قرآن میں منافقین کے دو گروہ اور اس کا بالکل غلط ترجمہ
فروری 17, 2025

قرآن میں منافقین کے دو گروہ اور اس کا بالکل غلط ترجمہ
اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی ۔ اللہ نے فرمایا کہ
”من یطع الرسول فقط اطاع اللہ …
جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ موڑا تو آپ اس پر نگہبان نہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے قبول کیا۔ پس جب آپ کے ہاں سے نکلتے ہیں ایک گروہ ان میں سے وہ بیان کرتاہے جوتم نے بات نہیں کہی ہوتی ہے اور اللہ لکھتا ہے جو وہ راتوں کو کرتے ہیں۔ تو آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور اللہ پر توکل کریں اللہ کی وکالت کافی ہے۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔ اگر اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف پاتے۔ اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر آئے تو پھیلادیتے ہیں۔اور اگر وہ اس کو رسول یا اپنے سمجھدار افراد کی طرف لوٹادیتے تو وہ اس کو سمجھتے اور اس کا صحیح نتیجہ نکالتے۔اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو سب شیطان کے پیچھے چل پڑتے مگر کم لوگ۔
پس (اے پیغمبر ) اللہ کی راہ میں لڑو۔ آپ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں اور مؤمنوں کو اُبھارو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ کافروں کی لڑائی روک دے اور اللہ لڑائی میں بہت ہی سخت ہے اور سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔ جو کوئی اچھی سفارش کرے گا تو اس کو بھی حصہ ملے گا اور جو بری سفارش کرے گا تو اس کو حصہ ملے گا۔اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔اور جب تمہیں کوئی دعا دے تو اس سے اچھی دعا دویا پھر اس کا وہی جواب دو۔ بیشک اللہ ہر چیز کاحساب رکھتا ہے۔اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،ضرور بضرور تم سب کو قیامت تک جمع کردے گااور اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہےَ،فما لکم فی المنافقین فیئتین پس تمہیں کیا ہوگیا ہے منافقین کے دوگروہ ہیں ۔اور ان کے اعمال کے سبب ان کو اوندھا کردیا ہے ۔ کیا تمہارا ارادہ ہے کہ ہدایت دو جس کو اللہ نے گمراہ کیا ہے اور جس کو اللہ گمراہ کرے تو اس کیلئے ہرگز کوئی راہ نہ پائے گا۔ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح اللہ کے احکام کا منکر بن جاؤ، پس سب برابر ہوجاؤ، پس ان میں کسی کو دوست مت بناؤ یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کرجائیں۔ پس اگروہ اپنا منہ موڑیں تو ان کو پکڑو اور ان کو قتل کرو جہاں بھی تم ان کو پاؤ۔ اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مدد گار مت بناؤ۔ مگر وہ لوگ جو ایسی قوم کے پاس پہنچتے ہیں کہ جن کا تمہارا اور ان کے ساتھ معاہدہ ہے۔یا وہ جو تمہارے پاس آتے ہیں اور ان کے دل تمہارے ساتھ لڑنے سے دل برداشتہ ہیں۔ یا اپنی قوم سے لڑتے ہیں۔ اور اگر اللہ چاہے تو ان کو تمہارے اوپر مسلط کردے تو ضرور تم سے لڑیں۔پس اگر وہ تم سے ہٹ کر رہیں اور تم سے نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان سے لڑائی کا جواز نہیں رکھا۔ ستجدون اٰخرین … عنقریب تم دوسرے دیکھو گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں۔ جب کوئی آزمائش آتی ہے تو ان کواس میں اوندھاکردیا جاتا ہے پس اگر وہ تمہارا پیچھا نہ چھوڑیں اور تم سے صلح نہ کریں اور اپنے ہاتھوں کو نہ روکیں تو ان کو بھی پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی پاؤ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ہم نے تمہیں کھلی حجت دی اور مؤمن کا یہ کام نہیں کہ قتل کریں مؤمن کو مگر غلطی سے اور جس نے مؤمن کو غلطی سے قتل کیا تو اس پر ایک مؤمنہ کی گردن آزاد کرنا ہے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہادیدے مگریہ کہ وہ معاف کردیں۔ پس اگر اس کا تعلق ایسی قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہو تو ایک مؤمنہ کی گردن آزاد کرنا ہے۔ اور اگر اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جس کے ساتھ آپ کا معاہدہ ہے تو وارثوں کو خون بہااور مؤمنہ کی آزادی ہے۔پس اگر وہ نہ پائے تو دوماہ مسلسل روزے رکھنے اللہ کی طرف سے توبہ ہے۔ اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے اور جس نے جان بوجھ کر مؤمن کو قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو اور اس کی لعنت ہو۔ اور اس کیلئے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔ نہیں برابر ہوسکتے مؤمنوں وہ لوگ جن کوتکلیف نہیں پہنچی اور اللہ کی راہ میں مجاہدین اپنے مال اور اپنی جانوں کے ساتھ۔ اللہ نے فضیلت دی ہے مجاہدین کو ان کے اموال اور ان کی جانوں سے بیٹھنے والوں پر ایک درجہ۔ اور تمام کیساتھ اللہ نے اچھائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ نے فضیلت بخشی ہے مجاہدین کو بیٹھنے والوں پر بہت بڑے بدلے کی۔ ان کیلئے درجات ہیںاور مغفرت ہے اور رحمت ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔ بیشک جن کی فرشتوں نے روح قبض کی جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ۔ فرشتے : تم کس کھاتے میں تھے؟۔ جواب: ہم زمین میں کمزور تھے۔فرشتے: کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی تو ہجرت کرتے اس میں۔ پس ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور بہت برا ٹھکانہ ہے مگر وہ کمزور لوگ آدمیوں میں سے اور عورتیں اور بچے جو نکلنے کا ذریعہ نہیں رکھتے تھے اور راستہ پاتے تھے۔ پس ان لوگوں کو ہوسکتا ہے کہ اللہ معاف کرے اور اللہ معاف کرنے والا مغفرت والا ہے اور جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی تو وہ اس کے عوض بہت جگہ اور وسعت پائے گا۔ جو اپنے گھر سے مہاجر بن کر نکلا اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھر اس کوموت آگئی تو اللہ کے ہاں اس کا اجر طے ہے۔ اور اللہ غفور رحیم ہے”۔ (سورہ النسائ:80تا100)
منافقوں کی دو اقسام کا واضح ذکر ہے لیکن ترجمہ کرنے والوں نے مومنوں کے دوگروہوں قرار دئیے ہیں۔ جب قرآن کے متن کا درست ترجمہ نہیں ہوگا تو اس کی تفسیر کیسے درست ہوسکے گی؟۔
جب علماء نے خلع کو پیسوں کے ساتھ منسلک کیا ہو اور معاشرے میں عورت کو جانور کی طرح ڈیل کیا جاتا ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مومنہ عورت کی گردن چھڑانے کا اطلاق خلع پر بھی ہوگا؟۔بعض صورتوں میں بیوی کی غلامی کا تصور لونڈی سے بھی بدتر ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں قتل پر گردن کی آزادی کے حوالے سے قرآن کے بنیادی ترجمہ سے بھی علماء ، معاشرہ اور مسلم عوام آگاہ نہیں ہیں۔
ہمارے استاذ مولانا شیر محمد کے بارے میں ایک عالم دین نے بتایا کہ وہ مولانا فضل الرحمن پر ناراض ہوجاتے تھے کہ اپنی بیگم کو کہو کہ فون مت اٹھاؤ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورت کی آواز کو بھی پردہ قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ ۖ کی ازواج مطہرات جیسی حیثیت کسی کی نہیں تھی۔ جن کو حکم دیا گیا کہ اگر تمہیں خوف ہوتو نرم زبان میں بات مت کرو اسلئے کہ جن کے دل میں مرض ہے یا منافق ہیں تو وہ طمع کرنے لگ جائے گا۔ چونکہ رسول اللہ ۖ کا گھر ایک تحریک کی وجہ سے ہر قسم کے لوگوں کی آماجگاہ تھا تو ان کو خاص حکم دیا گیا۔ نبی ۖ کو حکم دیا گیا کہ ان کیلئے رحمت کے پر بچھائیں۔ چھوٹے لوگ بڑوں کی قدر بھی کرتے ہیں اور دباؤ کا شکار بھی ہوتے ہیں تو اللہ نے احکام بھی اس طرح کے جاری کئے ہیں۔
جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اگر خوف ہو کہ کسی کے دل میں مرض ہے تو اس کے ساتھ سخت لہجہ میں عورت کو بات کرنے کا حکم ہے۔ کھانے کے سلسلے میں جن افراد کو گھر میں لے جانے کی اجازت ہے یا پردے کے مسئلے میں جن لوگوں کا ذکر ہے کہ ان کو عورتوں سے دلچسپی نہیں تو پردہ بھی نہیں جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اصل مسئلہ شہوت کی نظریں ہیں جن میں برقع کے اندر بھی جھانکنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ قرآن کو سب سمجھیں گے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ