فلسطینی NGOکا میزان بینک سمیت کوئی اکاؤنٹ نہیں کھولتا۔شیرافضل مروت
مئی 11, 2025

ہم نے ملا عمر وشیخ اسامہ میں شرعی فیصلہ کرایاپھر 9|11ہوا، جس نے افغانستان،عراق اور لیبیامیں اتنی بڑی تباہی پھیر دی۔ مفتی عبدالرحیم
(نوٹ: اس پوسٹ کے آخر میں پڑھیں:تبصرہ نوشتہ ٔ دیوار:سید عتیق الرحمن گیلانی)
2009 کو 3دن کمرے میں مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، مفتی تقی عثمانی…..،تو میں نے تفصیل سے بتایا کہ بازاروں میں دھماکے اورمدرسوں کو نقصان ہوگا تو ان لوگوں نے میرا بہت شکریہ ادا کیا ، اگر علماء اپنے طلبہ کے خوف سے نکلیں کہ اگر ہم نے یہ بات کہہ دی کہ یہ خوارج مفسدین ہیں ،انکے وہی احکام ہیں جو متاثرین میں سے ہیں تو ان کی طرف سے کیا ردِ عمل ہوگا؟۔
سوال: طالبان نے دفاعی جہاد کیا؟۔ جواب: چاروں فقہوں کا اجماع ہے کہ جہاں حکومتی نظم موجود ہو تو وہاں کوئی جہاد نہیںہوسکتا اس پر بعد میں بتاؤں گاکیونکہ وہاں ایک نظم بہر حال موجود تھا۔ سوال: شیخ اسامہ نے بغاوت کی؟۔جواب:بغاوت نہیں اجتہادی خطاء تھی۔چیچنیانے آزادی کی جنگ جیتی مگر عرب مجاہدین نے روس پر خودکش کیا پھر روس نے چیچنیا کودوبارہ اپنا غلام بنالیا۔
شیخ اُسامہ بن لادن اور مُلا عمر کا اختلاف
شاگرد:ملا عمر صاحب نے اپنے دور میں کس طرح سے دوسرے ملکوں میں مداخلت سے روکا حالانکہ اس وقت تو بہت سارے ملکوں کی قیادت وہاں جمع تھی اور عسکری لوگ تھے وہاں پہ ؟۔
مفتی عبد الرحیم: ملا عمر کے دورمیں40 عسکری تنظیمیں افغانستان میں تھیں سارے امیراور بڑے وہیں تھے ۔ میں نے مفتی رشید احمد کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ وہاں جو میں تنظیموں کو دیکھتا ہوں ان کا اپنا اپنا ایجنڈہ ہے اپنے اپنے ملکوں کیساتھ جنگ ہے ۔وہ دھماکے کرنے کا مشورے کرتے ہیں وہاں ٹریننگ ہو رہی ہے تویہ پورا خطہ خدانخواستہ تباہی سے دوچار ہوگا۔ حضرت اگر مجھے دو مہینے کی اجازت دیں تو میں اسی کام پہ جاتاہوں۔ تو میں نے وہاں دو مہینے گزارے۔ ملا عمر اور ان کی کچن کیبنٹ تھی ہانڈی وال جسے کہتے ہیں، میں نے اس کی فہرست بنائی۔ دوسرے انکے کمانڈروں کی فہرست بنائی تیسرے جو ان کی شوریٰ کے ممبران، وزراء اور گورنر جو اہم اہم لوگ تھے ۔ میں نے سب سے یہ بات کی یہ تنظیمیں پوری دنیا کی اپوزیشن آپ نے اکٹھی کی ہے اور یہ آپ کی مصلحت، ریاست اورامارت سے ہٹ کر اپنا ایک ایجنڈا رکھتے ہیں اور ان کو کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے اور خود کفیل ہیں ان کو پابند کریں کہ یہ باہر دھماکہ نہ کریں آپ کی اطاعت کریں۔ لمبی تفصیلی دو مہینے ایک ایک سے میں ملا۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا سب تنظیمیں توڑیں ملا عمر نے سب کے لیڈرز کو بلایا اور کہا کہ آج کے بعد کسی تنظیم بازی ، باہر حملہ کرنے کی اجازت نہیں۔ سب پر امیر مقرر کیا ملا جمعہ خان، پھر مسئلہ ہوا کہ یہ تو پورے افغانستان میں پھیلے تھے تو فیصلہ ہوا کہ سب کو دارالامان کابل میں اکٹھا کیا جائے۔ وہ کابل کے جنوب میں بڑا خراب علاقہ تھا تو وہاں بستیاں بنائی گئیں۔ کروڑوں روپے خرچ کر کے افغانستان کے تمام تنظیمی لوگوں کو وہاں اکٹھا کیا۔ پھریہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ ان لوگوں نے اس کو قبول نہیں کیا تھا یعنی ویسے تو چونکہ حکم تھا ملا صاحب کا لیکن نظریاتی لحاظ سے یہ قائل نہیں تھے اس پہ کافی ملا عمر اور اسامہ بن لادن میںاختلافات بھی ہوئے بہت زیادہ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پر جہاد فرض عین ہے اور ملاعمر کہتے تھے کہ ہماری اجازت کے بغیر نہیں جہاد کر سکتے۔ تو آخر میں ملا عمر نے ہمارے حضرت کو پیغام بھیجا کہ مفتی صاحب کومیرے پاس بھیجیں اور ہم ارجنٹ بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں گیا تو انہوں نے کہا کہ میں بالکل مایوس ہو گیا ہوں اور آپ مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں، آپ بتائیں کیا کریں؟، وہ تو نہیں رک رہے ۔ میں نے ملا عمر سے کہا کہ قرآن میں آتا ہے فان تنازعتم فی شیئٍ فردوہ الی اللہ و الرسول تو ہم لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں تو آپ اور اسامہ بن لادن میں اختلاف ہے آپ یہ کہتے ہیں باہر حملے جائز نہیں اور وہ کہتے ہیں فرض ہے تو اگر ہم شریعت سے پوچھ لیں 3 علما آپ دیں 3 علماء شیخ دے دیں وہ 6علما ء فیصلہ کردیں کہ شریعت کا کیا حکم ہے اور پھر سب مانیں اس کو۔ تو ملا عمر نے کہا کہ میں اس کیلئے تیار ہوں ۔میں پھر شیخ اسامہ کے پاس گیا اور کہا کہ آپ جھگڑا میں علماء کو حکم بنا دیں اور فان تنازعتم فی شیئٍ فردوہ الی اللہ و الرسول اگر ہم نہیں مانیں گے تو کون مانے گا؟۔ تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ ملا عمر نے 3 علماء کے نام دیئے مولانا شیر علی شاہ شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ، مولانا نور محمدامیر جمعیت علما اسلام بلوچستان، تیسرا میرا نام تھا ۔شیخ اسامہ نے اپنے 3 دیئے ابو… مصری جو انکے نائب اول تھے اور ابو…مریطانی جو حیات اور موریطانیہ میں ہیں۔اگر کوئی بات کرنا چاہے تو میرے پاس ٹیلی فون نمبر ہے اور تیسرے موریطانی کے نائب ابوعف مریطانی دار الافتاء کے صدر مفتی تھے۔ ہم 6 کے 6 اکٹھے ہو گئے اور ایک ہفتہ ہماری بحث ہوئی فقہ حنفی شافعی، حنبلی، مالکی اور سلفی چونکہ یہ لوگ سلفی ہیں تو پانچوں پربات ہوئی اور پانچوں میں ثابت ہوا کہ اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ جہاں ریاست کا نظم موجود ہو تو انفرادی طور پہ کوئی جہادی تنظیم بنا کر کسی ملک پر حملہ کر دے اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بات لکھی گئی، اسامہ بن لادن اور ملا عمر اور ہم سب کے دستخط ہوئے ۔ملا عبدالجلیل نگران تھے اور وہ حیات ہیں۔ عبدالاحد جہانگیروال بھی حیات ہیں وہ بھی شریک تھے ان کو پورا پتہ ہے کہ ملا عمر نے مجھ سے بات کی تھی تو وہاں کافی لوگ ملا غازی، ملا عبدالسلام حیات ہیں وہ بھی موجود تھے اور حاجی لالا تھے۔ اتنے سارے لوگوں کے نام میں اس لیے بتا رہا ہوں کہ یہ کھل کر ہوا تھا تو اس میں سب کے دستخط ہوئے۔ اور بہت لوگوں کو اطمینان ہوا کہ شریعت کا فیصلہ ہوگیا۔ لیکن ہماری تنظیموں کے لوگوں نے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور پھر بالآخر وہ ہوا11 ستمبر کے جو واقعات ہوئے اور نتیجے میں جو کچھ ہوا سب نے دیکھا۔ ان حضرات سے بات کی ملا صاحب سے تو جب سب سے میں نے بات کر لی۔ کمانڈو، وزراء اور شوریٰ کے لوگوں سے تو دو مہینے کے بعد میں آخری میٹنگ ملا صاحب سے تھی تاکہ میں سب کا حوالہ دے سکوں تو میں نے ملا صاحب سے کہا کہ میں پشتو سمجھ تو لیتا ہوں لیکن بول نہیں سکتا تو مجھے آپ لامحدود وقت دیں تاکہ میں کھل کر بات کرسکوں تو انہوں نے کہا کہ آپ فجر کی نماز میرے گھر پہ پڑھ لیں۔ تو فجر کی نماز ہم نے پڑھی انہی کیساتھ ۔ میٹنگ میں مفتی معصوم افغانی، طیب آغا، میں اور ملا صاحب۔ مجلس فجر کے بعد شروع ہوئی اور کوئی گھنٹے بعد ہم نے چائے پی جو افغانوں کا ناشتہ ہے بڑا سادہ سا۔ پھر میٹنگ ہوئی پھر ظہر کی نماز پڑھی، کھانا کھایاپھر میٹنگ ہوئی عصر کی نماز پڑھی۔ عصر کے بعد چائے کی پیالی پی پھر میٹنگ شروع ہوئی مغرب تک۔ تو فجر سے مغرب تک میں نے فقہی، شرعی، سیرت اور تاریخی حوالے سے تمام چیزیں ملا صاحب کو بتائیں کہ ساری تنظیمیں یہاں موجود ہیں تو ان کو باقاعدہ اس کا پابند کریں۔ تو الحمدللہ وہ اس پہ قائل ہوئے۔ پھر وہ کہتے تھے کہ ہمارا کوئی پروگرام نہیں باہر کسی ملک کو نقصان پہنچانے کا تو لوگ ہمیں کیوں نقصان پہنچائیں گے ؟۔میں نے کہا تھا کہ 14 سوسا ل بعد علماء کی حکومت آئی ۔ مجدد الف ثانی نے کوشش کی تھی۔افغانستان میں 70-60-50ہزار طلبہ علماء شہید ہوئے اتنی بڑی قربانی کی مثال نہیں۔ انگریز نے جو پھانسیاں دی تھیںوہ 35ہزار علماء تھے تو یہاں تو 70-60 ہزار علماء شہید ہوئے۔ تو یہ ختم ہو جائے گا آپ ان کو سنبھا لیں۔ یہ بیک گراؤنڈ ہے۔ یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ طالبان کے بانی مؤسس امیر اول تھے اور انہی کے نام پہ سب کچھ چل رہا ہے، جب انہوں نے شرعی فیصلہ کیا اور سب کے دستخط ہوئے تو پھر کیا گنجائش ہے کہ آپ مخالفت کریں؟۔ ابھی جو کچھ وہاں سے زمین استعمال ہو رہی ہے یہ شریعت کے خلاف ہے جو فیصلہ خود طالبان کے امیر نے علما ء سے کروایا اور سب کے دستخط کے ساتھ اور وہ تحریر انکے پاس ہوگی ۔کیونکہ وہ تو بہت بڑی تحریر تھی تو یہ تحریر ان کے پاس ہوگی افغانستان میں کسی جگہ رکھی ہوگی اس کو جا کے دیکھ لیں اور اگر وہ نہیں ہے تحریر یعنی جنگوں میں کوئی چیز ضائع ہو جاتی ہیں تو جتنے نام میں نے بتائے ہیں وہ تو حیات ہیں پوچھ لیں ۔دوسری بات یہ کہ جو دوحہ میں معاہدہ کیا پوری دنیا کیساتھ تو معاہدے پر عمل کرنا فرض ہے۔ حضور اکرم ۖاور خلفائے راشدین صحابہ کرام نے 250 معاہدے کئے، کسی ایک معاہدے کی بھی خلاف ورزی نہیں کی اور معاہدے کی خلاف ورزی پر اتنی سخت وعیدیں ہیں کہ آپس میں اختلاف ہوگا اور مخالفت ہوگی اللہ دشمنوں کو باہر سے مسلط کر دے گا اور باقی جو آخرت میں اس کی سزا ہے دنیا میں سزا ہے اللہ تعالیٰ سمجھ دے۔ دعا کرتا ہوں کہ افغانستان میں سارے طالبان نہیں۔ حکومت میں وہ لوگ جو پاکستان میں جنگ کو صحیح جائز سمجھتے ہیں ان کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ شریعت کا فیصلہ تو ہوا تھا اور ایک ہفتے کی مسلسل کتابیں دیکھنے کے بعد اور اس میں سب کے سائن ہوئے تھے اور اسکے اور بہت سارے گواہ مل جائیں گے تو میرے خیال میں ابھی بھی ان کو ایسے ہی کرنا چاہیے اور جیسے اس معاہدے کی خلاف ورزی پر افغانستان برباد ہوا تباہ ہوا اور 20 سالوں میں لاکھوں لوگ شہید ہوئے اور اس کی وجہ سے عراق بھی گیا شام بھی گیا لیبیا بھی گیا ابھی جو کچھ ہو رہا ہے دوبارہ پھر اسی کو دوہرارہے ہیں۔ اس سے پاکستان ،افغانستان ،امارت اسلامیہ ،شریعت کو بھی نقصان ہو گا،افغانوں اور مہاجرین اور انکے مستقبل کو انتہائی نقصان ہوگا۔ اس لیے افغانستان امارت اسلامیہ کے جو ذمہ دار لوگ ہیں ان کو اپنے شرعی فیصلے کا پاس کرنا چاہیے جو انہوں نے خود فیصلہ کیا۔
سوال:ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی سطح پہ قتل عام ہے عام لوگ مررہے ہیں شہادتیں ہورہی ہیں علماء لپیٹ میں آرہے ہیں جنگ کا دائرہ کار پھیلتا چلا جارہا ہے تو ایک عالم دین مفتی اور جیسے آپ کا تجربہ رہا پوری زندگی کا تو آپ ہم دونوں حضرات کو اور اس فتنے کو ختم کرنے کیلئے کیا تجاوزدیں گے؟۔
مفتی عبد الرحیم: دیکھیں ہمارے بیشترعلماء کرام کا کلچر ہے پڑھنے پڑھانے کا اس میں ریسرچ نہیں۔ یہ بات نہیں پڑھائی نہیں جاتی کہ ریاست کے کیا احکام ہیں ریاست کی کیا ذمہ داری ہے۔ اور 200 سال سے علماء کرام بالکل الگ کیے ہوئے ہیں تو ان کو ریاست سے متعلق جو احکام ہیں وہ بار بار بتانے پڑتے ہیں ان کو جھنجھوڑنا پڑتا ہے پھر جا کر ان کو سمجھ میں آتا ہے حالانکہ وہ پڑھ رہے ہیں پڑھا رہے ہیں۔ در س نظامی میں ”ابواب السمع و الطاعہ ” ریاست کی بات کو دھیان سے سننا اور اطاعت کرنا یہ تو متواتر ہے اتنی زیادہ یہ کیا موجود نہیں ہے؟۔ کیا ریاست کے احکام موجود نہیں ہیں؟۔ کیاہمارے دین میں ائمة الجور کا باب نہیں کہ بخاری ومسلم شریف میں کہ اگر حکمران ظالم ہوں تو تمہیں کیا کرنا ہے صراحتا ًنبی کریمۖ کے ارشادات موجودہیں۔ کیا فتنوں سے متعلق ابواب الفتن موجود نہیں کہ فتنے آئیں گے اور وہ کس کس شکل میں ہوں گے اس میں قتل و قتال ہے، ریاست کے خلاف بغاوت ہے ،خوارج کی علامتیں بھی ہیں اور بہت ساری چیزیں ہیں، فساد فی الارض کا ذکر ہے۔ جو علامات قیامت ساری صحاح الستہ میں ہیں لیکن ہمارا نظام 200سال سے اس قسم کا ہے کہ باقاعدہ جو پریکٹس میں نہ ہو اور اصول ضوابط جو کتاب میں ملتی ہیں کہ ڈرائیونگ کے اصول آپ زبانی یاد کر لیں گاڑی آپکے پاس نہ ہو آپ کو کہا جائے گا؟۔ تو میں سمجھتا ہوں علماء کرام اس حوالے سے معذور ہیں کہ ہماری حکومتوں نے علما ء کو دور کر دیا تو وہ ابواب جن کا تعلق ریاست،جہاد کے احکام سے تھا ہمارے علماء براہ راست اسکے متعلق رہے ہی نہیں اسلئے انکے پاس سنی سنائی معلومات ہیں۔ دوسری بات یہاں چیزیں اس انداز سے چلائی گئی ہیںکہ سیاست اور اپنے ذاتی مفادات، معلومات اور نظریات خلط ملط ہو گئے ہیں کہ اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ میں 20-15سال سے اس پر بات کر رہا ہوں جب بھی علما ء سے بات کی تو انہوں نے میری بات کو کہا کہ آپ صحیح کہتے ہیں۔ مثال بتا دیتا ہوں ایک دفعہ دارالعلوم کراچی میں میٹنگ ہوئی۔ مفتی رفیع عثمانی ، مفتی تقی عثمانی اور حنیف جالندھری اور بھی دو تین حضرات تھے، میں نے اسی موضوع پہ بات کی تومولانا رفیع عثمانی نے مولانا تقی عثمانی سے کہا کہ مفتی صاحب نے آج ہماری آنکھیں کھول دیں اور ہمیں ایک لمبی میٹنگ کرنی چاہیے انکے ساتھ۔ تو میں نے عرض کیا کہ اگر 10بڑے حضرات مل جائیں اور ہم کھل کر بات کر لیں یہاں کے حالات اورمسائل پر تو اسکے بعد پھر یہ 2009یا 10کی بات ہوگئی، جامعہ اشرفیہ میں اجلاس ہوا تین دن تو وہ آف دی ریکارڈ تھا کمرے میں ہم 10 لوگ تھے مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا سلیم اللہ خان ، مولانا تقی، مولانا رفیع، مولانا عبد الرزاق اسکندر، حنیف جالندھری، مفتی کفایت اللہ بھی تھے جمعیت کے۔ تین دن اسی موضوع پر بات ہوئی اور بہت تفصیل سے میں نے افغانستان ، عراق اور سب چیزیں بتائیں کہ جوہورہی ہیں نوجوانوں میں اور یہ بازاروں میں دھماکے ہوں گے سب ہمارے ذمے پڑے گا اورمدرسوں کو بہت نقصان ہوگا۔ تو ان لوگوں نے بہت شکریہ ادا کیا تو میں نے جب بھی بات کی ہے علماء کرام سے تو کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں، بلکہ صحیح کہہ رہے ہیں توعلماء کرام سے اگر باقاعدہ کھل کر بات چیت کی جائے اور ان کو خوف نہ ہو، تھوڑے اپنے خوف سے نکلیں۔ خوف کس چیز سے؟۔ ان کو اپنے طلبہ سے خوف ہے کہ اگر ہم نے کہہ دیاکہ یہ بغاوت ہے یہ خوارج ہیں یہ مفسدین ہیں اور انکے اوپر وہی احکام جاری ہونے چاہئیں تو بہت سے طلبہ ایسے ہیں جو متاثرین میں سے ہیں تو ان کی طرف سے کیا رد عمل ہوگا؟۔پھر دوسری بات یہ کہ جو لوگ یہاں لڑ رہے ہیں انکے پاس فوجی طاقت اتنی ہے کہ کتنے علماء کو انہوں نے شہید کیا ۔مولانا حسن جان نے 55 مرتبہ بخاری پڑھائی اس کو شہید کیا۔ مولانا معراج الدین اتنے بڑے عالم تھے ان کو شہید کیا،مولانا نور محمد کو شہید کیا جو پاکستان میں پہلے عالم تھے جنہوں نے جہاد پر کتاب لکھی، پہلا شخص وانا والے بڑی جہادی زندگی گزری ہے ان کی۔ ابھی مولانا حامد الحق کا واقعہ ہوا کتنا افسوسناک ہے کہ عالم دین کو مدرسے میںوہ مدرسہ جس کی تاریخ ہے اور نام اتنا بڑا ہے اسلامائزیشن، جہاد، اس ملک کی خدمت کے حوالے سے کہ آپ کا سر نیچا ہو جائے گا سن کر۔ تو وہاں ان کو شہید کیا۔ ابھی مفتی شاہ میر دارالعلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن کے فاضل تھے اور افتاء جامعة الرشید سے کیا تھا ان کو نماز کے اندر شہید کیا۔ مفتی فرمان اللہ کو ابھی کرم میں شہیدکیا اور بھی بہت سارے علما ء کو شہید کیا جارہا ہے۔ یہ خطرناک ہے تو ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے اور انکے نظریات پر ہمیں بات کرنی چاہئے۔ ان نظریات کے مقابلے میںمولانا فضل الرحمن اگر آجائیں تو ان پر چار خود کش حملے ہوئے اب تک اللہ نے بچایا ہے ان کو۔ قاضی حسین احمد پرخودکش ، مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ ہوا، حاجی عبدالوہاب، مولا طارق جمیل ، قاری حنیف جالندھری اورمولانا تقی عثمانی کو دھمکیاں دی گئیں۔ تو وہ نظریہ ہے جو مائنڈ سیٹ ہے اس کیلئے مولانا طارق جمیل ہوں، کوئی بہت بڑا بزرگ ہو، شیخ الاسلام ہو، مفتی اعظم ہو ، مسجد ہو ،مدرسہ ہو ،کوئی سجدے میں ہو، تفسیر پڑھا رہا ہو ، جمعہ ہو، یا رمضان ہو، لیلة القدر ہو، وہ سب کا خون مباح سمجھتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے ، اگلی دفعہ مستقل بات کر لیں 22احادیث ہیں اس بارے میں۔ تو ان کو کون بیان کرے گا؟۔ اب تو یہ جنگ یہاں تک پہنچ گئی۔ اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ نظریات پر بات کرنی چاہیے اور جب اس پہ بات کریں گے تو آپ کو احادیث قرآن کی آیتیں اور پوری سیرت تاریخ اور تمام فقہی حوالے اور عقائد کی کتابیں آپ کو مل جائیں گی۔
سوال: 11 ستمبر کا واقعہ اس معاہدے کے فوراً بعد ہوا تو ملا صاحب کا کیا ریکشن تھا؟۔ جو شیخ اسامہ یا وہ جو ایک پوری خلاف ورزی ہوئی توپھر ؟۔
مفتی عبد الرحیم: ان کو اندازہ تھا ۔ دلیل یہ ہے کہ انہوں نے شوریٰ کے ساتھی ملا عبدالقیوم شہیدکو بھیجا میرے پاس کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ سنگاپور کی طرف ان عرب کا پروگرام ہے تو تحقیق کرنا چاہتا ہوں تو آپ کے پاس وسائل ہیں اگر ملا عبد القیوم کو وہاں تک بھیج دیں تو بہت آپ کی مہربانی ہوگی۔ اورملاعبد القیوم نے مجھے بتایا کہ ملاعمر بہت زیادہ پریشان ہیں کہ اس فیصلے کو قبول نہیں کیا انہوں نے اور مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ سنگاپور میں کچھ چیزیں ہو رہی ہیں۔ تو ضیاء الدین ہاکی کے پلیئر تھے نا۔ نام اسلئے بتا رہا ہوں تاکہ پتہ چل جائے۔ تو انکے بھائی علاء الدین ہمارے حضرت سے بیعت تھے ، ضیاء الدین بھی حضرت کی مجلس میں آتے تھے اور مولانا راحت علی ہاشمی کے ضیاء الدین بہنوئی ہیں۔بڑا اچھا خاندان ہے ماشااللہ، میں نے ان کو بلایا اور کہا کہ آپ لوگ سنگاپور میں کام کرتے ہیں تو یہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا بالکل ٹھیک ۔تو ضیاء الدین خود گئے ملا عبدالقیوم کو ساتھ لے کر۔ پھر کیا ہوا نہ پوچھا کہ کوئی چیز ملی نہیں ملی ،بیچ میں شیخ نے پیغام بھیجا، تو میں گیا شیخ کے پاس ، بالمشافہ ان سے بات کی۔ تو اس نے کہا کہ میں پریشان ہوں کہ مجھے ملا عمر نے بالکل بٹھا دیا، تو میں نے اتنی بڑی قربانی بیٹھنے کیلئے تو نہیں دی تھی۔ تو میں ملا صاحب سے ملا اور مولانا مسعوداظہر بھی میرے ساتھ تھے۔ تو ہم نے جا کے ملا صاحب سے بات کی کہ اس طریقے سے وہ بہت پریشان ہو رہا ہے تو ملا صاحب نے کہا کہ سب نے مل کر شریعت کا فیصلہ کیاشریعت کے آگے سر جھکانا چاہیے۔ تو ان کا خیال یہ تھا کہ جہاد فرض عین ہے اپنے طور پر اور فرض عین کیلئے اب نماز پڑھنے کیلئے میں ملا عمر سے پوچھوں؟۔ لیکن یہ غلط تھا کیونکہ چاروں فقہوں میں جہاں ریاست کا نظم ہو وہاں انفرادی یا گروپ کیلئے اجازت نہیں کہ کسی ملک میں حملہ کرے۔پوری ہماری اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی مثالیں موجود نہیں ہیں۔
سوال: یہاں اقدامی جہاد کی بات ہو رہی ہے یعنی وہ اقدامی جہاد کو بھی فرض عین … کیونکہ جہاد تو ویسے بھی طالبان نے کیا ہی ہے وہ دفاع میں تھا۔
مفتی عبد الرحیم: اس پر بھی الگ بات کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں ریاست موجود ہو تو وہاں اقدامی ہو یا دفاعی ہو ؟۔تو وہ ایک جو نظم بنا ہوا ہے ان کے ذمے ہوتا ہے۔ کیا پاکستان میں کسی کرنل کو کسی جنرل کو اپنے طور پہ اختیار ہے کہ وہ جا کے جنگ چھیڑ دے؟۔ جنگ کوئی معمولی چیز تو نہیں ہے؟۔ تو اتنی بڑی بڑی ہماری خلافتیں گزری ہیں تو ایک باغی کس کو کہتے ہیں؟۔ تو باب البغا کو دیکھ لیں نا وہاں سارے احکام موجود ہیں اس پر میں آگے چل کے پھر بات کروں گا کہ ان کو ہم کیا کہیں گے۔ چونکہ میرا آنا جانا بہت زیادہ تھا۔ باقی کوئی حنبلی تھا کوئی سلفی تھا ،شیخ عبد الولید مصری حنفی اچھے صحافی اور نائب ثانی تھے انکے ۔تو میں ویسے چلا گیا کابل میں انکے گھراور کہا سناہے آپ ناراض ہو کر آگئے ہیں؟ اس نے کہا کہ جب آپ نے یہ فیصلہ کیا تو کچھ دن بعد میری 7-6سال کی بیٹی کو خواب میں زیارت ہوئی نبی کریمۖکی اور فرمایا کہ اسامہ سے کہو کہ ملا عمر کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ تو میں نے شیخ کو بتایا جبکہ میری بیٹی کو پتہ نہیں اور نبی ۖکی حدیث من رآنی فقد رانی فان الشیطان لا یتمثل بی ”جس نے مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کو قدرت نہیں کہ میری شکل اختیار کرے”۔ تو میں نے شیخ سے کہا کہ آپ بیعت کریں تو اس نے کہا ٹھیک ہے ۔پھر میری بیٹی نے یہ خواب دیکھا اور تیسری مرتبہ یہ خواب نظر آیا تو میں دوپہر میں گیا اورشیخ کو سوتے میں جگایا اور کہا کہ تیسری مرتبہ کے بعد میرے پاس گنجائش نہیں، آپ کو چھوڑ دوں گا۔ تو انہوں نے کہا کہ میں کر لوں گا پھر نہیں کی تو میں وہاں سے واپس آیا۔ شیخ عبدالولید ابھی حیات ہیں وہ تہران میں رہتے ہیں اور ان سے رابطہ کر کے کوئی پورا پتہ لگا سکتا ہے اب بچی کافی بڑی ہو گئی ہوگی۔
سوال: اکثر آپ سے سنتے ہیں کہ لیبیا شام، عراق یہ تو دور کی باتیں ہیں جو اتنی ریاست ریاست ریاست تو ایک ہماری بالکل پڑوس کی ریاست جس نے اتنی مشکلوں سے اپنا وجود پایا اور وہ ایک بغاوت کی نظر ہو گئی اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا ۔
مفتی عبد الرحیم: یہ بغاوت نہ تھی صحیح لفظ ہمیں استعمال کرنا چاہیے۔ جو ریاست سے لڑے اس کو باغی کہیں گے اگر ریاست کی اطاعت نہیں کی تو یہ نافرمانی کی۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے جو فرض عین سمجھتا تھا تو اتنی گنجائش آپ ان کو دے سکتے ہیں۔ چیچنیا کی پہلی جنگ میں ان کو فتح حاصل ہو گئی تھی تو اسکے بعد دوبارہ جنگ ہوئی تو زیلم خان بانی تھے تو میرا ان سے رابطہ تھا ۔میں نے کہا کہ افغانستان تشریف لائیں ۔اس نے کہا: آذر بائیجان آجائیں تو میں نے کہا میں نہیں آ سکتا ،آپ یہاں آجائیں، تو افغانستان آئے تو میں نے پوچھا کہ یہ جنگ کیسے شروع ہوئی؟۔ اس نے کہا کہ ہم نے جنگ لڑی جو آزادی کی تحریک تھی اور جوہردودایوف تو میرے کہنے پر آئے جو جنرل تھے فوج میں۔ 15 ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ اور جن سے لڑائی تھی وہ1 کروڑ 71لاکھ مربع کلومیٹر ۔اور اللہ نے ہمیں فتح عطا فرمائی ۔ وہاں ادارے بننا اور اسکول کھلنا شروع ہو گئے سب چیزیں۔تو عرب مجاہدین کے کمانڈر عمر خطاب نے کہا کہ ہماری فتح ہو گئی ،روسیوں کو ماریں گے۔ ہم نے بہت سمجھایا کہ اتنی مدت کے بعد ہمیں آزادی ملی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انکے گھر میں ہم ماریں گے۔ غالبا 1995-94میں پھر ایک گاڑی بارود سے بھری ماسکو میں خودکش حملہ کیا400 سے زیادہ روسی مارے گئے۔ رد عمل میں انہوں نے چڑھائی کی اور دوبارہ قبضہ کیااور ابھی تک۔ تو یہ وہ زخم ہے جو شریعت و جہاد کے احکام کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے جذباتیت سے چیزیں ہورہی ہیں اور جب تک بندوبست نہ ہوگا تو یہ چیزیں نکلتی رہیں گی اور مسلمان ریاستوں کو نقصان پہنچتا رہے گا۔
قومی اسمبلی اجلاس میں شیرافضل مروت نے کہا کہ فلسطینیوں نے جو پاکستان میں رہتے ہیں مظلوم فلسطینیوں کیلئے NGOکھولی لیکن میزان بینک سمیت سب نے اکاؤنٹ کھولنے سے منع کردیا۔
٭٭٭
تبصرہ نوشتہ ٔ دیوار
سید عتیق الرحمن گیلانی
مفتی عبدالرحیم کا انٹرویو تین اقساط میں آگیا۔ ا شیخ اسامہ اور ملاعمر کے درمیان مصالحت، فیصلے اور جنگ میں بنیادی کردار مفتی صاحب کارہا۔ ایک طرف شرعی فیصلے پر پانچوں فقہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور سلفی متفق کہ حکومتی نظم ہو توانفرادی گروہ جہاد نہیں کرسکتا، دوسری طرف شیخ اسامہ کی خلاف ورزی بغاوت نہیں اجتہادی خطا تھی، طالبان کا امریکہ کیخلاف دفاعی جہاد نہ تھا اسلئے حکومتی نظم تھا۔
مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، مولانا سلیم اللہ خان 10علماء کو یہ سمجھانا کہ جوان بازاروں میں دھماکے کرینگے اور مدارس کا نقصان ہوگا۔ جس پر جاہل اکابرنے مفتی عبدالرحیم کا شکریہ ادا کیا اور طالبان پر خوارج مفسدین کے احکام جاری ہوتے تھے مگر علماء کواپنے طلبہ سے رد عمل کا خوف تھا؟۔
علماء نے 2018ء میں فتویٰ دیا، جب جنرل راحیل شریف و جنرل قمر باجوہ نے امن قائم کیا ۔ وزیرستان کی کہاوت ہے: داموتے مے دیر پوتے خو چہ نورے نہ کہ موتے ۔”جو برتن تم نے توڑ دئیے ہیں وہ تو میں چھوڑ دیتا ہوں لیکن مزید مت توڑدو”۔ امریکہ کی جنگ میں مسلمان مارے گئے۔ اسرائیل کے نام پر دوبارہ کوئی کھیل نہیں کھیلا جائے۔مفتی عبدالرحیم کے انٹرویو میں خطرناک تضادات موجود ہیں۔ جس سے علماء کی حیثیت زیرو اور TTP اور بلوچ قوم پرستوں کو بڑی تقویت ملے گی۔یہ انتہائی جاہلانہ سازش کی عکاسی بھی ہے۔
پاکستان کی ریاست کا ایک قانون ہے اور وکیل اپنے اپنے کلائنڈ کے حق میں مخالف کے مقابلے کی دلیل نکالتے ہیں۔ انگریز کے دور سے موجودہ دور تک اس میں اصلاحات کی بجائے پیچیدگیاں ڈالی گئی ہیں اور جہاں صفائی کیساتھ کوئی بات تھی تواس کو بھی دھندلا کردیا گیا ہے۔ مثلاً پاکستان کا آئین پاک فوج کے سربرہ کے ایکسٹینشن کی گنجائش نہیں دیتا تھا لیکن فوج سے متعلق ایک دفعہ تھا کہ اگر کوئی فوجی ریٹارئرڈ تھا اور پھر اس پر کوئی جرم ثابت کرنا ہو تو اس کو نوکری پر بحال کرکے فوجی ڈسپلن کے تحت سزا دی جائے گی۔ اس دفعہ کے تحت کسی آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
لیکن جنرل ایوب ، جنرل ضیائ،جنرل پرویز، جنرل اشفاق تک اسی قانون کے تحت ایکسٹینشن دی گئی۔ نواز شریف نے زرداری کی مخالفت کی تھی کہ فوجی جرنیل کو ایکسٹینشن دینا انتہائی غلط بات ہے اور مسلم لیگ ن کبھی اسکی حمایت نہیں کرے گی۔
پھر عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ دامت برکاتہم العالیہ کو ایکسٹینشن دی تو کسی کم بخت نے کہا کہ آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ کورٹ میں اس کے خلاف پٹیشن داخل کردی۔ جس طرح جب پارلیمنٹ کااجلاس کوئی ڈھبر ڈوس کرنا چاہتا ہے تو وہ کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کردیتا ہے اور تعداد پوری نہ ہونے پر اجلاس ملتوی ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اگر معلوم ہونے کے باوجود اس کی نشاندہی نہیں ہو تو اجلاس چلتا ہے اور قانون سازی بھی ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے مسجد کا امام پاد یا پوسی مار دے اور جب تک کوئی نشاندہی نہ کرے تو نماز چلتی رہے۔ اس سے عوام کو معاملہ سمجھنا آسان ہوگا۔
بعض لوگوں نے یہ مسائل گڑھ رکھے ہیں کہ اگر شوہر بیوی کو تین طلاق دے اور لوگوں میں تشہیر نہیں ہو تو پھر طلاق نہیں ہوگی۔ بعض دلے بے غیرت وہ ہیں کہ باپ نے اس کی بیوی کو ہاتھ مارا ہو مگر جب تک اس کا بھانڈہ نہ پھوڑا جائے تو وہ شریعت پر عمل کرکے بیوی چھوڑتا ہے اور نہ بے غیرت باپ کو وہ کچھ کہہ سکتا ہے۔ معاشرے میں المیہ چلتا ہے۔
خیر جب جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ایک نشاندہی ہوگئی تو پھر اس پٹیشنر نے اپنی پٹیشن واپس لے لی لیکن چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ڈٹ گیا کہ اب بال میری کورٹ میں ہے ۔ اس پر پارلیمنٹ قانون سازی کرے۔ عمران خان، نواز شریف اور زرداری نے منٹوں میں بھاری اکثریت سے قانون سازی کرکے ایکسٹینشن دی۔
موجودہ حکومت نے آرمی چیف کو متفقہ آئین کے تحت 3سال کی ایکسٹینشن دینے کے بجائے بہت ہی متنازعہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بھی مدت ملازمت نہیں بڑھائی بلکہ اس کے بعد متنازعہ ترین قرار داد کے ذریعے 2سال کا اضافہ کردیا۔ سوال یہ ہے کہ جنرل سید حافظ عاصم منیر نے دباؤ ڈالنا تھا تو 3سال تک مدمت ملازمت میں اضافہ کراتے؟ اور آزمائش کی آواز بھی ایک ، دو، تین ہوتی ہے لیکن ایک اور دو تک کیوں؟۔ وہ بھی متازعہ قانون کے تحت ؟۔ صحافی احمد نورانی جسکے دو بھائی اغواء ہوئے تھے ۔ اس نے بھی کہا کہ یہ اضافہ فوج کی خواہش پر نہیں ہوا تھا بلکہ فوجی قیادت نے مخالفت کی تھی اور یہ صرف نوازشریف کی ضد تھی اور اس کے نتیجے میں یہ اضافہ کیا گیا ہے۔
اس لمبی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ پارلیمنٹ اور قانون کی بادلاستی کا راگ الاپتے ہیں تاکہ ان کو گدھے کی اس بلبلوں کی مانند جعلی دُم کا پتہ چلے کہ کس طرح ہوائی فائرنگ سے یہ اُڑتی رہتی ہے؟۔
اب آتے ہیں مفتی عبدالرحیم کے انٹرویو کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ ایک طرف اسامہ بن لادن نے نہ صرف شریعت کے متفقہ بلکہ اپنے فیصلے کی بھی بہت بڑی نافرمانی کردی اور دوسری طرف رسولۖ کا خواب میں آنا بھی بار بار نہیں مانالیکن چونکہ اسامہ کو آزادی دلانے میں مفتی عبدالرحیم بھی کچھ نہ کچھ اپنا کردار ادا کررہاتھا اسلئے اس کا وہ اقدام جس نے افغانستان ،عراق، لیبیا اور پاکستان کا بیڑہ غرق کیا لیکن اسکے باوجود چونکہ وہ اس کو فرض عین سمجھتا تھا اور اس پر بغاوت نہیں اجتہادی خطا کا اطلاق ہوتا ہے ۔ جیسے چیچنیا نے روس کے خلاف جنگ آزادی لڑی اور ٹھیک تھی مگر عرب مجاہد عمرخطاب نے روس پر حملہ کرکے دوبارہ معاملہ خراب کردیا تھا۔
مفتی عبدالرحیم کشمیری مجاہدین کیلئے بھی راستہ نہیں نکال سکے۔ جب امریکہ کی افغانستان میں حکومت تھی تو بھی اس نے طالبان کے جہاد کو جہاد کہنے سے متفقہ فیصلے کی وجہ سے انکار کردیا اسلئے کہ وہاں ایک حکومتی نظم بہر حال موجود تھا۔ جس کی مفتی عبدالرحیم نے تفصیل سے وضاحت کرے گا۔
TTP اور بلوچ قوم پرست مفتی عبدالرحیم کے انٹرویو سے کیا سبق لیں گے کہ متفقہ فیصلے کے بعدجو اسامہ بن لادن جہاد کو فرض عین سمجھتا تھا اور چیچن کا حریت پسند آزادی کیلئے لڑاتو ان پرکیا حکم ہوگا؟۔
مفتی عبد الرحیم نے ایک چھوٹی بچی کو خواب کے ذریعے رسول اللہ ۖ کا پیغام بار بار شیخ اُسامہ تک پہنچانے کا ذکر کیا ہے۔ کیا رسول اللہ ۖ اُسامہ کو براہ راست خواب میں حکم نہیں فرماسکتے تھے؟۔
جب 9/11کا واقعہ ہوا تو بنوں کے ایک مجاہد نے خواب دیکھا کہ رسول اللہ ۖ نے امریکہ کو تباہ کرنے کی اللہ سے فریاد کی ہے۔ ہم نے اسی وقت خصوصی شمارے کی مین لیڈ بنائی تو پہلے علماء نے اس کو کہا کہ تم سستی شہرت چاہتے ہو، پھر بالوں والے اٹھاکر لے گئے کہ اگر پھر تم یہاں نظر آئے تو تمہاری خیر نہیں۔بلیک واٹر کا کمال تھا کہ ڈھائی ہزار امریکی 20سال میں مرے اور لاکھوں افغانی اور ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے مگر پھر بھی وہ شکست کھاگئے ؟
آرمی چیف سید عاصم منیر کے بارے میں کہا جاتاہے کہ شروع سے دہشتگردوں کے سخت مخالف تھے۔ پہلی مرتبہ DGISIایک PHDڈاکٹر ہیں جو ان کی خواہش پر اس منصب پر لائے گئے ہیں۔
مفتی عبدالرحیم ریاستی حقوق کا درست حوالہ دیتا ہے لیکن اس سے مراد غلط لیتاہے۔ حضرت علی نے خوارج کا فرمایا کہ ”بات ٹھیک کہتے ہیںلیکن اس سے مراد غلط لیتے ہیں”۔ رسول اللہ ۖ نے بجا حکم فرمایا کہ حکمرانوں کی سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ وہ تیرامال لوٹ لیں یا پھر تیرے پیٹھ پر کوڑا ماریں۔
مفتی عبدالرحیم اس سے یزید ، حجاج بن یوسف اور بنوامیہ وبنوعباس کے ظالم حکمرانوں کی فضیلت اور شرعی حق کو بیان نہیں کریں بلکہ اس کو مصلحت اور اپنی عزت بچانے کیلئے کارگر نسخہ کے طور پر پیش کریں۔ کیونکہ جس حکمران دلے اور بے غیرت میں اتنا کمینہ پن ہو کہ لوگوں کا مال بھی لوٹیں اور ان کی پیٹھ پر کوڑے بھی برسائیں تو ان سے عزتوں کو لوٹنے کے بھی خدشات بعید از قیاس نہیں ہوتے۔
جبرمیں کلمہ کفر کی بھی جائز ہے۔ اگر علماء احساس کرلیں کہ اگر اللہ اکبر کی جگہ العسکراکبر نہیں کہا تو جان ومال اور عزتوں کا خطرہ ہے تو کلمہ کفر بکنا جائز ہے جب اس کا دل ایمان پر مطمئن ہومگر اس کی وجہ سے شریعت کو بدنام کرنا بھی انتہائی حماقت ہے۔
علماء و مفتیان اگر فوج اور اسلام کے سر پر ٹوپی رکھنے کے بجائے خود کو سدھاریں تو بہت اچھا ہوگا۔ عوام کو شریعت کے نام پر دھوکے میں نہ رکھیں اور اس کیلئے ہم بار بار ٹھوس رہنمائی کررہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو کسی میدان میں ہمیں وہ پیچھے نہیں پائیںگے۔ سیاست و شریعت، جہاد و تصوف کو ہم نے ان سے زیادہ قریب سے دیکھا ہے۔
اگر قادیانی ، شیعہ، اہلحدیث، پرویزی اور تقلید کے سارے فتنوں کو مات دینی ہے تو قرآنی آیات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن جب آخری سال مالٹا سے رہا ہوئے تو قرآن کی طرف توجہ دینے کی بات کردی لیکن تھانوی اور مدنی گروپ اتنے پھیل چکے تھے کہ اس تجویز پر عمل کہاں ہوسکتا تھا؟۔ پھر شیخ الہند کے شاگرد مولانا انور شاہ کشمیری نے عمر کے آخری حصہ میں فرمایا کہ ”میں نے قرآن و حدیث کی کوئی خدمت نہیں کی ہے بلکہ فقہی مسالک کی وکالت میں زندگی تباہ کی” لیکن آخری عمر میں کیا ہوسکتا تھا؟ ۔ پھر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے آخری عمر میں اپنے استاذ شیخ کشمیری اور استاذالاساتذہ شیخ الہندکے اقوال کو نقل کیا تاکہ خاتمہ بالخیر ہوجائے۔
عرب خلافت وامارت اور گورنری پر لڑمررہے تھے اور بقول علامہ امین مصری کے دیار غیر سے آنے والے عجم نے مسند علم کو سنبھالا۔ امام ابوحنیفہ ، امام بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی ،ابوداؤد صحاح ستہ کے مصنف عجم تھے۔ فقہ وحدیث اور تفسیر کے ذریعے دین ہم تک پہنچا۔ قرآن کو براہ راست نہیں دیکھا اور ترجمہ وتفسیر میں مختلف مسالک کا بہت بڑا ملغوبہ تھا جس کو دین کا نام دیا گیا ہے۔
پاکستان اور دنیا کے آئین میں تضاد ہوسکتا ہے اور بخاری کو اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب کا درجہ دیا گیا ہے لیکن اس میں بھی بہت تضادات ہیں اور تضادات بھی چھوٹے چھوٹے نہیں بلکہ بہت ہی بڑے بڑے تضادات ہیں۔ مثلاً یہ بھی ہے رفاعہ القرظی نے اکٹھی تین طلاقیں دیںاوریہ بھی کہ الگ الگ تین طلاقیں دیں۔ یہ بھی کہ حرام کا لفظ تیسری طلاق ہے جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھی حرام کالفظ کوئی طلاق نہیں اور نہ اس کا کفارہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔ یہ بھی ہے کہ رسول اللہۖ کی مکی زندگی بعثت کے بعد13سال اور مکی زندگی 10سال تھی اور یہ بھی کہ مکی دور بھی10سال اور مدنی دور بھی 10سال۔ کئی تضادات موجود ہیں ۔
أفلا یتدبرون القرٰٰن ولوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا ”کیا قرآن پر غور نہیں کرتے؟اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت تضادات پاتے”۔
رسول اللہۖ ، ابوبکر اور عمر کے ابتدائی دور میں اکٹھی تین طلاق ایک تھی ۔ پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر تین کا فیصلہ جاری کردیا۔
اس روایت کے پس منظر میں روافض نے عمر کے خلاف توپوں کے دھانے کھول دئیے کہ قرآن وسنت کے خلاف طلاق بدعت ایجاد کرلی۔ شافعی مسلک نے زور لگادیا کہ یہ طلاق سنت ہے۔ حنفی و مالکی مسلک نے اس کو طلاق بدعت قرار دیا لیکن یہ ثابت کرنے کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑگئے کہ ایک ساتھ تین طلاق بدعت ہیں مگر واقع ہوجاتی ہیں۔
فرقہ واریت کا خمار شراب کے نشے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بریلویوں نے مولانااشرف علی تھانوی کا ماموں ڈھونڈ نکالا۔ ”ماموں صاحب بولے کہ میں بالکل ننگا ہوکربازار میں نکلوں،اس طرح ایک شخص تو آگے سے میرا عضو تناسل کو پکڑ کر کھینچے اور دوسرا پیچھے سے انگلی کرے ،ساتھ میں لڑکوں کی فوج ہواور وہ یہ شور مچاتے جائیں بھڑوا ہے رے بھڑوا ،بھڑواہے رے بھڑوا،اس وقت میں حقائق ومعارف بیان کروں کیونکہ ایسی حالت میں کوئی گمراہ تو نہ ہوگا سب سمجھیں گے کہ کوئی مسخرہ ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت: جلد9صفحہ212)
بریلوی مکتب کے مفتی کامران شہزاد نے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تائید کردہ کتاب کا حوالہ دیا کہ ” اس میں لکھا ہے کہ ایک پیر نے اپنا عضوتناسل نکالا، جو ایک ڈیڑھ گز لمبا ہوا۔ پھر مرید کی اس سے پٹائی لگادی ،پھر غائب ہوا”۔
شیعوں کی بھی انتہائی خطرناک بکواسات ہیں۔
یہ سب قرآن کو چھوڑنے کا نتیجہ ہے۔ اگر مسلم کی روایت کو قرآن پر پیش کرتے تو حضرت عمر کے فیصلے کی بھی تصدیق ہوجاتی اور امت مسلمہ اختلاف کا شکار بھی نہیں بن جاتی۔ آیت228البقرہ میں طلاق والی عورت کو عدت کے تین ادوار تک انتظار کا حکم ہے اور اس میں اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا زیادہ حق دار قرار دیا ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ کیا اسلئے کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور قرآن میں صلح واصلاح شرط ہے۔
جب عورت رجوع کیلئے راضی ہو تو تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے اسلئے کہ روزے کی طرح عدت کا ایک مرحلہ ایک مرتبہ کی طلاق ہے۔ دوسرا مرحلہ پھر دوسرے مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسرامرحلہ تیسرے مرتبہ کی طلاق ہے۔ جب شوہر عدت میں روزے کی طرح عورت سے پرہیز کرتا ہے تو یہ طلاق کا فعل ہے۔ عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ کی طلاق قرآن اور احادیث صحیحہ میں بالکل واضح ہے۔ اور باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع بھی واضح ہے۔
حضرت علی کے دور میں شوہر نے بیوی سے کہا کہ مجھ پر حرام ہو۔ عورت رجوع نہیں کرنا چاہتی تھی تو علی نے عمر کی طرح فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ دونوں کا فیصلہ قرآن کے مطابق تھا۔ علامہ حسن آلہ کاری دنیا بھر کی بکواس کرتا ہے مگر کہتا ہے کہ حضرت علی سے امام غائب تک قرآن غائب کیا گیا ہے۔ ارے جب قرآن ہی غائب ہے تو ماں کی قبل سے نکلے ہو اور دبر میں چلے جاؤ۔ پھر کیوں تم لڑانے کیلئے کتابوں سے بکواس کرتے ہو؟۔
علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے ارشاد بھٹی سے کہا کہ حضرت علی نے قرآن کی تفسیر کی اور امام غائب کے پاس وہی ہے۔ تفسیر میں متشابہ آیات کی تفسیر ہو تو زمانہ بھی یہ کام کررہاہے لیکن محکمات کی تفسیر قرآن خود کرتا ہے۔ طلاق کے مسئلہ پر شیعہ سنی بیٹھ جائیں اور قرآن کے عین مطابق اللہ کی ہدایت پالیں۔
طلّق وجہہ اس کا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔ اتکلم العربیة بالطلاقة میں کھل کر عربی بولتا ہوں اور انتم طلقاء تم آزاد ہو۔ طلاق بری بلا نہیں۔
اللہ نے فرمایا: ”یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے چھوڑ دو”۔
قرآن کا ترجمہ بھی شریعت کے نام نہاد مفتی اور مولانا نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ طلاق ایک ملکیت ہے اور شوہر تین طلاق کا مالک ہوتا ہے۔
مثلاً ایک طلاق دیدی تو عدت کے بعد دوسری دو طلاقیں باقی رہ گئی ہیں۔ پھر تو عدت کیلئے طلاق کی ملکیت کا خرچ کرنا باطل ہوگا۔ ایک روپیہ ایک وقت تک کیلئے خرچ نہیں ہوسکتاہے۔ توپھر طلاق کو عدت کیلئے قرآن کے مطابق کیسے خرچ کرینگے؟۔
ولی خان نے جنرل ضیاء الحق سے کہا تھا کہ میں جہاد مانتا ہوں لیکن توپ، جہاز، جنگی ٹریننگ ، ٹینک اور سب کچھ تمہارے پاس ہے جہاد تم نے کرنا ہے! یہ کونسا جہاد ہے کہ مجاہد افغانستان اور پختونخواہ میں شہید ہوتا ہے اور مال غنیمت منصورہ لاہور میں بٹ رہاہے؟۔کیا آج مولوی اسی بات پر آگئے ہیں؟۔
کتنے لوگ جہاد کے نام پر ماردئیے اور جب خود پر مسئلہ آیا تو معاملہ بدل گیا؟۔ اس میں فوجی کا قصور نہیں وہ تو صرف اور صرف لڑائی کو سمجھتاہے؟۔وہ شریعت، معیشت، سیاست اور تعلیم کوئی شعبہ نہیں سمجھتا ہے۔ علماء ومفتیان نے تین وجوہات پر شیعہ کو قادیانی سے بدتر قرار دیا تھا۔ پھر مشرف بہ اسلام کردیا لیکن بہت اموات اور فسادات کے بعد۔
مفتی عبدالرحیم کہتا ہے کہ جنگ کے وقت پاک فوج کیساتھ کھڑا ہونا چاہے اور اگر اس کی کوئی غلطی ہے تو اس پر تنبیہ اور اصلاح کرنی چاہیے۔
مفتی عبد الرحیم سے سوال:افغان طالبان پر ہندوستان نے براہ راست جنگ مسلط کی ، ایران کا 70ہزار طالبان کی شہادت میں ہاتھ ہے تو کیا پھر پاکستان کی غلطی اتنی بڑی ہے کہ سب کو چھوڑ کر اس نے پاکستان کی طرف رُخ کرلیاہے؟۔
مفتی عبد الرحیم: نہیں نہیں میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں پاکستان کے افغانوں پر طالبان پر اتنے بڑے احسانات ہیں کہ قیامت تک اس کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ سالانہ 54ہزار زخمیوں کا یہاں علاج ہوتا تھا۔ 500کمانڈر مع بچوں کے ان کے یہاں رہتے تھے۔ 16انکے وزراء یہاں رہتے تھے۔ 30گورنر رہتے تھے۔ 3لاکھ لوگوں کا روزانہ آنا جانا ہوتا تھا۔ کس حالت میں وہ آئے تھے سوائے چادر کے اور کچھ نہیں تھا۔ دنیا یہ کہتی ہے کہ اتنی بڑی جنگ یہاں سے لڑی گئی تو میں نہیں سمجھتا کہ ان کے پاس ذرہ بھی شرعی، اخلاقی اور جو انہوں نے معاہدہ کیا قطر میں کوئی جواز ہے کہ پاکستان سے لڑیں۔
اگر مفتی عبد الرحیم ادھر اُدھر کی بجائے مفتی ولی خان مظفر سے طلاق کا معاملہ حل کروائیںتو بہتر ۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ