لاس اینجلس امریکہ کی آگ سے معاشرے کے چھوٹے یونٹ تک دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کی سخت ضرورت ہے؟۔
فروری 17, 2025

لاس اینجلس امریکہ کی آگ سے معاشرے کے چھوٹے یونٹ تک دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کی سخت ضرورت ہے؟۔
جب انسانی معاشرے میں بغض ، تکبر، حسد اور لالچ پھیل جائے تو زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ پوری دنیا میں ہر جگہ شیطانی بیماریاں پھیل گئی ہیں۔ کشمیر میں زلزلہ آیا تو امریکہ نے بہت مدد کی تھی ۔ آج لاس اینجلس کی مصیبت پر خوشیاں منانا زوال کی علامت ہے۔ اگر عذاب ہو تو چند درجن افراد کی موت سے بڑا عذاب مسلمانوں پر آیا ہے۔ لاس اینجلس امریکہ کی جنت تھی اور جیسے حضرت آدم وحواء جنت سے نکالے گئے ،ویسے یہ بھی آزمائش کا شکار ہوگئے۔ جمعیت علماء اسلام کے معروف عالم دین قاضی فضل اللہ کی رہائشگاہ لاس اینجلس میں ہے۔ امریکہ کے اچھے لوگوں کا درجہ بلند ہوگا اور گناہگاروں کے گناہ معاف ہوں گے اور نافرمانوں کو اللہ نے اپنی طرف متوجہ کرکے اظہار محبت کیا ۔ امریکہ میں یہود اور نصاریٰ کی خواتین اور مردوں نے جتنے بڑے بڑے جلوس غزہ کیلئے نکالے اور جس طرح عورتیں بلک بلک کر روئی ہیں تو اس کا غزہ کے نام پر چندہ کھانے اور اپنی سیاست چمکانے والے سوچ بھی نہیں سکتے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ کے دماغ میں یہ بات بھی آئے کہ وہ مسلمان جو ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں اور انسانیت سے نفرت کرتے ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانے پر اللہ نے ہمیں سزا دے دی ہے۔ البتہ امریکہ کے جس مقتدرہ میں تکبر ہے، مفاد پرستی ہے اوردوسروں پر ظلم کا احساس نہیں رکھتے تو ان کو سبق دینے کیلئے اللہ نے کام دکھادیا:
” پس قوم عاد نے زمین میں بغیر حق کے تکبر کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے طاقت کے اعتبار سے سخت کون ہے؟۔ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے ان کو بنایا ہے اور وہ ان سے زیادہ سخت ہے؟۔وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔پھر ہم نے ان پر آندھی بھیجی سراہٹ والی ان نحس دنوں میں، ذلت کا عذاب دنیا کی زندگی میں۔اور آخرت کا عذاب زیادہ رسوائی والا ہے اور ان کی مدد نہیں ہوگی۔(حم سجدہ:15،16)
معروف سامعہ خان نے چند دن پہلے کہا تھا کہ نحس کے دن پاکستان نہیں امریکہ کیلئے ہیں وہاں تباہی آسکتی ہے۔ قدرت کا کرشمہ ہے کہ ایام نحس میں امریکہ کو قوم عاد کی طرح اللہ نے اپنی گرفت میں لیا۔ اس تنبیہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوسال پہلے جاپان میں آگ کے بگولوں نے تباہی مچائی لیکن اس کا قرآن نے بہت پہلے سے بطور تنبیہ ذکر کیا ہے۔
امریکہ اور جن لوگوں نے بھی تکبر کیا تو ان پر اتمام حجت کے بغیر اللہ کا عذاب نہیں آسکتا۔ قوم عاد امریکہ کی طرح بڑی مضبوط قوم تھی اور معاشرے میں نچلی سطح پر لو کیٹہ گری کے لوگ مضبوط نہیں ہوتے لیکن بے شرم اور ڈھیٹ بہت ہوتے ہیں۔
فاستفتھم اھم اشد خلقاً ام من خلقناانا خلقناھم من طین لازب (سورہ الصافات:11)
”پس ان سے پوچھئے کہ ان کی تخلیق زیادہ سخت ہے یا جو ہم نے بنایا؟۔بیشک ہم نے ان کو بنایا چکنی مٹی ہے”۔ یہ چپکو مخلوق بہت چکنے گھڑے ہیںجن کو اپنے سے دور کرنابڑا مشکل ہے۔
لایکلف نفسًا الا وسعھا لھا ما کسبت وعلیھا من اکستبت ”کوئی جان ذمہ دار نہیں مگر اپنی وسعت کے مطابق ،جو اس نے اچھاکمایا وہ بھی اس کیلئے اور جو اس نے برا کمایا وہ بھی اس پر پڑے گا”۔(البقرہ)
حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ” اسکے بیٹے حسان نیازی کو غلط سزا دی گئی ۔ اس پر تشدد ہوا مگر برداشت سے زیادہ اللہ تکلیف نہیں دیتا”۔یہ غلط ترجمہ و تفسیر ہے ۔ اللہ نے طاقت سے زیادہ تکلیف کی بات نہیں کی بلکہ ”ہم پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا جیسے ہم سے پہلوں پر ڈالا”۔(البقرہ آخری آیت)
امریکہ نے روس کیخلاف مسلمانوں کو استعمال کیا توبہت برا کیا لیکن مسلمان خود بھی ایکدوسرے کیخلاف استعمال ہوگئے۔ لاکھوں افغانیوں نے اپنے افغانیوں کو ماراہے اور پاکستانیوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے۔ یہ کس کے کھاتہ میں جائیں گے؟۔ اگر ہم ایک ماحول کا فائدہ اٹھاکر کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان مرد اور عورت نے اگر بدکاری کی یا قتل کئے ہیں لیکن وہ ایک ماحول کی وجہ سے تھا اور اللہ نہ صرف تو بہ کرنے پر ان کو معاف کرسکتا ہے بلکہ گناہوں کے بدلہ میں نیکیاں بھی دے سکتا ہے۔ فرمایا:
”اور رحمن کے بندے زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل مخاطب ہو تو سلام کہتے ہیں۔جو اپنے رب کیلئے رات سجدہ میںاور کھڑے ہوکر گزارتے ہیں۔اور جو کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے بیشک اس کا عذاب بہت تباہ کن ہے۔بیشک وہ بری قیام گاہ اور برا ٹھکانہ ہے اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں۔ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں۔جو اللہ کیساتھ کسی اور کو دوسراالٰہ نہیں پکارتے۔اور نہ قتل کرتے ہیں مگر حق کیساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں۔ جس نے ایسا کیا تو بڑے گناہ کو پہنچ گیا ،اس کیلئے قیامت کے دن عذاب کو بڑھایا جائے گا۔ اور ہمیشہ ذلت میں رہے گا۔مگر جس نے توبہ کی اورعمل کیا درست تو ان لوگوں کیلئے اللہ بدل دے گا برائیوں کو نیکیوں سے اور اللہ غفور رحیم ہے۔ اور جس نے توبہ کی اور عمل کیا درست تو بیشک اس نے اللہ کی طرف خوب توبہ کی اور جو لوگ جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو سے سامنا ہو تو عزت سے گزر جاتے ہیں۔اور جب کبھی اپنے رب کی آیت سے ان کو یاد کرایا جاتا ہے تو اس پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرپڑتے۔ (فرقان:67تا73)
امریکہ پر یہ مصیبت امریکہ کی عوام اور حکمرانوں کیلئے اللہ کی محبت کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ اگر اس کا انہوں نے مثبت فائدہ اٹھایا۔ فلسطین اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کیساتھ کھڑے ہوگئے تو عذاب نہیں یہ رحمت کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ ہمارے لئے یہ بہت باعث شرم ہے کہ اپنے آگ میں جلیں تو شہید اور دوسرے جلیں تو عذاب کا تصور کریں۔ اللہ امریکہ کو بھی ہدایت دے جس نے مسلمانوں اور پوری دنیا میں اپنی طاقت کا بہت غلط استعمال کیا ہے۔
جب کسی کے زوال کا وقت قریب ہو اور بڑی مصیبت بھی آن پڑے تو اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورت انداز میں متوجہ کیا:
” کیاتمہیں پسند ہے کہ کسی کا باغ ہوکھجور اور انگور کا جسکے نیچے نہریں بہتی ہوں اس کے اندر ہرقسم کے پھل ہوںاور وہ بڑھاپے کو پہنچے اور اس کے کمزور بچے ہوں ۔پس اس کو پہنچے بگولہ جس میں آگ ہو ،تو اس کو جلا ڈالے۔اسی طرح اللہ بیان کرتا ہے اپنی آیات کو ہوسکتاہے کہ تم سوچو”۔(البقرہ:266)
امریکہ بڑھاپے کو پہنچ چکا ہے اور لاس اینجلس اسکے کمزور بچوں کا باغ تھا جس کو بگولوں نے جلاڈالا ،جن میں آگ تھی اور اسکا گھمنڈ بھی اللہ نے توڑنا تھا۔ یہ انسانیت کیلئے عبرت ہے۔ لیکن اگر اس میں لوگوں نے اچھائی کا رُخ کیا تو یہ مصیبت بھی اچھائی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ قرآن میں بالکل واضح ہے۔
میرے ماموں سعدالدین کا حال بھی امریکہ کی طرح ہے جس کے کمزور بچوں پربڑی اُفتاد پڑ گئی ہے۔ کبھی اپنے عزیز پیر یونس شاہ پر اپنی ناجائز بدمعاشی جماتا تھا اور کبھی پیر سجاد سے کہتا تھا کہ میں پیسہ دیتا ہوں ،اپنے چچا یوسف شاہ پر عدالت میں مقدمہ چلاؤ۔ پیر سجاد نے کہا کہ یہ تو بڑا ذلیل ہے تو ماموں نے کہا کہ سجادتو بڑا ذلیل ہے آدمی کا پول بھی کھولتا ہے۔اگر اس کو منہاج اچھے مشورے دیتا تو ممکن ہے کہ یہاں تک نہ پہنچتا ۔
جب پہلی مرتبہ مکین جنوبی وزیرستان میں چوروں ، ڈکیتوں اور اغواء برائے تاوان کرنے والوں کیلئے جلسہ ہوا تھا تو میں بھی پہنچ گیا اور اپنے ساتھ چھوٹا پسٹل بھی لیا تھا اسلئے کہ خطرات کا سامنا ہوسکتا تھا۔ رات کو تمام لوگوں کو روک لیا گیا اور گھروں میں مہمانی کیلئے بھیج دیا گیا۔ حاجی قریب خان، منہاج اور ہم چندافراد کو شہر کے قریبی گھر میں بھیج دیا۔ منہاج کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا تو میں نے عزت رکھنے کیلئے اپنا پسٹل دے دیاتھا۔
بعد میں کانیگرم میں پسٹل کا کہا تو منہاج نے کہا کہ ”میں تمہیں اس بوجھ سے آزاد کردیتا ہوں”۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ یہ اور ناراضگی سے کہہ دیا کہ ”میرے لئے بوجھ نہیں اپنی حفاظت کیلئے رکھا ہے”۔ کچہری اور عادت کے بگڑے لوگ معیار اور ضمیر کو نہیں سمجھتے۔ ماموں سعدالدین نے کہا کہ تیرے والد کا موڈ دیکھا تو دوبارہ نہیں گیا لیکن اس کو نہیں پتہ کہ اسکے بھائی غیاث الدین کو صبح شام ڈانٹ پڑتی تھی کہ پھر کیا چاہیے ؟۔
حاجی تامین کی زمین ہماری تھی والد نے اپنے دوست حاجی نعمت کو دینی تھی تو غیاث الدین نے علاؤالدین کوپیچھے لگادیا کہ یہ ہمیں دیدے۔ان کوکہا کہ اگر بیچنے کیلئے لیتے ہو تو نہیں دیتا تو انہوں نے کہا کہ رکھنے کیلئے لے رہے ہیں۔ حاجی نعمت بھی لے کر بیچ سکتا تھا مگر اس میں ضمیر تھا۔ اسلئے لالچ نہیں کی۔ میرے بھائی ممتاز نے گھر کا زیور بیچ کر کہا کہ میں لیتا ہوں لیکن والد نے کہا کہ عزیزوں کو خفا نہیں کرتا ۔ ممتاز نے علاء الدین سے بھی کہاتھا لیکن اس نے کہا کہ نفع کی چیز ہے اور اس کو ہر ایک سمجھتا ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ضمیر ، انسانیت اور غیرت کی بات ہے۔ لالچ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
پھر وہ زمین بیچ دی اور جس زمین پر ہم نے شفہ کا دعویٰ کیا تھا وہ بھی علاء الدین نے لے لی۔ حالانکہ وہاں ان کی قریب میں کوئی زمین بھی نہیں تھی۔ جب حاجی تامین کی اتنی بڑی زمین دی اور انہوں نے منافع پر بیچی تو بھی والد خفا نہیں ہوئے تھے۔ اسلئے کوٹ اعظم روڈ پر برکی قبائل کے افراد کو اس طرح بہت زمینیں دی تھیں یہ لوگ تو پھر بالکل اپنے قریبی تھے۔ میں ایک ذہنیت کا گراف بتارہاہوں۔ داؤد شاہ نے پڑوسی سے زمین خرید لی توسعدالدین نے کہا کہ تمہارا مغز اڑادوں گا۔ جس پر اس نے کہا کہ اس پر مغز اڑانا ہو تو بالکل اڑادو۔ پھر اس کے بھائیوں نے کہا کہ ہم متبادل زمین دیںگے اور وہ بہن کے نام پر حوالہ کردی۔ حالانکہ اس طرح زمین دینا اور لینا دونوں غلط ہے۔ داؤد شاہ اتنا اچھا انسان ہے کہ اگر میں اس کو کہتا ہے کہ یہ زمین مجھے دیدو تو خوشی سے دیتا اور اگر سعدالدین کہتا تو خوشی سے دیتا لیکن بدمعاشی کس کو اچھی لگتی ہے؟۔ میں نے داؤد شاہ سے کہا کہ پیرفاروق شاہ، یونس شاہ اور نوازشاہ ان سے بہت اچھے تھے ۔ آپ یتیم بھی تھے، کزن بھی تھے اور بہنوئی بھی لیکن کبھی سعدالدین نے پانچ روپے دئیے ہیں؟۔ حالانکہ بالکل پڑوس میں آمنے سامنے گھر تھا۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ پیر فاروق شاہ نے زبردستی سے بچپن میں سو کا نوٹ جیب میں ڈالا تھا ۔
سعد الدین نے جھوٹ بولا کہ اس نے نثار کی شادی کے موقع پر80ہزار دئیے اور اس کی بھابھی کو بھائی نے اور بہن کو بہنوئی نے طلاق دی تو ان کو میراثی کی اولاد قرار دیا۔ اگر کوئی لوہار اور کوئی میراثی ہو تو اسکے اپنے بچے نہیں بچتے۔ مجھے فخر ہوگا کہ میری والدہ حضرت داؤد کی نسل سے ہوجوزرعے بناتا تھا۔ میں علوی ہوں مگر حضرت فاطمہ کی وجہ سے سید تو جن کی نسل میں سید خواتین ہیں تو ان کو بھی سید ہونے کا حق ہے جبکہ عنایت اللہ گنڈہ پور نے کہا تھا کہ ”کلاچی کا ہررہاشی گنڈہ پورہے”۔
جب فاروق شاہ لوگوں نے اپنی زمین بیچنا چاہی تو انہوں نے پابندی لگادی کہ کسی اور کو نہیں بیچ سکتے۔ حالانکہ ان کی اپنی زمین تھی۔ میرے پردادا نے کانیگرم میں گھر اور زمینیں دیں۔ پہلے اپنی کنسٹریکشن کو گراکر سامان لے گئے اور پھر گھر بھی بیچا۔ ساری تاریخ معلوم ہے ۔ خالہ2000ء میں فوت ہوئی۔ جس کی شادی بھی کانیگرم ہجرت سے پہلے یا اسی وقت ہوئی تھی۔ جو سوتیلے بھائیوں اور ان کی اولاد کو اچھوت کی طرح سمجھتی تھی۔
داؤدشاہ نے کہا کہ انکل نثار نے اچھا نہیں کیا کہ کانیگرم کا گھر بیچ دیا۔ میں نے کہا کہ یہ بات مت کرو ،ورنہ سنائے گا۔ تمہارے والوں نے پہلے یہ کام کیا تھا۔ اس نے کہا کہ اچھا ہوا کہ بتادیا۔ پھر منہاج نے اس کی تشہیر شروع کردی کہ سبحان شاہ کا گھر بیچ دیا۔ تمام معلومات کے باوجود کبھی ہم نے مہم جوئی نہ کی اور کوئی دوسرا بھی نہیں کرتا تھا مگرمنہاج نے ہمارے اجداد کو گالیوں سے لیکر فساد کرانے تک کسی چیز پر بریک نہیں لگائی۔ حاجی سریر شاہ نے کہا کہ دسترخوان کے قریب کتے کے بال ہیں تو منہاج نے کہا کہ کیا پتہ کہ کسی کی داڑھی یا کتے کا بال ہے؟۔ منہاج کا باپ بھی دوسرے کو دباتا تھا اور کوئی نہیں دبتا تھا تو خود دب جاتا تھا۔مگر پھر کچھ خوبیاں بھی تھیں اور میرے نانا میں اس سے زیادہ خوبیاں تھیں۔ اب تو بالکل آسمانی بجلی گری ہے۔
میں نے سیاسی پناہ اسلئے نہیں لی کہ ریاست اور طالبان کے گٹھ جوڑ یا نرم گوشہ میں اس خطے کا مفاد نظر آتا تھا۔ احمدیار اور ضیاء الدین کا بیٹا بے شرمی سے اس واقعہ پر سیاسی پناہ کی کوشش میں تھے۔ محنت مزدوری سے انسان کا وقار بلند ہوتا ہے لیکن جو انگریز کے تھالی چٹ اور ہڈ حرام ہوں ان کو سمجھانا مشکل ہے۔
ماموں چار گھروں کا بڑا تھا وہ بھی ایک اپنا، دوچچااور ایک چچازاد۔ اس طرح 2+2=4 اور لگتا ہے کہ جیسے برطانیہ کے ملکہ کی اولاد ہوں ۔ عابد شاہ نے اپنی تحریر میں اسی وجہ سے غلط ذہنیت کا اظہار کیا تھا۔ کتے میں اچھی خصلتیں بھی ہوتی ہیں مگر پھر بھی انسان کو قرآن نے مذمت کی وجہ سے کتا قرار دیا ہے۔ ایک تو مالک بدلنے کیساتھ اپنی ہمدردیاں بدل دیتاہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اونچی جگہ پر پیشاب کرتا ہے اور اپنی ٹانگ اوراپنی دُم بھی اٹھالیتا ہے۔ کتے کی ماں ایک اور باپ زیادہ ہوتے ہیں اور انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہوتا ہے لیکن ماں اور باپ کی رگوں اور نسلوں میں انسان کس پر گیا ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ بہت سارے اونٹ نسل در نسل کسی ایک رنگ کے ہوتے ہیں اور پھر کوئی بچہ الگ رنگ بھی نکلتا ہے جو اپنے پہلے کے کسی رگ پر جاتا ہے۔ میں واقعہ سے پہلے منہاج کو بول چکا تھا کہ میرے دشمن کو جو پالتا ہے تو میں اپنے بچوں سے کہہ چکا ہوں کہ نقاب پوش کے پیچھے مت پڑو۔ پھر واقعہ کا زیادہ نقصان ہوا تھا اور منہاج کا بھائی بھی اس میں شہید ہوا تھا اسلئے انتظار کیا کہ اپنا حساب بعد میں دیکھ لیں گے ۔
اگر منہاج کیساتھ واقعہ ہوتا تو میں اسکے دشمن کو رکھتا پھر کیا ردِ عمل ہوتا؟۔ فوج نے گھر سے پک اپ اٹھائی اور بارود سے اڑادی۔ مہینوں اس کا کچرہ پڑا تھا۔ منہاج نے بتایا کہ” قاری حسین کو میرے گھرکے پاس اکیلا کھڑا دیکھا ۔ ایک دوسرے کو پہچانتے تھے اور بڑی کوشش کی کہ وہ اسکے گھر پر دعوت کھائے لیکن وہ انجان بن گیا۔ پھر سب حیران تھے کہ وہ طالبان سے تعزیت کرنے کیسے جارہاہے مگر طالبان نے اس کو لفٹ نہیں دی تو اس نے بھی چھوڑ دیا”۔ جس کی تاریخ جاسوسی کی ہو تو اس پر کون بھروسہ کرتا؟۔ اتنا سادہ بھی انسان کو نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے خلاف چندافرادکو کیوں ورغلایا گیا؟۔ جو طالبان اور ریاست کی بدنامی کا باعث بنا۔ کسی بھی واقعہ کی تہہ تک پہنچ جائیں تو یہ بہت بڑا بریک تھرو ہوگا ۔ذاتی دشمنی کو ریاست اور طالبان کے کھاتہ سے نکالا جائے تو سرخروئی ہوگی۔ انشاء اللہ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ