محسود قوم میں امامت کی صلاحیت پیدا ہوگئی مگر
مارچ 5, 2018
محسود ایک دانشور، محنت کش، بہادر، انسانیت کی علمبردار، فطرت کی شاہکار، اسلام سے محبت رکھنے والی، وطن سے پیار کرنے والی اور زبردست صفات سے مزین آزاد منش قوم ہے۔ بے پناہ خوبیوں کیساتھ ساتھ انتہائی پستی والی صفات بھی اس قوم میں موجود تھیں۔ سب سے بری اور بدترین صفت اس میں بے پناہ کی فرعونیت تھی۔ روئے زمین پر محسود خود کو گویا دوسرا امریکہ سمجھتے تھے۔ ہر خاندان اور ہر فرد اپنی اپنی جگہ فرعون بناہوتا تھا۔ طالبان اور فوج نے سب سے بڑا کمال یہ کرکے دکھایا کہ اسکی فرعونیت کو شکست سے دوچار کردیا، یہ اس قوم کی فرعونیت کا جنازہ تھا جو بڑی دھوم سے نکلا کہ ’’ایک ماڈل بننے کے خواہشمند نقیب اللہ محسود کی شہادت پر تاریخی احتجاج کیا، ورنہ یہ وہ قوم تھی کہ اس قسم کے حلیہ اور کردار کو اپنے لئے باعثِ شرم تصور کرتی تھی‘‘۔ جیوکی پٹھان صحافی رابعہ انعم جو اپنی ثقافت سے کسی طرح پختون نہیں لگتی ہے لیکن جب وہ نقیب اللہ محسود کے تعزیتی جرگے میں گئی توپتہ چلا کہ وہ خود بھی ایک پختون ہے۔ پشتو زبان میں انٹرویو لیتے ہوئے نقیب کے والد سے پوچھا کہ ایک پختون معاشرے میں اپنے لڑکے کو اسطرح کاحلیہ بنانیکی اجازت نہیں دی جاتی تو آپ اس حلیہ کی وجہ سے نقیب سے ناراض نہیں تھے؟ نقیب کے والد نے پریس کانفرسوں میں بھی بتایا کہ میرا بیٹا ماڈل تھا۔
جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو کاندھے پر غارِ حراء چڑھانے والے نواز کا یہ حال ہواہے کہ مریم نواز کو شوہر سے چھڑا کر عوامی جلسوں کو پرکشش بنانے کی مہم جوئی میں مصروف ہیں جو کسی دور میں بینظیر بھٹو پر بے پردگی اور بے غیرتی کا الزام لگاتے تھے اور وہ خود کو اب آخری حد تک گرا رہے ہیں، اسی طرح طالبان کو اپنااثاثہ سمجھنے والے محسود قبائل نقیب اللہ کی تصاویر اٹھانے پر بھی نہیں شرمارتے۔ اگر نواز شریف کی فیملی دبے الفاظ میں شکریہ ادا کرتی کہ وقت نے اسٹیبلشمنٹ کی چاکری سے ان کی جان چھڑادی ہے تو ممکن تھا کہ یہ لوگ آئندہ نسل میں قائدانہ کردار ادا کرتے۔ شہباز شریف گیارہ برس قید کاٹنے والے زرداری پر گرج برس رہا تھا کہ چوکوں پر لٹکائیں گے، سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور نشان عبرت بنائیں گے، لیکن جب نواز شریف کی پانامہ لیکس کا معاملہ آیا، جمہوریت کی سب سے بڑی مسند پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی حیثیت سے غلط بیانی کی اور پھر عدالتوں پر تہمت لگادی کہ فوج نے ہمارے خلاف فیصلے پر مجبور کیا ہے تو یہ نہ صرف شریف برادری کیلئے انتہائی گراوٹ کا مقام تھا بلکہ پاکستان کی بھی ناک کٹ گئی ہے۔
اس کے برعکس محسود قوم نے افغانستان میں امریکہ کو شکست دینے کیلئے قدم اٹھایا اور وہ طالبان جس کی حمایت سب ہی کررہے تھے ، امریکہ کیخلاف سب سے زیادہ اور بڑی قربانی محسود قوم نے اپنی غیرت ، فطرت اور انسانیت کیلئے دی جو اسلام اور ایمان کا عین تقاضہ تھا۔ ان کو پتہ تھاکہ جس قوت سے مضبوط افواج کو بھی ٹکر لینے کی ہمت نہیں وہ ہماری نسلوں کو تباہ کرسکتی ہے۔ پاک فوج پر امریکہ نے جو خرچہ کیا ہے اس کا واویلا اب بھی امریکہ مچارہا ہے۔ افغان حکومت پر بھی امریکہ نے خرچہ کیا لیکن محسود قوم نے صرف قربانی ہی قربانی دی ہے۔ اپنے لئے نہیں عالم اسلام ، پاکستان اور اس خطے کو امریکہ کی دسترس سے بچانے کیلئے دی ہے۔ اس کے صلے میں محسود قوم کو کیا ملا؟ ۔ باہر سے آئے ہوئے دہشتگردوں کے ساتھ ملکر طالبان نے محسود قوم کا بیڑا غرق کیا ، فوج نے ان کی تذلیل میں تمام تر حدوں کو پار کرلیا اور جان مال، عزت و آبرو اور گھر بار ، وطن اور ایمان سب کچھ کا بیڑا غرق ہوگیا۔ قربانی کے بدلے میں جو ثمرات ملے وہ سب کے سامنے ہیں۔
کمال کی بات یہ ہے کہ محسود قوم نے اس قربانی اور اس کے نتائج کو منفی انداز میں لینے کے بجائے بہت مثبت انداز میں لیا۔ محسود قوم کہتی ہے کہ پہلے ہم بڑی مشکل سے کما کر لاتے تھے ، تھوڑے سے پیسے مل جاتے تھے تو اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں کیساتھ اس کے بدلے میں دشمنیاں مول لیتے تھے ، پیسے بھی جاتے تھے ، جانیں بھی ضائع ہوجاتی تھیں اور نصیب میں جہالتیں بھی ختم نہ ہوتی تھیں ۔ جب سے ہم مصائب کا شکار ہوگئے ، ہم نے تہذیب و تمدن ، تعلیم و تربیت اور وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو کسی قوم کی ترقی و عروج کیلئے معیار ہوتا ہے۔ جاپان نے بادشاہت کے خاتمے کو مثبت انداز میں لیا تو جاپانی قوم نے دوبارہ دنیا میں ترقی کرلی۔ محسود قوم اس آزمائش کے نتیجے میں دنیا میں امامت کے قابل ہوگئی مگر
اب کچھ معروضی حقائق کی طرف آنا ہوگا ۔ اس میں شک نہیں کہ محسودوں کی تین برادریوں میں بہادری اور جرأت کے لحاظ سے بہلول زئی اور منزئی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور اب اس میں بھی شک نہیں کہ طالبان اور فوج کی چکی میں جو پس کر رہ گئے ہیں ان کے ذہنوں سے فرعونیت کا خمیر نکل گیا ہے۔ ترقی و عروج کا تقاضہ یہی تھا کہ ان میں جاہلانہ تکبر اور رعونت کا خاتمہ ہوجائے۔ شمن خیل محسود کو سیاسی سمجھا جاتا ہے اور طالبان میں انہوں نے خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ جب بندوق اور بارود کا دور تھا تو محسودوں کی دو شاخوں بہلول زئی اور منزئی نے بہت نام کمایا ۔ پوری دنیا کی سطح پر وزیرستان کا نام متعارف کرادیا۔ اگر پاک فوج ان کو اپنی ڈگر پر چلنے دیتی تو امریکہ کی رہی سہی افواج بھی افغانستان میں نہیں ٹک سکتی تھیں۔ اگرمحسود قوم کو پاک فوج کی طرف سے حوصلہ ملے تو امریکہ و دہشتگردوں کو کبھی وزیرستان میں پاؤں جمانے کا موقع نہ ملے۔ فوج نے یکے بعد دیگرے جو کھدڑی سیاسی قیادت پاکستان پر مسلط کی ہے اس کا فطرت میں کوئی جواز نہ تھا۔
وزیرستان میں طالبان کی وبا آنے سے قبل امریکہ کے آزاد شہریوں کی طرح انواع و اقسام کا اسلحہ موجود تھا، لیکن امریکہ میں جس طرح پے درپے روز روز دہشتگردیاں ہوتی ہیں وزیرستان اور قبائلی علاقہ جات میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان کی ریاست کی ناک کے نیچے جس طرح کے جرائم پیشہ لوگ رہتے ہیں ان کا بھی قبائلی علاقہ جات میں کوئی تصور نہیں تھا۔ قبائل نے بلا معاوضہ ایک ایک انچ کی حفاظت کی ہے، عدالتوں اور پٹواریوں کے چکر میں جس طرح شہروں کی زمینوں پر قبضے ہوجاتے ہیں اور طاقتور لینڈ مافیا ظلم و جبر کی داستانیں رقم کررہی ہے اسکا کوئی تصور قبائلی علاقہ جات میں نہیں تھا۔ سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر قوم کو ایک عرصے تک سیاسی نمائندگی مل گئی لیکن بجائے فائدہ اٹھانے کے الٹا یہ تصور اجاگر کیا گیا کہ حکیم سعید جیسی محسن انسانیت شخصیات کی جگہ دوسروں نے لے لی یا ہتھیالی ۔ پیر پگارا اور پیپلز پارٹی نے سندھ کی غریب عوام کی تقدیر کو نہیں بدلا۔ مسلم لیگ کے مختلف روپ نے پنجاب کی غیرت کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا۔ بلوچستان کے بلوچ قوم پرستوں نے اپنی قوم کو باہر بیٹھ کر مشکلات میں ڈال دیا۔
لوگوں کی راۓ