پوسٹ تلاش کریں

قرآنی آیات کا درست ترجمہ اور تفسیر

قرآنی آیات کا درست ترجمہ اور تفسیر اخبار: نوشتہ دیوار

قرآنی آیات کا درست ترجمہ اور تفسیر

یا ایھا الذین اٰمنوا لا تدخلوا بیوتًا حتٰی تستأنسوا وتسلموا علی اھلھا ذٰلکم خیر لکم لعلکم تذکرّونOفان لم تجدوا فیھا احدًا فلا تدخلوھا حتٰی یؤذن لکم وان قیل لکم ارجعوافارجعوا ھو ازکٰی لکم واللہ بما تعملون علیمOلیس علیکم جناح ان تدخلوا بیوتًا غیر مسکونة فیھا متاع لکم واللہ یعلم ماتبدون وماتکتمونO(سورہ النور:27،28،29)
ترجمہ”اے ایمان والو! تم داخل مت ہو گھروں میں یہاں تک کہ تم مانوس ہوجا ؤاور انکے اوراس گھروالوں پر سلام ڈال دو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اگر اس میں کسی کو موجود نہیں پاؤ تو پھر لوٹ جاؤ۔اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو پھر لوٹ جاؤ ،اس میں تمہارے لئے پاکیزگی ہے۔ اللہ جانتا ہے جو تم عمل کرتے ہو۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ان گھروں میں داخل ہو جن میں کوئی رہائش پذیر نہ ہو جن میں تمہارے لئے گزر بسر کے وسائل ہوں۔اور اللہ جانتا ہے کہ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو”۔
جب تک مانوسی کا تعلق نہ ہو تو گھر میں داخلے سے روکا گیا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ وہی لوگ کسی کے گھر جاتے ہیں جن سے انسیت ہو۔ اگر یہ بات عام کردی جائے تو کہا جائے گا کہ بہت اعلیٰ اقدار کے تہذیب یافتہ لوگ ہیں۔ ان الفاظ کا ترجمہ اجازت کیا گیا ۔ قرآن کے مخالف عرب نے اعتراض کیا ہے کہ اذن کیلئے قرآن نے غلط لفظ استعمال کیا ہے لیکن اس حقیقت کو یہ لوگ نہیں جانتے کہ جہاں اجازت کی بات ہے تو وہاں اللہ نے اذن کی بات کی ہے اور یہ اجازت کی بات نہیں مانوس ہونے کی وضاحت ہے ۔ ترجمہ وتفسیر غلط کیا گیاہے۔
پھر اللہ نے وضاحت کردی کہ اگر مانوسی کے باوجود گھر میں کوئی نہ ہو تو داخل نہ ہو۔ اگر لوٹنے کا کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ جس رہائش گاہ میں کوئی نہ ہو ، جیسے کوہِ سلیمان کی چوٹی تحت سلیمان پر عوام نے سہولت کیلئے بنائی ہے اور جہاں لوگوں کا ایسا مہمان خانہ ہوتا ہے جس میں رہائش نہیں ہوتی اور استعمال کیلئے اجازت ہوتی ہے۔ تاکہ اس سے فائدہ اٹھائیں جو ان کیلئے جائز ہے۔ جائز اور ناجائز میں معمولی معمولی احساسات کا بھی پورا پورا ایمان اجاگر کرنے والا قرآن کسی کے گھر میں گھس کر اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو کیسے بارود سے اڑاسکتا ہے؟ اس کو اسلام کا نام دینا اسلام ، انسانیت اور پشتو کی توہین ہے۔ :”اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو ”۔ تاکہ نتائج کے اعتبار سے انسان اپنا ہر عمل اللہ کیلئے کرے اور اگر ظاہر آیت پر عمل لیکن نیت خراب ہو تو بھی پکڑسے ڈرے۔
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذٰلک ازکٰی لھم ان اللہ خبیر بمایصنعونOوقل للمؤمنات یغضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ماظھر منھا و لیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولا یبدین زنتھن الا لبعولتھن او اٰٰبآئھن اواٰباء بعولتھن ……(سورہ النور:30،31)
ترجمہ ” کہہ دو مؤمنوں کو کہ اپنی نظروں کو شہوت سے بچاؤ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو۔ اسی میں ان کیلئے زیادہ پاکیزگی ہے اور اللہ جانتا ہے جو وہ تدبیر کرتے ہیں۔اور مؤمنہ عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظروں کو شہوت سے بچاؤ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو۔اور اپنا حسن ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے بیٹوں کے سامنے یا اپنے شوہر کے بیٹوں کے سامنے یا اپنے بھائیوں کے سامنے یا اپنے بھتیجوں کے سامنے یااپنے بھانجوں کے سامنے یا اپنی عورتوں کے سامنے یا اپنے معاہدہ والوں کے سامنے یا ان تابع آدمیوں کے سامنے جن کو عورتوں میں رغبت (شہوت )نہ ہو یا بچے کے سامنے جن کے سامنے عورت کے پوشیدہ راز عیاں نہ ہوںاور مٹک مٹک کر اپنے پاؤں نہ چلائیں کہ جس سے ان کی خفیہ زینت کا پتہ چل جائے۔ اور اللہ کی طرف سب توبہ کرواے مؤمنوں ہوسکتا ہے کہ اللہ تمیں کامیابی عطا فرمائے”۔
اللہ نے انسان کو اپنی نظریں شہوت سے بچانے کا حکم دیا جس کا تعلق پوشیدہ اور ظاہر ی جذبے سے ہے اسلئے مردوں اور عورتوں کو نظروں کیساتھ شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم ہے۔ حدیث ہے کہ آنکھ ،ہاتھ اور قدم بھی زنا کرتے ہیں۔ شہوت کی نظر اور شہوت سے چھونے کے الگ احکام ہیں۔نام نہاد مذہبی اقتدارکا ماحول ہو تو یہ حکم جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کو ہوسکتا ہے ، انسانوں کو نہیں۔ اللہ نے اپنے گھر کعبہ میں مخلوط ماحول کی ممانعت نہیں فرمائی بلکہ نماز، طواف، صفا و مروہ کی سعی میں مرد اور عورت شریک ہیں۔ مولانا منظور احمدمینگل کی مینگل بروزن بینگن والی ویڈیو بڑی مشہور ہے اور اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ والد ہ نے کہا کہ مردوں کے پیٹ پہلی مرتبہ مولویوں کے دیکھے ۔یعنی محترمہ نے بہت سارے مرد پہلے دیکھے اور بعد میں بھی لیکن اپنی نظروں کو غلط استعمال نہ کیا ۔ یہ اسلامی تعلیم ہے ۔ مفتی منظور مینگل قرآن کی درست تفسیر بیان کریں۔اپنی زبان میں احتیاط کریں۔ غلیظ بات کو بھگتنا پڑتا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ اپنی ماں کو گالی نہ دو، صحابہ نے پوچھا اپنی ماں کو کون گالی دے گا تو نبیۖ نے فرمایا کہ کسی کو گالی دو گے تو تیری ماں کودے گا۔ انور مقصود نے مولانا فضل الرحمن کا کہا تھا کہ اس کی ماں نہیں صرف باپ ہے۔ مولانا نےPTIوالیوں کو تتلیاں قرار دیا اور کہا کہ انکے پاؤں کے تلوے گالوں کی طرح نرم ہیں اور گالوں اور پاؤں کے تلوؤں کو شہوت کی نظر سے دیکھا جائے تو پھر حسن نساء پر نظروں کی شہوت کا کیا عالم ہوگا ؟۔
نظروں اور شرمگاہ کی حفاطت مرد اور عورت کے اپنے اپنے اختیار میں ہے۔ اگر پشتون ، پنجابی، سرائیکی، بلوچ اور سندھی کا روایتی کلچر دیکھا جائے تو وہ اسلام کے عین مطابق تھا۔ سعودی عرب، ایران اور افغانستان نے مذہب کے نام پر قرآن نہیں بلکہ خود ساختہ مذہبی تصور مسلط کردیا۔ سینے پر دوپٹہ لپیٹنے کا رواج مسلمان نہیں ہندو، سکھ اور بدھ مت میںبھی تھا اور یہی اسلام کا تقاضا تھا۔ اردو میں عورت کے سینہ کو حسن النساء کہتے ہیں اور اللہ نے دوپٹہ سے اسی کو ڈھانکنے کا حکم دیا ہے لیکن اگر غیرمحرم نہ ہو اور معمول کا ماحول ہوتو یہ بھی نہیں۔ اگر قرآن کا صحیح پیغام پہنچتا تو لوگ دل وجان سے قبول کرتے۔ اللہ نے مٹک مٹک کر چلنے سے روکا اور یہ بھی بالکل ایک فطری بات ہے۔
مولانا فضل الرحمن لوگوں کو بتائیں کہ شیطان نے کس بات پر قسم کھائی تھی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور وہ کونسا شجر نسب تھا ، جس کے قریب جانے سے اللہ نے حضرت آدم وحواء کو روک دیا تھا لیکن پھر شیطان نے ورغلایا اور اللہ نے اولاد آدم کو بھی اس سے دنیا میں روکا ہے جس پر جنت سے نکالا گیا تھا؟۔
فرمایا: ” اور اے آدم رہو آپ اور آپ کی بیوی جنت میں پس کھاؤ جیسے چاہو مگر اس درخت کے قریب مت جاؤ! توپھر ہوجاؤگے ظالموں میں سے پھر ان دونوں کو شیطان نے وسوسہ ڈالاتاکہ ظاہرہوںدونوں کو ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپی تھیںاور کہا کہ تم دونوں کے رب نے تمہیں نہیں روکا اس شجر سے مگر اسلئے کہ تم فرشتے بنو یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ اوردونوں کو قسم کھائی کہ میں تمہارا خیرخواہوں ہوں پھر انہیں دھوکے سے مائل کیا پھر جب شجر کا ذائقہ چکھاان دونوں کو اپنی شرم گاہیں دکھ گئیں اور باغ کے پتے جوڑنے لگے اپنے اوپر تو ان دونوں کوانکے رب نے پکارا کہ کیا میں نے اس شجر سے تمہیں روکا نہیں؟ اور تمہیں نہیںکہا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔دونوں نے کہا کہ اے ہمارے ربّ! اگر آپنے ہمیں معاف نہیں کیا اور ہم پر رحم نہ کیا توضرور خسارہ پانے والوں میں ہوں گے۔فرمایا، پستی میں اترو، ایک دوسرے کے تم دشمن ہو اور تمہارے لئے زمین میں ایک خاص وقت ٹھکانہ ہے۔ فرمایا، اسی میں تم زندگی پاؤگے اور اسی میں مروگے اور اسی سے نکالے جاؤگے۔ اے بنی آدم! ہم نے اتارا ہے تم پر لباس جو تمہاری شرمگاہوں کوڈھانکتا ہے اور آرائش کرتا ہے اور تقویٰ کا وہ لباس بہتر ہے ۔یہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں ہوسکتا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔اے بنی آدم ! شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے تمہارے والدین کو جنت سے نکالا،ان سے انکے کپڑے اتراوادئیے تاکہ ان کو انکی شرمگاہیں دکھائے۔ بیشک وہ تمہیں دیکھتا ہے وہ اور اس کا جیسا جہاں تم انہیں نہیں دیکھتے۔ بیشک ہم نے شیاطین کو ان کا حاکم بنایا جو ایمان نہیں لاتے اور جب یہ فحاشی کے فعل کا ارتکاب کردیتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو بھی اس پر پایااور اللہ نے ہمیں اسی کا حکم دیا۔ کہوکہ اللہ نے فحاشی کا حکم نہیں دیا ۔ کیا تم اللہ پر و ہ بات کرتے ہو جوتم جانتے نہیں ؟۔ کہو کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا اور ہر نماز کے وقت اپنے منہ سیدھے کرو اورخالص فرمانبردار ہوکر اس کو پکارو۔جیسے تم تھے اللہ تمہیں ویسے لوٹائے گا۔ ایک گروہ نے ہدایت پائی اور دوسرے گروہ پر گمراہی ثابت ہوچکی۔انہوں نے شیطان کو اپنا حاکم بنا لیا اور خیال یہ کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں”۔(الاعراف:19تا30)
جماعت اسلامی کے بانی مولانا موددی نے پردہ پر کتاب لکھی اور گھر میں مرد باورچی اور کام کاج کیلئے کئی جوان رکھے تھے۔ سہیل وڑائچ نے ان کے بیٹوں کا انٹرویو کیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار نے بتایا تھا کہ بعض علماء اسلئے ان کو چھوڑ کر گئے تھے۔ اگر پاکستان میں سیاستدانوں کی بیگمات، بیٹیاں ، بہو اور سالیاں پارلیمنٹ میں آسکتی ہیں تو طالبان کو نہیں سمجھا سکتے کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ختم کی جائے؟۔ جمعیت علماء ہند کی شریعت ہندوستان، جمعیت علماء اسلام کی شریعت پاکستان اور طالبان کی شریعت افغانستان میں الگ الگ ہے ؟۔
پردے کے احکام سمجھنے کیلئے مزید آیات ملاحظہ فرمائیں۔
والقواعد من النساء الٰتی لایرجون النکاحًا فلیس علیھن جناحًا ان یضعن ثیابھن غیر متبرجٰتٍ بزینةٍ وان یستعففن خیر لھن واللہ سمیع علیمOلیس علی الاعمٰی حرج ولا علی الاعرج حرج ….
اور اپنی ریٹائرڈ کی عمر کو پہنچنے والی عورتیں جن کو نکاح سے کوئی رغبت نہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ کپڑے اتاریں اپنے سینوں کے ابھار کے بغیر اور اگر عفت کریں تو ان کیلئے بہتر ہے اور اللہ سنتا اور جانتا ہے۔ کسی اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ لنگڑے پر اور نہ مریض پر اور نہ تمہاری اپنی جانوں پرکہ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر وں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں یا اپنے بھائی کے گھر وں یا اپنی بہنوں کے گھروں یا اپنے چچوں کے گھر وں یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں یا اپنے خالاؤں کے گھروںیا جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیںیا تمہارے دوست کے ۔ تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں کہ اکٹھے کھاؤ یا الگ الگ ۔ جب گھروں میں تم داخل ہو تواپنے لوگوں پر سلام ڈالو جو اللہ کی طرف سے عمدہ مبارک دعا ہے۔اس طرح اللہ تمہارے لئے آیات کو بیان کرتا ہے ہوسکتاہے کہ تم سمجھ لو”۔ (النور60،61)
پوری دنیا میں یہ ایسے رشتے ہیں جہاں اس آیت کے عین مطابق عمل ہوتا ہے لیکن ترجمہ و تفسیر کو بگاڑنے کے عمل نے مسلمانوں کو قرآن سمجھنے سے دور کردیا ۔ بخاری کی روایت ہے کہ صحابی دلہا اور صحابیہ دلہن اپنے ولیمہ میں اپنے دوستوں کی خود خدمت کررہے تھے لیکن افسوس کہ بخاری نے اس کا عنوان دلہا ولہن کی خدمت کے بجائے برتن کے استعمال کا رکھ دیا ۔ چونکہ عوام میں اسلام پر عمل ہورہاتھا تو غلط مذہبی تصورات پرمسلم معاشرے میں کوئی عمل نہیں ہوسکا۔سید عبدالقادر جیلانی سے سیدکبیرالاولیائ اور میرے دادا پردادا اور والد بھائیوں تک کہیں شرعی پردے کا تصور نہیں تھا ، سب سے پہلے میں نے ہی اس پر عمل کیا اورپھر پتہ چلا تو سب کو حقائق سے آگاہ بھی کیا۔
ایک طرف مسلمان معاشرہ اتنا جاہل ہے کہ40سال قبل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ساس اور داماد کے ناجائز تعلق پر بے خبری کی وجہ سے فتویٰ پوچھا جاتا تھا تو دوسری طرف انتہائی بے غیرت لوگ محرمات بیٹی اور بہو پر بھی ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ آج علم، غیرت ، سزا وجزا کا قانون سبھی موجود ہوں تو معاشرہ سدھر سکتاہے۔ پہلے ایکPTVہوتا تھا پھرVCRآیا اور پھر کیبل آگیا اور اب فون سے فحاشی ہاتھوں میں پہنچ گئی جس کا علاج صرف اسلامی علم، روحانی وجسمانی ماحول اور سزا ہے۔
آج ترقی یافتہ معاشرے میں جو ماحول ہے تو لونڈیوں کی بہتات کا ماحول کیا اس سے کم تھا؟۔ جس کے کاندھے، ہاتھ بازؤں تک، پیٹ اور پیٹھ اور ٹانگیں بالکل ننگی ہوا کرتی تھیں۔
وانکحوالایامٰی منکم والصٰلحین من عبادتکم ….
” اورنکاح کراؤ اپنی طلاق شدہ وبیوہ عورتوں کا اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کا ،اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ امیر بنادے گا اپنے فضل سے۔ اور عفت اختیار کریں جب تک نکاح نہ کرنے پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے نواز کر مستغنی بنادے اور جو لوگ معاہدہ چاہتے ہیں اپنے غلاموں سے تو معاہدہ کرلو اگر اس میں تمہیں خیر نظر آئے۔ اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ اور اپنی لڑکیوں کو بغاوت (یا بدکاری) پر مجبور مت کرو اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہیںتاکہ تم اپنے دنیاوی مفادات تلاش کرواور جس نے ان کو مجبور کیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد غفور رحیم ہے”۔ (سورہ النور32،33)
اس کا ترجمہ اور تفسیر بھی بہت غلط کیا گیا ہے۔ غلام کیساتھ بھی نکاح کی اجازت ہے اور اس کے پاس حق مہر نہیں ہوتا ہے لیکن معاہدہ لکھا جا سکتا ہے اور اس سے مال لینے نہیں اس پر مال خرچ کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ مولوی کو گنگا الٹی بہتی نظر آتی ہے۔پھر اس سے زیادہ بھیانک بات یہ ہے کہ اگر لونڈی پاک دامن رہنا چاہتی ہے تو اس کو بدکاری پر مجبور مت کرو۔ یہ اسلام نہیں بھڑوا گیری کا ماحول ہے اور اس سے بھی زیادہ بدتر ہے جو مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے حیدر آبادی ماموں کا بتایا تھا۔
یا نسآء النبی لستن کاحد من النساء ان تقین فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولن قولًا معروفًاOوقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرالجاھلیة الاولیٰ ……(سورہ الاحزاب32،33)
”اے نبی کی عورتو! تم دیگر عورتوں کی طرح نہیں اگر تمہیں خوف ہو توپھر نرم گفتگو مت کرو تواس کو طمع پیدا ہو جسکے دل میں مرض ہے اور معروف طریقے سے گفتگو کریں اور اپنے گھروں پروقت گزارو اور پہلی جاہلیت کی طرح ابھار مت اٹھاؤ ۔اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو ، بیشک اللہ چاہتا ہے کہ تم سے گندکو دور کردے اے اہل بیت اورتمہیں بالکل خوب پاک کردے ”۔
برج اٹھان کو کہتے ہیں۔ عورت کے سینے کا اٹھان حسن النساء ہے۔ دورجاہلیت میں سینے کو اٹھایا جاتا تھا۔ عرب ننگے طواف تک بھی کرتے تھے۔ جہاں ماحول خطرناک ہو تو پھرفرمایا:
یاایھا النبی قل ل لازاجک و بنٰتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن ذٰلک ادنٰی ان یعرفن فلایؤذین ……….(سورہ الاحزاب:59سے63)
اے نبی اپنی ازاج ، بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہو کہ اپنی چادروں کا حصہ اپنے اوپر لٹکادیںیہ ادنیٰ ہے تاکہ پہچانی جائیں تو اذیت نہ دی جائے اور اللہ غفور رحیم ہے اوراگر باز نہیں آئے منافق اور جنکے دلوں میں مرض ہے اور مدینہ میں افواہ پھیلانے والے پھر ہم تمہیں مسلط کرینگے تو پڑوس میں نہ رہیں گے مگر کم۔ ملعون جہاں ثقافت ان پر قائم ہوپکڑ ا جائے اور قتل کیا جائے۔ یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں میں بھی تھی جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کی سنت کو تبدیل نہیں پاؤگے۔لوگ آپ سے اس وقت کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہہ دو کہ اس کا علم اللہ کے پاس ہے اور آپ کو خبر نہیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ قریب آچکا ہو”۔
قیامت مراد نہیں بلکہ وہ انقلاب مراد ہے جب کوئی منافق ، دل کے مریض اور افواہیں پھیلانے والوں کو جہاں پایا جائے تو قتل کردیا جائے گا۔ فتح مکہ کے بعد لوگوں نے دیکھ بھی لیا تھا اور اسلامی انقلابِ عظیم کے بعد بھی دیکھ لیں گے۔ انشاء اللہ العزیز

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

قرآن میں منافقین کے دو گروہ اور اس کا بالکل غلط ترجمہ
قرآنی آیات کا درست ترجمہ اور تفسیر
قال رسول اللہ ۖ المہدی منا اہل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة قال ابن کثیر ان یتوب علیہ و وفقہ ویلہمہ و یرشدہ بعد ان لم یکن کذالک