وَبدَّلنَاھُم بِجَنَّتَیھم جَنَّتَین ذَوَاتَی اُکُلٍ خَمط واَثلٍ وشَی ئٍ مِن سِدرٍ قَلِیل ”اور ہم نے انکے دو جنت کو بدل دیا ،دو ایسے جنت بے ذائقہ پیلو اور کریرہ والے اور کچھ کم تعداد بیروں کی ”۔( سورہ سبا:16)
اپریل 6, 2025

سورہ الرحمن، الاعراف ، المرسلٰت ،الحج، الواقعہ اور سورہ الدھر میں انقلاب عظیم کی خبر اور خلافت کا گزشتہ شمارہ میںبتایا۔ فارس، خراسان، ہند، سندھ اور مشرق کی احادیث ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے سورہ القدر کی تفسیرمیں لکھا کہ ” اسلام کی نشاہ ثانیہ کیلئے قرآن ضروری ہے۔پنجاب، کشمیر ،سندھ، بلوچستان، فرنٹیئراور افغانستان میں جو قومیں بستی ہیں یہ امامت کی حقدار ہیں۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلہ میںلائے توبھی ان علاقوں سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے۔ نشاہ ثانیہ کا یہی مرکز ہیں۔( المقام المحمود) فرنٹ لائن پاکستان کی فرزانہ علی توجہ دیں۔
کانیگرم وزیرستان اورگومل ڈیرہ اسماعیل خان قوم سبا کے مصداق ہیں۔ جہاں کا امن وامان دہشت گردی میں بدل گیا۔ لذیذ باغ کے بدلے پیلو کے پھیکے چیونگم اور کریرہ کے پھل اور بیری کے چند درخت نشان ہیں۔
وزیرستان میں دہشتگردی کی بنیاد ڈیڑھ سوسال پہلے پڑی۔ وزیرستان کا امن وامان بہت مثالی تھا۔ برطانیہ نے دہشتگردی کے واقعات کو1900میں کتاب میں شائع کیا۔ قبائلی ملکان کوقابل شرم وظیفہ کچھ عرصہ پہلے تک دیتاتھا۔ پھرحکومت پاکستان نے غالباً بینظیر انکم سپوٹ کے تحت اپنے ذمہ لیا ۔
وزیراعظم متحدہ ہندوستان جواہر لال نہرو نے جب باچا خان کیساتھ جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا تو قبائلی ملکان سے کہا کہ چند ٹکے سے انگریز کے ہاتھوں مت کھیلو۔ جس پر یہ کہہ کر ورغلایا گیا کہ تمہیں گالی دی گئی ہے۔
اگرگالی تھی توپھرچند ٹکوں کے لفافے آج کھانا بند کیوں نہیں کئے؟۔ یہ زکوٰة و خیرات غریب غربائ، مساکین فقراء اور بیوہ و یتیم بچوں کا حق ہے جو خان و ملک کھارہے ہیں۔
قبائلی مستحکم اقدار کو ملکان نے تہس نہس کیا اور قومی اسمبلی میں بکنے کا رواج بھی انہوں نے ڈالا۔ پچ کے دونوں طرف دہشگردی کا بازار گرم کرنے میں بھی انہی کابڑاکردار تھا۔
جب ملک منہاج کے بھائی ضیا ء الدین نے بتایا کہ گوانتا ناموبے کی قید سے آزادی پر عبداللہ محسود نے سب ملکان کو رلادیا تو میں نے اس وقت لکھا کہ” ملکان خدا کیلئے تو کبھی روئے نہیں۔اسکے پیچھے بھی لفافوں کا چکر لگتا ہے”۔ ملکان فوج و طالبان کے درمیان ڈبل گیم کھیلتے تھے۔ مصطفی نواز کھوکھر نے فرزانہ علی کو بتایا کہ وزیرستانی کو فوج نے سند دی کہ ”اسکے دوبیٹے فوج کی طرف سے طالبان سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے”۔ لیکن پھر بھی فوج نے اس کا شناختی کارڈ بلاک کردیا تھا۔
سورہ سبا میں سیل العرم سے شدت پسندی اوردہشت گردی کی لہر مراد ہے۔
سیل کے معنی لہر ، طوفان ، سیلاب اور عرم کے معنی شدت ، تیزی اور سختی کے ہیں۔ پانی کاسیلاب، چوہے اور ٹڈی سے امن وامان کے مقابلے میں بدامنی نہیں آتی اسلئے وہ لہر ہی مراد ہوسکتی ہے جو امن کے مقابلہ میں ہو اور اثل کا معنی بے ذائقہ پھل ہوسکتا ہے جبکہ اس سے سایہ دار درخت مراد نہیں لیاجا سکتا۔ پہلی بار دنیا کے سامنے سیل العرم اور اثل کا درست ترجمہ اور تفسیر آئے گی ۔ انشاء اللہ
خلافت کی عظیم پیش گوئی قرآن میں وزیرستان اور گومل کے امن وامان کے بعد دہشتگردی کی لہرکا بڑاواضح تذکرہ
بیشک قوم سبا کے شہر میں نشانی ہے، دو باغ تھے دائیں بائیں جانب۔ کھاؤ اپنے رب کا رزق اور اسکا شکر ادا کرو، پاک شہر اور بخشنے والا ربّ۔توپہلوتہی برتنے لگے تو ہم نے ان پردہشت گردی کی لہر بھیجی اور ہم نے بدل دیا انکے دو باغ کو ، دوباغ بے ذائقہ پیلو اورکریرہ والے اور کچھ چند بیری کے درخت۔ یہ ہم نے ان کو بدلہ دیا ان کی ناشکری کا اور ہم ناشکروں کو برا بدلہ دیتے ہیں اور ہم نے انکے اور برکت والے گاؤں کے درمیان بہت گاؤں ظاہری آباد کردئیے تھے اور ہم نے ان میں کئی ٹھہرنے کی منزلیں مقرر کی تھیںکہ اس میں دن اوررات امن کیساتھ چلو،تو کہنے لگے اے ہمارا رب! ہماری اسفاردستاویز میں دوری کردو اور ظلم کیا اپنی جانوں پر، پس ہم نے انہیں کہانیاں بنادیا۔ اور ہم نے ان کوچیرپھاڑ کر تہس نہس کردیا۔
بیشک اس میں صبر شکر کرنے والے کیلئے نشانیاں ہیں اور بیشک ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایاتو سب اسکے تابع ہوگئے سوائے ایمان والے ایک گروہ کے۔ حالانکہ ان پر اس کا کوئی زور نہیں تھا مگر یہی کہ تاکہ ہم جان لیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس سے شک میں ہے؟اور تیرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے”۔ (سورہ سبا:15تا21)
٭
چچا کے گھر کے نیچے کھنڈرجگہ پر باغیچہ تھا اور دوسراباغ ہماری موجود ہ زمین پر تھا۔گھروں کی راہ میں دائیں بائیں کبھی یہی دو باغ تھے۔ان دونوں باغوں کا اجڑ نابھی بڑا تاریخی واقعہ تھا۔
یہ میرے پردادا سید حسن بابو نے نواسوں کو دئیے جو میرا ننھیال تھا اور انہوں نے1923میں جٹہ قلعہ علاقہ گومل خریدلیا تو اس میں دو پھیکے باغ تھے۔ جو ذائقہ دار نہ ہونے کی وجہ سے بعد میں ختم کردئیے گئے۔اور کچھ بیر کے درخت مزیدار تھے جو کافی عرصہ تک بڑی یادگار تھے۔
دل بند،مظفرشاہ، منور شاہ کا قتل ، حسین شاہ کا کان کٹنا، صنوبرشاہ کا قتل، حسین شاہ کا بیوی سمیت دوافراد کا قتل پھر محمود کا قتل7وزیرانقلابی افرادکے بدلے میں بڑی دہشتگردی کی لہرتھی۔
کانیگرم اولیاء کا پاک شہر تھا،1920سے پہلے روڈ نہیں تھا۔ ٹانک اور کانیگرم کے درمیان کئی رات پیدل چلنے کی منزلیں تھیں۔ جہاں خانہ بدوش سفر میں پڑاؤ ڈالتے تھے اسلئے کہ سامان، عورتوںاور بچوں کیساتھ پیدل سفر تھا۔ بعد میں پھر یہی گاؤں بس سٹاپ بھی بن گئے۔ وزیرستان امن وامان کا بہترین مرکز تھا۔ ٹانک اور کانیگرم تک کاسفرپر امن تھا۔پھر انہوں نے دستاویزکی تبدیلی سے دل بندشاہ کی نوکری پر قبضہ کیااور شجرہ نسب بدلا۔ ( اسفار سورۂ جمعہ آیت:5والا) انہوں نے خودپر ظلم کیا ،دواپنجہ کی تقسیم ، زمین پرجبری قبضہ کیا۔دہشتگردی میں ملوث ہوگئے اور اللہ نے ان کو کہانیاں بنا ڈالا اوران کے دل ودماغ پھاڑ کر تہس نہس کردیا۔
صبر شکر کرنے والوں کیلئے یہ عبرت ہیں ۔ جن بے گناہ لوگوں کو مظلوم بنایا تھا تو وہ ان کے اپنے کمزور عزیز ہی تھے۔ جب دہشتگردی کے مسئلے پر انتہائی منافقانہ کردار ادا کیا تو ابلیس نے اپنے گمان کے مطابق ان کو بالکل سچا پایا ہے اور یہ سب ابلیس ہی کے تابع ہوگئے۔البتہ ان میں ایمان والا اچھا گروہ بھی ہے جو ابلیس کی چالوں میں نہیں آیا۔اگر اتفاق ہو۔ افغان طالبان،TTPاور ہمارے ریاستی ادارے دہشتگردی کیلئے میٹنگ کرنے والوں کو بے نقاب کریں تو امت مسلمہ کی تقدیر بدل جائے گی۔ ابلیس کیلئے استعمال ہونے پر مجبور نہ تھے۔ اللہ نے پرکھا کہ کس کا آخرت پر ایمان ، کون شک میں ہے۔ حضرت محمدۖ کے رب کی نگہبانی ماننی ہوگی۔
٭
خلافت کیلئے احادیث صحیحہ کا استدلال ہے لیکن قرآن میں اتنی بڑی خبر کا ذکر نہیں ؟۔اللہ نے فرمایا:
”اورکافر کہتے ہیں کہ ہم پر انقلابی لمحہ نہیں آئے گا۔ کہہ دو کہ کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم کہ تم پر ضرور آئے گاجو عالم الغیب ہے۔ اس سے غائب نہیں آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابرچیز۔ نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی مگر کھلی کتاب میں موجود ہے۔ تاکہ ایمان اوردرست عمل والوں کو بدلہ دے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے مغفرت اور عزت والی روزی ہے اور جو ہماری آیات کو عاجز بنانے کی کوشش کریںان کیلئے عذاب ہے مذموم دردناک اور جن لوگوں کو علم دیا، وہ دیکھتے ہیں جو تیری طرف تیرے رب سے نازل ہوا کہ وہ حق ہے۔اور وہ ہدایت دیتا ہے زورآور تعریف والے کی راہ کی طرف۔ اور کہتے ہیں جن لوگوں نے کفر کیا کہ کیا ہم اس شخص کی نشاندہی کردیں جو کہتا ہے کہ ہمارے تہس نہس کے بعد بھی ہماری نشاة ثانیہ ہوگی؟۔ یہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے یا اس پر جنات ہیں؟۔بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے تو عذاب اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ (سورہ سبا:3تا8)
مکہ مکرمہ کے شرارتی لوگ نبیۖ کے خلاف سازش کرکے اس وقت کے دہشتگردوں کو بتاتے کہ ایسا شخص جو حجاز کے عربوں کا کہتا ہے کہ تمام ادیان پر اس کا غلبہ ہوگا۔ یہ انقلاب کبھی نہیں آئے گا اور حضرت عمر جیسے بہادروں کو نبیۖ کے خلاف خسرے سردار ابوجہل اور دوسرے سردار ورغلاتے تھے۔ امیرحمزہ نے ایک دفعہ ابوجہل سے کہا کہ اے چوتڑ پر خوشبو لگانے والا!تیری ہمت کیسے ہوئی کہ میرے بھتیجے محمد کو گالیاں دیں؟۔ شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری نے آیت کا ترجمہ پشتو میں یوں کیا کہ ” ان کا سابقہ پڑتا ہے تو تمہیں گانڈ دکھاتے ہیں کہ ہماری یہ مارو۔ ہم کونہ مارو”۔شیخ اپنے مخالف دیوبندی علماء کو بھی مشرک اور گانڈو کہتے تھے۔
اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو اچھے اور بدکردار دنیا کے سامنے آئیںگے۔ مولانا شاداجان پنج پیری نے کانیگرم میں دیوبندی مسلک کے مطابق سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں مانگی تو مولوی محمد زمان نے قادیانیت کا فتویٰ لگادیا۔غلط فتویٰ لگانے پر پھر گالی پڑتی ہے اور کریکٹر لیس بھی سمجھا جاتا ہے۔
ایک طرف اسامہ بن لادن کوتلاش میں کانیگرم تک انگریزوفد لیکر جانا ۔ دوسری طرف دہشتگردوں کو میری نشاندہی کرنا کہ اسلام کی نشاة ثانیہ اور دنیا میں انقلاب کی خبر دینے والا یہ شخص ہے اور اس مشن میں خاتون کا کردارسوالیہ نشان ہے ۔امریکی بلیک واٹر کیلئے کام کرنے والا طبقہ ایک طرفTTPکے لوگوں سے گہرا تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف ان کا مذہبی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا تھا۔ فتنہ الدھیماء کا ذکر حدیث میں ہے۔ دھیما ء کا معنی چھوٹی کالک ہے۔ گرہن کو ”دھن” کہتے ہیں۔ سورج اور چاند گرہن کو دھن سیاہ کی وجہ سے کہتے ہیں۔ اللہ نے آگے فرمایا:
”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کیلئے بشارت دینے والااور ڈرانے والا لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو۔ کہو کہ تمہارے لئے مقررہ وقت ہے جس سے تم ایک لمحہ پیچھے ہوسکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو۔ اور کافر کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اس پر جو ہاتھ کامعاملہ ہے۔ اورجب آپ دیکھوگے کہ ظالم اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہیں۔ بعض بعض کی بات کو رد کریں گے۔ جو کمزور ہوں گے وہ متکبر سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لاتے۔ تکبر والے کمزور وں سے کہیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی؟۔ بلکہ تم خود ہی پہلے مجرم تھے اور کمزور کہیں گے تکبروالوں کو کہ بلکہ تمہارا رات دن کا فریب جاری تھا جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ اللہ کا انکار کریں اور اس کیلئے کسی کو شریک (کسی سے مدد لینے کیلئے)ٹھہرائیںاور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو بہت پشیمان ہونگے ہم طوق کافروں کی گردنوں میں ڈالیں گے۔ وہ اپنے کئے کا بدلہ پائیں گے اور ہم نے کسی بھی گاؤں میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجے مگر ا س کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ جو تم لائے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم مال اور اولاد میں زیادہ ہیں اور ہم کوئی عذاب کھانے والے نہیں ہیں ۔(سبا:28تا35)
جو بے غیرت طبقہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتا ہے ان کو زیادہ ندامت ہوگی۔ انشاء اللہ العزیز
فرمایا:پس آج بعض بعض کو نفع نہیں پہنچا سکتے اور نہ نقصان اور ہم کہیں گے ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا کہ آگ کے عذاب کا مزہ چکھو بسبب جو تم جھٹلاتے تھے۔ اور جب ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی تھیںتو کہتے تھے کہ یہ اور کچھ نہیں بس اس شخص کا ارادہ ہے تمہیں ان سے ہٹادے جن کو تمہارے آباء پوجتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نہیں مگر جھوٹ ہے تراشا ہوا ۔اور کافروں نے کہا ہمیشہ جب حق ان کے پاس آیا کہ یہ کھلا جادو ہے۔ اور ہم نے ان کو کچھ کتابیں نہیں دیں جن کا یہ درس دے رہے تھے اورجھٹلایا ان سے پہلے لوگوں نے اوریہ لوگ تو اس کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے جو ہم نے انہیں دیا تو انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا۔پس میری پکڑ کیسی ہوگی؟۔ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوںکہ تم اللہ کیلئے دو دو اور ایک ایک کھڑے ہوجاؤپھر غور کرو کہ تمہارے ساتھی کو جنون ہے؟۔وہ نہیں ہے مگر تمہارے لئے ڈرانے والااس سخت عذاب سے ڈرانے والاجو ہاتھوں میں ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر میں تم سے کچھ بدلہ مانگتا ہوں تو وہ تمہارے لئے ہے۔ میرا اجر اللہ پر ہے۔وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ کہہ دیجیے کہ میرا رب حق پھینک مارتا ہے جو غیب خوب جانتا ہے۔کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل جو ابتداء کرتا ہے اور جس انتہا ء کو لوٹتا ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر میں گمراہ ہوں تو اپنے لئے اور اگر ہدایت پاگیا ہوں تو جو میرے رب نے مجھ پر وحی کی ہے۔ وہ سننے والا قریب ہے اور اگر آپ دیکھ لیتے کہ جب وہ گھبرائے ہوئے ہوں پس نہ ہوگی ان کی بچت اور دھر لئے جائیں قریبی جگہ سے اور کہیں کہ ہم ایمان لائے اس پر ۔لیکن ان کیلئے پل کے نیچے بہت پانی بہہ چکا دور جگہ تک ۔ جبکہ پہلے وہ انکار کرچکے اور دور کی جگہ سے غیب پھینکتے تھے۔ اور ان میں اور ان کی چاہت میں حائل کیا جائے گا۔ جیسا انکے جیسوں سے پہلے ہوتا رہا ہے۔ بیشک وہ شک میں شک سپلائی کرتے تھے۔(سبا:42سے آخر )
جیسے آئینہ میں ہر شخص کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے اور نیٹ پر معلومات حالات کے مطابق ملتی ہیں اور دنیا بھر کے جدید آلات سے رگوں تک پہنچنا ممکن ہے اس سے کہیں زیادہ قرآن میں انسان کو روحانی ، جسمانی، تاریخی حقائق کی روشنی میں بھرپور طریقے سے آگاہی ملتی ہے۔ آج کل جرائم پیشہ عناصر کے ڈیٹا سے بہت کچھ برآمد ہوتا ہے۔قرآن کا یہ کمال ہے کہ منافقین کے دلوں تک پہنچتا ہے۔ اگر منافق کو خود پر بھروسہ ہوتا ہے تو اللہ ایسا ماحول بنادیتا ہے کہ منافق سمجھ جاتا ہے کہ فضول کا دلا ہے۔ اللہ منافقوں کو بے نقاب کردے اورہونگے۔ انشاء اللہ
ماموں نے کہا کہ اگر انقلاب آیا تو میری قبر پر پیشاب کرنا مگر دہشتگردی کی میٹنگ کہاں ہوئی؟۔ یوسف شاہ کا کردار کیا؟۔ عورت پر غیرت ؟ اور بہن کی بات آئی تو سائڈ لائن یا کرائم کے پیچھے لگا؟۔
وزیرستان اورقوم سبا کے امن وامان کی بنیاد کیاتھی؟، ظالم ظلم سے توبہ نہیں کرتا یا کرائے پر استعمال ہوتو ضمیر بھی مرتا ہے
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
وزیرستان صدیوں سے امن وامان کا گہوارہ تھا اور باوجود اسکے کہ وزیرستان میں حکومت،حکمران اور ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا۔ پھر امن وامان کی ایسی مثالی صورتحال کیسے ممکن ہوسکی ہے؟۔
1:شخصی آزادی:
کا وہ تصور جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ مشہور شخصیت عارف خان محسود کتابوں کے مصنف اور زام پبلک سکول کے پرنسپل نے وزیرستان میں جلسہ عام کیا تھا جس میں اس نے اعلان کیا کہ ”جس خدا کے کان، ناک اور سر ، پیر وغیرہ نہیں یہ تو پھر ایک بوتل ہے”۔
لوگوں کے ہاتھ اپنے کانوں تک گئے لیکن کسی نے عارف خان محسود کے گریبان میں ہاتھ نہیں ڈالا اور جب تک اس نے خود اپنی مرضی سے توبہ نہیں کی تو اس پر ذرہ برابر کوئی دباؤ کسی نے نہیں ڈلا تھا۔
جب کانیگرم کے لوگوں نے مشاورت سے فیصلہ کیا تھا کہ جو رمضان کا روزہ نہیں رکھے گا تو اس پر جرمانہ ہوگا تو کچھ جوانوں کا روزہ تھا لیکن انہوں نے دن دیہاڑے روزہ نہیں رکھنے کا اعلان کرکے کھلی جگہ کھانا پکایا تھا۔
جہاد کشمیر سے1948میں کوئی مجاہد ایک ہندو چھوٹی بچی لایا تھا تو معروف قبائلی رہنما فرمان اللہ خان عرف خنڈائی شمن خیل نے حکم دیا کہ کہ سیدھا میرے پاس لاؤ۔ پھر اس نے دو افراد مقبوضہ کشمیر بھی بھیج دئیے تاکہ ورثا مل جائیں مگر ورثا نہیں ملے اور پھر ہندو بچی کو اختیار دیا کہ مسلمان ہونا چاہتی ہو یا ہندو بن کر رہنا چاہتی ہو۔یہ تمہاری مرضی ہے۔
بچی نے ہندو بن کر رہنا پسند کیا اور خندائی نے اس کو اپنی بیٹی بناکر پالا۔ جب جوان ہوگئی تو ایک ہندو سے مشتہ وزیرستان میں اس کی شادی کردادی اور پھر اس کا شوہر فوت ہوا تو دوسرے ہندو سے اس کی شادی ہوگئی۔ پھر کافی عرصہ بعد جب دوسرا ہندو شوہر بھی فوت ہوگیا تو فرمان اللہ خان کی ہندو بیٹی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ پھر مسلمان سے اس کی شادی ہوگئی۔ طویل عمر پائی۔ تقریباً چار سال پہلے اس کا ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال ہوگیا اور وہیں پر تدفین عمل میں آئی۔ اس کا نام میرو تھا۔
وافی :خنڈائی شمن خیل : امین اللہ شمن خیل شیر عالم برکی کیساتھ یوٹیوب پر دیکھ لیں۔ خنڈائی اس وقت بھی ننگے سر نماز پڑھتاتھا۔ انگریز کے خلاف انہوں نے اس وقت دیسی توپ کا استعمال بھی کیا ہے جو ابھی وانا کیمپ میں نمائش کیلئے موجود ہے۔
قوم سبا میں بھی شخصی آزادی ہوگی اسلئے کہ شخصی آزادی کے بغیر امن وامان کا قیام انسانوں کی جگہ جانوروں کی طرح ہے۔ اقبال نے درست کہاکہ
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
2:مشاورت کا عمل
:جب کوئی بھی اہم فیصلہ ہو تو اس پر پہلے مشاورت کا قرآن میں بھی ذکرہے۔
وزیرستان کے امن وامان میں سب سے بڑی بنیادمشاورت کا عمل تھا ۔ مکمل شخصی آزادی کے بغیر مشاورت کا تصور بھی بے کار بن جاتا ہے لیکن جب تک مشاورت نہ ہو تو قوم کے اجتماعی نظام کا تصور نہیں بنتا ہے۔ حضرت ابوبکر کی خلافت ہنگامی تھی۔ حضرت عمر نامزدگی سے خلیفہ بن گئے ۔ جبکہ حضرت عثمان کی مشاورت میں چندا افراد تھے اور انصار بھی شامل نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ23سال نبیۖ کی محنت سے دنیا کی تاریخ کی سب سے بہترین اور مقدس جماعت صحابہ کے25سالہ دور خلافت میں حضرت عثمان مسند خلافت پر شہید کردئیے گئے اور پھر حضرت علی کے دور میں عشرہ مبشرہ کے صحابہ نے بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔
وزیرستان صدیوں امن وامان کا مرکز تھا ،جب کوئی وزیرستان کی حدود میں داخل ہوجاتا تھا تو وہ اپنی جان، مال اور عزت کا تحفظ پالیتا تھا۔ صحابہ نے اسلام کیلئے قربانی دی تھی۔ حضرت سعد بن عبادہ انصارکے سردار خلافت کے مسئلہ پر ناراض ہوئے اور شام دمشق کے قریب ایک گاؤں میں زندگی کے بقیہ لمحات گزارنے گئے لیکن وہاں بھی جنات نے شہید کردیا تھا۔ جو انسانی جنات بھی ہوسکتے ہیں۔
قوم سبا کے پاس13پیغمبر آئے اور آخر میں وہ دہشت گردی کا شکار ہوئے تو عذاب سے ہجرت کرنی پڑگئی۔ قوم یونس نے کفر کے باوجود جب یہ مانگا کہ آپس میں لڑائی کا عذاب ہم پر نہیں آئے تو اللہ نے ان کفار اور نافرمان قوم سے عذاب کا فیصلہ بھی ٹال دیا اور عذاب کی خبر پر حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں دعا مانگنی پڑگئی کہ لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ۔ ”کوئی الٰہ نہیں مگر تو پاکی تیری بیشک میں ظالموں میں تھا”۔ امت مسلمہ کو صرف آپس کے لڑنے کا عذاب ہوگا۔
3:ظلم کیخلاف متفقہ اقدامات کا کرشماتی تصور
وہ زبردست بنیاد ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال بہت مشکل سے مل سکتی ہے۔ ایک عربوں نے اس وقت حلف الفضول کا معاہدہ کیا تھا جس میں ظلم حد سے بڑھ گیا تھا اور قوم سبا کی بھی یہ صورت ہوگی۔
وزیرستان میں ظلم کے خلاف قوم کا اجتماعی قدم وہ بنیاد تھا جس نے امن وامان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ایک عورت رونقہ کو کسی نے برائی کی دعوت دیتے ہوئے جبر کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ میں خود آتی ہوں۔ وہ بندوق لے کر آئی اور اس کو قتل کیا۔ عورت کا خاندان کمزور تھا ، مقتول کے خاندان نے اسکا محاصرہ کیا تو قوم نے نہ صرف اس خاتون کا دفاع کیا بلکہ اس کیلئے ایک اعزازی قلعہ بھی تعمیر کردیا۔ پھرکون ظلم کی جرأت کرسکتا ہے۔
بیرون ملک سے کوئی شخص آیا تو کسی نے اس کو خاندان سمیت قتل کردیا۔ پڑوسیوں کو تفتیش سے پتہ چل گیا کہ مجرم کون ہے؟۔ میدان میں سب کو اکٹھا کیا اور ایک بوڑھے کو رونے کیلئے چھوڑ کر باقی سب کو قتل کیا اور ان کی لاشیں پل کے نیچے لٹکادیں اور کئی دنوں کے بعد بغیر جنازہ کے دفن کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وزیرستان میں پہلے تو کوئی ظلم کرتا نہیں تھا اور جس نے غلطی سے ظلم کیا تو اس نے بھگتا ۔
یہ تو پچھلے25،30سال قبل کے واقعات ہیں لیکن وزیرستان کے اقدار کبھی اس طرح کی حرکت کی اجازت نہیں دیتے۔آزادمنش قوم کی تباہی اس وقت شروع ہوگئی کہ جب مشیران نے عوام کے فیصلوں میں تاخیر، زیادتی اور ظلم کے عنصر کو شامل کردیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ چوری اور ڈکیتی سے ہوتے ہوئے معاملہ دہشت گردی تک اس وقت پہنچ گیا کہ جب طالبان کا دور دور تک بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ پہلے راستے میں بم رکھے گئے اور پھر قومی مشیران کے گھروں کے دروازے بھی بموں سے اڑائے گئے تھے۔ انگریزی ملکان نے ماحول کو خراب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
4:علاقہ اور قوم کے لوگ اپنے اپنے علاقے پر کسی بھی قسم کے جرم کی اجازت نہیں دیتے تھے
اور جب کوئی جرم کرتا تو علاقہ کے لوگوں کیلئے وہ جواب دہ ہوتا تھا۔ مثلاً برکی قوم بہت تھوڑے لوگ ہیں اور وزیرستان میں ان کا علاقہ بھی زیادہ نہیں ہے لیکن وہ کسی کو اپنے علاقہ میں دشمن مارنے کی کبھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اسی طرح ہرعلاقہ کے لوگ اپنی اپنی حدود میں جرم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی نے اپنے دشمن کو قتل کرنا ہوتا تو وہ اپنے علاقہ ہی میں قتل کرسکتا تھا۔ اگر کسی اور کے علاقہ میں اپنا دشمن قتل کیا تو جس سے دشمنی کا حساب تھا تو اس کے علاوہ جس علاقہ میں قتل کیا تو اہل علاقہ بھی اس کو پھر اپنا مجرم سمجھتے تھے اور اس کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا۔
5:کسی مجرم کی سہولت کاری بھی جرم تھا۔
ایک مجرم کو رہائش، ہتھیاراور کسی طرح کی مدد کرنے پر سہولت کار بھی جرم میں برابر کا شریک تصور ہوتا تھا اور اس کو مکمل طور پر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا تھا۔
اگر کسی کے ہاں کسی کے دشمن نے سہولت کاری حاصل کرلی تو دشمن پھر کوئی مجرمانہ واردات کرنے کی جسارت اسلئے نہیں کرتا تھا کہ اس کو تین طرح کا سامنا ہوتا تھا۔ سہولت کار بھی اس کے خلاف خود بھی مدعی بن جاتا تھا کہ اگرجرم کرنا تھا تومیرا سہارا کیوں لیا۔ ان چیزوں کا دشمن اور دوست سب خیال رکھتے تھے۔ جس طرح اپنی پچھاڑی چھپانے کیلئے کسی سے مدد لینے یا معاوضہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو اس طرح قبائلی رسم واقدار بھی غیرت کا مسئلہ تھا۔
6:فیصلہ کرنے کیلئے مکمل آزادی ہوتی تھی
کہ جو فریقین شریعت یا علاقائی رسم پر کسی کو اختیار دیں۔ جب ایک مرتبہ فیصلے کا اختیار دے دیا جاتا تھا تو پھر اس کو نہیں ماننے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اور اس پر فائدے اور نقصان کو نہیں اپنی غیرت، عزت اور وقار کو دیکھا جاتا تھا۔ بسا اوقات جگہ کم قیمت کی ہوتی تھی لیکن اس سے کئی گناہ زیادہ نقصان فریق کو صلح کے مراحل اور معزز مہمانوں کی دعوت میں خرچ کرنے پڑتے تھے۔ بکری اور دنبی نہیں بلکہ بکرے اور نبے کھائے جاتے تھے۔ جس کا گوشت اچھا ہوتا تھا اور مہنگا پڑتا تھا۔ وزیرستان کے لوگوں کاDNAاقدار کے تحفظ کیلئے اصیل مرغوں کی طرح ہوتاتھا۔
کٹ مر سکتے تھے لیکن اپنی روایت سے وہ نہیں ہٹ سکتے تھے۔ پھر ہم نے بچپن میں اپنے ماموں کے ہاتھوں مولوی کو فیصلہ بدلنے کیلئے رشوت دیتے دیکھ لی۔ وانا سے معزز مہمانوں کیلئے بکروں کی جگہ بکریاں لائی گئیں تو میرے والد کو ان پر بہت غصہ آیا تھا۔ اصل میں وزیرستان کے اندر ان کی دوسری پشت تھی ۔ پہلے ٹانک میں رہتے تھے اور خانہ بدوش بن کر محسود ایریا میں گرمیاں گزارتے تھے۔
7:مکان کی تعمیر میں دشمن کو مزدور سے روکنا۔
وزیرستان کی خمیر میں یہ بڑا زبردست رسم ورواج تھا کہ جب کسی تعمیر کی اجازت نہیں دیتے تھے تو پھر وہ مزدور کو بیچ سے ہٹا دیتا تھا۔ کیونکہ قتل کا مسئلہ آتا تھا اور قتل کیلئے مزدور کو استعمال کرنا بھی بے غیرتی تھی اور اس کو مارنا بھی بے غیرتی تھی۔ اسلئے یہ اقدار کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو اس سے بڑی مشکلات کا تصور ہوگا کہ مزدور پر بھی پابندی لگائی جائے لیکن جب مالک خود کام کرے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے؟۔ نہیں پھر ہر صورت میں اس کو قتل ہی کرنا پڑتا ہے اور اگر مزدورکو روک لیا اور مالک کو کام کرتے وقت قتل نہیں کیا تو نسلوں تک بھی کلنگ کا بہت بڑا ٹیکہ ہے۔ ایسی غلطی کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ البتہ یہ ہمارے ماموں غیاث الدین نے توڑ دیا تھا۔ علامہ اقبال نے جو کہاہے کہ
اے میرے کہستاں تجھے چھوڑ کر جاؤں کہاں؟
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک
اس کے پیچھے فطریDNAکا بہت بڑا فلسفہ ہے۔ ہمارے جن چچیرے کزنوں نے سامنے کی طرف سے وہ لپائی کی تھی جس سے مزدور پر کام بند کیا تھا تو وہ ان میں ایکMBBSڈاکٹر تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ کوئی رد عمل نہیں آرہاہے تو پھر آواز لگاکر کہا کہ ”تربور ( چچیرے) کیسی لپائی کی ہے؟”۔ پشتو میں والد کی طرف سے کزن کا الگ اسٹیٹس ہے اور والدہ کی طرف سے الگ ہے۔ عربی میں بھی چچیرے کے الفاظ ہیں۔ انگلش میڈیم نے کزن دونوں کی طرف سے استعمال کرکے فرق کو مٹادیا ہے۔ حالانکہ وزیرستان اور پشتون کلچر کا اہم حصہ ہے۔ جیسے علماء ومشائخ میں معاصرت کا لفظ مخصوص معنوں میں دشمنی اور عصبیت کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اسی طرح تربور کے لفظ کی بھی خاص چاشنی ہے۔ دوسرے ماموں سعدالدین نے کہا کہ یہ لوگ ڈرپوک ہیں تو میں نے کہا کہ کانیگرم پر اتنی بڑی تہمت مت باندھو۔ اگر واقعی میں وہ بزدل ہوتا بھی تو وزیرستان کی مٹی کے روایات میں یہ گولی مارنے کے برابر ہے لیکن جب حقائق اس کے منافی ہوں تو پھر کسی کی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
8:وزیرستان کے محسود اور وزیر کے قانون میں یہ فرق ہے کہ محسود میں کمزور وقتی طور پر فیصلہ کرلیتا ہے اور جب اس کو موقع ملتا ہے تو اپنا بدلہ لیتا ہے اور دیت واپس کردیتا ہے لیکن وزیر پہلے فیصلہ نہیں کرتا لیکن جب ایک دفعہ فیصلہ کرلیا تو پھر بدلہ نہیں لیتا ہے۔ جیسے شریعت اور پشتو قانون الگ الگ ہیں ایسے قوموں کے رسم ورواج میں بھی فرق ہے۔
9:کسی پر عورت سے تعلق کا الزام لگاکر قتل کیا جائے تو مقتول کا بدلہ وارث نہیں لیتے
لیکن یہ اتنی عار کی بات ہے کہ نسلوں تک بھی عورت کے الزام پر قتل عورت والوں ہی کو بھاری پڑتا ہے۔ اگر خمیر میں مٹی کا ضمیر نہیں ہو تو پھر الزام لگاکر قتل میں بے غیرت کو فرق نہیں پڑتا ہے لیکن ایسا کرنیوالا صرف اور صرف ایمان نہیں بلکہ غیرت ، ضمیر، انسانیت ، پشتو اور ہر طرح کی اخلاقیات سے نکل جاتا ہے۔
10:کسی بندے کو مارنے کا بدلہ خاندان کے کسی بھی ایسے شخص سے لیا جاسکتا ہے جس کو مقتول کے وارث اپنی پسند سے منتخب کرلیں۔
یہی وجہ ہے کہ قتل میں پہل کرنے سے لوگ بہت پرہیز کرتے ہیں کہ کوئی ریڑھ کی ہڈی جیسا شخص بدلے کرکے تشریف کے بل بٹھادے گا۔
واضح رہے کہ چند مثالیں عرض کردی ہیں ورنہ تو بہت بڑا موضوع ہے اور وزیرستان کی کہانی جاپان کی کہانی سے زیادہ مزیدار ہے۔ بہت سخت دشمنی کی حالت میں بھی عورت کو قتل نہیں کیا جاتا۔ تعزیت کا سلسلہ چل رہا ہو تو دشمن ایک دوسرے کو قتل کرنا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ رات کی تاریکی میںسوتے وقت حملہ بے غیرتی اور کسی کو قتل کرنے کیلئے معقول وجوہات نہ ہوں تو اسکا قتل کرنا بہت بڑا عار ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ قاتل کی ماں ،بہن، بیٹی اور بیوی پر چڑھا ہوگا۔اسلئے کوئی اس قسم کی غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور لالچ کی بنیاد پر قتل تو انگریز نے ہی شروع کرایا جس کی سزا آج قوم بھگت رہی ہے
یہی اقدار ہی امن کی ضمانت تھے۔قوم سبا میں امن وامن کیلئے اس قسم کی صفات ہوں گی۔
1991میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک محسود کو اپنے والد نے اسلئے بند کرایاتھا کہ اس نے کہا تھا کہ2ہزار روپے میںکسی کیلئے قتل کروں گا۔ اسی سالBBCکا نمائندہ سیلاب محسود میڈیا سے خبر شیئر کرنے جیل میں آیا تھا۔ امان اللہ کنڈی کیلئے جب وزیرستان کے گاؤں پر فوج نے ٹینک توپوں سے چڑھائی کی دھمکی دی تو عوام ڈھول کی تھاپ پر ناچ کر کہہ رہی تھی کہ ہمیں مارو۔ کنڈی حوالہ نہ ہوگا اور پھر مذاکرات میں حکومت سے کہا گیا کہ ہمارے اجداد نے تمہارے اجداد انگریز سے معاہدہ کیا تھا تو اسمیںکسی بھی پناہ گزیں کو حوالہ نہ کرنا شامل تھا۔ پھر یہ خبر چھپی کہ کنڈی کو جیل میںوہ مراعات حاصل ہونگی جو فرار سے پہلے حاصل تھیں۔امریکہ کے حوالہ نہیں کیا جائے گااور اس کیلئے بطور ضمانت ایک اس درجہ کا امریکی شہرت یافتہ شخص ہم مہمان رکھیں گے۔ پھر یہ خبر اخبارات کی سرخی بن گئی کہ رشدی کو ہمارے حوالہ کرو ،کنڈی تم لے لو، رشدی سے زیادہ بڑا مجرم کنڈی نہیں۔تو اس حوالہ سے خبروں پر مکمل پابندی لگی۔ اس وقت میں جیل میں ہی قیدی تھا۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ