احادیث میں جبری حکومتوں کے بعد خلافت؟
مئی 11, 2025

جب ہم نے شعور کی آنکھ نہیں کھولی تھی تو بچپن میں جنرل یحییٰ خان سے محبت اور اندراگاندھی سے سخت نفرت تھی۔ گڈی گڈا کے جوڑے میں اندر گاندھی کی وجہ سے گڈی سے نفرت تھی اور اس پر پتھر کی بھرمار بھی کرتا تھا اور یحییٰ خان کو گڈا سمجھ کر اس سے محبت تھی۔ 1978ء میں چیچہ وطنی اور لیہ میں سکو ل پڑھتے ہوئے مذہبی کتابوں سے شغف رہا۔چیچہ وطنی” پیر جی” مسجد کا کلاس فیلو اقبال آرائیں بوٹ ہاؤس والے نے بتایا کہ یہاں مفتی محمود اور مولانا عبداللہ درخواستی آتے ہیں۔
چوہدری افضل حق کی کتابیں پڑھ کر بہت متأثر ہوا ، جس میں اسلام اور جمہوریت کا بہت شعور ہے۔ جمعیت علماء ہند، مجلس احرار اسلام کے علاوہ مولانا احمد علی لاہوری کے وعظ خدام الدین کے پرانے ایڈیشن میں پڑھ کر سیاست اور تصوف دونوں سے رغبت پیدا ہوئی۔شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، حنفی اہل حدیث اور مذہبی فرقہ واریت کی مناظرانہ کتابیں بھی پڑھ لیں۔ خطیبوں کا وعظ اور تبلیغی جماعت سے وابستگی سارے اشغال کو دل وجان سے قبول کیا لیکن تشنگی بجھانے کا کوئی اہم ذریعہ اور اطمینان بخش کیفیت نہیں تھی اسلئے کہ دین کامل کا نقشہ کسی ایک جگہ پر نظر نہیں آتا تھا۔
ایک انقلاب کی امنگ دل میں اٹھی اور 1982ء میں کوٹ ادو پنجاب گھر سے نکل کرتن تنہا ایک سفر کا آغاز کیا۔ پہلے لیہ اپنے اساتذہ اور پھر رائیونڈ پہنچا اور حاجی عبدالوہاب سے مشورہ مانگا۔ انہوں نے فرمایا کہ ”بھائی مجھ سے مشورہ مت لینا”۔ رائیونڈ میں کانیگرم کے حبیب الرحمن اور وزیرستان کے شاہ حسین محسود زیر تعلیم تھے۔ ایک نے تبلیغی جماعت میں وقت لگانے کا مشورہ دیا اور دوسرے نے نیو ٹاؤن کراچی جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلے کا مشورہ دے دیا۔ کراچی میں اسٹیل مل کی ایشین کمپنی میں کام کیا۔ مولانا اللہ خار خان کی کتابوں اور سلسلہ ذکر کا تعارف ہوا ۔ پھر دارالعلوم کراچی کے قریب ماچس فیکٹری میں آدھی دھاڑی پرچار گھنٹے کیلئے کام بھی تلاش کیا تھا اور داراالعلوم کراچی میں داخلہ بھی لے لیا۔ لیکن میری باتیں سن کر انتظامیہ نے کہا کہ داخلہ نہیں ہوسکا ہے۔ پھر بنوری ٹاؤن داخلے کیلئے گیا تو وہاں سال کے شروع میں داخلے ہوتے تھے۔ وہاں سے ایک طالب علم نے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا بھیج دیا۔ مرشدحاجی محمد عثمان سے بیعت ہوا اور بھائی لینے آیا تو واپس کوٹ ادو گیا لیکن پھر رمضان میں لوٹ آیا اور مولانا محمدیوسف لدھیانوی سے فتویٰ پوچھا کہ والدین راضی نہیں لیکن وہ میری خدمت کے محتاج نہیں اگر میں مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہوں تو کیا میرے لئے جائز ہے؟۔ مولانا نے فرمایا کہ ”میرا مشورہ ہے کہ ان کی بات مان لو۔شرعی علم فرض کفایہ ہے ، اگر آپ کے علاقہ میں علماء ہیں تو پھر کسی پر علم کا حاصل کرنا فرض نہیں ہے”۔ میں نے کہا کہ فتویٰ پوچھ رہا ہوں ،مشورہ نہیں مانگ رہاہوں۔ تو قدرے ناراضگی سے فرمایا کہ ”فتویٰ تو یہی ہے کہ اگر وہ خدمت کے محتاج نہیں تو علم حاصل کرسکتے ہیں”۔
پھر بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ مل گیا۔ اتوار کو حاجی عثمان کی محفل میں جانے کی اجازت تھی۔ تبلیغی جماعت ، ختم نبوت کے دفتر نمائش اور جمعیت علماء اسلام ف کے ساتھ بھی ایک تعلق تھا لیکن جس انقلاب کی امنگ دل میں تھی تو اس کیلئے ”جمعیة اعلاء کلمة الحق”کی بنیاد رکھ دی۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” مذہبی طبقات کے خلاف بڑی چارج شیٹ تھی۔ ڈاکٹر حبیب اللہ مختار نے ڈاکٹر ناصح علوان کی کتاب کا ترجمہ ”مسلمان نوجوان ”کیا توجبری حکومتوں کے بعد طرز نبوت کی خلافت کیلئے خوشخبری بھی دیکھ لی۔ جس کی وجہ سے عزم کو مزید جلا مل گئی۔ ۔ پھر مختلف حالات سے گزرتا ہوا آخر افغانستان جہاد کیلئے حرکت الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر کے ہاں پہنچ گیا۔ان سے چند دنوں کی رفاقت میں کہا کہ امریکہ اور روس کی لڑائی میں حصہ دار بننے کے بجائے خلافت کا قیام ضروری ہے جس پر وہ متفق ہوگئے مگر….
٭٭
آرمی چیف پاکستان سے خلافت کا آغاز کیسے کرے؟
آرمی چیف سید حافظ عاصم منیر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ دنیا میں پہلی بار ریاست مدینہ طیبہ لاالہ الا اللہ کے نام پر بنی اور دوسری بار پاکستان کی ریاست لاالہ الا اللہ کے نام پر بن گئی ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے امیرالمؤمنین کا لقب اختیار نہیں کیا تھا لیکن تاحیات وردی کو اپنی کھال بنا چکا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے وردی کو اپنی کھال تو قرار دیا مگر پھر اتاردی اور اس کو اپنی غلطی بھی کہا۔
تاتاری نے عباسی خلافت کا خاتمہ کیا تو برائے نام خلافت تھی اور جب کمال اتاترک نے بھی خلافت کا خاتمہ کیا تو ملکہ الزبتھ سے بہت کم خلیفہ کا اختیار اور عزت تھی۔برائے نام کی خلافت کو بھی کسی دور میںاپنی طمطراق کی وجہ سے اہمیت حاصل تھی۔
جنرل عاصم منیر کے والدین بہت نیک تھے اور طارق آباد (لال کرتی) غریبوں کی بستی ہے۔ غرباء کا اسلام سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پہلے آرمی چیف ہیں جو میرٹ کی بنیاد پر ریٹائرڈمنٹ سے دو دن پہلے بڑی قسمت سے منتخب ہوگئے ،سنیارٹی میں پہلے نمبر پر ہونے کی وجہ سے سمری بھیجنے میں تاخیر کی بنیاد بھی اس وجہ سے تھی کہ اس کی ریٹائرڈمنٹ ہو تو پھر کوئی بھی بن جائے۔ مسلم لیگ ن کے سب سے بڑے چہیتے صحافی راشد مراد RM,TV لندن نے کافی عرصہ پہلے یہ انکشاف کیا تھا کہ سازشی عناصر جنرل عاصم منیر کو ریٹائرڈ کرنے کے بجائے آرمی چیف بنانے کیلئے لسٹ میں شامل کررہے ہیں۔
تحریک انصاف کے چہیتے صحافی ارشد شریف شہید نے ممکنہ طور پر عاصم منیر کو لسٹ میں پہلے نمبر پر قرار دیا تھا اور بہت تعریف بھی کی تھی مگر آخرمیں یہ بازی پلٹ گئی۔ تحریک انصاف والے مخالف اور نوازشریف نے جنرل عاصم منیر پر اسٹینڈ لے لیا تھا۔
نوازشریف نے جنرل ضیاء الحق کو بھی ماناتھا اور پروفسیر طاہرالقادری اتفاق مسجد کے خطیب سے بھی اسلامی انقلاب کی امید رکھی تھی۔جب ڈاکٹر طاہر القادری بیمار تھے تو نوازشریف نے اپنے کاندھوں پراٹھاکر غارحراء کی زیارت کیلئے پہاڑ پر چڑھادیا تھا اور یہ کم عقلی تو تھی مگر بہت بڑاخلوص بھی تھا۔
عمران خان نے بھی ریاست مدینہ کی بنیاد پر بڑی مقبولیت حاصل کی۔ اگر حکومت اور اپوزیشن باہمی مشاورت سے خلیفہ مقرر کرنیکا اعلان کردیں توعوام میں بہت بڑی مقبولیت مل سکتی ہے۔ شرعی فریضہ بھی پورا ہوگا۔ مجاہد تنظیموں کو بھی قابو میں لانے کا خواب پورا ہوگا۔ مفتیانِ اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو ایک بہت بڑا مذاق بن گیا ہے۔
جہادی تنظیموں کی نانی جامعة الرشید کے بانی مفتی رشید احمد لدھیانوی کے جانشین مفتی عبدالرحیم مسلسل کہتا ہے کہ ”جہاد ریاست کا کام ہے”۔
پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں روس کیخلاف جہاد ہماری ریاست نے نہیں کیا اور پاکستانی افغانی جہادی تنظیموں کی بھرمار تھی۔ ولی خان کہتا تھا کہ مجھ سے جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ تم جہاد کو نہیں مانتے؟ تو میں جواب دیا کہ کیوں نہیں مانتا۔ جہاز، توپ اور ٹینک تمہارے پاس ہیں۔ جنگی تربیت تمہاری ہوئی ہے اور پاک فوج کے سپہ سالار تم ہو۔ لڑنا تمہارا کام ہے اور آپ جہاد کریں۔ میں مانتا ہوں۔ لیکن میں اس جہاد کو نہیں مانتا کہ جو افغانستان میں لڑی جائے اور اس کا مال غنیمت منصورہ لاہور بٹے۔
1948ء میں مولانا مودوی نے کہا تھا کہ جہاد ریاست کا کام ہے تو پھر جب دباؤ پڑگیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے جواب دیا۔ سلیم صافی نے سید منور حسن سے پاک و امریکی فوج کا پوچھاتو اس نے کہا کہ دونوں شہید نہیں ہوتے۔ جس پر جماعت اسلامی کی امارت سے ہٹادیا گیا۔
آرمی چیف سید اور حافظ قرآن ہے اور پاکستان کو اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز سمجھتا ہے۔ جنہوں نے بندوق اٹھائی ہے تووہ بھی اسلامی نشاة ثانیہ چاہتے ہیں ۔ اگر افہام و تفہیم کا ماحول قائم ہوجائے ، اسلام کے اندر جو بگاڑ پیدا کیا گیا ہے اس کی اصلاح ہو تو مارا ماری کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انشاء اللہ۔ کہا جاتا ہے کہ مال ، جوانی، صحت اور علم ایسی نعمتیں ہیں جن کا پوچھا جائے گا۔ سورہ بقرہ کی آخری آیت میں اختیار کے مطابق اللہ کی طرف سے پوچھنے کا مسئلہ واضح ہے لیکن علماء کی طرف سے اس کا ترجمہ بھی غلط کیا گیا ہے کہ طاقت سے زیادہ بوجھ اللہ کسی پر نہیں ڈالتا ہے۔ حفیظ اللہ نیازی اس آیت کا حوالہ دیکر کہتا ہے کہ میرا بیٹا بالکل بے گناہ تھا لیکن جیل میں اس پر اس کی استطاعت سے زیادہ تشدد کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا یہ میرایمان ہے۔ایک آیت کا بڑے بڑوں نے غلط ترجمہ کیا تھا تو اس کا نتیجہ یہ نکل آیا کہ ظالم وجابر بدترین تشدد بھی کریں تو علماء اور پڑھا لکھا طبقہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہوا تو یہ اس کی برداشت سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ظلم وجبر کرنے والوں کو احساس تک نہیں ہوتا کہ جو کررہے ہیں ان سے انکے اختیارات کا پوچھا جائے گا۔
کہتے ہیں کہ ” جو بھونکتا ہے وہ کاٹتا نہیں ہے”۔ جب امریکہ ، نیٹو اور بلیک واٹر افغانستان میں کاروائی کررہے تھے اور پاکستان میدان جنگ تھا تو وہ جوش خطابت نہیں تھا جو اسرائیل کیخلاف ہے؟۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ