے ابوبکر وعمر کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھی۔
حضرت علی نے حضرت عثمان کے خلاف شکایات کا نوٹس لیا اور کلمۂ عدل بلند کیا کہ ابوبکر وعمر سے آپ کا نسب ، آپ کی اسلام کیلئے قربانی اور نبی ۖ سے قرابتداری کم نہیں ہے ۔ اگر لوگوں کو شکایت رہی اور اس کا ازالہ نہیں کیا گیا اور خلیفة المسلمین اپنی مسند پر قتل ہوا تو یہ خونریزی قیامت تک بھی نہیں رک سکے گی۔ اسلئے عوامی شکایات کا ازالہ کریں ورنہ جب لوگ بے قابو ہوں گے تو مشکل پڑے گی۔
پھر حضرت عثمان کی شہادت تک بات پہنچ گئی۔ پھر حضرت علی کے خلاف محاذ آرائی شروع ہوگئی۔ امام حسن نے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کیلئے کردار ادا کیا اور خلافت سے امیر معاویہ کے حق میں خود دستبردار ہوگئے۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” میں ہے کہ امیر معاویہ نے3 جمعہ کی تقریر میں کہا کہ” سارا مال میراذاتی ہے جیسے چاہوں خرچ کروں”۔ تیسرے جمعہ کو ایک شخص نے کہا کہ”تم غلط کہہ رہے ہو یہ مسلمانوں کا مال ہے”۔ خدشہ تھا کہ جلاد قتل کرے گا ۔امیر معاویہ نے کہا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ حکمران ہرقسم کی الٹی سیدھی بات کریں گے مگر کوئی روکنے والا نہیں ہوگا،جن کو جہنم میں بندر اور خنزیر بناکر پھینکا جائیگا۔ اللہ اس شخص کوخوش رکھے ،جب کوئی جواب نہیں دے رہا تھا تو مجھے یقین ہوا کہ میں ان میں ہوں۔ اس شخص نے میری جان میں جان ڈال دی ”۔ آرمی چیف عاصم منیر کی چاہت ہے کہ کوئی کلمۂ عدل کہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن عمران خان کو وزیراعظم بنادے توپھر ملک کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
فرمایاۖ” بیشک میری امت کبھی گمراہی پر اکٹھی نہ ہوگی”
قال ۖ لن امتی تجتمع علی الضلالة ابدًا ، فعلیکم باالجماعة، فان یداللہ علی الجماعة ”میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی ہمیشہ ، تم جماعت کی پیروی کرو، بیشک جماعت پر اللہ کاہاتھ ہے”۔
اصول فقہ کے چار اصول ہیں۔ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔ لیکن ”نورالانوار: ملاجیون” میں لکھا ہے کہ اجماع سے مراد اہل سنت ، اہل مدینہ، ائمہ فقہ اور ائمہ اہل بیت سبھی کا اپنی اپنی جگہ الگ الگ اجماع ہے۔
مدارس کے نصاب ”درس نظامی ”کی یہ تعلیم ہے مگر جب اجماع سے الگ الگ اجماع مراد لیا جائے پھر ان الگ الگ اجماع میں تضادات ہوں تو یہ اجماع کے بنیادی مقصد کے خلاف ہے۔علماء غور فرمائیں!۔
حد یث کا بنیادی مقصد یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ”امت میں اختلاف کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا کہ جب امت کا کسی اہم مسئلے پر اجماع ہوجائے”۔ امت کا اجماع تھا کہ ”خلافت قریش میں رہے گی”۔ پھر ترک کی سلطنت عثمانیہ قائم ہوگئی تو اجماع بدل گیا اور غیر قریش اور عجم خاندان کی خلافت پر اجماع ہوگیا۔ متقدمین کے ہاں قرآن پر معاوضہ جائز نہ تھا پھر متأخرین کے ہاں جائز ہوا۔ جمہوریت کو کفر مت کہو!، دین کی تحریف تو علماء نے خود کی۔حدیث سے یہ مراد ہے کہ جمہور کے مقابلے میں اقلیت حق پر ہوسکتی ہے لیکن جمہور کے اقتدار سے الگ راستہ اختیار نہ کیا جائے۔ اسلئے کہ جمہور کے اقتدار پرہی اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
ابوبکر سے سعد بن عبادہ نے اختلاف کیا تو خلیفہ کیلئے قریش کی شرط پر اجماع نہیں ہوا بلکہ جمہور اوراقلیت میں اختلاف تھا۔علی وحسناور یزید و مروان سے آج تک جمہور اور اقلیت کا اختلاف ہے۔جمہور کو اجماع کا نام دینا غلط ہے۔ قریش ، بارہ خلفاء قریش واہلبیت کا تعلق سنی وشیعہ احادیث میں مستقبل کیساتھ بھی ہے جن پر امت مسلمہ کا اجماع ہوگا۔ امام حسین نے یزید سے اختلاف کیا مگر تلوار نہیں اٹھائی بلکہ حق اور عدل کی بات کرنے کیلئے یزید کے پاس جانے دینے کا مطالبہ کیا۔ امام حسن معاویہ کے حق میں دستبردار ہوگئے توبعض شیعہ ، بعض بریلوی اور مرزاجہلمی اپنی دکان چمکانے کیلئے امت کو فرقہ واریت کی آگ میں مت جھونکیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ