کیادنیا اسلام سے خوفزدہ ہے کہ خلافت قائم ہوگی تو کفار کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو لونڈیاں بنالیا جائیگا؟
جنوری 17, 2025

جس مرد میں طاقت نہ ہو تو بیوی اس کو قریب نہیں چھوڑتی اور دوسری سے نکاح بھی نہیں کرسکتا۔ مگر ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہو تو اس کو چار تک محدود کرنا اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر” ایک بیوی یا جن سے معاہدہ ہو”۔
سوال یہ ہے کہ معاہدہ والیوں سے کیا مراد ہے؟۔
سلطنت عثمانیہ کے ایک بادشاہ کی4500لونڈیاں تھیں۔ کیا اللہ نے آیت میں لاتعداد لونڈیوں کی اجازت دی ہے؟۔ نہیں ہرگز بھی نہیں!۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عثمان نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ ایک عورت سے نکاح کرادیتا ہوں تو ابن مسعود نے منع کردیا۔ ابن مسعود نے اپنا شغل قرآن کی تعلیم کو بنایا ۔ نبیۖ نے ان سے سیکھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔ ایک عورت سے نکاح کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔ کھانا، کپڑے، بچوں کی پیدائش اور ان کا خرچہ ۔ اس کیلئے مستقل کام کرنا پڑتا۔
ابن مسعودایک لونڈی کے فرزند تھے ۔ صحابہ نے نبیۖ سے کہا کہ کیا ہم خود کو خصی بنالیں؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ نہیں ایک دو چادرپر کسی سے جنسی تعلق رکھ سکتے ہو۔ لاتحرموا الطیبات ما احل اللہ لکم ”طیبات کو حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں”۔قرآن۔( صحیح بخاری)
کوئی عورت نہیں رکھ سکتاتو کم حق مہر میں نکاح کرسکتا ہے۔ جو بیوہ ، طلاق شدہ ،کنواری ہوسکتی ہے جسے جنسی تعلق کیلئے شوہر کی ضرورت ہو لیکن وہ اپنا خرچہ خود اٹھاسکتی ہوں۔ قرآن میں یہ معاہدہ والیاں ہیں۔ اگر غریب یا نفسیاتی مریض ایک عورت کو انصاف نہیں دے سکتاتو معاہدے کا نکاح بھی کرسکتا ہے۔ قرآن نے معاہدے والی کا بغیر نکاح نہیں کہا۔ بلکہ ایک عورت سے نکاح یا کسی ایک معاہدے والی سے بھی نکاح مراد ہے۔
اللہ نے مرد کو مردانی کا ایک درجہ عورتوں پر دیاہے اسلئے کسی بھی صورت میں شوہر اپنا بوجھ اپنی بیوی پر نہیں ڈال سکتا ہے اور جب عورت اپنا بوجھ خود اٹھاسکتی ہو تو اپنی مرضی کا شوہر بھی اپنے لئے منتخب کرسکتی ہے ۔ مریم نواز کو صفدر عباسی پر فوقیت ہے۔ رسول اللہۖ نے چچاابوطالب سے بیٹی ام ہانی کا رشتہ مانگا۔ حضرت ابوطالب نے انکار کردیا۔ حضرت خدیجہ کی پیشکش کوابوطالب کی اجازت سے آپۖ نے قبول فرمالیا۔
لونڈی اور غلام سے بھی اللہ نے نکاح ہی کا حکم دیا ہے۔
وانکحوا الایامٰی منکم والصٰلحین من عبادکم وامائکم ان یکونوا فقراء یغنیھم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم O (سورہ النور آیت 32)
”اور نکاح کراؤ تم میں سے جو طلاق شدہ بیوہ ہیں اور صالح غلام اور لونڈیوں کا۔ اگر وہ غریب ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو مالدار بنادے گا۔ اور اللہ وسعت رکھنے والا علم والا ہے”۔
ماریہ قبطیہ سے نبیۖ کے بیٹے، حاجرہ سے اسماعیل تھے اور کون گمراہ کہے گا کہ یہ لونڈیاں تھیں ، نکاح کرانے کا حکم تھا؟۔
خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کو پتہ ہوتا تو اتنی لونڈیاں نہ رکھتا۔ اتنی بکریوں پر ایک بکرا بھی کوئی نہیں رکھتا۔ خواتین کو درباری قسم کے علمائ،فقہائ، شیخ الاسلام، قاضی القضاة اور مفتی اعظم نے ہی جانوروں سے بدتر سمجھ رکھا تھااور انہی کا سکہ رائج الوقت تھا۔ امام ابوحنیفہکی جگہ حنفی مسلک شاگردابویوسف نے تشکیل دیا۔
غلام کے پاس حق مہر کیلئے کچھ نہیں ہوتا توپھر کیا ہوگا؟۔
ولیستعفف الذین لایجدون نکاحًا حتی یغنیھم اللہ من فضلہ والذین پبتغون الکتاب مما مملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علتم فیھم خیرًا واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتاکم ….. (سورہ النور آیت33)
”اور پاکیزگی اختیار کرلیں جو نکاح نہیں پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے مستغنی بنادے۔اور جو لوگ غلاموں سے معاہدے کی لکھت چاہتے ہیں تو اگر ان میں خیر دیکھو تو ان سے تحریری معاہدہ کرواور ان کو وہ مال دو جو اللہ نے تمہیں دیا”۔
اگر کوئی بہن بیٹی کا رشتہ غلام سے چاہتے ہیں تو اگر ان میں خیر نظر آئے تو معاہدہ کرو اور اپنا مال ان پر خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دیا ۔ اس آیت کا ایسا غلط مفہوم نکالا کہ غلام آزادی چاہتا ہو اور اگر تمہیں اس میں خیر نظر آتا ہو تو پھر اس کے ساتھ آزادی کیلئے معاہدہ کرو۔ غلام اور آزادی میں خیر؟۔ اس کا جوڑ نہیں بنتا!۔ اللہ نے مال طلب نہیں خرچ کرنے کا واضح حکم دیا۔
آگے مزید دیکھو ! اللہ کے قرآن کا کیا حشر کیا گیاہے؟۔
ولاتکرھوافتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصن لتبتغوا عرض الحیاة الدنیا و من یکرھھن فان اللہ بعد اکراھن غفور رحیمO (سورہ نور آیت:33)
” اور اپنی کنواری لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو۔ اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم اپنے دنیاوی مقاصد کو انکے ذریعے تلاش کرواور اگر کسی نے ان کو مجبور کیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد مغفرت کرنیوالا اوربہت رحم کرنے والا ہے”۔
ان آیات میں طلاق شدہ وبیوہ ، غلام ولونڈی اور کنواری کے نکاح کا مسئلہ حل ہے اور ذمہ داری بااثر افراد پر ڈالی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے طویل عرصہ حکومت کی مگر اکبر کے ”دین الٰہی” سے اورنگزیب کے” فتاویٰ عالمگیریہ” تک جس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری ، فساد فی الارض پر سزا نہیں تھی اور پھر ایسٹ انڈین کمپنی نے ہندوستان پرقبضہ کرلیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے پارسی رتن بائی سے کورٹ میرج کی اور اس کی بیٹی دینا جناح نے پارسی سے کورٹ میرج کی تھی اور قرآن وسنت کو علماء نے فروغ نہیں دیا جس سے انگریز ی عدلیہ کو عدل وانصاف اور فطرت کے مطابق بہتر سمجھتے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید سے مولانا قاسم نانوتوی تک دینداری یہ تھی کہ جوان بیوہ بہنوں کا نکاح نہیں کیا جب وہ نکاح کی عمر سے گزر گئیں تو اپنے وعظ میں تاثیر لانے کیلئے بہنوں کی منت کی کہ اپنی ضرورت کو چھوڑدو ۔ہمارے لئے نکاح ثانی کرلو۔
لڑکی کو کسی سے محبت ہوگئی اور وہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اللہ نے حکم دیا کہ اس کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو کہ لڑکا ہمارا کفوء نہیں۔ خاندان کی عزت خاک میں ملے گی۔ اپنی دنیاوی اغراض کو تلاش مت کرو۔ لیکن اس کو کسی اور سے نکاح پر مجبورکیا گیا تواگرچہ اس کی اجازت نہیں لیکن مجبور عورت پر ناجائز اور حرام کاری کا فتویٰ نہیں لگایا جائے بلکہ اللہ غفور رحیم ہے۔
مفتی تقی عثمانی کی بیٹی نے ٹیوشن پڑھانے والے سے نکاح چاہا مگر مارپیٹ کر کسی اور نکاح پر مجبور کیا گیا۔اللہ نے اس جبر کو ناجائز قرار دیا لیکن حرام کاری نہیں اسلئے کہ لڑکی مجبور ہے۔
معاشرے میں ظالمانہ اقدام میں علماء بھی ملوث ہیں۔اور وجہ قرآن کامسخ مفہوم ہے۔ اس آیت کا یہ ترجمہ بیان کیا گیاکہ ”لونڈیوں کو زبردستی سے دھندے پر مجبورنہ کرو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور اگر ان کو مجبور کیا گیا تو اللہ غفور رحیم ہے”۔
عورت کی مرضی کے بغیر ولی نکاح نہیں کراسکتا(حدیث) بالغ لڑکی کا نکاح اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا تو چھوٹی بچی کا نکاح جبراً ہوسکتا ہے؟۔ مینا، طوطا اور کونج بچپن سے پالا ہو تو اس کا بھی حق ہے کہ مرضی کے بغیر حوالے نہ کیا جائے چہ جائیکہ اپنی نابالغ بچی کسی جنسی درندے کودی جائے؟۔ مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد2” میں ظالمانہ غیرانسانی فتاویٰ جات کو دیکھ کر علماء کی غیرت جاگنی چاہیے تھی۔ اس کے کچھ فتاویٰ پہلے شائع کرچکا ہوں۔ حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت6سال اور رخصتی کے وقت9سال معروضی حقائق کے بالکل منافی ہے جس پر تحقیقاتی کتابیں ہیں ۔ ہم نے خاصا مواد شائع کیا ہے۔
مفتی طارق مسعود نے کہا کہ بچی شوہر کی امانت ہے ۔ بچپن سے تعلیم کا خرچہ شوہر اٹھالے۔ فائدہ سسرال نے لینا ہے تو میکے والے نقصان کیوں بھریں؟ ۔PTVکی ماہ پارہ صفدر نے کہا کہ ”دورِ جاہلیت میں بعض قبائل اپنی بیٹیوں کو اس خوف سے ماردیتے تھے کہ دشمنی میں مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں سیکس کیلئے بنایا جاتا تھا۔ مفتی طارق مسعود بیٹیوں کو سیکس ورکر کی طرح بچپن میں دوسروں کے ذمہ لگانے پر تلا ہوا ہے” ۔
قرآن میں یتیم لڑکوں کیلئے حتی بلغوا النکاح کا ذکر ہے جس سے لڑکوں کا نکاح کی عمراور ذمہ داری اٹھانے کی حد تک پہنچنا واضح ہے۔ جاہلوں نے قرآن کے لفظ لم یحضن سے بالکل غلط استدلال کیا ہے کہ اس سے وہ بچی مراد ہے جس کو ابھی حیض نہیں آیا ہو۔ یہ سورہ اخلاص لم یلد کی نفی ہے کہ اللہ نے کسی کو جنا نہیں مگر مستقبل میں بچہ جن سکتا ہے نعوذ باللہ۔
الیکشن1937میں جمعیت علماء ہند نے مسلم لیگ کیساتھ اتحاد کیا کہ بچپن کی شادی ختم کرانے کیلئے قانون سازی ہوگی۔ مجلس احرارالاسلام نے قادیانی ٹکٹ ہولڈر وں کا مقابلہ کیا اور الیکشن میں ایک دوسرے کی مخالفت بھی ہوئی جس پر مولا نا مدنی سیدعطاء اللہ شاہ بخاری سے ناراض ہوگئے۔ بخاری نے مدنی کی پرواہ نہیں کی توپھر مولانا سیدحسین احمد مدنی منانے گئے۔
احمد نورانی نے اپنے ویلاگ میںدوبئی میں ایک18سالہ لڑکے کا17سالہ لڑکی سے جنسی تعلق پر سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں18سال نکاح کی قانونی عمر ہے اور اس سے کم عمر یا عمروں میں زیادہ فرق کیلئے عدالت سے اجازت لینا ہوگی۔
مغرب نے بھی نکاح کے قوانین رکھے ہیں اور اسلام نے بہت پہلے رکھے تھے لیکن فقہاء نے اپنی جہالت یا مفادات کی خاطر عورت کے حقوق کا خاتمہ کردیا۔ اگر حقوق نہ ہوں توپھریہ قانونی مسئلہ واقعی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اگر حقوق ہوں گے توپھر قانونی معاملات کیلئے والدین کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی کیونکہ طلاق میں مالی حقوق کا تعین کرنا پڑے گالیکن حلالہ کی لعنت کے مرتکب نکاح و طلاق کے حقوق کو کیا سمجھیں گے؟۔
دیوبندی ، بریلوی، شیعہ ،اہلحدیث مدارس بورڈ1982کو منظور ہوگئے۔ مولانا مودودی مدارس کی افادیت کے سخت مخالف تھے لیکن جاوید غامدی کی خانقاہ کی طرح پھرجماعت اسلامی نے رابطہ المدارس بورڈ1987میں رجسٹرڈ کرایا۔
غزوہ حنین کی مشکلات میں نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ
انا نبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
”میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں”۔
میدان جنگ اللہ نے سجدے و رکوع کا حکم نہیںدیا تھا اور نہ حضرت حسین نے اس پر عمل کیاتھا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ
آگیا عین لڑائی میں وقت نماز
قبلہ رو ہوکے زمین بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
لڑائی میں سر بسجود ہوں تو کون محمود وایاز زندہ رہیں گے؟۔ قرآن میں حالت جنگ نہیں حالت خوف کی نماز کا سورہ البقرہ آیات238،239میںحکم ہے۔ پھر سورہ النساء میں فرمایا :
” جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ نماز میں قصر کرو۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ کفر والے لوگ تمہیں آزمائش میں ڈالیں،بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن تھے۔ اور جب آپ(ۖ) خود ان میں ہوں اور نماز پڑھانا چاہیں ان کیلئے تو ان کا ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو اوراپناہتھیار ساتھ رکھیں۔جب وہ سجدہ کر چکیں تو وہ پیچھے ہوجائیں۔دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی۔پس وہ آپ کیساتھ نماز پڑھ لیںاور وہ بچاؤ کیلئے اپنی حاضر دماغی اور اپنا اسلحہ تیار رکھیںاور کافروں کو پسند ہے کہ اگر اپنے اسلحہ اور سامان سے غافل ہوں تو وہ ایک حملہ میں کام تمام کردیں۔ اور تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو بارش سے یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ رکھ لو اور اپنی حاضر دماغی بچاؤ کی رکھو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت کا عذاب مقرر کررکھا ہے۔ جب تم نماز پڑھ چکے تو اللہ کو یاد کرو اٹھتے ،بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر۔پس جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر اوقات کے مطابق فرض کی گئی ہے۔ (سورہ النسائ:101،102،103)
سفر میں نماز قصر کی اجازت ہے تاکہ مولوی اپنی دو رکعت کی نماز پڑھ کر مقتدیوں کی ایک بڑی تعداد کو شتر بے مہار کی طرح نہ چھوڑے۔ جب حالت یہ ہو کہ حنفی مسلک میں مقتدی کو بقیہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہ ہو اور عوام کو پتہ نہ ہو۔ مجد د الف ثانی کا یہ حال ہو کہ حدیث میں فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور میں حنفی ہوں مگر نماز کی امامت کرتا ہوں تاکہ اپنی نماز ہوجائے۔( مقتدی بھاڑ میں جائیں)۔ حج کے اجتماع اور سفر میں نبیۖ ظہروعصر اور مغرب وعشاء کی نماز یں جمع کرتے۔
تبلیغی جماعت و جمعیت علماء اسلام کا لاکھوں کا اجتماع مگر زیادہ تر اوقات لیڑین ،انتظار اور وضو خانہ میں گزرتے ہیں۔ سورہ النساء میں سفر کی نماز کا حکم ہے اور نبیۖ کیلئے حساسیت بیان کی گئی اسلئے کہ کفار موقع کی تلاش میں تھے۔ صحابہ کرام نے دل وجان سے نبی ۖ کی حفاظت کی۔ شیعہ کی یہ عادت بری ہے کہ اختلاف کے علاوہ دوسروں کو حرامی تک بولتے ہیںلیکن طرز عمل کا اختلاف تو ائمہ اہل بیت اور ان کی اولاد میں بھی تھا۔ آج میڈیا کے باوجود کیا سے کیا پروپیگنڈے نہیں ہوتے؟۔
سورہ البقرہ کے پہلے دو رکوع میں مؤمنین ، کفار اور منافقین کی صفات ہیں۔فرمایاکہ” بیشک جو لوگ کافر ہیں ان کیلئے برابر ہے کہ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ایمان نہیں لائیںگے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور انکے سننے پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے”۔ کفر وانکار کی خصلت جن میں ہوتو وہ پیغمبروں کی بعثت پر عذاب کا شکار بنتے ہیں مگر ہردور میں اپنی خصلت سے پہچانے جاتے ہیں۔ نبی ۖ کے والدین کفر کی صفات نہیں رکھتے تھے۔ نبی ۖ کی بعثت سے پہلے جن کا ایمان تھا ان کو قرآن نے اسلام پر دوہرے اجر کا مژدہ سنایا۔ نبی ۖ کی بعثت سے پہلے کسی کاانتقال ہوا تو کس جرم میں جہنم کا عذاب ہوگا؟۔ اب جو قرآن نہیں مانتے وہ مسلمان ہیں؟۔
بعض لوگوں پر منافقین کی صفات صادق آتی ہیں۔ قرآن کا آئینہ موجود ہے جس میں مؤمن، کافر اور منافق کا ایمان وکردار دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اللہ نے عورتوں کا حق مہر شوہر کی استعداد پر فرض کیا ۔ قد علمنا مافرضنا علیھم فی ازواجھم وماملکت ایمانھم (الاحزاب:50)
”اور ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے ان پر بیویوں اور معاہدہ کرنے والیوں پر (حق مہر)فرض کیا ہے”۔ اللہ نے فرمایا کہ لاجناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضة و متعوھن علی الموسع قدرہ وعلی المقترہ قدرہ متاعًا بالمعروف حقًا علی المحسنینOوان طلقتوھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضة فنصف مافرضتم الا یعفون او یعفوا الذی بیدہ عقدة النکاح وان تعفوا اقرب للتقویٰ ولاتنسوا الفضل بینکم ان اللہ بما تعملون بصیرًاO(البقرہ آیات236،237)
ترجمہ:” کوئی گناہ نہیں ہے تم پر اگر عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی یا کوئی حق مہر مقرر کرنے سے پہلے۔ پس ان کو خرچہ دو وسعت والے پر اپنی قدرت کے مطابق اور فقیر پر اپنی قدرت کے مطابق معروف طریقے سے خرچہ ہے۔حق ہے اچھوں پر۔ اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی اور ان کیلئے حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو پھر مقرر کردہ کا آدھا دینا فرض ہے الا یہ کہ جن عورتوں کا حق ہے وہ چھوڑ دیں یا جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ آدھے سے زیادہ کا درگزر کرلیں۔ اگر مردوں تم درگزر سے کام لو یعنی آدھا سے زیادہ دو تو یہ تقویٰ کے قریب ہے اور آپس میں ایکدوسرے پر فضل کرنا نہ بھولو۔ بیشک کہ جو کچھ بھی تم کررہے ہو ۔اللہ اس کو دیکھ رہاہے ”۔
اللہ تعالیٰ ان آیات میں واضح کررہاہے کہ مردوں پر حق مہر ان کی استعداد کے مطابق ہے۔ کھرب پتی اور فقیر دونوں پر اپنی اپنی قدرت کے مطابق حق مہر اللہ نے فرض کیا ہے۔
اللہ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق پر آدھا حق مہر فرض کیا مگر عورتیں رعایت کریں یا مرد اور مردوں کی رعایت تقویٰ کے زیادہ قریب ہے جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے۔
ایک عام آدمی حیران ہوتا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر بھی طلاق میں عورت کو آدھے حق مہر کا تحفظ دیا گیاہے؟۔ پھر رعایت کی بھی دو طرفہ گنجائش ہے لیکن مردوں کی طرف سے ہی رعایت کو زیادہ تقویٰ کے قریب قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ طلاق کا اقدام بھی وہی اٹھارہے ہیں تو اپنے کئے کا بدلہ انہی کو اٹھانا چاہیے۔ شیخ چلی پن کی انتہاء یہ ہے کہ فقہاء نے اس سے یہ مراد لیا کہ ”طلاق صرف مرد کا حق ہے اور عورت کو خلع کا حق نہیںہے”۔
حالانکہ یہاں مالی حق کا مسئلہ ہے اور طلاق کا اقدام مرد ہی اٹھارہاہے تو یہ وضاحت ہے کہ مرد کو رعایت دینی چاہیے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت کو اختیار سے محروم کردیا گیا۔ جب شوہر طلاق کے بعد عورت کو اس کے مالی حقوق سے محروم کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا:
وکیف تأخذونہ وقد افضٰی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقًا غلیظًاO (النسائ:آیت:21)
”اور اس سے کیسے لیں گے اور تحقیق وہ ایک دوسرے سے قربت کرچکے ہیں اور ان عورتوں نے ان سے سخت عہد لیا”۔
اس آیت میں عہد کی نسبت عورت کی طرف ہے تاکہ اس کو محروم نہیں کیا جائے ۔ آیت237البقرہ میں مردوں کی طرف نسبت ہے تاکہ عورت سے رعایت کیلئے تقاضے میں شرمائے۔
فقہاء کی حماقت اور شیخ چلی پن کی انتہاء ہے کہ قرآن کو رائج تو نہ کیا لیکن اپنی حماقت سے اسکے مفہوم میں معنوی تحریفات سے بالکل بخرے کرکے رکھ دئیے ہیں۔صدر وفاق المدارس پاکستان استاذ العلماء محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا:
” عورت کا فرض حق مہر مختلف فقہی مسالک میں الگ الگ ہے ۔ جتنی رقم پر چور کا ایک عضو ہاتھ کٹتا ہے تو اتنی رقم میں شوہر عورت کے ایک عضو شرمگاہ کا مالک بن جاتا ہے۔10درہم،3درہم ، درہم کا چونی اور ایک پیسہ وغیرہ پر مختلف اماموں کے ہاں چور کا ہاتھ کٹتا ہے۔ (کشف الباری شرح صحیح البخاری)
قرآن نے شوہر کی استعداد پر عورت کے حق مہر کا معاملہ رکھا ہے اور حدیث میں نبیۖ نے شوہر کے استعداد پر حق مہر کا معاملہ واضح کیا ہے۔ ایک عورت نے نبیۖ کو خود کو ہبہ کیا نبیۖ نے اسے دیکھا پھر ایک صحابی نے کہا کہ آپۖ کو ضرورت نہ ہو تو مجھے نکاح میںدیں، نبیۖ نے پوچھ لیا کہ آپکے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک چادر ہے ،اگر اس کو دوں گا تو خود کیا کروں گا؟۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ ۔ بھلے لوہے کی انگھوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے دیکھا اور واپس آکر کہا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ نبیۖ نے پوچھا کہ قرآن کی کچھ سورتیں یادہیں؟۔ اس نے کہا کہ ہاں! نبیۖ نے اسے سورتوں کی تعلیم ذمہ لگادی۔
یہ اس فقیر کا حال تھا جس کی کل مالیت نبیۖ نے حق مہر میں دے دینی تھی لیکن اس کے پاس تن پر کپڑے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اللہ نے قرآن میں واضح کردیا کہ ” نبی کیلئے یہ خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے،اگر نبی کا ارادہ نکاح کا ہو”۔ تاکہ آنے والے دور میں قیامت حیلہ بازمولوی ہبوں میں اپنی اولاد کیلئے مریدوں اور اپنے لئے عورتیں لیناشروع نہ کریں۔
مفتی تقی عثمانی نے بھتیجے کیلئے مرید کی بیٹی لے لی۔ اس نے بچوں کو بڑا کیا تو پھر جب وہ گھر گئی تو پیچھے سے طلاق بھیج دی۔ جس قوم کے افراد بیوی سے جہیز کا مطالبہ کریں اور بیٹی کو حق مہر کے نام پر بھاری رقوم سے فروخت کردیں تو اس میں ملا کہاں سے غیرتمند پیدا ہوسکتے ہیں؟۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ”جمہور کے نزدیک نکاح سے پہلے عورت کا چہرہ ہتھیلیاں دیکھ سکتے ہیں تاکہ خوبصورتی اور نرمی کا پتہ چلے۔ امام اوزاعی کے نزدیک شرمگاہ کے علاوہ پورا جسم دیکھ سکتے ہیں امام داؤد ظاہری کے نزدیک شرمگاہ بھی دیکھ سکتے ہیں”۔ (کشف الباری)
کاش !علماء اپنے نصاب کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیں۔
”اے ایمان والو! نماز کے قریب مت جاؤ جب تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ سمجھو کہ جو کچھ تم بول رہے ہو اور نہ جنابت میں مگر مسافر یہاں تک کہ غسل کرو….تیمم….”۔(النسائ:43)
جو بغیر نشے بھی نماز سمجھ کر نہیں پڑھتے تو وہ خود کو بے نمازیوں سے افضل نہ سمجھیں۔ہرنماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم کی دعا مانگنے والوں کا خود کو ہدایت پر دوسروں کو گمراہ سمجھنا بیوقوفی ہے۔
حضرت عمر نے کہا: سفر میں تیمم سے نماز نہ پڑھی۔نبیۖ نے فرمایا: اچھا کیا۔حضرت عمار نے کہا: زمین میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی۔ فرمایاۖ: ہاتھ و چہرے پر مسح کرنا کافی تھا۔
قرآن واضح ہے کہ نماز کی مسافر کو تیمم سے اجازت ہے اور تیمم سے نہ پڑھی تو صحیح۔ عمر نے عمل کیا، نبیۖ کی تصدیق مل گئی۔ عمار نے تیمم کا واضح مسئلہ نہ سمجھا تو نبیۖ نے سمجھادیا۔
نبی ۖ نے فرمایا کہ بنوقریظہ پہنچ کر عصر کی نماز پڑھو۔ کچھ نے راستے میں پڑھی اور کچھ نے مغرب کیساتھ پہنچ کر پڑھ لی۔
” نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔اللہ کیلئے عاجزی سے کھڑے ہو۔اگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ یا سوار ہوکر۔ پس جب امن میں آجاؤ تو ویسے اللہ کو یاد کرو (نماز پڑھو) جیسے تمہیں سکھایا گیا جو تم نہیں جانتے تھے”۔ البقرہ238،239
یہ حکم جنگ نہیں حالتِ خوف کا ہے۔ فقہاء ، قصہ گو واعظین، مصنفین اور طاغوتی شعراء نے امت مسلمہ کو قرآن وسنت سے دور کرکے اپنا اور ہم سب کا بیڑہ غرق کرنے میں کردار ادا کیا۔
آیت میں جنابت کیلئے غسل کا حکم واضح ہے ۔و ضو کیلئے اللہ نے فرمایا کہ ” جب تم نماز کیلئے اُٹھو تو اپنے چہروںو ہاتھوں کو دھو ؤ اور مسح کرو اپنے سروں کا اور اور اپنے پاؤں کو دھوؤ اور اگر تم جنابت میں ہو تو خوب پاکی حاصل کرو”۔ (المائدہ:6)
صحابہ کرام وضو کرتے اور نہاتے تھے مگرانہوں نے اس میں مختلف اور متضاد فرائض ایجاد نہیں کئے۔ فقہاء نے فضول کے اختلافات کئے کہ ”خوب پاکی حاصل کرو” سے کیا مراد ہے؟۔ وضو کے مقابلے میں غسل کرنا خوب پاکی ہے۔ کوئی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض قرار دے ، کوئی نافرض اور کوئی پورے جسم کو مل مل کو دھونا فرض قرار دے اور کوئی نہیں لیکن ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ یہی حال وضو میں سر کے مسح کا ہے ۔ کوئی چوتھائی فرض قرار دے تو کوئی بال برابر اور کوئی بال برابر بھی رہ جائے تو فرض ادا نہیں ہوگا۔ اگر یہ پتہ ہو کہ چہرہ دھونا ہے، ہاتھ کہنی تک دھونے ہیں تو سر کا مسح نہ بھی کہا جائے تو کرلیںگے۔
قرآن قیامت تک انسانوں کیلئے ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں جمعہ کی تقریر میں فرمایا کہ ” ایک یہودی نے اعتراض کیا کہ قرآن میں ان ھٰذا لشئی عجاب عربی جملہ نہیں ہے تو ایک دیہاتی عرب کو بلاکر چندبار اٹھک بیٹھک کرائی گئی اور پھر کہا کہ جاؤ تو اس نے کہا:ان ھٰذا لشئی عجاب جس پر یہودی مان گیا۔ ومن یشتری لھوالحدیث (اور جو لغو بات خریدتا ہے) تو جب آڈیو نہیں تھا تو بات خریدنے کا کوئی امکان بھی نہیں تھا مگر قرآن میں موجودہ دور کیلئے اللہ نے یہ فرمایا ہے”۔
حدیث ہے کہ” آدمی اپنے ہاتھ کی چیز سے دور رہ کر بھی اپنا گھر دیکھے گا اور بیوی کے جوتے کے تسمہ پر (کیمرہ) لگائے گا تو سب ریکاڈنگ دیکھ سکے گا”۔ ملحدین قرآن واحادیث کے عجائب نہیں مانتے تھے لیکن سائنسی ترقی ثابت کررہی ہے۔
قرآن نے چاند، سورج ، بادل اور کائنات کی تسخیر سے دنیا کو منافع بخش بنانے کا حکم دیا تھا اور علماء ومفتیان اور مذہبی طبقہ غسل، وضو اور استنجے کی تسخیر پر قوم کی زکوٰة وخیرات کا پیسہ بہت ضائع کررہے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان نے ایٹم بم بنادیا اور مفتی تقی عثمانی ومفتی منیب الرحمن نے سود کو اسلامی نظام قرار دیدیا۔ مذہبی طبقات کی مصیبت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے لیکن قرآن کو ٹکڑے کرنے میں سب مل کر ٹوکے اٹھالیتے ہیں۔ یہ رویہ اب بدلنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ نے محرمات کی فہرست کے آخر میں 5ویں پارہ کے ابتداء میں فرمایا: والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم کتب اللہ علیکم واحل لکم مارواء ذٰلکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین فما استمتعتم بہ منھن فاٰتو ھن اجورھن فریضة ً ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضة ان اللہ کان علیمًا حکیمًاO(النسائ:24)
اس آیت پر بھی صحابہ وجمہور میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا جس کا اصل میں تعلق بعد کے ادوار سے تھا۔ سب سے بڑی حرمت شادی شادہ عورت سے نکاح کی ہے۔ عربی، اردو، انگلش اور تمام زبانوں میں عورت کیلئے بیگمات کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اگر عورت کا شوہر مرچکا ہو تب بھی اسکے احترام میں بیگم صاحبہ ہی بولا جاتا ہے۔ ایک بڑے فوجی شہید افسر کی بیگم صاحبہ اپنے شوہر کے نشان حیدر یا مراعات قربان کرکے کسی اور شوہر سے نکاح اپنی توہین اور اپنے مفادات کے خلاف سمجھ رہی ہوتی ہے اسلئے اس کو نکاح کا پیغام دینا محرمات کے درجہ میں ہے۔
لیکن اگر اس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت جنسی تعلق قائم کیا جائے جس سے اس کے مفادات بھی متاثر نہ ہوں اور ایک معقول جنسی ذریعہ بھی مل جائے جیسے سعودی عرب میں بھی مسیار کا مسئلہ چل نکلا ہے تو اس سے معاشرے کی بہت خرابیوں پر قابو پانے میں زبردست مدد مل سکتی ہے۔ سورہ احزاب:50میں اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ ” وہ چچا کی بیٹیاں آپ کیلئے ہم نے حلال کی ہیں جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی ہے”۔ اور پھر سورہ احزاب آیت51میں نبی ۖ کو کسی سے بھی نکاح کرنے سے اللہ نے منع فرمایا کہ چاہے کسی عورت کا حسن کتنا اچھا لگے تو نکاح نہیں کرسکتے اور نہ کسی کو چھوڑ کر بدلے میں کسی اور عورت سے نکاح کی اجازت ہے مگر جس سے معاہدہ ہو”۔
حضرت علی کی بہن ام ہانی نے ہجرت نہیں کی ۔ بدرالدین عینی نے ام ہانی کو نبیۖ کی28ازواج میں شمار کیا۔ حالانکہ وہ بیوی نہیں بن سکتی تھی۔ معاہدے کا نکاح ہوسکتا تھا۔ جس نے پہلے نبیۖ کی دعوت نکاح قبول کرنے سے معذرت کی کہ میرے بچے بڑے ہیں۔ پھر اللہ نے بھی منع کردیا اور ظاہر ہے کہ نبیۖ کی ازواج امہات المؤمنین کی شہرت رکھتی ہیں۔ معاہدہ والی ایک ام ہانی ہیں۔ام المؤمنین ام حبیبہ نے بیٹوں کی پیشکش کی نبیۖ نے فرمایا یہ مجھ پر حرام ہیں۔(صحیح بخاری)
اگر مغرب میں اس نکاح کو قانون بنایا جاتا تو سیتا وائٹ کی بیٹی ٹیرن کو صاحبزادی کی عزت مل جاتی اور کیس کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ اسلام کی افادیت دنیا مان سکتی ہے۔
عبداللہ بن زبیر نے متعہ کو زنا قرار دیا تو حضرت علی نے کہا کہ آپ بھی متعہ کی پیداوار ہو۔ (زادالمعاد :علامہ ابن قیم ) اور شیعہ علماء کہتے ہیں کہ ابوطالب کے اسلام کو نہیں ماننے والے تو نبی ۖ کے حضرت خدیجہ سے نکاح پر حملہ آور ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوطالب نے ام ہانی کا رشتہ ایک مشرک کو دیا تھا۔ شیعہ علماء وذاکرین نفرتوں کو دلوں سے نکال باہر کریں اور اسی میں ان کا اور سب کا فائدہ ہے۔ ہم اپنوں کو سدھاریں گے۔
نکاح اور معاہدے میں یہ فرق ہے کہ نکاح میں عورتوں کو اپنا پورا پورا حق ہر لحاظ سے ملتا ہے جبکہ معاہدے میں باہمی رضا مندی کا معاملہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں مروجہ معاملہ نکاح نہیں معاہدے والا ہے اسلئے کہ نکاح میں جو حقوق قرآن وسنت نے عورت کو دئیے تو وہ تمام حقوق سلب ہیں۔ بلکہ معاملہ بہت بدتر ہے ۔ اسلئے مرتدجرمنی میں سعودیہ کی خواتین کو سپلائی کرتا تھا۔ قرآن و سنت کے فطرتی احکام سے سعودی عرب، افغانستان، پاکستان، بھارت اور دنیا بھر کی مسلمان خواتین کو درست حقوق ملتے تو پھر خواتین کیساتھ روز ناجائز حدود پار کرنے کی خبریں سوشل والیکٹرانک میڈیا پر نہ آتیں بلکہ غیر مسلم بھی بہت تیزی کیساتھ اپنا ماحول اسلامی معاشرتی نظام سے ہی لے لیتے۔
اگر عورت سے کئی بچے جنواکر نہ صرف اس کو گھر سے نکالنا شوہر کا حق ہو بلکہ اس سے بچے چھین لینے کا بھی حق ہو تو یہ نکاح کہاں ہوسکتاہے؟۔ سورہ الطلاق میں واضح طور پر گھر کو عورت کا قرار دیا گیا ہے۔ لاتخر جوھن من بیوتھن ”ان کو انکے گھروں سے مت نکالو”۔(الطلاق) ام رکانہ سے طلاق پر ابورکانہ نے گھر نہیں چھینا تھا بلکہ وہ اپنے بچوں کیساتھ گھر میں رہی تھیں۔ ٹانک گل امام کے مشہور عالم دین مولانا عبدالرؤف نے بیوی کو طلاق دی تھی تو اپنا گھر بیوی بچوں کیلئے چھوڑ دیا تھا۔
قانون اور اخلاقیات میں اتنا فرق نہیں ہوتا کہ ایک طرف بیوی سے کئی بچے جنواکر اس کو گھر اور بچوں سے محروم کیا جاسکتا ہو اور دوسری طرف اخلاقی بنیاد پر ان کو گھر سپرد کیا جاتا ہو؟۔ طلاق کے بعد عورت کے اصل حقوق کا پتہ چلتا ہے۔ حق مہر اور خرچہ عورت کا حق ہے۔ نبیۖ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ ودیگر ازواج مطہرات اپنے گھروں کی مالک تھیں۔
علماء کہتے ہیں کہ میاں بیوی میں ایک فوت ہوجائے تو ایک دوسرے کیلئے اجنبی۔ نبیۖ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ پہلے فوت ہوگئیں تو میں غسل دوں گا، حضرت ابوبکر کی میت آپ کی بیوی اور حضرت فاطمہ کی میت کو حضرت علی نے غسل دیا۔ مفتی کی بیوی20سال بعد مرتی ہے تواس کا بیٹا اپنی ماں کی قبر پر اجنبی شوہر کی تختی لگا دیتا ہے کہ زوجہ مفتی اعظم فلاں۔
اللہ نے فرمایا:” اور اگر یہ طاقت نہ ہوکہ بیوہ وطلاق شدہ کو نکاح میں لاسکو تو پھر مؤمنات معاہدے والیاں تمہاری لڑکیوں میں سے ۔اللہ تمہاراایمان جانتا ہے ۔بعض تم خود بعض سے ہو ، پس ان سے نکاح کرو انکے اہل کی اجازت سے۔ انکوانکا حق مہر دو معروف طریقے سے۔ نکاح کی قید میں لاکر نہ فحاشی سے اور نہ چھپی یاری سے۔جب نکاح میں لاؤ اور پھر وہ فحاشی کریں تو ان پر بیگمات کی آدھی سزا ہے۔یہ اس کیلئے ہے جو تم میں سے مشکل میں پڑنے کا خوف رکھے اور اگر صبر کرو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے”۔ (سورہ النساء : آیت25)
بدکاری پر100اور50کوڑے کی سزا قرآن کے مطابق ہوتی تو عمل بھی ہوتا۔ سورہ نسائ:15میں عورت پر4گواہ کے بعد گھر میں تاموت قید کا حکم ہے یا کوئی راستہ اللہ نکالے۔ یعنی نکاح ہوجائے۔ مفتی شفیع و مفتی ولی حسن ٹونکی نے سنگساری مراد لیا اور پھر اللہ نے دو مرد کو بدکاری پر اذیت کا حکم دیا اور اگر توبہ کریں تو طعنے سے روکا ۔ (النسائ:16) علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کو مینار پاکستان سے گرایا ؟۔
مااصاب من مصیبةٍ فی الارض ولافی انفسکم الا فی کتابٍ من قبل ان نبرأھا ان ذٰلک علی اللہ یسیرOلکیلا تأسوا علی ما فاتکم ولاتفرحوا بما اتاکم واللہ لایحب کل مختالٍ فخورٍOسورہ الحدید
”جو مصیبت زمین اور خود تم کو پہنچتی ہے تو کتاب میں پہلے سے ہوتی ہے ہمارے پیدا کرنے سے۔یہ اللہ کیلئے آسان ہے تاکہ تم نقصان پر افسوس اور عطاء پر فخر نہ کرو۔اللہ پسند نہیں کرتا ہر اترانے فخر والا”۔مولانا منظور مینگل نے کہا کہ سُود ، زنا اور قتل شرعاً و عقلاً ناجائز ہیں، شیعہ زنا کو جائز کہتے ہیں۔ اگر ہندو اور یہودی شرعاً سُود کو حرام اور ہمارا مفتی حلال سمجھے تو پھر؟۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ