لیلة القدر کی رات برصغیر پاک و ہند انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے اور یہ بہت بڑا راز تھا
جون 22, 2024
لیلة القدر کی رات برصغیر پاک و ہند انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے اور یہ بہت بڑا راز تھا
جاپان پر ایٹم بم 15اگست 1945کوگرایا ۔ برصغیر کی آزادی 15اگست رات 12بجکر ایک منٹ پر رکھی تاکہ جاپان جس دن یوم سیاہ منائے، اس دن برصغیر پاک و ہند میں آزادی کا جشن منایا جائے۔
ہندوستان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آزاد ہند کے سربراہ کا حلف اٹھایا۔ گدھا، پالان اور سوار وہی تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا تھا۔ پھر بھی جہاں بھارت آج آزاد ملک ہے تو وہاں کینیڈا میں برطانیہ کا حلف اٹھایا جارہا ہے۔
آزادی کا شعور لیلة القدر کافیض ہے۔ اللہ نے فرمایا :” ہم نے اس کو لیلة القدر میں نازل کیا اور تمہیں کیا پتہ کہ لیلة القدر کیا ہے؟ ۔ لیلة القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے”۔ اگر آزادی طلوع فجر کے بعد ملتی تو القدر کا فیض نہ ملتا۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی تفسیر میں لکھا کہ ”سندھ ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر،سرحد اور افغانستان میں سبھی قومیں امامت کی حقدار ہیں۔ ان کی وجہ سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا پوری دنیا میں آغاز ہوگا۔ امام ابو حنیفہ کے اساتذہ اہل بیت تھے اسلئے ایران یہ انقلاب قبول کریگا۔ قرآن کی طرف رجوع حنفی مسلک کی بنیاد ہے۔ احادیث کی کتابیں 100سال بعد لکھی گئیں۔جس کا یہ فائدہ تھا کہ سنت محفوظ ہوگئی مگر دوسری طرف اُمت مسلمہ کا عمومی رجحان قرآن سے ہٹ گیا اور امام ابو حنیفہ نے اسلئے قرآن پر بہت زور دیاتھا۔
(تفصیل سے دیکھئے تفسیر سورہ قدر المقام محمود)
میری والدہ نے اصرار کیا تومیرے دادا سید امیر شاہ نے بتایاکہ رمضان کی 27ویں لیلة القدر کو ہاتف غیب سے میں نے 3دفعہ یہ آیت سنی تھی۔
وامتازو االیوم ایھا المجرمون
”اور الگ ہوجاؤ آج کے دن اے مجرمو!”۔
حاجی محمد عثمان کو مولانا فقیر محمد نے مسجد نبوی ۖ میں الہام پر 27رمضان لیلة القدر کوخلافت دی۔ اور لکھ دیا کہ” بہت شکریہ کہ خلافت قبول فرمالی”۔
اگر پاکستان میں ہزار مہینے کے بعد بھی خلافت کے خواب کی تکمیل ہوجائے اور قرآن کی طرف قوم کارجوع ہوجائے تو بہت سستا سودا ہے۔ اب تواپنا کچھ بھی نہیں بگڑا ہے۔ ایک ایک مسئلے اور بات پر ہم ایک دوسرے کو چیلنج اور سازش کرنے کے بجائے وہ حقائق کھول کھول کر بیان کریں جن سے ہماری اور پوری قوم کی اصلاح ہوگی۔ فوج خود کو پاک سمجھ رہی تھی مگرپھرآنکھیں کھل گئیں تو سب کی کھل جائیں۔
آیت 230البقرہ میں تیسری طلاق نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا گیا ہے کہ آیت230میں تیسری طلاق مرادہے۔یہ لوگ قرآن اور نبی کریم ۖ کی حدیث کے علاوہ اپنے اپنے اکابرین اور درسِ نظامی کی تعلیمات کے بھی منکر ہیں۔ ریاضی، سائنس اور معاشرتی علوم سمجھنے والوں کو تو چھوڑئیے ،بالکل ان پڑھ لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آسکتی ہے کہ آیت 230سے مراد تیسری طلاق قطعی طور پربالکل بھی نہیں ہے۔
درسِ نظامی میں حنفی مسلک کا مؤقف یہ ہے کہ اس طلا ق کا تعلق آیت229کے شروع میں موجود الطلاق مرتان (طلاق دومرتبہ ہے) سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق آیت 229کے آخر میں 230سے بالکل متصل فدیہ کی صورت سے ہے۔ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے والے اگر بالکل گدھے نہیں ہوں تو وہ حنفی مسلک کے اس مؤقف کو سمجھتے ہیں۔
اس حنفی مؤقف کی تائید ذخیرہ احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” آیت 229میں الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان میں تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔
یہ حدیث دیوبندی مکتب کے وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح البخاری ” اور بریلوی مکتب کے تنظیم المدارس کے صدر مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی کتاب ”نعم الباری شرح صحیح البخاری ” میں نقل کی ہے۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری میں نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے۔ پاکی کی حالت میں پہلی بار طلاق یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی میں دوسری بار طلاق یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت میں تیسری بارطلاق یا رجوع۔ اور نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے۔ عدت کے مراحل اور طلاق کے مراتب ایک دوسرے کیساتھ لازم وملزوم ہیں۔ان پڑھ بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے۔
البقرہ آیة 230 کا تعلق صرف فدیہ سے ہی ہے
مشہور حنفی عالم علامہ تمنا عمادی کی کتاب ”الطلاق مرتان” میں حنفی مسلک کے مطابق آیت 230البقرہ کی طلاق کو بالکل متصل آیت 229 کے فدیہ کی صورت سے جوڑا گیا ہے۔ عام طور سبھی علماء ودانشور حضرات فدیہ کو خلع قرار دیتے ہیں۔ اگریہ بات درست مانی جائے تو پھر صرف خلع کی صورت میں حلالہ کا حکم ہوگا اور آیت 230 میں ذکر کردہ طلاق سے مراد خلع کے بعد کی طلاق ہے۔ جب علماء ومفتیان کا تعلق مسلک حنفی سے ہے تو پھر حلالہ صرف اور صرف خلع کی صورت میں ہوگا۔ پھر اگر حقیقی حنفی مسلک اور درسِ نظامی کی تعلیم کے مطابق حلالہ کو خلع تک محدود کردیا جائے تو عورت کو اپنے کئے کی سزا مل جائے گی مگر مرد کے گناہ کی سزا تو عورت کو نہیں ملے گی؟۔ علامہ تمنا عمادی نے لکھا ہے کہ حلالہ سزا ہے لیکن عورت کے فعل کی سزا ہے۔
اگر کوئی اپنی معمولی عقل وفہم سے کچھ دیر تدبر کرے تو آیت229البقرہ سے واضح ہوجائے گا کہ فدیہ سے مراد خلع ہرگز نہیں ہے اور اس کی وجہ سے مسلکوں ، فرقوں اور دانشوروں کی وہ ساری چالیں ناکام ہوجائیں گی جن کی بنیاد پر وہ مٹک مٹک کر اپنی علمیت کا جادو جماتے رہتے ہیں۔
آیت229میں اللہ کے حکم ، نبیۖ کی سنت کے مطابق پہلے طہر میں پہلی مرتبہ طلاق، دوسرے طہر میں دوسری مرتبہ طلاق اور تیسرے طہر میں پھر معروف رجوع یا تیسری مرتبہ طلاق دی گئی تو تین طلاقیں مکمل ہوگئیں۔ اور کوئی طلاق باقی نہیں۔ تین طہر میں تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم سمجھایا ہے کہ پھر شوہر کیلئے کوئی بھی اپنی طرف سے دی ہوئی چیزواپس لینا جائز نہیں ہے۔ مثلاً 100چیزیں دی ہیں تو ایک بھی نہیں لے سکتا ۔ مگر جب دونوں اور فیصلہ والوں کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو پھر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ مثلاً موبائل کی سم شوہر نے دی اور اس سے دونوں میں رابطہ اور اللہ کی حدود توڑنے کا اندیشہ ہے تو سم کو واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرسم کے علاوہ اس کے شوہر نے موبائل بھی دیا ہے تو موبائل لینا جائز نہیں ہوگا ۔
عمران خان و بشری بی بی عدت کیس خلع یا طلاق؟
عدالت کے جج خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کے درمیان فیصلہ کس بنیاد پر کریںگے؟۔عائلی قوانین میں طلاق کی عدت 3ماہ ہے، تحریری طلاق کے بعد عدت میں نکاح ہوا، جسکے گواہ اور نکاح خواں ہیں۔ پھر عدت کے بعد نکاح کے گواہ ونکاح خواں ہیں۔
عورت طلاق کے ایک دن بعد نکاح کرے اور شوہر کیس کرے تو عورت کی بات کا اعتبار ہوگا؟۔ یہ بات عورت مارچ کی ہدیٰ بھرگڑی بھی نہ مانے گی اور اگر یہ قانون بنانا ہے تو پارلیمنٹ سے منظور کرو۔
ہیرا منڈی اور دیگر برائی کے مراکز کی بات بھی نہیں بلکہ مدارس میں حلالہ کے نام پر شریف خواتین کی عزتوں کو جس طرح تار تار کیا جاتا ہے اس کا حل نکالو۔مفتی تقی عثمانی کا ”فتاویٰ عثمانی ” بیہودگی کے جن حدود کو پار کرچکاہے اس کا تدارک کرو۔ اورمدارس میں قرآن وسنت کے خلاف جو تعلیمات ہیں ان کی اصلاح کیلئے میدان میں نکلو۔ عمران اور بشریٰ کا مسئلہ بھی بالکل باعزت اور قرآن وسنت ہی کے مطابق حل ہوجائے گا۔ تحریک انصاف ریاست مدینہ کی بات کرتی ہے لیکن اس کیلئے نظام سے پہلے اسلامی تعلیمات کو پیش کرنا ہوگا۔ رسول اللہ ۖ کی طرف سے ووٹ اور تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا لیکن دنیا نے اسلامی نظام کو قبول کرلیا۔
عیسائی آج بھی مسلمانوں سے تعداد، حکومت، طاقت، تعلیم ، ترقی اور شعور میں بہت زیادہ ہیں لیکن اسلام جیت گیا اور عیسائیت ہار گئی ۔اسلئے کہ عیسائی مذہب میں طلاق کا تصور نہیں تھا لیکن قرآن سب سے زیادہ اسی معاشرتی مسئلے کو بار بار دہر اتا ہے۔ آج صرف عیسائی نہیں پوری دنیا کے ان مذاہب کو شکست ہوگئی جو شرعی طلاق کو نہیں مانتے تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ طلاق کی طرح کیا حلالہ بھی فطرت کا راستہ ہے؟۔ اگر نہیں تو یہ دیکھا جائے کہ قرآن نے حلالہ سے چھٹکارا دلایا ہے یا لعنت پر لگایا ہے؟۔
بشریٰ بی بی 3طلاق کے بعد گھر سے نکلنا چاہتی تھی مگر خاور مانیکا نے کہا کہ عدت گھر میں گزارلو۔ بشریٰ بی بی کا ذہن نکاح کیلئے بنا تو تحریری طلاق مانگ لی۔یہی خلع تھا اور خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔ جو تحریری طلاق کے بعد پوری تھی۔
البقرہ آیة 229کا تعلق خلع سے قطعاً نہیںہے
میری بہت سارے علماء ومفتیان سے بالمشافہہ ملاقات ہوتی ہے تو سب اس بات پر دنگ رہ جاتے ہیں کہ آیت 230البقرہ میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق واقعی فدیہ ہی کی صورت سے ہے اور پھر فدیہ سے خلع مراد ہوہی نہیں سکتا ہے تو کیسے علماء و مفتیان کی طرف سے قرآن سے انحراف جاری ہے اور خواتین کو حلالہ کی لعنت پر مجبور کیا جارہا ہے؟۔
مجھے عمران خان کی قیادت اور عوامی مقبولیت پر اعتراض نہیں ہے کیونکہ ایک مسجد اور مدرسہ کے علماء ومفتیان کو حق سمجھ میں آتا ہے لیکن وہ قرآن کی خاطر قربانی نہیں دیتے اور عمران خان ریاست کیخلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔ البتہ کل بھی اسی ریاست کی ٹانگ میں اس نے اپنا سر دیا تھا اور کل بھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ پھر نظام کے آگے مجبور ہوکر گھٹنے ٹیکے گا۔
پھر کیوں نہ وہ کام کیا جائے کہ جس کا فائدہ بھی فوری طور پر لوگوں کو پہنچے۔ کسی کی تذلیل بھی نہ ہو۔ لوگوں کی عزتیں بھی بچ جائیں اور اختیارات کے پیچھے دوڑنے والے بھی اپنی ہوس کچھ کم کرلیں؟۔
جس طرح طلاق کی حقیقت سے دنیا آگاہ ہوئی اور ہزار ،گیارہ سوسال بعد عیسائیوں کو حقیقت سمجھ میں آگئی تو اس طرح اگر مسلمانوں کو ہزار ،گیارہ سو سال بعد حلالہ کی لعنت سمجھ میں آجائے تو اچھا ہوگا۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اسلام نے ساڑھے 14سو سال پہلے سمجھا یا تھا اور اسی وقت سمجھ میں بھی آیا تھا جس کی وجہ سے حلالے کی لعنت کا تصور دنیا سے ختم ہوگیا۔ لیکن شاید اب بھی اسرائیل کا کٹر مذہبی طبقہ اس میں مبتلاء ہو۔اور اس میں سب سے بڑا قصور مسلمانوں کا تھا اسلئے کہ انہوں نے خود بھی حلالہ کی لعنت کا سفر جلد شروع کیا اور پھر اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا۔ مولانا مودوی ،علامہ وحیدالزمان ،جاوید احمد غامدی اور تمنا عمادی نے بھی آیت 229البقرہ سے خلع مراد لیکر عورت، معاشرہ ، فطرت اور اسلام کا بیڑہ غرق کیا۔
سورہ النساء آیت19میں خلع اور آیت 20 ، 21 میں طلاق واضح ہے۔ سنی ، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، جماعت اسلامی ، غامدی، پرویزی اور انجینئر علی مرزا سبھی ٹھیک ہوسکتے ہیں۔
البقرہ 228 ، 229، 231 ،232 کا خلاصہ
سورہ بقرہ کی آیات 230سے پہلے کی آیات اور بعد کی آیات میں بالکل کوئی بھی تضاد نہیں ہے ۔ طلاق سے رجوع کیلئے ”علت” باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رضامندی ہے۔ ایک عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو ایک اور دومرتبہ کی طلاق میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ آیت228البقرہ میں اللہ نے فرمایاکہ ” اور ان کے شوہر اس انتظار کی عدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگروہ اصلاح چاہتے ہوں”۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عدت کی پوری مدت میں شوہر کیلئے رجوع کی اجازت ہے۔ اس میں ایک ساتھ 3طلاق یا پھر پاکی کے مختلف ادوار میں 3مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق کے بعد بھی رجوع کی گنجائش نہیں ۔ یعنی طلاق سے رجوع کی” علت”باہمی رضامندی ہے۔ اگر رضامندی نہ ہو تو پھر رجوع کرنا حرام ہے اور یہی حکم آیت 229البقرہ میں بھی موجود ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد عدت کے آخری مرحلہ میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے۔ معروف سے مراد باہمی اصلاح اور رضامندی ہے۔ باہمی اصلاح و رضامندی کے بغیر رجوع کرنا حرام ہے۔
آیت 230میں جس طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہے اس سے پہلے یہ واضح کیا گیا ہے کہ دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کی طرف سے رجوع کی گنجائش باقی نہ رہے اسلئے حکم واضح ہے ۔
آیت 231البقرہ میں یہ واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کرنا درست ہے۔ یعنی باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے لیکن اگر رضامندی نہ ہو تو نہیں ہے۔
آیت 232البقرہ میں بھی واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی و معروف رجوع کی گنجائش ہے لیکن باہمی رضامندی کے بغیر نہیں۔
سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہی خلاصہ بیان کیا گیا ہے کہ باہمی رضامندی سے عدت اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش ہے۔ خالی بخاری میں ایک حدیث سے مغالطہ دیا گیا ہے جو کہ بخاری کی اپنی روایات اور فقہ حنفی کے منافی ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ