لیلیٰ خالد کا مختصر تعارف اور جمال عبد الناصر کے ساتھ مولانا یوسف بنوری کی دوستی اور ان کے ساتھ تصویر نہ لینے کا قصہ اور مزیدار تبصرہ
فروری 17, 2025

لیلیٰ خالد کا مختصر تعارف اور جمال عبد الناصر کے ساتھ مولانا یوسف بنوری کی دوستی اور ان کے ساتھ تصویر نہ لینے کا قصہ اور مزیدار تبصرہ
لیلیٰ خالد نے ابتدائی زندگی سے اسرائیل کے خلاف جہاد کیلئے بندوق اٹھائی اور اپنے چہرے کی سرجری کرواکر متعدد بار جہاز ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ کامیاب اور دوسری مرتبہ وہ شدید زخمی حالت میں گرفتار اور دوسرا ساتھی قتل ہوا۔ ابھی زندہ ہیںمگر گمنام۔CIAاور بلیک واٹر کے مجاہدین کی شہرت ہے کرایہ کے مجاہدین اور جماعت اسلامی اس کا نام نہیں لیتے ہیں۔
لیلیٰ خالد نے جہاز اغواء کیا تو پہلے اسرائیل پھر وہاں سے اپنے گاؤں کا جہاز سے نظارہ کیا اور اپنے فوت شدہ بزرگوں کا تخیل کرکے کہا کہ ہم واپس آئیںگے پھر دمشق لے جاکر مطالبات منوائے۔ دوسری مرتبہ جہاز اغواء کرنے کی کوشش ناکام ہوئی اسلئے کہ دو ساتھیوں کو سیٹ نہیں مل سکی تھی۔ دوسرا ساتھی مارا گیاتو افسوس کا اظہار کیاکہ یہ ہماری مدد کیلئے آیاتھا، جہاز لندن میں اتارا گیا۔ جیل میں پڑھنے کیلئے خواتین کے رسالے لینے سے انکار کیا۔ اخبار میں جمال عبدالناصر کی وفات کی خبر پڑھی تو رونے لگی کہ فلسطین کی آزادی کی آخری امید تھے۔ پھر جہاز اغواء کرکے لیلیٰ خالد کو رہائی دلائی گئی۔ جمعیت علماء اسلام ،جماعت اسلامی اور دیگر فلسطین کے حامی جماعتوں کو اب تو چاہیے کہ لیلیٰ خالد کو پاکستان کی دعوت دے کر اپنی جماعتوں اور عوام کو خواتین کی جدوجہدسے آگاہ کریں۔ یہ وہ مجاہدہ ہے جس نے امریکیCIAکیلئے کام نہیں کیا تو ا س کو دہشتگرد سمجھاجاتا ہے۔ نیٹ پر باکمال مجاہدہ سے آگاہی حاصل کریں۔
٭٭
فوٹو کی حرمت علامہ بنوری
غالبا مارچ میں راقم الحروف پاکستانی مندوب کی حیثیت سے مجمع البحوث الاسلامی کی پانچویں کانفرنس میں شرکت کے لیے قاہرہ گیا تھا، کانفرنس کے اختتام پر سابق صدر جمال عبدالناصر مرحوم نے گورنمنٹ ہاوس میں مندوبین کو ملاقات کی دعوت دی۔ جس شاہانہ کر و فر کا مظاہرہ ہوا اور جو بظاہر مصری حکومت کا خصوصی امتیاز ہے، اس کا ذکر مقصود نہیں۔ ترتیب کے مطابق ہر شخص ملاقات کیلئے جاتا، مصافحہ کرتا اور اسے کچھ کہنے کی خواہش ہوتی تو دوچار باتیں بھی کرلیتا۔ ملاقات اور مصافحہ کے بعد مرحوم نے مندوبین کے اعزاز کیلئے فوٹو گرافروں کو حکم دیا کہ ہر مندوب کا انکے ساتھ الگ الگ فوٹو لیا جائے۔آج کل جلسوں، کانفرنسوں اور عام اجتماعات میں فوٹو اتارنے کا مرض وبا کی شکل اختیار کرچکا ، یہ فتنہ اتنا عام ہوگیا کہ کوئی شخص خواہ کتنا ہی بچنا چاہے، نہیں بچ سکتا، پھر یہ معصیت اتنی پھیل گئی کہ لوگ اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے، دورِ فتنہ نے معروف کو منکر اور منکر کو معروف بناڈالا، گناہوں کی گندگی سے قلب و ذہن مسخ ہوگئے اور کتنے ہی گناہ معاشرے میں ایسے رچ بس گئے کہ لوگوں کے دلوں سے گناہ کا تصور و ادراک ہی ختم ہوگیا۔مصر تو فوٹو کی وبا میں ہم سے بھی چار قدم آگے ہے، مدت ہوئی، وہاں کے ایک عالم شیخ محمدبخیت نے جو شیخ الازہر تھے، اسکے جواز میں رسالہ لکھ کر اس معصیت کو اور بھی عام کردیا۔ اسی رسالہ سے متاثر ہوکر حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے بھی معارف میں اسکے جواز پر مضمون لکھا تھا، امام العصر حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری کے حکم سے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس پر ایک تردیدی مضمون لکھا جو القاسم میں شائع ہوا اور بعد میں التصویر لحکام التصاویر کے نام سے مستقل رسالہ کی صورت میں چھپ چکا ہے۔ الحمد للہ حضرت علامہ سید سلیمان ندوِی صاحب مرحوم نے اپنے مضمون سے اور فوٹو کے جواز سے رجوع فرما لیا تھا اور صاف اعلان کردیا تھا کہ: اب میں اسے حرام سمجھتا ہوں۔
خیرعرض یہ کرنا ہے کہ صدر مرحوم کی طرف سے جب اس خواہش کی تکمیل کا اظہار ہوا تو اس عزت افزائی پر مندوبین خصوصا عرب مندوبین کو بڑی خوشی ہوئی کہ جمال عبد الناصر کیساتھ ہمارا یاد گار فوٹو لیا جائیگا۔ ہر ایک نے باری باری صدر کی بائیں جانب کھڑے ہوکر فوٹو کھنچوائے، میں کوئی اِتنا صالح، متقی اور پارسا نہیں ہوں کہ ایسے مواقع میں بھی ان معصیتوں سے بچ سکوں، چنانچہ عام مجمعوں میں بہرحال فوٹو گرافر فوٹو لیتے رہتے ہیں لیکن صدر کیساتھ خصوصی فوٹو اتروانے کیلئے میری باری آنے لگی تو صف سے نکل کر اندر جاکر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اِتفاق سے صدر میرے سامنے تھے اور مجھے خوب دیکھ رہے تھے، جب میری باری آئی تو صدر نے دو ازہری علماء سے جو اس وقت ان کے سامنے تھے، کہا کہ جاؤ اور پاکستانی شیخ کو بلاؤ، وہ آکر فوٹو کھنچوائے۔ الحمد للہ اس وقت میری دِینی غیرت جوش میں آئی، دِل نے کہا آج اپنے اکابر کے مسلک پر جمے رہو اور اس اعزاز کو ٹھکرا دو!۔ آج اس حدیث نبوی پر عمل کرنا ضروری ہے: لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق۔ یعنی معصیت میں کسی امیر کی اطاعت جائز نہیں، امیر کی اطاعت بس جائز امور میں ہے۔ ان حضرات نے مجھ سے کہا: سیادة الرئیس یدعوک لاخذ الصورة معک، جناب صدر آپ کو اپنے ساتھ فوٹو بنوانے کیلئے بلاتے ہیں۔ میں نے کہا: لاحب ذلک، ولیست للصور عندی قیمة دینیة، فلا احبھا میں اسے درست نہیں سمجھتا، نہ میرے نزدیک اس کی کوئی دینی قدر و قیمت ہے۔
(بصائر و عبر، حصہ اول، ص٢٧٢)
تبصرہ: عتیق گیلانی
علامہ سید محمد یوسف بنوری درباری عالم نہیں تھے۔ جنرل ایوب کے دور میں جمال عبدالناصر پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو علامہ بنوری کو بھی بلایا تھا۔ علامہ بنوری نے جنرل ایوب کی ذرا بھر بھی پرواہ نہیں کی تھی ۔ جمال عبدالناصر مصری صدر نے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس سے نہر سوئیز کی ملکیت واپس لی تھی اور فلسطینی اور عربوں کے قومی ہیرو تھے۔ مولانا بنوری کا تقویٰ، خلوص اور دینی غیرت کمال کی تھی۔ مفتی شفیع کا رسالہ انتہائی نامعقول ، حماقت اورمفاد پرستی پر مبنی تھا۔ انگریز کا دور تھا تو تصویر ناجائز ، شرک ، ناقابلِ معافی جرم اور خدا کی تخلیق میں مداخلت لیکن جب ریاستِ پاکستان میں اس پر عمل کا معاملہ آیا تو قطع وبرید کی انتہا کردی کہ ریاست کیلئے جائز ہے، کرنسی پر بھی اجازت ہے، تجارت کیلئے بھی جائز ہے۔ جوہری دھماکہ کتاب میں اس مفادپرستی اور حماقتوں پر وہ گرفت کی ہے کہ درباری علماء کا جنازہ نکل گیاتھا جس میں لکھا تھا کہ ”مزدور کا گارے مٹی کا مکان بنانا بھی اللہ کی تخلیق میں مداخلت ہے لیکن معاف ہے ”۔ نرسری کا بچہ بطخ کا بچہ بنائے تو خدا کی تخلیق میں مداخلت اور فارمی مرغی، گائے، پرندے کوئی مداخلت نہیں؟۔ دنیا میں کتے کی بریڈ الگ الگ مقاصد کیلئے بن رہی تھی تو قرآن واحادیث کے واضح احکام کی انتہائی غلط تشریح کررہے تھے۔
علامہ بنوری کی روح کو تسکین پہنچی ہوگی جب انکے مدرسہ کے طالب نے تصویر کیخلاف بھرپور مہم چلائی اور افغان طالبان نے حکومتی سطح پر تصویر پر پابندی لگائی ۔ علماء حق و درباری ملاؤں میں یہی فرق ہے لیکن جب جوہری دھماکہ میں علم کا جوہر دکھایا تو تبلیغی ، صوفی ، علماء ومفتیان اور سب تصویر کے قائل ہوگئے۔حلالہ کی لعنت، تصویر کی حرمت اور نیوتہ کی رسم کو سود قرار دینے کا مسئلہ علامہ بنوری نے مفتی شفیع جیسے لوگوں پر چھوڑ دیا تھا اور ہم نے بھی شروع میں ان پر اعتماد کیا تھالیکن علامہ بنوری کا مقصد مدرسہ کھولنے سے روایتی علماء پیدا کرنا نہ تھا بلکہ قرآن وحدیث کی سمجھ اور اس پر عمل تھا اور الحمد للہ مجھے اللہ نے شرف بخش دیا کہ انکے مشن کی تکمیل کروں۔فاما بنعمة ربک فحدث ”پس اپنے ربک کی نعمت کو بیان کریں”۔
بنوری ٹاؤن میں حضرت مولانا بدیع الزمان کی شخصیت پر کوئی حرف نہیں تھا۔ جب حاجی عثمان پر مفادپرست ،دین فروش ، احمق اور مجذوب طبقے نے فتویٰ لگایا اور میں نے بفضل تعالیٰ ناکوں چنے جبوائے تو مولانا بدیع الزمان میرے اس کردار پر بہت خوش ہوئے تھے اور پوچھا تھا کہ وہ طالب علم جو چائے زیادہ پیتا تھا۔ پھر میں نے گھر پر حاضری دی تھی۔ ان کا بیٹا اور بھتیجا میرے کلاس فیلو تھے۔
تخصص کا کورس مولانا بنوری نے شروع کرایا تھا جس میں عربی لغت، قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ علماء کو پڑھائے جاتے تھے ۔ دارالعلوم دیوبندکے نصاب میں طلب الکل فوت الکل تھا۔ مولانا کے بھتیجے نے ڈاکٹر حبیب اللہ مختار سے کہا کہ مفتی سمیع تو وہ غصہ ہوگئے کہ دار الافتاء میں مفتی سمیع ہے؟۔ اس نے کہا کہ مولوی سمیع۔ ڈاکٹر مختار نے غصہ میں کہا کہ مولانا نہیں کہہ سکتے؟۔ دار العلوم دیوبند میں مولوی شیخ الہند تھے اور پھر مولوی کو توہین سمجھا گیا۔ پہلے مولوی فارغ پھر مفتی بھی فارغ۔ جس جہالت کا ماحول ہے اس کو مدارس کے علماء و طلباء خوب سمجھتے ہیں۔ انشاء اللہ اب سب سمجھیں گے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ