مفتی منیر شاکر بڑا فتنہ ہے یا پھر فرقہ واریت کو ختم کرنے کا کوئی ایک بڑاوسیلہ بن سکتا ہے؟
اپریل 19, 2024
مفتی منیر شاکر بڑا فتنہ ہے یا پھر فرقہ واریت کو ختم کرنے کا کوئی ایک بڑاوسیلہ بن سکتا ہے؟
مردان کے مایہ ناز سپوت مصنف صحافی اور عظیم شاعر شعیب صادق اور لال بادشاہ کے توسط سے مفتی منیر شاکر سے ملاقات ہوئی۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ رمضان المبارک میں جاری رہا۔ قرآن و احادیث اور تصوف کے حوالے سے باہمی گفتگو ہوئی ۔اُمت مسلمہ کے تمام فرقوں کو قرآن و احادیث کی روشنی میں اتحاد و اتفاق اور وحدت کے راستے پر گامزن کرنا ہوگا۔ امام ابو حنیفہ، غلام احمد پرویزاور مفتی منیر شاکر پر منکر حدیث کا فتویٰ لگا ، شیعہ حضرت عمر اور اہلحدیث کو بھی منکر حدیث سمجھتے ہیں۔ یکجہتی کا ماحول قائم کرنے کیلئے اگر راستہ نکل آیا تو سب کے سب صراط مستقیم پر متحد ہوجائیں گے۔ بقیہ صفحہ نمبر2پر ملاحظہ فرمائیں۔
بقیہ صفحہ2:مولانا عبیداللہ سندھی فقہ حنفی کے مطابق قرآنی انقلاب کی بات کرتے تھے۔ مولانا محمد طاہر پنج پیری بھی مولانا سندھی کے شاگرد تھے۔ مفتی منیر شاکر نے زندگی کا پہلا حصہ پنج پیری سوچ کے حامل لوگوں میں گزارا۔ جس کی وجہ سے علماء دیوبند میں ان کو خوب پذیرائی حاصل ہوگئی۔ دیوبند دو حصوں میں تقسیم تھا اور بنیاد سب کی ایک ہے لیکن جرأت وبہادری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ قبرپرستی اور مشرکانہ رسم ورواج سے نفرت کرنے میں حنفی مکتب کے دیوبندی بریلوی ایک فکر رکھتے تھے لیکن دیوبند کے علماء کرام نے جرأت وبہادری سے کام لیا اور بریلوی پیچھے رہ گئے اسلئے دونوں میں تفریق بھی ہوگئی اور دیوبندی چھا گئے۔
جب کراچی کے معروف علماء ومفتیان مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی ، محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان ، فقیہ العصر مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مفتی تقی عثمانی وغیرہ پر امتحان آگیا تو مولانا مسعودالدین عثمانی اور ان اکابر میں کوئی فرق نہیں تھا۔ بس مولانا مسعودالدین عثمانی میں اظہار کی جرأت تھی اور اکابر کی حیثیت عقائد اور اعمال کے حوالے سے بہت مجرمانہ تھی۔
جنہوں نے مسند فتویٰ وارشاد کو بدنام کرنے کے بعد پھر جعل سازی سے پیری ومریدی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ ان کا احترام اتنا ہی تھا جتنا احترام عمران خان کو مفتی سعید خان دیتا تھا ، جب وقت آیا تو پھر اس کے خلاف سلطانی گواہ بھی بن گئے۔ صحافی کو اپنا سورس بتانے میں آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بہت بڑی قربانی دیتا ہے لیکن سورس نہیں بتاتا لیکن مفتی صاحبان کو صرف موقع ملنا چاہیے پھر بہت کچھ بھی بدل دیتے ہیں۔
بھارت میں امتحانوں کے اندر طلبہ اور تعلیمی اداروں سے رٹا سسٹم ختم کرنے کیلئے اجازت دی گئی ہے کہ امتحان دیتے وقت طلبہ اپنے ساتھ کتابوں کو بھی لے جاسکتے ہیں تاکہ ان میں رٹا سسٹم کی جگہ اصل تعلیمی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ مذہبی طبقے میں قرآن وسنت کی صلاحیت پیدا کرنے کیلئے رٹے سسٹم کا ہم اپنے ہاں خاتمہ کرلیں گے تو فرقہ واریت اور جہالت کا بالکل خاتمہ ہوجائے گا۔ علماء ومفتیان آپس میں مل بیٹھنے کا سلسلہ جلد شروع کریں اور حقائق کو سمجھیں تو نفرتوں اور گمراہی کا بہت ہی کم وقت میں خاتمہ ہوجائے گا۔
مفتی منیر شاکر اور ہمارے درمیان صرف اس بات پر ہی اتفاق رائے ہے کہ اپنی اپنی جہالتوں کو ختم کرنے میں کھلے دل کے ساتھ اعتراف کرنا چاہیے۔ باقی ہم ایکدوسرے سے انتہاء درجہ مخالفت کا ماحول رکھتے ہیں۔ وہ تصوف کو نہیں مانتے اور ہم تصوف کے بغیر اسلام کے ڈھانچے کو بغیر روح کے سمجھتے ہیں۔ وہ جہاد وقتال کے ذریعے اسلام کا غلبہ چاہتے ہیں اور ہم حکمت اور معاشرے میں شریعت وسیاست کے ذریعے اسلام کا غلبہ چاہتے ہیں اور انقلاب کے حوالے سے صرف قرآن پر یقین کا اظہار کرتے ہیں اور ہماری احادیث بھی بنیادی ڈھانچہ ہے۔ وہ اہل تشیع اور ایران کو خرابیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیںاور ہم شیعہ کی اپوزیشن کو بھی بہت مثبت نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بہت بڑا کمال یہی ہے کہ اختلافی فکر رکھنے کے باوجود بھی ہمارا احترام کا رشتہ برقرار ہے۔ ایک دوسرے سے کوئی بدظنی اور بدزبانی نہیں ہے۔ بہت سارے علماء ومفتیان کو ان سے جس طرح کا بھی اختلاف ہے ہم ان کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے۔
کچھ علماء اور مذہبی عناصر ان کو قاتل ، بدعقیدہ اور فتنہ سمجھتے ہیں اور برملا اس کا اظہار کرتے ہیں لیکن بلوچستان سے سوات تک جتنی قتل وغارت گری ہوئی ہے جن میں بڑے نامی گرامی علماء حضرات بھی شامل تھے تو ان سب کے قاتل مفتی منیر شاکر تو نہیں تھے؟۔ باڑہ خیبر ایجنسی میں لشکر اسلام انہوں نے بنایا تھا اور انصار الاسلام مخالفین کا تھا۔ پیر سیف الرحمن بریلوی مکتب کا پیر تھا تو دیوبندیوں کے قاتل کون لوگ تھے؟۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مفتی منیر شاکر غلام احمد پرویز ہی سے بہت متاثر ہیں لیکن پرویز سے کچھ معاملات پر اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان کا بہت بڑا لکھا پڑھا طبقہ پرویز سے بہت متاثر ہے۔ پورا پنجاب اس کی لپیٹ میں ہے ۔بلوچ، پشتون، سندھی ، سرائیکی اور پنجابیوں کا سمجھدار طبقہ بھی پرویزی ہے۔
پرویز نے تصوف کی بنیادیں ہلادی ہیں۔ تصوف پر اب دیوبندی بریلوی علماء سمیت کوئی بھی یقین نہیں رکھتا ہے۔ شیعہ علماء بھی اس کو سنیوں کا ڈھکوسلہ سمجھتے تھے ،اہل حدیث اور وہابی بھی سخت خلاف تھے۔ لیکن ہمارا علماء طبقہ بھی تصوف ہی کا شکار تھا۔ اگر تصوف کو نکال دیا جائے تو اسلاف پر اعتماد نہیں رہ سکتا۔ جس کی وجہ سے دیوبندی بریلوی اکثریت تصوف کو مانتی ہے۔
مفتی منیر شاکر پر سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ حدیث کا منکر ہے اور یہی پرویز کے بارے میں بھی خیال تھا۔ جبکہ پرویز اور مفتی منیر شاکر دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس حدیث کو نہیں مانتے جو قرآن کے خلاف ہے۔ اور یہی فقہ حنفی کی تعلیمات بھی ہیں۔ جب علماء ومفتیان اور پرویز سے متاثر ہونے والی عوام کو ایک ڈگر پر لایا جائے کہ کونسی حدیث قرآن سے متصادم ہے تو پھر ہم آہنگی اور یکجہتی کا راستہ بھی نکلے گا۔ جس دن حنفی و پرویزی ایک راستے پر چلنے کیلئے تیار ہوگئے تو یہی بہت بڑا انقلاب ہوگا اور پھر دوسرے لوگوں کو ساتھ ملانے میں بھی وقت نہیں لگے گا۔
شیعہ تو حضرت عمر سے لیکر امام ابوحنیفہ ، حنفی علماء اور پرویز تک سب کو منکرین حدیث سمجھتے ہیں اور اہلحدیث کے بارے میں بھی یہی سمجھتے ہیں کہ رفع الدین کی احادیث مانتے ہیں لیکن اہل بیت کی احادیث نہیں مانتے ہیں۔ جب ہم شیعہ کو قریب کرنے اور ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کی سوچ رکھتے ہیں تو یہ دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث پھر ہمارے اپنے لوگ ہیں۔
مفتی منیر شاکر نے کہا کہ میں تصوف اسلئے نہیں مانتا ہوں کہ تصوف قرآن میں نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ قرآن میں غیب پر ایمان لانے کا ذکر ہے ۔ جب حضرت ابراہیم نے اللہ سے کہا کہ آپ مردہ کو کیسے زندہ کرتے ہو؟۔ اللہ نے فرمایا: کیا آپ اس پر ایمان نہیں رکھتے؟۔ ابراہیم نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ! لیکن تاکہ د ل کا اطمینان مل جائے۔ پھر اللہ نے4پرندوں کے4،4ٹکڑے کرنے کا حکم دیا اور سب ٹکڑوں کو بھی دوسرے پرندوں کیساتھ جوڑنے کا فرمایا اور پھر جب ابراہیم نے بلایا تو وہ زندہ ہوکر آگئے۔ ہر ایک پرندہ مختلف چار پرندوں کے4ٹکڑوں سے بنا ہوا تھا۔ یہی تو تصوف ہے۔
مفتی اعضاء کی پیوندکاری پر بحث کرتے ہیں کہ یہ خدا کی تخلیق میں مداخلت تو نہیں؟۔ جائز یا ناجائز؟۔ اگر قرآن سمجھتے تو جواز ڈھونڈنے کیلئے کتابیں نہ لکھ ڈالتے۔ یہ شکر ہے کہ سنت کے تواترسے ختنہ ثابت ہے ورنہ اس کو بھی تخلیق میں مداخلت قرار دیتے۔ عجب بات یہ ہے کہ فارمی مرغیاں اور جانور آگئے اور یہ تخلیق میں مداخلت نہیں لیکن اگر بچہ کا غذ پر بظخ کی تصویر بنا دے تو یہ تخلیق میں مداخلت ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے تو یہاں تک لکھ دیا تھا کہ مزدور کا مکان بنانا بھی تخلیق میں مداخلت ہے لیکن وہ معاف ہے۔ کم عقلی کی انتہاء پر پہنچے وہ لوگ جن میں علم سمجھنے کی صلاحیت نہیں تھی لیکن ان کا سکہ چل رہا ہے جس کی وجہ سے مذہبی لوگ کباڑ خانہ بن کر رہ گئے ہیں۔
فرعون بھی بچوں کو قتل کرتا تھا اور حضرت خضر نے بھی بچے کو قتل کیا لیکن تصوف کی وجہ سے قرآن پر ایمان رکھنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں بڑے حقائق ہیں اور مخلص لوگوں کو اکٹھا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔200تک اس حدیث کی تعداد موجود ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح باطل ہے لیکن حنفی اس حدیث کو قرآن سے متصادم ہونے کی وجہ سے نہیں مانتے۔ حالانکہ یہ حدیث قرآن سے متصادم نہیں ہے لیکن حنفیوں نے غلط متصادم سمجھ لیا ہے۔ اگر حقائق سمجھ میں آگئے تو حنفی اور دیگر منکرین حدیث اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیں گے۔
اہل تشیع سمجھتے ہیں کہ اہل سنت کی کتابوں میں بارہ خلفاء کا ذکر ہے جن کا تعلق قریش سے ہوگا۔ مگر اہل سنت کے پاس اس حدیث کی کوئی معقول توجیہہ نہیں ہے۔ جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا کہ ”ابھی تک کوئی بھی 12 خلفاء میں سے نہیں آیا اسلئے کہ ان میں سے ہر ایک پر اُمت کا اجماع ہوگا ”۔ شیعہ سنی روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ” وہ اُمت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول میں ہوں، درمیان مہدی اور آخر عیسیٰ مگر درمیانے زمانے میں کج رو لوگ ہوں گے میں ان کے راستے پر نہیں اور وہ میرے راستے پر نہیں ہیں”۔ درمیانہ زمانے کے مہدی سے ہی12خلفاء کا سلسلہ شروع ہوگا اور وہ سب ہی اہل بیت میں سے ہوں گے۔ مشکوٰة کی شرح مظاہر حق میں ہے کہ ”پہلے6افراد امام حسن کی اولاد سے ہوں گے ، پھر5افراد امام حسین کی اولاد سے ہوں گے اور آخری فرد پھر حسن کی اولاد سے ہوگا”۔ اہل تشیع کی کتابوں میں بھی حدیث ہے کہ مہدی کے بعد11مہدی آئیں گے جن کو حکومت ملے گی اور اس حدیث پر شیعہ نے اسلئے اضطراب کا اظہار کیا ہے کہ وہ مہدی آخری امام ہوگا تو پھر ان کے بعد11امام کیسے آسکتے ہیں؟۔ حالانکہ اگر مہدی درمیان کے بعد یہ سلسلہ ہو تو پھر شیعہ کو اپنی کتابوں پر کوئی اضطراب نہیں ہوگا۔ اس طرح اہل تشیع نے درمیانہ زمانے کے مہدی کو مہدی عباسی قرار دیا ہے۔ لیکن اتنے بڑے کردار کیلئے مہدی عباسی پر بھی اضطراب ہونا چاہیے تھا۔ اگر درمیانہ زمانے سے یہ سلسلہ شروع کیا جائے تو پھر اس پر کسی کو کوئی اضطراب نہیں ہوگا۔ علامہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے بھی اپنی کتاب ”تصفیہ مابین شیعہ و سنی” میں لکھ دیا ہے کہ ”ان بارہ خلفاء سے مراد آنے والے بارہ خلفاء ہیں”۔
اگر مہدی آخرزمان آخری امیر اُمت کو تقدیر پر چھوڑ دیا جائے جب عیسیٰ علیہ السلام بھی آسمان سے نزول فرمائیں گے اور اُمت مسلمہ نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اتار سکتی ہے اور نہ ہی دجال اکبر کو لا سکتی ہے اور نہ مہدی آخرزمان کھڑا کرسکتی ہے لیکن درمیانہ زمانے سے تقدیر بدلنا شروع کرے تو مہدیوں کا سلسلہ جاری ہوگا۔ اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ کرام ہدایت کے ستارے تھے اور اہل تشیع کے نزدیک ان کے گزرے12امام ہدایت کے ستارے ہیں۔ علامہ طالب جوہری نے لکھا :
واعطیتک ان اخرج من صلبہ احد عشر مھدیاً کلھم من ذریتک من البکر البتول اٰخر رجل منھم یصلی خلفہ عیسیٰ ابن مریم ”اور تمہیں یہ عطا کیا ہے کہ میں اس کے صلب سے اور بتول کی نسل سے تمہاری ذریت سے11مہدی قرار دوں گا۔ اور ان میں آخر وہ ہوگا جس کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم نماز پڑھیں گے”۔ …
و خروج ولدٍ من ولد الحسن بن علی و ظھور الدجال یخرج بالمشرق من سجستان ‘ ‘ اور حسن بن علی کی اولاد سے ایک شخص خروج کرے گا اور مشرق میں دجال سجستان سے خروج کریگا”۔ (روایت معراج )۔خروج سفیانی سے قبل سید حسنی کا خروج ہوگا اور اس کے بین الاقوامی اثرات مرتب ہوں گے جن کے سبب کرہ ٔارض طویل جنگوں کا آغاز ہوگا۔ (صفحہ40،41،43)کوفہ، ملتان اور خراسان کے عنوان سے روایت لکھی ہے جسکے حاشیہ پر لکھا کہ ”اور ہم سے ایک قیام کرنے والا میں ہم کی نسبت بتلاتی ہے کہ یہ سید گیلانی دعوت حق دینے والا شخص ہوگا۔ بعض محققین کے نزدیک بعید نہیں ہے کہ اس سے مراد سید حسنی ہوں”۔ (صفحہ242)
(علامات ظہور مہدی : علامہ طالب جوہری)
کوئی سوال کرسکتا ہے کہ معراج کے وقت حضرت فاطمہ کی شادی نہیں ہوئی تھی تو پھر یہ خبرکیسی ؟۔ جواب ظاہر ہے کہ یہ ساری مستقبل کی پیشگوئیاں ہیں۔ مفتی منیر شاکر نے علماء سے سوال پوچھا کہ معراج میں نبی ۖ نے اگر سارے انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی تو وہ پھر کونسی نماز تھی؟۔ اسلئے کہ عشاء و فجر کی نماز توگھر میں پڑھی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفتی شاکر نے عید کی نماز پڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ فرض نہیں نفل نماز ہے تو معراج کے وقت بھی نفل نماز سمجھ لینی چاہیے۔
جن مسائل پر اختلافات کا کوئی فائدہ نہیں تو ان کی مثال متشابہات کی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ محکم آیات پر بھی اُمت کا اتفاق نہیں ہے۔ اللہ نے آیت224البقرہ میں فرمایا ہے کہ ”اور اللہ کو رکاوٹ مت بناؤ اپنے عہد و پیمان کیلئے کہ تم نیکی کرو ، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔
یہ طلاق کے احکام کیلئے مقدمہ ہے۔ آیت226میں اللہ نے فرمایا : ”جو لوگ اپنی بیگمات سے لا تعلقی اختیار کرتے ہیں تو ان کیلئے4ماہ ہیں پس اگر وہ مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔
احناف کے نزدیک4ماہ بعد عورت طلاق ہوجائے گی اور باقی فقہاء کے نزدیک4ماہ بعد بھی نکاح قائم رہے گا۔ اس اختلاف کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورت حنفی مسلک کے مطابق اپنے شوہر کو4ماہ بعد اپنے لئے حرام سمجھے گی اور باقی فقہاء کے ہاں اس کا نکاح4ماہ بعد بھی قائم رہے گا۔ حالانکہ دونوں کا مؤقف غلط ہے۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رسم کو توڑ دیا جس میں کوئی عورت طلاق کے بغیر ساری زندگی خود کو نکاح میں سمجھتی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ حنفی مؤقف اقرب الی الحق ہے۔ باقی مسالک کا قرآن و فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حنفیوں کے نزدیک شوہر نے اپنا حق استعمال کیا اور باقیوں کے نزدیک شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا۔ اس وجہ سے تضادات سامنے آئے۔
حالانکہ اللہ نے عورت کی گلو خلاصی کیلئے یہ آیت نازل کی ہے۔ اگر عورت4ماہ بعد کسی اور سے نکاح کرنا چاہے تو اس کی عدت پوری ہے اور اگر عورت4ماہ بعد بھی شوہر کے نکاح میں رہنا چاہے تو نکاح باقی رہے گا۔ جس طرح عدت وفات کے بعد عورت مرضی کی مالک بنتی ہے اگر وہ اپنے فوت شدہ شوہر ہی کے نکاح میں4ماہ10دن بعد بھی رہنا چاہے تو ساری زندگی اس کا نکاح باقی رہے گا یہاں تک کہ قیامت اور جنت میں بھی اس کے ساتھ ہوگی۔ اور اگر دوسرے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو پھر اس کی بھی اجازت ہے۔ سرکاری ملازمین کی ذہنیت بھی علماء و مفتیان سے زیادہ کام کرتی ہے۔ کوئی عورت عدت کے بعد جب دوسری شادی نہیں کرتی تو اس کے فوت شدہ سرکاری شوہر کی مراعات باقی رہتی ہیں۔ جب وہ دوسرا نکاح کرتی ہے تو پھر فوت شدہ شوہر سے اس کا نکاح ختم ہوجاتا ہے۔
نبی ۖ نے اماں عائشہ سے فرمایا کہ اگر مجھ سے پہلے فوت ہوگئیں تو میں غسل دوں گا۔ ابوبکر کو بیوی نے غسل دیا اور علی نے فاطمہ کو غسل دیا۔ مولوی کہتا ہے کہ شوہر کی سانس نکلتے ہی بیوی طلاق ہوجاتی ہے۔ اللہ نے انسان کو نطفہ امشاج سے پیدا کیا ۔ نبی ۖ رجال میں سے کسی کے باپ نہ تھے اسلئے بیٹی کی اولاد منسوب ہے۔ مفتی منیر شاکر سید کو نہیں مانتے۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: رب ارحمھما کما ربیانی صغیراً باپ کی طرح ماں سے بھی بچے منسوب ہوتے ہیں۔ گھر والی کی طرح گھر والے بھی ہوتے ہیںجن میں چچا زاد شامل ہیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ