پوسٹ تلاش کریں

قرآن اور اس کی آیات پر قانون سازی سے گریز اں مدارس کے نصاب کی وہ نشاندہی جس کی وجہ سے دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا حال تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔40سالوں سے اس کی نشاندہی کررہاہوں

قرآن اور اس کی آیات پر قانون سازی سے گریز اں مدارس کے نصاب کی وہ نشاندہی جس کی وجہ سے دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا حال تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔40سالوں سے اس کی نشاندہی کررہاہوں اخبار: نوشتہ دیوار

228البقرہ کے احکام:
1:طلاق والی عورتوں کی عدت تین ادور ہے۔2:عورتوں کیلئے حمل چھپانا حلال نہیں۔3:عدت میں باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے۔ 4:عورتوں کیلئے مردوں پر معروف حقوق ہیں جیسے مردوں کے ان پر ہیں مگر مردوں کا ان پرایک درجہ ہے۔
علماء حق اور پڑھا لکھا طبقہ اس آیت سے امت کی تقدیر بدل دیں۔ دیوبندی ، بریلوی،اہلحدیث اور جماعت اسلامی نے علامہ شبیراحمد عثمانی کے بھتیجے مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی زیر صدارت1972میں سیمینار کیا جو لاہور سے کتا ب میں شائع ہے۔ جو حلالہ کے خاتمہ کیلئے تھا۔ ایک بھی ایسی حدیث نہیں جس میں آیت228البقرہ کے برعکس عدت میں رجوع کے واضح حکم کیخلاف حلالہ کا حکم نبیۖ نے دیا ہو۔اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی تو حنفی مسلک کے مطابق حدیث کی جگہ قرآن پر ہی عمل ہوتا۔
اصول فقہ میں قرآن کے قواعدپرعملی تعلیم نہیں۔ اختلافات کا کماحقہ فائدہ نہیں بلکہ تقلید کا کانا پن اور محض دجالیت ہے جس کو علماء وطلبہ سمجھتے نہیں ہیں۔
اگرمسائل قرآن کے مطابق ہوں تو احادیث میں مسلک حنفی کے مطابق تطبیق ہوگی اورپھر قرآن وسنت کی طرف علماء کرام اور عوام کا رجوع ہوگا۔
حضرت عائشہ متوفیہ58ہجری۔ ایک عورت نے تیسرے طہر کے بعد حیض پر عدت کو ختم سمجھ لیا تو شکایت پر حضرت عائشہ نے اس کی تائید فرمائی کہ ”اَقرائ3 اطہار ہیں”۔ جمہورنے یہ ٹھیک سمجھ لیا۔ حنفی فقہاء نے قرآن کے منافی قرار دیا کہ3کالفظ قرآن میں خاص ہے۔ طلاق مشروع طہرمیں ہے جس طہر میں طلاق دی اگروہ شمارہو تو3کی جگہ ڈھائی طہر ہوں گے لیکن جب حیض مرادہو تو قرآن کے خاص مکمل3عدد حیض شمار ہوں گے۔
40سال قبل جامعہ بنوری ٹاؤن کی درسگاہ میں یہ سوال اٹھایا کہ جس طہر میں طلاق دی تو وہ طہر بھی ادھورا شمار ہو گا پھر معاملہ ساڑھے3پر جائیگا؟۔ مجھ سے اساتذہ کرام نے فرمایا کہ علم کی تکمیل کرلوگے تو نصاب کی تصحیح بھی کرلوگے اورپھر میں نے متعدد بار اس کا جواب اپنی کتابوں اور اخبار میں لکھ دیاہے ۔
طہر میں جماع کے بغیر طلاق دی تو ادھورا نہیں پورا شمار ہوگا۔ کھائے پئے بغیر دن چڑھے رمضان کا روزہ ہوتا ہے۔ حنفیوں نے طہر کو عدت الرجال قرار دیا اور حیض کو عدت النسائ۔شوہر دن میں بال پھینکے اور بیوی رات میں بیٹنگ کرے تو عجب تماشہ ہوگا؟
قرآن میں عورتوں کی عدت کیلئے طلاق کا حکم ہے اور حنفی علماء قرآن کا درست مفہوم نہیں لکھ سکتے۔ حیض میں مقاربت تو ویسے منع ہے۔ طہر میں طلاق ہو تو اس سے پہلے کا حیض عدت کا حصہ ہے۔ روزہ دن کوہوتا ہے مگر شمار رات سے ہوتا ہے۔ چاند رات ہوتی ہے تو خبر ملتے ہی اعتکاف مکمل ہوجاتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ پر غلط اعداد وشمار اور خود ساختہ حکم کے مطابق ایسی الزام تراشی انتہائی غلط ہے کہ وہ عدت میں عورتوں کو کسی اور سے نکاح کی اجازت دیتی تھی جس پر عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو7،7سال قید کی سزاسنا دی ۔پھر جمہور اور حدیث بھی اس کی زد سے نہیں بچتے ہیں۔ ابن عمر سے نبیۖ نے فرمایا کہ طہر میں پاس رکھو حتی کہ حیض آئے۔ پھر طہر حتی کہ حیض آئے ۔پھرطہر آئے تو روک لو اوریا ہاتھ لگائے بغیر طلاق دو ، یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا حکم دیا ہے۔
جس سے فقہ کے اس بکواس کا خاتمہ ہوجاتا ہے کہ” ایک طلاق کے بعد عدت ختم ہوتو پھر دو طلاقیں باقی رہتی ہیں۔ پھر یہ اختلاف ہے کہ نئے نکاح سے پہلا شوہردو طلاق کا مالک ہوگا یا تین کا؟۔اور پہلاشوہر دو طلاق کا مالک ہے اور دوسرے نے دو طلاق کے بعد رجوع کیا اور ایک طلاق کا مالک ہے تو ایک طلاق کا مالک شوہر اور دوطلاق کا مالک اپنی خواہش پوری نہیںکرسکتاہے؟ ۔انوکھی ملکیت!۔
اگرمدارس ریاضی کا حساب نہیں جانتے تھے اور غلط تفسیر پر مجبور تھے لیکن صحیح بات ملنے پر ہٹ دھرمی سے کس کفر ونفاق کا ثبوت پیش کررہے ہیں؟۔
دورِ جاہلیت میں اکٹھی3طلاق دی جاتی تھی تو حلالہ کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ یہ آیت نص صریح ہے کہ عدت میں باہمی صلح واصلاح کی بنیاد پر اللہ نے رجوع کو واضح کردیا، جس کے بعد حلالہ کی مذہبی لعنت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ہے۔
اس آیت میں یہ بھی واضح ہے کہ باہمی صلح کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں۔جس سے جاہلیت کا بڑا مسئلہ بھی حل ہوگیا کہ عورت کی مرضی کے بغیر شوہر کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں اور فقہی تضادات اور فضول بکواسیات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے۔
دو مرتبہ طلاق رجعی کا شوہر کو غیرمشروط حق اللہ کے احکام سے بالکل متصادم ہے اسلئے کہ اللہ نے ایک عدت گزارنے کا عورت کو طلاق کے بعد حکم دیا ہے اور فقہاء نے دوبار غیرمشروط رجوع کا حق دیکر شوہر کو تین عدتوں کا حق دیا ۔ عدت کی تکمیل سے پہلے شوہر2بار رجوع کرے تو عورت3عدتیں گزارے گی جو قرآن اور عورت کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہے لیکن کانے دجال یہ دیکھنا نہیں چاہتے۔
٭٭٭
229 البقرہ کے احکام:
1:طلاق دومرتبہ اور پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنا۔2:جو کچھ بھی ان کو دیا اس میں کچھ واپس لینا حلال نہیں مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔3:اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔

اللہ نے آیت228البقرہ سے ربط کیلئے فرمایا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ میں معروف رجوع ہے اور معروف کیا ہے؟۔ باہمی صلح کی شرط ہی معروف رجوع ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ آیت230میں فان طلقہا کا تعلق دومرتبہ طلاق سے نہیں فدیہ سے ہے اسلئے کہ ف تعقیب بلامہلت ہے۔ (نورالانوار)علامہ غلام رسول سعیدی بڑے اچھے اور علمی شخصیت تھے لیکن لکھ دیا کہ ”ف کی وجہ سے اکٹھی تین طلاق کا جواز بنتا ہے ورنہ نہ بنتا”۔ اس کی وجہ ”ف” کے حوالہ سے تضادات ہیں۔جس میں پہلی اور تیسری طلاق واقع ہوجاتی ہے ،درمیانی طلاق رہ جاتی ہے۔ نصاب نے علماء کو کوڑھ دماغ بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ حنفی مسلک کا تقاضا یہ ہے کہ فامساک بمعروف او تسریح باحسان کی ف سے تیسری طلاق کا تعلق دومرتبہ طلاق سے ہو اور یہ احادیث سے بھی بالکل واضح طور پر ثابت ہے۔
صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں یہ ہے کہ نبیۖ کو حضرت عمر نے خبردی کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوگئے اور پھر رجوع کا حکم دیکرفرمایا کہ طہر میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے،پھر طہر کے بعد حیض آجائے ۔ پھر طہر آئے تو چاہو تو رجوع کرلو اورچھوڑنا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیرچھوڑو، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا”۔
کچھ علماء کے نزدیک حیض میں طلاق نہیں ہوتی جیسے رات میں روزہ نہیں ہوتا ہے۔ رسول اللہۖ نے جن واضح الفاظ میں طلاق کی مزید وضاحت کی ہے اور سورہ الطلاق میں اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اللہ نے وضاحت فرمائی ہے کہ عورتوں کو ان کی عدت میں طلاق دو ۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ نئی صورت پیداکرے۔ علامہ شبیراحمد عثمانینے غلط تفسیر، مولانا احمد رضا خان بریلوی نے غلط ترجمہ لکھ دیا ہے اسلئے کہ قرآن کے متن اور احادیث کی طرف توجہ کرنے کے بجائے فقہی جنگلات میں جوئیں ماری ہیں۔
اللہ نے واضح کیا کہ تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ کیا تو شوہر کیلئے جائز نہیں کہ دی ہوئی کوئی چیز واپس لے مگر جب وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے یہ خوف رکھیں کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ یعنی وہ چیز کسی طرح رابطے کا ذریعہ بن جائے گی اور جنسی اختلاط سے دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تو وہ چیز پھر فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔
فدیہ فدائی سے ہے جو خود کش حملہ کہلاتا ہے ۔ عورت طلاق کے بعداپنی عزت بچانے کی خاطر لی ہوئی وہ چیز کو قربان کرے گی جو شوہر نے عطیہ دیا۔ اس آیت میں خلع مراد لینا انتہائی درجہ حماقت ہے۔ جہاں جاویداحمد غامدی اور سید مودودی جیسے دانشور بھی سر فہرست ہیں۔ یہ علماء نہیں بلکہ نقل مار ہیں۔ جو چیز بھونڈے طریقے سے فقہاء نے لکھ ڈالی اس کو سلیس طریقے سے واضح کیا۔ سورہ النساء آیت19میں خلع کا حکم اور سورہ النساء آیت20،21میں طلاق کا حکم واضح کیا گیاہے۔ عورت کا شوہر زبردستی سے مالک نہیں بن سکتا ۔ اگر وہ شوہر کو چھوڑ کر جانا چاہے تو اسلئے نہ روکے کہ بعض دی ہوئی چیزیں اس سے واپس لی جائیں مگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہو۔ خلع لیکر جانے کے باوجود بھی اللہ نے شوہر کو حسن سلوک کا حکم دیا ،اگر وہ چھوڑنے کے عمل پر بری لگ رہی ہو تو اللہ تواس میں بہت سارا خیر رکھ سکتا ہے۔ آیت19سورہ النساء اور آیت20،21النساء کو دنیا کے سامنے پیش کیا تو نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو، سکھ ، عیسائی ، یہود ی، بدھ مت اور دنیا کی خواتین و حضرات عورتوں کو اسلامی حقوق کا نظام تشکیل دینے پر متفق ہوجائیںگے۔ لیکن اگرفقہ کی کتابوں سے مسائل پیش کئے گئے تو علماء ومفتیان اپنے مسلک والوں سے چھپتے پھریںگے۔ دنیا جس بدامنی کی طرف جا رہی ہے اس سے روکنا صرف اسلام کا کمال ہوگا۔بڑامسئلہ ہے کہ ترجمہ وتفسیر بھی قرآن کے متن کے بالکل صریح خلاف کی گئی ہیں۔
اسرائیل ،ظالم حکمران اور جابر لوگ اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے جان، عزت اور مال لوٹتے ہیں تو اس کو شرافت کا لبادہ نہیں پہناسکتے لیکن حلالہ کے نام پر جو عزتیں لُٹ رہی ہیں تو اس نے مدارس کے ذریعے مسلمانوں کا معاشرہ تباہ کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن، مفتی منیب الرحمن ، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن اور مذہبی طبقے کا کام قوم کو مذہب کے نام پر منتشر ومضطرب رکھنانہیں بلکہ قرآن کی طرف متوجہ کرکے وہ استحکام بخشنا ہے جس سے امت مسلمہ کی ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں۔
٭٭٭

230البقرہ کے احکام:
1:پس اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے وہ عورت حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔2:پھر اگر ا س نے طلاق دیدی تو وہ دونوں رجوع کرسکتے ہیں اگر وہ یہ گمان رکھیں کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیںگے۔3:یہ احکام اس قوم کیلئے واضح کئے ہیں جو علم وسمجھ رکھتے ہیں۔

حنفی مسلک کے مطابق اس آیت کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے ۔ شافعی مسلک کے مطابق اس کا تعلق دو مرتبہ طلاق کے بعد سے ہے۔ فدیہ جملہ معترضہ ہے۔ (نورلانوار: ملاجیون درس نظامی)
علامہ ابن قیم نے” زادالمعاد” میں ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ” اس کا تعلق الگ الگ طلاق اور فدیہ دونوں سے سیاق وسباق کے مطابق ہے”۔
البقرہ:230میں ایک بڑے معاشرتی مسئلہ کا حل تھا۔ شوہر طلاق کے بعد نہ بسانے کا پروگرام رکھتا تھا اور نہ رجوع کا لیکن پھر بھی کسی اورشوہر سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جو غیرت کیلئے سب سے بڑا چیلنج لگتا تھا کہ اس کی بیوی اور بچوں کی ماں سے کوئی اور اپنے ازدواجی تعلقات رکھے اور یہ رسم صحیح بخاری میں حضرت سعد بن عبادہ کے حوالہ سے واضح تھی۔ قرآن میں اللہ نے نبیۖ کے حوالہ سے اذیت کا احساس دلاکر منع کیا ۔ قبائلی روایات، سندھ ، پنجاب میں ابھی تک یہ غیرت کا مسئلہ ہے اور میڈیا پر اس کی وجہ سے قتل کی خبریں آتی ہیں لیکن حلالہ کی بے غیرتی مجبوری میں بالکل سمجھ نہیں آتی۔
بالفرض ایک آدمی نے مرحلہ وارتین بار طلاق دی اور فدیہ کی صورت میں کوئی چیز بھی اس کو واپس کردی گئی اور عورت نے کسی اور شخص سے پھر نکاح کیا لیکن اتفاق سے اس نے بھی طلاق دی تو پہلے شوہر کے پاس دوبارہ رجوع کی گنجائش میں یہ شرط ذکر کی گئی ہے کہ جب دونوں کو گمان ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیںگے۔مثلاً پہلے شوہر سے رجوع کے بعد پھر دوسرے شوہر سے رابطے اور ناجائز تعلق کا خطرہ نہ ہو جس کی وجہ سے اللہ کی حد پامال ہو۔
آیت230اگر چہ آیت229البقرہ کے پس منظر میں ہے جہاں صلح و رجوع کی کوئی صورت نہیں لیکن اگر آیت228البقرہ کے مطابق ایک بار طلاق دی یا پھر آیت229کے مطابق دو بار بھی طلاق دی اور عورت باہمی صلح و معروف طریقے سے رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تویہی آیت230البقرہ کا ہی حکم لگے گا اور اس کا واحد مقصد عورت کو اس کی مرضی سے نکاح کی اجازت دینا مراد ہوگا۔
٭٭٭

احادیث صحیحہ کا معاملہ

قرآن پر تھوڑا تدبر کیا جائے تو پھر حلالہ کی لعنت کے دُور دُور تک بھی نشانات نہیں مل سکیں گے۔
حنفی ومالکی کے ہاں اکٹھی3طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیںاور دلیل ایک ہی حدیث ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ کسی نے نبی ۖ کو خبردی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں جس پر نبیۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تمہارے درمیان میں موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے؟۔ (یہ بخاری ومسلم کے معیار پر نہیں )
شافعی کے ہاں اکٹھی3طلاق سنت، مباح اور جائز ہیں۔دلیل ایک ہی حدیث ہے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔
بخاری نے ”من اجاز طلاق الثلاث” کا باب باندھا اور یہ روایت لکھی کہ ”رفاعة القرظی نے بیوی کو3 طلاق دی ۔اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے نکاح کیا اور پھر نبی ۖ کو اپنے دوپٹے کا پلو دکھایا کہ اسکے پاس یہ ہے۔ نبیۖ نے فرمایاکہ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟، نہیں جاسکتی۔ یہاں تک کہ پہلے شوہر کی طرح مزہ چکھ لو اور دوسرا شوہر بھی پہلے کی طرح تیرامزہ چکھ لے”۔
اس کو دیکھ کر لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ نبیۖ نے حلالہ کروانے کی آخری حد تک نگہداشت فرمائی۔ یہ حدیث بخاری کی اپنی روایات کیخلاف ہے۔جس میں الگ الگ طلاق کا ذکر ہے ۔ نامرد سے کوئی مفتی بھی حلالے کا قائل نہیں تو نبیۖ پریہ بہتان کیسے لگا یا جاسکتاہے؟۔ یہ حدیث چاروں مسالک اور اہلحدیث کسی کے نزدیک بھی درست نہیں ہے۔ لعان پر عویمر عجلانی کا3طلاق دینا سورہ الطلاق کی تفسیر ہے کہ فحاشی پر اچانک بیوی چھوڑ سکتے ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ”کوئی حدیث حنفی مسلک میں قرآن کے حتی تنکح میں نکاح پرجماع کا اضافہ نہیں کرتی۔ ہم احادیث نہیں نکاح سے جماع مراد لیتے ہیں”۔
احادیث سے نکاح پر جماع کا اضافہ بھی نہیں ہوسکتا ہے تو قرآن کی واضح آیات کو کیسے رد کیا؟۔ روایات میں ہے کہ خبر دینے اور قتل کی پیشکش والے عمر اور طلاق والے عبداللہ بن عمر۔ بخاری میں ہے کہ نبیۖ غضبناک ہوگئے اور رجوع کا حکم دیا اور مسلم کی ایک روایت ہے کہ ابن عمر نے تین طلاقیں دی تھیں۔ مفتی منیر شاکر کو مفتی حضرت علی ربانی نے جس بنیاد پر قرآن کا منکر کہا تو وہ بخاری سمیت سبھی فقہاء قرآن کی الطلاق مرتان کو نہیں مانتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

کیادنیا اسلام سے خوفزدہ ہے کہ خلافت قائم ہوگی تو کفار کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو لونڈیاں بنالیا جائیگا؟
اسلام کی نشاة ثانیہ اور کانیگرم :پیر عابد
برصغیرمیں دو نظام تعلیم ہیں:ایک لارڈ میکالے اور دوسرا مدارس1866ء سے دارالعلوم دیوبندکا ۔مولانا فضل الرحمن